• 7 جولائی, 2025

خطوط طاہرؒ اور اسیران راہ مولا

اپریل 1984ء کو مملکت اسلامیہ پاکستان نے رسوائے زمانہ آرڈیننس جاری کیا تھا جس کی رو سے پاکستان میں رہنے والے تمام احمدیوں کی روزمرہ کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ خود ساختہ قانون کی رو سے محض اس لئےمجرم گردانے گئے وہ عین اسلامی شعائر کے پابند ہیں۔ مگر بدنام زمانہ قانون کی نظر میں کلمہ طیبہ کا اقرار کرنا، قرآن کریم کی تلاوت کرنا، اذانیں دینا، نمازیں پڑھنا، مساجد کو ذکر الٰہی سے آباد کرنا اسلامی اصطلاحات کو روز کا معمول بنا لینا اور اسلامی شعائر میں رنگین ہونایہ سب کچھ اسلامی مملکت پاکستان کے نزدیک سنگین جرم ہی نہیں بلکہ بمنزلہ سزا بھی ہے۔اس نام نہاد آرڈیننس کے بعد احمدیہ جماعت جن حالات سے گزر رہی ہے اور جو خوفناک ماحول اور واقعات رونما ہورہے ہیں۔ وہ احمدیت کا ایک اہم اور درد ناک باب ہے۔سُن کر اور پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور بدن لرز جاتا ہے۔ اس دور آزمائش میں احمدیہ جماعت پر طرح طرح کی پابندیاں، قانونی گرفت، شہادتیں، قتل وغارت، لوٹ مار، سوشل بائیکاٹ، عدلیہ اور حکومت کی جانب سے امتیازی سلوک اور ہزاروں احمدیوں کو فرضی مقدمات میں ملو ث کرنا، معصوم اور بےگناہ احمدیوں کو سالہا سال سے سلاخوں کے پیچھےقید کرنا وغیرہ مظالم ہیں۔

گزشتہ قریباًچالیس برسوں سے احمدیوں کو بار بار اس بات کا تجربہ ہوتا رہا ہے کہ وہ ظلم کی چکی میں پستے رہے۔کوئی اور قوم کوئی اور فرقہ ہوتاتو اب تک سرنگوں اور زمین بوس ہوچکا ہوتا۔یہ احمدیوں کا حوصلہ ہے۔اللہ تعالیٰ کی ذات پر غیر متزلزل ایمان اور بھروسہ ہے۔خلیفۃ المسیح اور اکناف عالم میں بسے احمدیوں کی شب و روز کی دعاؤں پر کامل یقین ہے۔اُنہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ حوصلہ کو ٹوٹنے نہیں دیا۔غیرت کا سودہ نہیں کیا۔ ضمیر بیچنے پر راضی نہیں ہوئے۔ ایمان کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ثابت قدم رہے۔ اپنی قدروں سے کوئی مفاہمت نہیں کی۔ قید و بند کی سازشوں کی پرواہ نہیں کی۔صبر و رضاء کا دامن مضبوطی سے تھامے رہے۔ثم استقاموا کا عملی مظاہرہ کیا۔احمدیت حقیقی اسلام پرڈٹے رہے۔شکنجہ کو کس طرح کسا گیا اس کی دُکھ بھری اور لرزہ خیر داستان آپ کے سامنے آچکی ہے اور اب تک آرہی ہے۔

اے پاکستان میں بسے شمع احمدیت کے پروانو ! تم پر ہزاروں لاکھوں سلام، کرّہ ارض کے تمام احمدی تم کو سلوٹ کرتے ہیں۔ تم پر فخر اور ناز کرتےہیں۔ تم نے احمدیت کے پودے کو خون جگر سے سینچا ہے۔کڑی سے کڑی گھڑی میں بھی تمہارے پائے استقلال میں لغزش تک نہیں آئی۔ کرّہ ارض کے چپہ چپہ پربسنے والا ہر احمدی تم پر نازاں ہے۔ تم نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔وہ احمدیت کی تاریخ مکمل نہیں ہوگی جس میں آپ کی بے مثال قربانیوں کا ذکر نہ ہوگا۔ اس درد ناک باب کے کئی پہلو ہیں۔ جن میں سے ایک نمایاں پہلو جس کا تعلق نفس مضمون اسیران راہ مولا کے نام خطوط طاہرؒ سےہے تذکرہ مقصود ہے۔

