• 7 جولائی, 2025

خلافت اور ہمارا عہد بیعت

خلافت اور ہمارا عہد بیعت
تقریر جلسہ سالانہ برطانیہ 2022ء جلسہ گاہ مستورات

آج جلسہ سالانہ یو کے کے اس مبارک موقع پر ہم اپنے پیارے مہدی کے باغ میں جمع ہیں۔ یہاں جس موضوع پر میں آپ سے بات کروں گی وہ نہایت اہم اور وقت کی ضرورت ہے اور وہ ہے ’’خلافت اور ہمارا عہد بیعت‘‘۔ اس موضوع پر بات کرنے سےپہلے ضروری ہے کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ انبیاء کے آنے کا مقصد کیا تھا؟

قرآن کریم میں آنحضرت ؐ کی بعثت کا مقصد اس آیت کریمہ میں نہایت خوبصورتی سے بیان ہوا ہے۔ سوۃ الجمعہ کی آیت نمبر 3 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیۡہِمۡ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ ٭ وَاِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۳﴾

(الجمعہ: 3)

وہی ہے جس نے اُمی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ اُن پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔

یہ آیت کریمہ چند الفاظ میں اس عظیم الشان مقصد کو بیان کرتی ہے جس کو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شان کے ساتھ پورا کیا کہ عرب کی بنجر اور بیابان زمین روحانی اور اخلاقی سر سبزی سے تر ہو گئی۔ آپؐ پر دین کامل، ایک کامل کتاب کی صورت میں اترا۔ جس نے لاکھوں روحوں کو پاک کیا۔ ایسا معجزہ انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتا۔

بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار
پاک محمد مصطفٰی نبیوں کا سردار

خدا تعالیٰ کا کلام اتنا پُر معارف ہے کہ اگلی ہی آیت میں ایک پیشگوئی بھی فرما دی:

وَّاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ

(الجمعہ: 4)

اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی اُن سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔

اس آخری زمانہ کی بھی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمادی کہ وہ کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپؐ پر سورۃ الجمعہ نازل ہوئی۔ جب آپؐ نے اس کی آیت وَّاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ پڑھی جس کے معنی یہ ہیں کہ کچھ بعد میں آنے والے لوگ بھی ان صحابہ میں شامل ہوں گے جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے تو ایک آدمی نے پوچھا ’’یا رسول اللہ ؐ! یہ کون لوگ ہیں جو صحابہ کا درجہ تو رکھتے ہیں لیکن ان میں ابھی شامل نہیں ہوئے۔‘‘

تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کا جواب نہیں دیا۔ اس دفعہ کے تین دفعہ سوال دہرانے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی پہنچ گیا۔ یعنی زمین سے اٹھ گیا تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگ واپس لے آئیں گے۔

ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ پیشگوئی کیسے عالیشان رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے با برکت وجود میں پوری ہوئی اور نا صرف آپ کے وجود میں بلکہ آپ کے خلفاء کے وجود میں بھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت آنحضرت ؐ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق ہوئی۔ آپؑ ایک نئی شریعت نہیں لائے بلکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ آپؑ کے ہاتھوں ہوئی۔ آپؑ نے ہر چیز اپنے آقا و مطاع حضرت محمدؐ سے ہی سیکھی اور وہی دوسروں کو سکھایا۔ آپؑ نے اس جماعت کا قیام خدا کے حکم پر کیا اور اس جماعت میں اور آپؑ کی بیعت میں آنے کے لئے جو شرائط آپ ؑ نے بیان کی ہیں وہ کیا ہیں؟ وہ شریعت ہی تو ہیں۔ وہ اسلام ہی تو ہیں۔ وہ قرآن ہی تو ہیں۔ وہ حکمت ہی تو ہیں۔ ان پر پورا اتر کر ہی ہم احمدی اپنا تزکیہ نفس کر سکتے ہیں۔ وہ دس شرائط بیعت ہر احمدی کو ہر وقت پڑھنی چاہئیں۔ چھاپ کر کہیں سامنے لگانی چاہئیں کیونکہ وہ ایک ایسا مکمل ضابطہ حیات ہیں جن پر عمل کر کے ہم ایک حقیقی مسلمان بن سکتے ہیں۔ اپنے عہد بیعت کو پورا کر سکتے ہیں اور یہی شرائط بیعت ہیں جن پر ہم خلیفۂ وقت کی بیعت کرتے ہیں۔

یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بیعت ہے کیا؟ بیعت کا لفظی مطلب ہے بِک جانا۔ اگر آپ اس لفظ بیعت کو Google Search میں ڈالیں تو وہ آپ کو اس کا مطلب بتاتا ہے Sold تو جو چیز بِک جاتی ہے وہ تو خریدنے والے کے اختیار میں آجاتی ہے۔ بیچنے والے کا تو کوئی حق نہیں رہتا اس کی کوئی مرضی نہیں رہتی۔ اس کے بارہ میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم نے اپنی جان آج خدا تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دی۔ یہ بالکل غلط ہے کہ خدا تعالیٰ کی ارہ میں چل کر انجامکار کوئی شخص نقصان اٹھاوے۔ صادق کبھی نقصان نہیں اٹھا سکتا۔ نقصان اسی کا ہے جو کاذب ہے۔ جو دنیا کے لئے بیعت کو اور عہد کو جو اللہ تعالیٰ سے اس نے کیا ہے توڑ رہا ہے۔ وہ شخص جو محض دنیا کے خوف سے ایسے امور کا مرتکب ہو رہا ہے، وہ یاد رکھے بوقت موت کوئی حاکم یا بادشاہ اسے نہ چھڑا سکے گا۔ اس نے احکم الحاکمین کے پاس جانا ہے جو اُس سے دریافت کرے گا کہ تُو نے میرا پاس کیوں نہیں کیا؟ اس لئے ہر مومن کے لئے ضروری ہے کہ خدا جو ملک السموٰات والارض ہے اس پر ایمان لاوے اور سچی توبہ کرے۔‘‘

(ملفوظات جلدہفتم صفحہ29-30 ایڈیشن 1984ء)

اس سے پہلے کہ میں یہ بیان کروں کہ خلافت کے ساتھ ہمارا عہد بیعت ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے، یہ تو واضح ہے کہ آنحضرت ؐ کی پیشگوئی کے عین مطابق جماعت احمدیہ میں خلافت علیٰ منہاج النبوت قائم ہوئی۔ اس کے بارہ میں حضرت مسیح موعود ؑ رسالہ الوصیت میں فرماتے ہیں:
’’سو اے عزیزو! قدیم سے سنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے۔ سو اب ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔

اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن میں جب جاؤں گا تو ہھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لیے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خداکا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے۔‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد نمبر20 صفحہ305)

پھر ہم نے دیکھا کہ الٰہی وعدوں کے عین مطابق اللہ تعالیٰ نے جماعت کو دوسری قدرت کی نعمت سے نوازا۔ کیا ہی پیارا خدا ہے ہمارا جس نے آنحضرت ؐ سے کیے ہوئے وعدوں کو اور آپؐ کے غلام حضرت مسیح موعودؑ سے کیے ہوئے وعدوں کو کس شان سے پورا کیا اور بار بار خلافت احمدیہ کے ہاتھ سے دین کو تمکنت عطا فرمائی۔

سُبْحَانَ اللّٰہ وَ بِحَمْدِهٖ سُبْحَانَ اللّٰہ الْعَظِيمِ
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍ

