آپ کے وعدے کسی کل سے بندھے رہتے ہیں
چاہنے والے اسی پل سے بندھے رہتے ہیں
تنگ آ جاتی ہیں پلو سے لگی گرہیں بھی
کیسے رشتے ہیں جو ململ سے بندھے رہتے ہیں
صبح کی شبنمی پلکوں کو مسلتے ہوئے ہاتھ
اک نئے خواب کی کونپل سے بندھے رہتے ہیں
کھٹی میٹھی سی کوئی بات لبوں میں لے کر
منہ کو ڈھانپے ہوئے آنچل سے بندھے رہتے ہیں
صرف میرے ہی بیاباں پہ پڑی اوس نہیں
اشک دریا کے بھی بادل سے بندھے رہتے ہیں
شام کی زلفیں بکھرنے سے عیاں ہوتا ہے
کتنے جگنو ہیں جو کاجل سے بندھے رہتے ہیں
زندگی سونے کی مہلت نہیں دیتی ہے دیاؔ
خواب تعبیر کے آنچل سے بندھے رہتے ہیں
(دیا جیم۔ فیجی)