جب بھی حضورؒ کے سامنے اسیران راہ مولا کا ذکر ہوتا تو ضبط وتحمل کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے۔آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔عالمی سطح پر بسنے والے تمام احمدی اس بات پر گواہ ہیں کہ کس قدردرد اور کر ب کے ساتھ حضورؒ نے اسیران راہ مولا کےلئے دعائیں کیں اور ساری جماعت کو دعائیں کرنے کی تلقین فرمائی۔اور اپنے خطبات جمعہ میں مخصوص ذکر فرمایا۔اور ان کی باعزت رہائی کےلئے تدابیر اختیار کیں۔ اور اُن کے نام جو خطوط تحریر فرمائے وہ دل دہلادینے والے ہیں۔آپ کے خط کا ایک ایک لفظ ایک ایک حرف دلی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ایک طرف اس دور آزمائش میں احمدیہ جماعت نے بے پناہ قربانیاں پیش کرنے کی سعادت پائی وہیں پر دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے بھی بے شمار فضلوں،برکتوں اور ترقیوں سے بھی جماعت کونوازا۔گویا یہ دورآزمائش بھی اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم انعام بن کر جماعت پر سایہ فگن ہے۔ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ

مکرم محمد نثار راجہ صاحب کے نام ایک خط میں تحریر فرماہیں:
’’بعض دفعہ دل سے ایسے درد کے ساتھ دعا نکلتی ہےکہ یقین نہیں آتا کہ رحمت باری اسےٹھکراسکے گی۔لیکن وہ حکمت کُل ہے اور ہم ناداں جاہل بندے وہ ہماری فلاح اور بہبود کو ہم سے بہتر سمجھتا ہے اگر اسلام کے احیائے نو کےلئے وہ ہم ناکارہ بندوں کو قربانی کی سعادت بخشنا چاہتاہے تو ہم بسروچشم حاضر ہیں لیکن بڑے خوش نصیب وہ جنہیں اس کی نظر عنایت پھولوں کی طرح چُن لے لیکن ان بے کسوں کا کیا حال ہوگا جن کے دل کےنصیبے میں اپنی محرومی کا احساس اور اپنے پیاروں کی یادوں کے کانٹے رہ جائیں۔جب یہ باتیں سوچتا ہوں تو دل سے بڑی بے قرار آواز اُٹھتی ہے کہ اے حکمت بالغہ اورعقل کُل کےمالک تو قدرت کاملہ کا بھی تو مالک ہے۔ ہم پر رحم فرما اور ہمیں دُکھ کی ہرآزمائش سے نجات بخش اور دُنیا اورآخرت کی حسنات سے نواز اور اپنے پیاروں کے دُکھ میں مبتلاء نہ فرمااے ارحم الراحمین رحم فرما،اے ارحم الراحمین رحم فرما۔‘‘

(خط مورخہ3مارچ 1985ء)

مکرم چوہدری اسحٰق صاحب مرحوم کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرماتےہیں:
’’میری فکر میں آپ کا رونا اور بے قراری میرے دل پر قیامت ڈھاگئے۔مجھے تو بعض دفعہ لگتا ہے کہ میرا جسم آزاد مگر اسیران راہ مولاکےساتھ قید میں رہتا ہے۔اللہ کے سواکوئی نہیں جانتا کہ میں کہاں کہاں رہتا ہوں۔‘‘

