• 28 اپریل, 2024

ان کے نزدیک یہ جادو کامیاب ہو رہا ہے تو پھر قرآنی دلیل کے مطابق یہ جادو نہیں بلکہ سچائی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اسی طرح حضرت مہر غلام حسن صاحب اپنی بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ’’مَیں اور مولوی فیض دین صاحب بیٹھے تھے (کہ) ایک شخص بنام رحیم بخش صاحب قوم درزی یہاں آیا۔ آ کر کہنے لگا کہ مولوی صاحب! آج طبیعت بہت پریشان ہے۔ مَیں نے اُس کی وجہ پوچھی تو وہ بیان کرنے لگے کہ حامد شاہ ایک فرشتہ اور باخدا آدمی ہے۔ ہندو مسلمان اُن کی تعریف کرتے ہیں۔ (سب اُس کی تعریف کر رہے ہیں، چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان ہو۔) آج اُن سے (ایک) بہت (بڑی) غلطی ہوئی ہے۔ آج انہوں نے اپنے ماموں عمر شاہ کو کہا ہے کہ ماموں جان! آپ کا حضرت ابنِ مریم کے متعلق کیا خیال ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ بیٹا! میرا تو یہی مذہب ہے کہ وہ زندہ آسمان پر ہیں۔ کسی زمانے میں امتِ محمدیہ کی اصلاح کے لئے آئیں گے۔ شاہ صاحب نے کہا کہ ماموں صاحب! آج سے آپ میرے امام نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ یہ عقیدہ مشرکانہ ہے کہ ایک انسان کو حی و قیوم اور لازوال مانا جائے۔ دوسری بات یہ کہ سید و مولیٰ سرورِ کائنات (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اس عقیدے سے بڑی ہتک ہوتی ہے کہ وہ تو زمین میں مدفون ہوں اور حضرت عیسیٰ آسمان پر اُٹھائے جائیں۔ عمر شاہ نے اس پر کہا کہ اچھا بیٹا آپ آگے کھڑے ہوا کریں اور مَیں پیچھے پڑھا کروں گا۔ (کہتے ہیں اُن کی یہ باتیں سنتے ہی) مَیں نے کہا کہ مولوی صاحب! مَیں نے مان لیا ہے کہ مسیح مر گیا ہے۔ اگر مسیح زندہ رہیں تو توحید میں بڑا فرق آتا ہے۔ آپ یہ مت خیال کریں کہ احمدی ہوں۔ مَیں ابھی تک احمدی نہیں مگر مرزا صاحب کی یہ بات ضرور سچی ہے۔ مَیں کبھی گوارا نہیں کر سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی جائے۔ مولوی صاحب نے میرے منہ کے آگے ہاتھ رکھ دیا۔ مَیں نے کہا مولوی صاحب! کیوں روکتے ہیں؟۔ مولوی صاحب نے کہا کہ اگر آپ کا عقیدہ ہو گیا ہے کہ مسیح مر گیا ہے تو اتنا جوش و خروش دکھانے کی کیا ضرورت ہے؟ (ٹھیک ہے۔ آپ نے مان لیا تو آرام سے چپ کر کے بیٹھے رہیں۔ کہتے ہیں) مَیں نے کہا مولوی صاحب! مسجد سے نکلتے ہی مَیں منادی کرتا چلا جاؤں گا، (لوگوں کو بتاتا چلا جاؤں گا) کہ اگر حضرت عیسیٰ آسمان پر ہے تو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہتک ہے۔ یہ میری جان گوارا نہیں کر سکتی۔ مَیں نے جاتے ہی اپنے والد صاحب کو سمجھایا اور میرا بڑا بھائی غلام حسین جو عارف والے کا امیر جماعت ہے، (اُس وقت احمدی نہیں تھے) وہ دونوں (میری بات سن کر) جل کر آگ بگولہ ہو گئے۔ اور میرا نام دجال، ملعون وغیرہ رکھا۔ (کہتے ہیں) مجھے یہ خیال آیا کہ کل مجھ پر مولویوں کا حملہ ہو گا۔ مَیں نے رات کے وقت اس احمدی کو جس کو ہم نے مسجد سے روکا تھا، ایک نوکر کے ذریعہ بلایا (ابھی یہ احمدی نہیں ہوئے تھے لیکن اپنا عقیدہ بیان کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں مَیں نے جب عقیدہ بیان کیا تو پھر مجھے خیال آیا کہ والدین سے بھی اور بھائی سے بھی ڈانٹ ڈپٹ ہو چکی ہے، اب مولوی بھی میرے پیچھے پڑیں گے تو مَیں نے اُس احمدی کو بلوایا جس کو ہم نے اس وجہ سے مسجد سے نکالا تھا۔) مَیں نے اُسے پوچھا کہ کیا مرزا صاحب نے وفات مسیح پر کوئی دلیل بھی دی ہے یا یونہی کہہ دیا ہے؟ اُس نے کہا کہ تیس آیات پیش کی ہیں۔ مَیں نے حیران ہو کر کہا کہ ہم دن رات قرآن پڑھتے ہیں اور ہمیں معلوم نہیں۔ یہ کیا بات ہے؟ ایک ہی آیت ہمیں بتا دو۔ اُس نے ساتویں سپارے کی آیت ’’فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ‘‘ (المائدہ: 118) بتا دی۔ مَیں نے کہا کہ اب میری تسلی ہو گئی۔ اب کوئی مولوی میرا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ فجر کے وقت مولوی غلام حسن صاحب اور مولوی فیض دین صاحب اور دو تین اور آدمی میرے بھائی کے ہمراہ آئے۔ مَیں مسجد کے دروازے میں کھڑا تھا کہ یہ جا پہنچے۔ مولوی غلام حسن نے کہا کہ مسیح کے آپ کیوں دشمن ہوئے ہیں؟ مَیں نے کہا مولوی صاحب! میں نے کیا دشمنی کی؟ وہ کہنے لگے کہ آپ کا بھائی کہتا ہے کہ یہ مسیح کی موت کا قائل ہو گیا ہے۔ (یعنی اُس بھائی نے یہ شکایت کی تھی۔ تو) مَیں نے کہا مولوی صاحب! کیاکریں وہ تو خود اپنی موت کا اقرار کر رہا ہے اور آپ کی مثال مدعی سست اور گواہ چست کی ہے۔ مولوی صاحب نے کہا۔ (یہ) کہاں لکھا (ہوا) ہے (کہ مسیح نے اپنی وفات کا خود اقرار کیا ہے۔) مَیں نے کہا قرآن میں۔ وہ کہنے لگے (کہ) کونسا قرآن؟ جو مرزا صاحب نے بنا دیا؟ میں نے کہا مولوی صاحب ذرا ہوش سے بولیں۔ خدا پر حملہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ وہ (اللہ تعالیٰ) تو فرماتا ہے کہ میرے قرآن کی کوئی مثل نہیں لا سکتا اور آپ یہ کہہ رہے ہیں (کہ مرزا صاحب نےقرآنِ کریم بنا دیا، کچھ تو ہوش کریں۔) کہنے لگے کہاں لکھا ہے؟ مَیں نے ساتویں پارے کی آیت پڑھی۔ کہنے لگے ہم تمہیں ایک ہی گُر بتاتے ہیں کہ ان بے ایمانوں (یعنی احمدیوں) کے ساتھ بات نہ کی جائے، (تبھی تم بچ سکتے ہو اور کوئی گُر نہیں ہے۔) بلکہ نظر کے ساتھ نظر نہ ملائی جائے۔ (اگر نظر ملاؤ گے) تو بھی اثر ہو جاتا ہے۔ (ان دو گُرو ں کو یاد رکھو تو بچ کر رہو گے۔ کہتے ہیں) مَیں نے کہا مولوی صاحب! سچائی کا اثر ایسے ہی ہوا کرتا ہے۔ (یہ جو آپ مجھے گُر بتا رہے ہیں یہ تو سچائی کی نشانی ہے۔) مولوی صاحب واپس ہو کر چلے گئے۔ میرا بھائی جو مخالف تھا وہ نیروبی میں چلا گیا۔ مَیں نے بیعت کر لی۔ والد صاحب اور بیوی کو بھی سمجھا لیا۔ گویا سب کو سمجھا لیا۔ بھائی کو نیروبی میں جا کر سمجھ آئی۔ وہ دس ماہ کے بعد واپس چلے آئے اور آتے ہی بیعت کر لی۔ (لکھتے ہیں) اب خدا کے فضل سے (جب یہ واقعہ لکھ رہے تھے کہ) ہمارے محلے میں سو ڈیڑھ سو افراد احمدی ہیں۔ آج بھی یہی لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ نہ ان سے بات کرو، نہ ان سے نظر ملاؤ۔ اور یہ صرف آج کی بات نہیں ہے۔ آج سے چودہ سو سال پہلے بھی یہی کہا جاتا تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ فرمایا تھا۔ وہ مشہور واقعہ جو حضرت طفیلؓ بن عمرو دوسی کا آتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ مَیں مکہ میں آیا، تو قریش نے مجھے کہا کہ تم ایک معزز سردار ہو اور سمجھ دار شاعر ہو۔ تم ہمارے ملک میں آئے ہو۔ تمہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ایک شخص نے ہمارے درمیان دعویٰ کیا ہوا ہے اور ہمارے اندر تفرقہ ڈال دیا ہے اور ہمیں پراگندہ کر دیا ہے۔ اس کے کلام میں جادو ہے جس سے باپ بیٹے اور بھائی بھائی اور میاں بیوی علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ آپ اور آپ کی قوم بھی، اگر ان کی باتیں آپ نے سن لیں تو وہی حال نہ ہو جائے جو ہمارا ہو رہا ہے۔ لہٰذا اس شخص سے نہ بات کرنا، نہ اس کی بات سننا۔ کہتے ہیں کفار نے اس قدر اصرار کیا کہ مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ مَیں آپؐ کی بات نہیں سنوں گا۔ بلکہ جب مسجد، خانہ کعبہ میں گیا تو اس ڈر سے کانوں میں روئی ڈال لی کہ کہیں آپ کی کوئی بات میرے کانوں میں نہ پڑ جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز میں مشغول تھے۔ مَیں آپ کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر نے آپ کا کچھ کلام مجھے سنوا ہی دیا جو مجھے اچھا لگا۔ تو مَیں نے دل میں کہا کہ تمہارا برا ہو۔ تم ایک زیرک انسان ہو۔ عقل مند ہو۔ شاعر ہو۔ اچھے بُرے کی تمیز جانتے ہو۔ اس شخص کا کلام تو سننا چاہئے۔ اگر باتیں اچھی ہوں گی تو مان لینا۔ اگر بری ہوئیں تو ترک کر دینا۔ کہتے ہیں بہر حال مَیں وہیں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کی۔ گھر کی طرف روانہ ہوئے تو میں بھی آپ کے پیچھے چل پڑا۔ اور جب حضور گھر پہنچے تو مَیں آپ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کی قوم نے مجھے آپ کے بارے میں یہ باتیں بتائی ہیں اور انہوں نے مجھے اس قدر اصرار سے ڈرایا ہے کہ مَیں نے ڈر کے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی ہے۔ کہیں آپ کی کوئی بات میرے کانوں میں نہ پڑ جائے۔ لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر نے مجھے کچھ باتیں سنوا دی ہیں اور مجھے وہ اچھی لگیں۔ اب مَیں آپ کی باتیں سننا چاہتا ہوں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے بارے میں بتایا اور قرآنِ کریم سنایا۔ اور کہتے ہیں کہ خدا کی قَسم! مَیں نے اس سے خوبصورت کلام کبھی نہیں سنا تھا۔ اور اس سے زیادہ درست بات نہ سنی تھی۔ چنانچہ انہوں نے کلمہ پڑھا اور اسلام قبول کر لیا۔

(دلائل النبوّۃ للبیھقی۔ باب قصّۃ دوس والطفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ)

تو یہ ہمیشہ سے مخالفین کا طریقہ چلا آ رہا ہے۔ جادو اگر ہوتا ہے تو مخالفین کی طرف سے ہوتا ہے۔ کبھی انبیاء کی طرف سے نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہی دلیل دی ہے کہ جادو کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ اور اگر ان کے نزدیک یہ جادو کامیاب ہو رہا ہے تو پھر قرآنی دلیل کے مطابق یہ جادو نہیں بلکہ سچائی ہے جس کو ان کو بھی قبول کر لینا چاہئے۔

(خطبہ جمعہ 2؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 30؍ جولائی 2021ء

اگلا پڑھیں

قرآن کریم کی اتباع کی برکات