اور کیا ہی پیاری یہ نعمت ہے خلافت کی 114سالہ تاریخ احمدیت اس بات کی گواہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے خلفاء نے آپ سے وفا کے وہ اعلیٰ نمونے قائم کیے جس کی مثال موجودہ زمانہ میں اور کوئی نہیں۔ اسلام اور آنحضرت ؐ کا جھنڈا دنیا کے کونے کونے میں گاڑا۔ لاکھوں سعید روحیں اسلام احمدیت کی آغوش میں آئیں۔ ہمارے پیارے خلفاء نے اپنے اپنے وقت میں اپنا دن رات ہماری تعلیم، تربیت اور اسلام کی اشاعت میں گزار دیا۔ یہاں اس دریا کو کُوزے میں بند کرنے کا وقت نہیں۔ لیکن میں اور آپ اگر ہم صرف اپنے اوپر ہی نظر ڈال لیں تو ہم اپنے آپ کو خلافت کے احسانوں تلے دبا ہوا پائیں گے۔ یہ وہ ہاتھ ہے کہ جب ہم ہاتھ اس کی بیعت میں دیتے ہیں تو یہ مٹی کو سونا بنا دیتا ہے۔ اور یہ تجربہ صرف میرا ہی نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں احمدیوں کا تمام دنیا میں ہے۔ یہ وہ ہاتھ ہے جو ہمیں خدا سے جوڑتا ہے۔ یاد رکھیں کہ اگر ہم خلیفہ ٔوقت سے وفا دکھائیں گے تو خدا ہم سے وفا دکھائے گا۔ اور کون ہے جس کو خدا کی دوستی کی حاجت نہیں۔ صرف شیطان ہی ہے جو اس ہاتھ کو دھتکارے گا۔ نعوذ باللّٰہ

خلافت کے ساتھ اس عہد بیعت کو باندھنے کی پہلی شرط اطاعت ہے۔ اطاعت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو۔ اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے۔ مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے۔ اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے۔ بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی‘‘

(خطبہ جمعہ 5دسمبر 2014ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کا ہم پر بڑا یہ احسان ہے کہ انہوں نے خلافت کے استحکام کے لیے جماعت کی بہت تربیت کی۔ اس وقت جماعت میں جو فتنہ اٹھ رہا تھا آپ ؓ نے ایک شاندار جرنیل کی طرح اس کا مقابلہ کیا۔ آپؓ فرماتے ہیں:
’’کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھا دینا اور یا پھر بیعت لے لینا ہے۔ یہ کام تو ایک مُلّاں بھی کر سکتا ہے اس کے لئے کسی خلیفے کی ضرورت نہیں اور میں اس قسم کی بیعت پر تھوکتا بھی نہیں۔ بیعت وہ ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے۔‘‘

(الفرقان خلافت نمبرمئی جون 1986ء صفحہ28)

لیکن تربیت اور نصائح بھی اسی کو فائدہ دیتے ہیں جو ان سے فائدہ اٹھانے والا ہو اور یہ ہمارے لیے بہت غور اور خوف کا مقام ہے۔ وہ جنہوں نے خلافت ثانیہ کے دور میں خلافت سے انکار کیا وہ بظاہر بڑے لوگ تھے، عالم تھے۔ تعداد میں بھی زیادہ تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دکھا دیا کہ وہ خلافت کے ساتھ ہے۔ اس نے جماعت کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دور میں اتنی ترقیات عطا کیں لیکن وہ جنہوں نے خلافت سے اپنا عہد نہیں باندھا وہ بکھر گئے اور کچھ ترقی نہ کر سکے۔

جماعت کی ترقیات کا سلسلہ صرف خلافت ثانیہ کے ساتھ ہی نہیں رہا بلکہ وہی ترقیات خلافت ثالثہ کے دور میں ہمیں نظر آئیں، وہی ترقیات خلات رابعہ کے دور میں ہمیں نظر آئیں اور وہی ترقیات ہم خلافتِ خامسہ کے دور میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ اور چونکہ وہ خود بناتا ہے وہ خود اپنے خلیفہ کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے۔ خدا اپنے خلیفہ کا ولی ہوتا ہے۔ اس کی روح القدس سے مدد کرتا ہے۔ اس کے ہر فیصلہ میں برکت ڈالتا ہے۔ اس کی زابان سے نکلے ہوئے الفاظ کو پورا کرتا ہے۔ اس کی دعاؤں کو قبولیت کا شرف بخشتا ہے۔ تو کون بیوقوف ہو گا جو اس خدا کی رسی کو چھوڑے۔ جس کو اس نعمت کی قدر نہ ہو وہ یقیناً بہت ہی بد قست ہے۔