(خط مورخہ 25ستمبر 1985ء)

مکرم محمد الیاس منیر صاحب کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’آپ کو صرف یہ بتانے کےلئے دو حروف لکھ رہا ہوں کہ آپ کے دور یوسفی میں ایک دن بھی مجھے ایسا یاد نہیں کہ آپ یاد نہ آئے ہوں۔ بارہا آستانہ الوہیت پر اس گداز دعا سے میرا دل پگھل پگھل کر بہا ہے کہ اے میرے پیارے رب مجھے جلد تر اپنے پیاروں کی رہائی دکھا کر اس جان گسل غم سے رہائی بخش جس نے مجھےیر غمال بنارکھاہے اور جو میری آزادی کی خوشی میں ایسی تلخی گھولتاہے کہ یہ آزادی جرم دکھائی دینے لگتی ہے۔‘‘

(خط 15جون 1992ء)

آپ ہی کے نام ایک اور خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’بارہا تمہیں اور تمہارے اسیر ساتھیوں کو خط لکھنےکاارادہ کیا مگر وفور جذبات کے سامنے کچھ پیش نہیں گئی۔ اللہ کی تقدیر اسلام کے احیائے نو کی خاطر ہم سے جو قربانی لینا چاہتی ہے ہم حاضرہیں۔وہی ہے جو ہمیں ہمت اور صبر اور ثبات قدم بھی عطافرمائے گا۔لیکن میراد ل دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت اپنے پیاروں کادکھ میرے لئےناقابل بیان اذیت کا موجب بنتاہے۔‘‘

(خط 3دسمبر 1984ء)

مزید ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’میرے پیارے رب کی جو تقدیر بھی تمہارے حق میں جاری ہو وہ فضل ہی فضل اور رحمت ہی رحمت ہے۔ مگر میرا بھکاری دل اس سے دونوں جہاں کی حسنات مانگ رہا ہے۔یہ عارضی زندگی بھی مانگ رہاہے۔اور وہ لافانی زندگی بھی اپنےمولاکی شان کے نثار اس کے قدموںمیں ایسے ایسے گنہگار اورپاگل دل بھی پڑے ہیں اور وہ انہیں ٹھکرانہیں رہا۔‘‘

(خط 31مئی 1986ء)

مکرم پروفیسر ناصر قریشی مرحوم کے نام خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’آپ کے بندغم نےتو ہزاروں کو اسیر بنارکھا ہے۔بہت ہیں کہ آپ کی اسیری کاخیال ان کی خوشیوں سے زکوٰۃ لیتا ہےاور اپنی آزادی انہیں جرم دکھائی دینےلگتی ہے۔ان مجبوریوں کو فراموشی کا دوش تو نہ دیں۔‘‘

(خط 26جنوری 1991ء)

ایک اور خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اپنے دل کی کیفیت مزید کچھ نہیں لکھتاکہ تم بے چین نہ ہوجاؤ کیا تمہیں علم نہیں کہ کروڑوں احمدیوں کی دلوں کا چین تم چندمظلوم احمدیوں کے دلوں سے وابستہ کر دیا گیاہے۔‘‘

(خط 1مئی 1986ء)

پھرایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’دنیا والوں کی تو زندگی بھی موت اور موت بھی موت ہوتی ہے۔مگر میرے خوش نصیب اسد اللہ الغالب تمہاری تو زندگی بھی زندگی اور موت بھی زندگی ہے۔تم خاک بسر تھے۔ میرے مولا کی رضاء نے تمہیں عرش نشین بنادیا۔ مسیح کی غلامی میں تم بھی زمین کےکناروں تک شہرت پاگئے۔آج ایک کروڑ احمدیوں کے دھڑکتے ہوئےدل تمہیں دعائیں دے رہے ہیں او رد و کروڑ نمناک آنکھیں تم پر محبت اور رشک کے موتی نچھاور کر رہی ہیں۔میرا دل بھی ان دلوں میں شامل ہے۔ میری آنکھیں بھی ان آنکھوں میں گھُل مل گئیں ہیں۔‘‘

