• 26 اپریل, 2024

خلاصہ اختتامی خطاب برموقع جلسۂ سالانہ جرمنی مؤرخہ 21؍اگست 2022ء

خلاصہ اختتامی خطاب برموقع جلسۂ سالانہ جرمنی

 امیر المؤمنین سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ الله فرمودہ مؤرخہ 21؍اگست 2022ء بمقام  ایوان مسرور، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یُوکے

اب پوری دنیا خوفناک جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ۔۔بعض جگہ تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں جنگوں کی صورت میں جو تباہی ہونی ہے وہ ایسی خوفناک ہو گی کہ ایک اندازہ  کے مطابق دوران جنگ  اور اِس کے بعد کے دو سالوں میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے دنیا کی چھیاسٹھ فیصدآبادی  صفحہ ہستی سے مِٹ جائے گی، ایسی تباہی و بربادی ہو گی کہ جس کا تصور بھی کوئی نہیں کر سکتا

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا! الله تعالیٰ کا بے حد فضل اور احسان ہے کہ اُس نے دنیا کے آجکل کے حالات کے باوجود جماعت احمدیہ جرمنی کو گزشتہ سال کی نسبت وسیع پیمانہ پراپنا جلسۂ سالانہ منعقد کرنے کی توفیق عطاء فرمائی ہے ۔پہلے Covid کی وباء نے دنیا کو پریشان کیا، ابھی وہ وباء کی پریشانی ختم نہیں ہوئی اور اب جنگوں کی صورتحال نے دنیا کو ایک انتہائی خطرناک موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے، دنیا کا کوئی خطہ بھی اِس متوقع تباہی سے محفوظ نظر نہیں آتا اور جب تک واحد و یگانہ خدا کی طرف رجوع نہیں کریں گے تباہی سے بچ بھی نہیں سکتے۔

یورپ، مغربی اور ترقی یافتہ ممالک کا زعم

پہلے تو یورپ، مغربی ممالک اور ترقی یافتہ ممالک اِس زعم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ جنگوں اور فساد کی صورتحال، علاقوں اور ملکوں کی تباہی کے حالات جہاں پیدا ہوئے یا ہورہے ہیں وہ ہم سے ہزاروں میل دُور اور ہم محفوظ ہیں۔ حالات خراب ہیں، بم پڑرہے ہیں، لوگ مر رہے ہیں، عورتیں بیوہ ، بچے یتیم اور لوگ اپاہج ہو رہے ہیں تو وہ ایشیاء، مشرق وسطیٰ اور غریب ممالک میں ہورہے ہیں، ہمیں کیا فرق پڑتاہے۔ترقی یافتہ ملک غریب ممالک کو اسلحہ فراہم کرتے رہے کہ ہمارا اسلحہ بکتا رہے یہ مرتے ہیں تو مریں ہمیں کیا فرق پڑتا ہے لیکن بھول گئے کہ یہ حالات اِن پر بھی آ سکتے ہیں، اپنی ترقی کے زعم میں اِن کی عقلیں ماری اور آنکھیں اندھی ہو گئیں اور پھر اب سب دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہی ہؤا جس کا خطرہ تھا اور یورپ میں بھی جنگی حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ یوکرین کی وجہ سے روس اور نیٹو آمنے سامنے کھڑے ہیں، الله تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ برتری کس نے آخر میں حاصل کرنی یا دونوں کی طرف کتنا نقصان ہونا ہےلیکن یہ یقینی بات ہے کہ اِس کے نتائج بہت خطرناک ہونے ہیں۔ اگر اب بھی عقل سے کام نہ لیا تو ایک خوفناک تباہی اِس کا انجام ہے، پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اب تائیوان کا معاملہ بھی کھڑا ہو گیا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ پوری دنیا خوفناک جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔

الله تعالیٰ کے فرستادہ زمانہ نے بڑے زور سے تنبیہ کی ہوئی ہے

اے یورپ تُو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیاء تُو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا، مَیں شہروں کو گرتے دیکھتا اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔یہی وہ ارشاد، تنبیہ اور وارننگ ہےجس کی وجہ سے خلفاء احمدیت وقتًا فوقتًا توجہ دلاتے رہے، مَیں بھی ایک عرصہ سے اِس کی طرف توجہ دلا رہا ہوں، یہ بتا رہا ہوں کہ اپنے پیدا کرنے والے واحد و یگانہ خدا کی طرف رجوع نہیں کرو گے تو تباہی یقینی ہے۔ عرصہ سے بتا رہا ہوں کہ بلاک بن رہے ہیں اور اِس کا آخری نتیجہ ایک دوسرے کی تباہی پر منتہج ہو گا، اِس لئے ہوش کرولیکن اکثر لوگ یہ باتے سنتے اور کہہ دیتے کہ حالات کچھ حد تک خراب ہیں ٹھیک ہے لیکن ایسے بھی نہیں جیسا تم خوفناک اور خطرناک حالات کا نقشہ کھینچ رہے ہو۔ لیکن اب یہی لوگ جو اِن باتوں کو سطحی نظر سے دیکھتے تھے خود کہنے لگ گئے ہیں کہ حالات بد سے بد تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور اگر یہی حالات رہے تو کسی وقت بھی خوفناک جنگ کی صورت ہو سکتی ہے۔اب یہ باتیں اِن کے تھنک ٹینک اور تجزیہ نگار عام کہنے لگ گئے ہیں لیکن اِس کے باوجود پائیدار امن کا حل اِن کے پاس نہیں ہے اور ہو بھی کیونکر سکتا ہے یہ کہ امن کے منبع کی طرف اِن کی نظر نہیں ہے، دنیا میں ڈوبے ہوئے اور دین کو بھول چکے ہیں۔جہاں امن کا حل ہے وہاں نہ یہ غیر مسلم اور نہ ہی بد قسمتی سے مسلمان حکومتیں آنا چاہتی ہیں۔

ایسی تباہی و بربادی ہو گی جس کا تصور بھی کوئی نہیں کر سکتا

اب بعض جگہ تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں جنگوں کی صورت میں جو تباہی ہونی ہےوہ ایسی خوفناک ہو گی کہ ایک اندازہ کے مطابق دوران جنگ اور اِس کے بعد کے دوسالوں میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے دنیا کی چھیاسٹھ فیصدآبادی صفحہ ہستی سے مِٹ جائے گی۔

اگر کوئی امید کی کرن اور امن کی ضمانت ہے تو ایک ہی وجود ہے

 پس بہت خوفناک حالات ہیں، ایسے میں اگر کوئی امید کی کرن اور امن کی ضمانت ہے تو ایک ہی وجود ہے جس کو الله تعالیٰ نے امن و سلامتی کی تعلیم کے ساتھ دنیا میں بھیجا تھا، جو شہنشاہ امن اور الله تعالیٰ کو سب انسانوں سے زیادہ پیارا ہے، جس پر الله تعالیٰ کی آخری کامل اور مکمل شریعت اُتری، جس کی تعلیم پیار و محبت کی تعلیم ہے، جس نے اپنے خدا تعالیٰ کے تعلق کی وجہ سے اور اپنے اوپر اُتری ہوئی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے اور دنیا کو تباہی سے بچانے کی فکر اور اُس کے لئے شدید درد محسوس کرنے کی وجہ سے اپنی زندگی ہلکان کر لی تھی۔ اِس حد تک اپنی حالت کر لی تھی اور کرب سے تڑپ کر اور رو، رو کر الله تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ الله تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو فرمایا! لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفۡسَكَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ (الشعرآء: 4) کیا تُو اپنی جان کو اِس لئے ہلاک کر دے گا کہ وہ مؤمن نہیں ہوتے، پس یہ ہے وہ ذات جو انسانیت کے لئے دل میں درد رکھتی تھی کہ لوگ اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کریں اور تباہی سے بچ جائیں، اپنی دنیا بھی بچا لیں اور آخرت بھی۔