بعض لوگ اطاعت بالمعروف جیسے خوبصورت حکم کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ اس لیے یہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی بھی وضاحت کر دوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ اس کے بارہ میں فرماتے ہیں:
’’ایک اور غلطی ہے وہ اطاعت در معروف کے سمجھنے میں ہےکہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں اطاعت نہ کریں گے۔ یہ لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی آیا ہے۔ لَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ۔ اب کیا ایسے لوگوں نے حضرت محمدؐ رسول اللہ کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنا لی ہے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد4 صفحہ75-76)

انہی معنوں کو بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’نبی نے تمہیں کوئی خلاف شریعت اور خلاف عقل حکم تو نہیں دینا مثلاً حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے مان لیا ہے تو پنج وقتہ نماز کے عادی بنو۔ جھوٹ چھوڑ دو۔ لوگوں کے حق مارنے چھوڑ دو۔ آپس میں پیار محبت سے رہو۔ تو یہ سب اطاعت در معروف کے حکم میں ہی آتا ہے۔ تو یہ کام تو کرو نہ اور کہتے پھرو کہ ہم قسم کھاتے ہیں کہ آپ جو ہمیں حکم دیں گے کریں گے۔ اسی طرح خلفاء کی طرف بھی سے مختلف وقتوں میں روحانی ترقی کے لئے مختلف تحریکات ہیں۔ جیسے مساجد کو آباد کرنے کے بارے میں، اولاد کی تربیت کے بارے میں، اپنے اندر وسعت حوصلہ پیدا کرنے کے بارے میں، دعوت الی اللہ کے بارے میں یا متفرق مالی تحریکات ہیں۔ تو یہ باتیں ہیں جن کی اطاعت کرنا ضروری ہے یا دوسرے لفظوں میں طاعت در معروف کے زمرے میں آتی ہیں۔ تو نبی نے یا کسی خلیفہ نے تمہارے سے خلاف احکام الٰہی اور خلاف عقل کام تو نہیں کروانے۔ یہ تو نہیں کہنا کہ تم آگ میں کود جاؤ یا سمندر میں چھلانگ لگا دو۔ انہوں نے تو تمہیں ہمیشہ شریعت کے مطابق ہی چلانا ہے۔‘‘

(شرائط بیعت اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ177)

خلافت کے ساتھ ہمارا عہد بیعت ہم سے کیا تقاضے کرتا ہے اس کی ایک جھلک تو ہمیں آیتِ استخلاف میں نظر آتی ہے۔ جہاں ایک طرف یہ آیت خلافت کے ساتھ خدا کے عظیم الشان وعدہ کی طرف اشارہ کرتی ہے وہاں ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے۔

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۵۶﴾

(النور: 56)

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔

اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’یعنی خلافت قائم رکھنے کا وعدہ ان لوگوں سے ہے جو مضبوط ایمان والے ہوں اور نیک اعمال کر رہے ہوں۔ جب ایسے معیار مومن قائم کر رہے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق خلافت کا نظام جاری رکھے گا۔ نبی کی وفات کے بعد خلیفہ اور ہر خلیفہ کی وفات کے بعدآئندہ خلیفہ کے ذریعہ سے یہ خوف کی حالت امن میں بدلتی چلی جائے گی۔ اور یہی ہم گزشتہ 100سال سے دیکھتے آ رہے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہوں اور دنیا کے لہو و لعب ان کو متاثر کرکے شرک میں مبتلا نہ کررہے ہوں۔ اگر انہوں نے ناشکری کی، عبادتوں سے غافل ہو گئے، دنیاداری ان کی نظر میں اللہ تعالیٰ کے احکامات سے زیادہ محبوب ہو گئی تو پھر اس نافرمانی کی وجہ سے وہ اس انعام سے محروم ہو جائیں گے۔ پس فکر کرنی چاہئے تو ان لوگوں کو جو خلافت کے انعام کی اہمیت نہیں سمجھتے۔ یہ خلیفہ نہیں ہے جو خلافت کے مقام سے گرایا جائے گا بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو خلافت کے مقام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے فاسقوں میں شمار ہوں گے۔ تباہ وہ لوگ ہوں گے جو خلیفہ یا خلافت کے مقام کو نہیں سمجھتے، ہنسی ٹھٹھا کرنے والے ہیں۔ پس یہ وارننگ ہے، تنبیہ ہے ان کو جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں یا یہ وارننگ ہے ان کمزور احمدیوں کو جو خلافت کے قیام و استحکام کے حق میں دعائیں کرنے کی بجائے اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کہاں سے کوئی اعتراض تلاش کیا جائے۔‘‘