(خط 31مئی 1986ء)

مکرم محمداسماعیل منیر صاحب کےنام ایک خط میں فرماتےہیں:
’’بہت دعا کریں میرا اور خدا کی اس پیاری جماعت کا سر ہر ابتلاء میں بلند رہے اور کبھی غیر اللہ کے سامنے نہ جھکے۔ خداحافظ۔‘‘

(خط 19 فروری 1986ء)

ایک اور خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’میرے پیارے عزیز م محمد الیاس منیر اور نعیم الدین تک میرے دل کا حال پہنچادیں اور بتادیں کہ یہ چار دن کی زندگی تو بہت سخت ناقابل اعتبار ہے اور یہ بھی پتہ نہیں کہ کیسے انجام کو پہنچتی ہے۔ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ وہ ہم سے اتنی جلد جُدا ہوں مگر مرضی مولا اگر یہی ہے تو اے خوش نصیبو! جورضائے باری تعالیٰ کی لافانی زندگی پانے والے ہواور آسمان احمدیت کے درخشندہ ستارے بن کر چمکنے والے ہواور جو تاریخ احمدیت میں ہمیشہ محبت اور عظمت اورپیار اور احترام کے ساتھ یادکئے جاؤگے۔دم واپسی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی فتح اور غلبہ کی دُعا کرنا اور اس عاجزناکارہ انسان کی بخشش کی بھی دعا کرنا۔ تم تو ہر امتحان میں کامیاب و کامران ٹھہرے۔اور ہر ابتلاء سے سرخرو ہوکر نکلے۔کاش میری بھی یہ فریاد قبول ہوکہ رَبَّنَاۤ تَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ‘‘

(خط 19فروری 1986ء)

سزائے موت سنائے جانے کے بعد مکرم نعیم الدین صاحب کو خط میں لکھا:

’’میرے پیارے عزیزم نعیم الدین!

اسیر راہ مولا۔ مجاہد احمدیت

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ

تم تو ’’کال کوٹھری‘‘ کے نہیں ’’حجرہ نور‘‘ کے مکین ہو یہ تم نے کیا لکھ دیا۔رضائے باری تعالیٰ کے قیدی تو جس زنداں میں بھی رہیں اُسے بھی بقعہ نو ر بنا دیتے ہیں۔ ایک اور بات بھی تم نے اپنے خط میں غلط لکھ دی۔تم تو لافانی زندگی کے سزا وار ٹھہرائے گئےہو۔ کون ہے جو تمہیں ’’سزائے موت‘‘ دے سکے۔ وہ تو خود مردہ ہیں۔کبھی مردوں نے بھی زندوں کی شہ رگ پر پنجہ ڈالاہے۔اگر شہادت تمہارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے تو کسی ماں نے وہ بچہ نہیں جنا جو تمہیں مار سکے۔ شہادت کی دائمی زندگی موت کی منزل سے ہوکر نہیں گزرتی۔‘‘

(خط 31مارچ 1986ء)

مکرم پروفیسر ناصر قریشی مرحوم کےنام خط میں لکھا:
’’میرے پیارے بھائیو! آپ مجھے بے حد عزیز ہیں اور آپ کا غم ہر لمحہ میرے دل میں جان گزیں ہے اگر چہ جانتا ہوں کہ اگر خدا کی تقدیر آپ کو ایک عظیم شہادت کا مرتبہ عطاکرنے کافیصلہ کر چکی ہے تو یہ ایک سعادت ہے۔جو قیامت تک آپ کانام دین و دنیا میں روشن رکھے گی۔اور آپ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اور کوئی نہیں جو آپ کو مارسکے۔ قیامت تک آنے والی نسلیں آپ کےذکر پر روتے ہوئےاور تڑپتے ہوئے آپ کےلئے دعائیں کیا کریں گی اور حسرت کیا کریں گی کہ کاش آپ کی جگہ وہ ہوتے۔ میرے اپنے دل کا یہ حال ہے کہ آپ کے گزشتہ خط کو پڑھ کر جس میں اپنی اور اپنے بچوں کی دل گداز حالت کا دردناک بیان تھا۔ میں نے اپنے دل کو ٹٹولا تو یہ معلوم کرکے میرا دل حمد اور شکر سے بھر گیا کہ اگر آپ کو بچانے کےلئے مجھے تختہ دار پرلٹکا دیا جاتا تو میں بخوشی اپنے آپ کو اس کے لئے تیار پاتا۔‘‘

(خط 11مارچ 1986ء)

مکرم محمد الیاس منیر صاحب کو خط میں تحریر فرمایا:
’’میں جانتا ہوں کہ شہادت اور پھر ایسی عظیم شہادت ایک قابل صد رشک سعادت ہے۔ لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ظاہری جان لئے بغیر بھی لازوال زندگی عطاکرسکتا ہے۔وہ مالک اور قادراور قدیر اور مقتدر ہے۔ اسماعیلی قربانی اپنی آن بان اور شان میں اس بناء پر کم تو نہیں ہوگی کہ ’’قد صدقت الرؤیا‘‘ کی پُر شوکت آوازنے اسماعیل کی گردن پر چلنے والی چھری کی حرکت سلب کر لی۔ پس میرا بھکاری دل اگرمالک کون ومکان سے اپنے پیارے الیاس اورنعیم اورناصر اوررفیع کےلئے اس دُنیا کی بھیک بھی مانگتا ہے اورآخرت کی بھی تو تعلیمِ قرآن کے منافی تو نہیں۔ ہم تو گدا گر ہیں۔ راہ مولا کے گدا گر جب تک ہمارا آقا آخر ی تقدیر ظاہر نہیں فرماتا ہم ’’رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ‘‘ کی صدا بلند کرتے رہیں گے۔اورجب وہ تقدیر خیر کو ظاہر فرمادے گا تو وہ جس بھیس میں بھی آئے ہم حمدو شکرکے ترانے گاتے ہوئے اس کا خیر مقدم کریں گے۔مؤمن کا تو کوئی سودا بھی نقصان اور خوف اور حزن کا سودا نہیں۔ ہمیں ’’لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ‘‘ کی معرفت کا جام لبا لب پلایاگیاہے۔‘‘

(خط 31مارچ 1986ء)

مکرم حاذق رفیق کے نام خط میں تحریر فرمایا:
’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ سب بلا قصور پکڑے گئے لیکن اس سے قبل اللہ تعالیٰ کے بزرگ تر بندوں پر بھی تو اس سے بڑھ کر نا حق مظالم توڑے جاتےرہے ہیں اور سید المعصومین حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ سے بڑھ کر تو کوئی معصوم نہیں ہوسکتا۔ لیکن سب سے بڑھ کر دُکھ آپ کو ہی دیئے گئے۔پس جہاں ایک طرف آپ سخت مظلوم ہیں اور درد ناک مصائب کا شکار ہیں وہاں خوش نصیب بھی تو اتنے ہیں کہ لاکھوں آزادیاں آپ کی اس قید پر نثار آپ تو اُن خوش نصیبوں میں جاملے جن پر ہمیشہ خدا تعالیٰ انعام فرماتارہا۔‘‘

(خط 24دسمبر 1984ء)