(خطبات مسرور، خطبہ جمعہ 27مئی 2005ء صفحہ 310)

اسی طرح ایک اور موقعہ پر آپ فرماتے ہیں:
’’اِن آیات میں اللہ اور رسول کو ماننے والوں کے لئے اور خلفاء کی بیعت کرنے والوں کے لئے بھی ایک مکمل لائحہ عمل سامنے رکھ دیا ہے۔ اور پہلی بات اور بنیادی بات یہ بیان فرمائی کہ اطاعت کیا چیز ہے اور اس کا حقیقی معیار کیا ہے؟ اطاعت کا معیار یہ نہیں ہے کہ صرف قسمیں کھا لو کہ جب موقع آئے گا تو ہم دشمن کے خلاف ہر طرح لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ صرف قسمیں کام نہیں آتیں۔ جب تک ہر معاملے میں کامل اطاعت نہیں دکھاؤ گے حقیقت میں کوئی فائدہ نہیں۔ کامل اطاعت دکھاؤ گے تو تبھی سمجھا جائے گا کہ یہ دعوے کہ ہم ہر طرح سے مر مٹنے کے لئے تیار ہیں حقیقی دعوے ہیں۔ اگر اُن احکامات کی پابندی نہیں اور اُن احکامات پر عمل کرنے کی کوشش نہیں جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول نے دئیے ہیں تو بسا اوقات بڑے بڑے دعوے بھی غلط ثابت ہوتے ہیں۔ پس اصل چیز اس پہلو سے کامل اطاعت کا عملی اظہار ہے۔ اگر یہ عملی اظہار نہیں اور بظاہر چھوٹے چھوٹے معاملات جو ہیں اُن میں بھی عملی اظہار نہیں تو پھر دعوے فضول ہیں۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ کہہ کر یہ واضح فرما دیا کہ انسانوں کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ جو ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے، ہر مخفی اور ظاہر عمل اُس کے سامنے ہے، اس لئے اُس کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ پس ہمیشہ یہ سامنے رہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ اور ایک حقیقی مومن کو اس بات کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 27مئی 2011ء)

اسلام ایک دین فطرت ہے اور ہر زمانہ اور ہر جگہ کے لوگوں کے لئے اترا ہے۔ مغربی ممالک اور اسلام دشمن عناصر، اسلامی تعلیمات پر دقیانوسی ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ان کے زیراثر کچھ مسلمان بھی اس قسم کی باتیں شروع کر دیتے ہیں۔ اب پردہ کے حکم کو ہی لے لیں کہا جاتا ہے کہ ان مغربی ممالک میں تو پردہ کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ آج اس مغربی معاشرہ کی اخلاقی اور معاشرتی حالت پر نظر ڈالیں تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہاں پردہ کی ضرورت نہیں؟ اب تو اس معاشرہ کی بظاہر آزاد عورت بھی چیخ چیخ کر کہنے لگ گئی ہے کہ ہمیں مرد کے ظلم سے بچاؤ۔ ہمیں علیحدہ اور باحفاظت جگہ دلواؤ۔ اور صرف یہ ہی نہیں اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو کیا ہو رہا ہے اس معاشرہ میں؟ جہاں شخصی آزادی کے نام پر، تیکنیکی ترقی کے نتیجہ میں اور سب سے بڑھ کر خدا سے دوری اور مذہب سے دوری نے معاشرے میں قیامت برپا کر دی ہے۔ ہر روز ایک نیا دجالی فتنہ، ہر روز ایک نئی اخلاقی گراوٹ۔ آج خلافت احمدیہ ہی ہے جس نے ان تمام غیر اخلاقی طوفانوں سے جماعت کو اپنے حصار میں لیا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا ابھی پوری طرح جڑ بھی نہیں پکڑ پایا تھا کہ ہمارے پیارے حضور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بد اثرات سے متنبہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اب وہی نقصانات دنیا نے تجربہ کر کے سیکھ لیے ہیں۔ وہی باتیں ان کے دانشور اور ہوشمند لوگ کہہ رہے ہیں۔

اسی طرح دہریہ طاقتوں نے لوگوں کو مذہب سے دور کرنے کے لیے جو چال کھیلی ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ فیملی کی شکل تبدیل کر دی گئی ہے۔ عورت اور مرد کی تعریف بدل دی گئی ہے۔ معاشرہ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔ اب اتنے بڑے زہر کا اثر ہماری جماعت پر بھی پڑ سکتا ہے اور پڑتا ہے۔ اس حالت میں کون ہے جس نے بار بار ہمیں اس سے محفوظ رہنے کی تلقین کی ہے۔ ہمارے بچوں کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جواب دیے ہیں۔ فکر سے بار بار ہماری تربیت کی ہے۔ یہ خلیفۂ وقت ہی ہیں۔

خدا کا فضل اور احسان ہے کہ لجنہ کے کام کے سلسلہ میں مجھے پیارے حضور سے براہ راست راہنمائی ملتی ہے۔ الحمدللّٰہ

میں نے ایسی فراست نہیں دیکھی۔ ایسی ہمدردی اور محبت نہیں دیکھی۔ ہر ایک فرد جماعت کے لیے اس قدر درد اور سب سے بڑھ کر ہماری اگلی نسل کے لیے، ہمارے بچوں کے لیے کہ احمدیت کی اگل نسل ہیں ان کی تربیت ہو جائے۔ ہمارے پیارے خلیفہ کی دُوررس نظر نہ صرف جماعت کی ترقیات اور حضرت مسیح موعودؑ کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے تدابیر کرتی ہیں۔ وہاں معاشرے کے خطرات اور دجّالی قوتوں سے ہمیں بچانے کے لیے بھی دن رات کوشاں ہیں۔ یہ خلافت کا ہی دائمی سلسلہ ہے جس کی یہ برکات ہیں کہ خلفہ وقت، وقت اور زمانہ کے حساب سے ہماری راہنمائی فرماتے ہیں۔ خلیفہ وقت کی اطاعت اور فرمانبرداری میں ہی ہماری اور ہماری نسلوں کی بقا ہے۔ اور یہ بھی خلافت کے ساتھ ہمارے عہد بیعت کی ایک اہم کڑی ہے کہ ہم اپنی اگلی نسلوں کو خلافت کے ساتھ جوڑیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

خلافت جوبلی کے موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہم سے جو عہد لیا تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے جو جو نظام بھی جاری فرمایا اس کو خلافت کے انعام سے باندھا ہے۔ پس ہمیشہ اس کی قدر کرتے رہیں۔ اس خلافت جوبلی کی تقریب سے ہر احمدی میں جو تبدیلی پیدا ہوئی ہے یہ عارضی تبدیلی نہ ہو، عارضی جوش نہ ہو، بلکہ اس کو ہمیشہ یاد رکھیں اور جگالی کرتے رہیں اور اس کو مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ مَیں نے جو عہد لیا تھا اس عہد کا بھی بڑا اثر ہوا ہے۔ ہر ایک پر یہ اثر ظاہر ہو رہا ہے۔ اسے ہمیشہ یاد رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم جوعہد کرو اسے پورا کرو کیونکہ تمہارے عہدوں کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ 30مئی 2008ء)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہماری اولاد در اولاد کو خلافت کے ساتھ اپنا عہد بیعت ہمیشہ اور ہر حال میں، تنگی میں بھی اور خوشحالی میں بھی نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ ثم آمین

(ڈاکٹر فریحہ خان۔ صدر لجنہ اماء اللہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