مکرم مولانادوست محمد شاہد مؤرخ تاریخ احمدیت ان کے بیٹے کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا:
’’شیر پنجرے میں بھی شیر ہی رہتاہے اور زندان میں یوسف کی بوئے یوسفی نہیں جاتی۔اللہ کے شیروں سےملنے جاؤ تو میرا محبت بھرا سلام اور پیار دینا۔یہ شیرعصائے موسیٰ کی صفات بھی رکھتے ہیں۔ صاحب عصا کو ان کی طرف سے کوئی خوف نہیں۔ یہ شیر وَالَّذِیۡنَ مَعَہٗ کا پرتو بھی ہیں۔ ان کے جلال کا چہرہ صرف حملہ آور دشمن کی طرف کھلتا ہے جبکہ اپنوں کے لئے رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ ہوکر اپنے جمال کی نرم چاندنی ان پر نچھاور کرتے ہیں۔سلاخوں سے چار بازو تو جا ہی سکتے ہوں گے۔دلوں کی راہ میں تو کوئی آہنی دیوار بھی حائل نہیں ہوسکتی۔ بس بن پڑے تو سلاخوں میں سے گلے لگا کر دل سے دل ملا کر میرا محبت بھرا سلام اور پیار بھرا عید مبارک کاتحفہ پیش کرنا۔ پھر اس چہرہ کی کیفیت لکھنے کی کوشش نہ کرنا۔ میں اس وقت بھی تمہارے ابّا کا کھلا ہوا چہرہ دیکھ رہا ہوں اور اُن کی خوشیوں کی چاندنی میری آنکھوں کی شبنم بن رہی ہے۔خداحافظ۔‘‘

مکرم پروفیسر ناصر قریشی مرحوم کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’میرے پیارے عزیزم ناصر! آپ جانتے ہی ہیں کہ محبت جب عقل اور ذہن کو مغلوب کرلیتی ہے تو ایک پختہ کارانسان بھی بچوں کی سی حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ یہی حال میرا ہوا۔ جب میں نے آپ کا زندگی کی کوٹھری سے لکھاہواخط دیکھابے اختیار اسے چوما۔ اس کی پیشانی کے بوسے لئےاور اسے سر آنکھوں سے لگا کر ایک عجیب روحانی تسکین حاصل کی۔اوریہ دعا کی کہ اللہ میرےپیارے ناصر اور رفیع کی قربانیوں کو قبول فرما۔ اور انہیں موت کی تنگ راہ سے گزارے بغیر ابد الاباد کی زندگی عطا فرمااور اسی دنیا میں انہیں اہل بقاء میں شمار فرمالے اور مجھے یہ خیر کی بھیک عطاکرکہ میں انہیں اپنے سینے سے لگاکر ان کی پیشانی کو بوسہ دوں اور اپنے دل کی پیاس بچھاؤں۔‘‘

(خط 31مارچ 1986ء)

مکرم نثار احمد کو ایک خط میں تحریر فرمایا:
’’آپ کا جیل سے لکھا ہوا محبت بھرا پُر خلوص خط اس وقت میرے سامنے ہے۔اوروفور جزذات سے آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی ہیں۔یوں تو ہر دم آپ بھائیوں کا خیال دل میں پھانس کی طرح اٹکا رہتا ہےمگر جب کسی کے خط میں آپ کا ذکر آئے یا اسیر راہ مولا کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا خط ملے تو دل میں ایک تلاطم بپاہوجاتا ہے۔‘‘

(خط 3مارچ 1985ء)

مکرم محمد الیاس منیر کے نام ایک خط میں لکھا:
’’راہ مولا کے اسیروں کے خطوط میرے دل پر اتنا گہرا اثر کرتے ہیں کہ جواب دینا مشکل ہوجاتاہے میرا دل آپ سب کےلئے بہت زخمی ہے۔ اور جان کو فکر لگارہتا ہے۔آپ کے مہجور غمزدہ ترساں عزیزوں کے خیال سے اور بھی زیادہ غمناک ہوجاتا ہوں اور آپ سب کےلئے اور آپ کے سب عزیزوں کےلئے دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکلتی ہیں۔اللہ مجھے آپ کی طرف سے کوئی مزید صدمہ نہ دکھائےاور پہلے غموں کو بھی اسی طرح زائل فرمادے گویا وہ کبھی نہ تھے۔اللہ ہر آن آپ پر اپنے فضلوں اوررحمتوں کی بارشیں برساتا رہے۔ اور آپ کے کانوں میں ’’نہ ڈر قریب ہوں میں‘‘ کی پیار بھری سرگوشیوں کے رس گھولتا رہے۔‘‘

(خط 6جنوری 1984ء)

مکرم رانا نعمت صاحب اور اسیر راہ مولا ضلع ہزارہ کے نام خط میں تحریر فرمایا:
’’مرزا صاحب کا خط پڑھتے پڑھتے دل پر جو گزری وہ نا قابل بیان ہےکہ ایک طرف رب کریم کہ اس احسان عظیم پر دل میں حمدوشکر کے جذبات تلاطم برپا کرنے لگے۔دوسری طرف آپ کی تکالیف کا احساس میرے دل پر درد کے برچھے چلانے لگا۔اپنے مولا کے حضور بہت تڑپنے اور بہت دعائیں کرنے کی توفیق ملی۔بہت ہی دل چاہا کہ راہ مولا میں دُکھ اُٹھانے والوں کو ان میں سے ایک ایک کو گلے لگاکر ان کی پیشانیوں پر للہی محبت کے بوسے دوں اور میری آنکھیں ان کے دیدار سے خیرہ ہوں۔‘‘

(خط 8نومبر 1984ء)

مکرم تنویر احمد صاحب قریشی ابن مکرم ناصر احمد صاحب قریشی کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’میرے پیارو!میرے دل کی کیفیت ناقابل بیان ہے مجھ میں طاقت نہیں کہ تم میں سےہرایک کو الگ الگ خط لکھوں اور وہ سب کچھ بیان کروں جو میرے دل پر گزر رہی ہےجیسے تپتے ہوئے لوہے پر گرا ہوا پانی کا ایک قطرہ ایک عجیب آوازپیداکرتا اوربھاپ بن کر اُڑ جاتا ہے۔ آپ کی اور دوسرےراہ مولا میں دُکھ اُٹھانےوالوں کی ہر یاد میرے دل سے غباربن بن کر اُٹھتی ہے۔‘‘

(خط 11مارچ 1986ء)

ایک خطبہ جمعہ فرمودہ 19جون 1987ءمیں بیان فرمایا:
’’ان کو دعاؤں میں یاد رکھناہمارا فرض ہے۔اُن کے ذکر کو زندہ رکھنا ہمارا فرض ہے۔ اپنی محافل میں بھی اپنے دیگر مشاغل میں بھی ذکر کے ذریعہ ان کو زندہ رکھیں اور دعاؤں کے ذریعہ اُن کی مدد کرتے رہیں کیونکہ وہ ہم سب کا فرض کفایہ ادا کررہے ہیں۔ہم سب کا بوجھ اُٹھا رہے ہیں۔ اللہ ان کی مدد فرمائے اور ان کی مشکلات کو جلد تر دورفرمائے۔اور ان کے لواحقین کا بھی حافظ و ناصر ہو۔آمین ثم آمین۔‘‘

(خط 14مارچ 1986ء)

ایک اور خطبہ جمعہ میں حضوررحمہ اللہ نے فرمایا:
’’ہم تو اُس صاحب جبروت خدا کوجانتے ہیں کسی اور کی خدائی کے قائل نہیں۔ اس لئے احمدیوں کا سران ظالمانہ سزاؤں کے نتیجہ میں جھکے گا نہیں بلکہ اور بلندہوگایہاں تک کہ خدائی غیر ت یہ فیصلہ کرے گی کہ دُنیا میں سب سے زیادہ سر بلندی احمدی کے سر کو نصیب ہوگی کیونکہ یہی وہ سر ہے جو خداکے حضورسب سے زیادہ عاجزانہ طورپر جھکنے والا سرہے۔‘‘

(رجسٹر غیر مطبوعہ خطبات 1986ء مرتبہ مکرم نصیر احمد قمر صاحب)

مکرم محمد الیاس منیر صاحب کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا:
’’کبھی کسی نےموت کی سزا پانے والوں کوبھی ’’ٹافیوں‘‘ کا تحفہ بھجوایا ہے؟ یہ تودیوانہ پن ہےمگر وہ جو زندگی کی بقعہ نور کوٹھری میں مقید ابدی زندگی کےسزوار ٹھہرائے گئے ہیں۔میں انہیں کیوں خوبصورت ٹافیوں کا تحفہ بھیج کراس عزم اور یقین کااظہارنہ کروں کہ تم موت کےلئے نہیں ہمیشہ کی زندگی کےلئے چُنےگئے ہو۔‘‘

(خط 3مئی 1986ء)

ایک اور خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’آپ اور عزیزم نعیم الدین کے خطوط موصول ہوئے یہاں پر فضلوں کی بارشیں ہورہی ہیں ان میں آپ کی قربانیوں کا بڑا دخل ہے۔ یہ بالواسطہ پھل ہے۔آپ لوگوں کی جو عمر عزیزہےہرگز اس کا لمحہ بھی ضائع نہیں ہوگا۔اللہ تعالیٰ جو اجر عطافرمائے گا وہ لامتناہی ہوں گے۔ اس کےمقابل پر یہ تکلیف کچھ بھی نہیں ہوگی۔‘‘

(خط 11نومبر 1986ء)

مکرمہ ناصرہ پروین صاحبہ کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا:
’’آپ نے اپنے بھائی عزیزم الیاس کے بارے میں جن پُر خلوص جذبات کا اظہار کیاہے خدا اُن کو جلد پُورا فرمائے اور ایسی صورت نکل آئے کہ آپ سب کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ اب تو مجھے بھی اپنے یوسف کی تھوڑی تھوڑی خوشبو آنے لگی ہے اور اب اس کی رہائی کا وقت قریب آرہا ہے۔خداایسا ہی کرے۔‘‘

(خط 26فروری 1993ء)

مکرم محمد الیاس منیرصاحب کی اہلیہ کے نام خط میں تحریرفرمایا:
’’اُس دن تم سے اچانک فون پر بات کرکے بہت خوشی ہوئی…ہم سب تمہاری خوشیاں اپنے دلوں میں بسائے مزے کررہے ہیں۔ ایک نشہ کی سی کیفیت طاری ہے۔ وہ دس سال افسانہ ہو گئے۔ جب غموں کو سینےسے لگائے ہوئے تھے۔ فون کے ذریعہ تمہارے گھرلگنے والی مجالس میں شریک ہوکر یوں لگتا تھا کہ میں بھی وہیں تم سب کے ساتھ بیٹھا ہوا ہوں۔لیکن اس طرح کہ تم میں سے کسی کوبھی اُٹھنے کی تکلیف نہیں دی۔‘‘

ضروری نوٹ: اب جو بیٹا پیدا ہو ا اُس کا نام رستگار احمد رکھناہے۔

(خط 19مارچ 1994ء)

مکرم محمد الیاس منیرصاحب کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا:
’’آپ نے جن خیالات کا اظہار اپنے خطوط میں کیا ہے بعینہ یہی کیفیت ہے۔ انسان کے ہاتھوں انسان کے قید ہونے کی تاریخ میں اور پھر اس کی رہائی میں ایساواقعہ کہیں نہیں ہواکہ ساری دُنیا سےلوگوں کو پہلے قید پر غم لگا ہو اور پھر رہائی کی خوشیاں منائی ہوں۔یہ سب اللہ کا احسان ہے۔‘‘

(خط 8مئی 1994ء)

(محمد عمر تماپوری۔ انڈیا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