اِس سے زیادہ بد قسمتی مسلمانوں کی اور کیا ہو سکتی ہے؟

 ایسی جامع تعلیم آپؐ نے عطاء فرمائی کہ کوئی اورتعلیم اِس کا مقابلہ نہیں کر سکتی، ایسی امن کی ضمانت دی جو دراصل الله تعالیٰ کی دی ہوئی ضمانت ہے لیکن افسوس! مسلمان بھی اِس تعلیم کو بھول گئے اور ایمان کےصرف زبانی نعرے لگا کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوئے ہوئےہیں اور اِس کے لئے غیروں سے مدد کے طالب ہوتے ہیں۔ کلمہ گو، کلمہ گو کو دین کے مخالفین کی مدد سے قتل کر رہے ہیں۔ اِس سے زیادہ بد قسمتی مسلمانوں کی اور کیا ہو سکتی ہے، ایسی خوبصورت تعلیم اور ایسا درد رکھنے والے رسولؐ کی اتباع کا دعویٰ کرنے کے باوجود الله تعالیٰ کی ناراضگی مول لے رہے ہیں اور دنیا میں امن و سلامتی پھیلانے کی بجائے بد امنی پھیلانے کے حوالہ سے مشہور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

پس ایسے لوگ کس طرح اسلام کی تعلیم امن دنیا میں پھیلا سکتے ہیں

یہ سب اِس لئے ہے کہ الله تعالیٰ نے اِس زمانہ میں امن و سلامتی کے بادشاہ اور الله تعالیٰ کے سب سے پیارے کے غلام کو امن و سلامتی کی تعلیم پھیلانے کے لئے دنیا میں بھیجا ہے اُس کی بات بھی سننا نہیں چاہتے اور نہ صرف بات نہیں سننا چاہتے بلکہ اِس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ اِس پر اور اِس کے ماننے والوں پر کفر کے فتوے لگانے اور اُن کو قتل کرنے والے کو اسلام کی خدمت اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا معیار سمجھتے ہیں، احمدیوں کی زندگی سے کھیلنا اُن کے نزدیک کار ثواب ہے۔کاش کہ یہ لوگ عقل کریں کہ اُن کے علماء ، علماء سوء بننے کی بجائے عقل و دانش پھیلانے والے بنیں تاکہ امت واحدہ بن کر دنیا میں تعلیم حضرت محمد رسول اللهؐ پھیلانے والے بن سکیں اور آنحضرتؐ کے غلام صادقؑ کے ساتھ مل کر دنیا کو حقیقی امن و سلامتی کا پیغام پہنچا سکیں۔

امن عالَم کے بارہ میں تفصیلی رہنمائی

بعد ازاں حضور انور ایدہ الله نے آنحضرتؐ کی تعلیم، آپؐ پر اُتری ہوئی شریعت نیز آپؐ کی امن و سلامتی پھیلانے والی تعلیم کے حوالہ سے امن عالَم کے بارہ میں تفصیلی رہنمائی فرمائی۔ ارشاد فرمایا! آنحضرتؐ کی تعلیم اور آپؐ کا اُسوہ تو اِس قدر وسعت رکھے ہوئے ہیں کہ اِس کا احاطہ تھوڑے وقت میں ممکن ہی نہیں۔ جماعت احمدیہ بارہ میں کہا جاتا ہے نعوذ بالله! ہم آنحضرتؐ کی ہتک اور توہین کے مرتکب ہوتے اور اِس کی تعلیم دیتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم آپؐ کی تعلیم پر عمل اور آپؐ سے محبت کرنے والے ہیں، جماعت کا لٹریچر اِس بات کا گواہ ہے۔ ہر سال ہزاروں سعید فطرت لوگ اِس تعلیم اور محبت کو دیکھ کر جماعت احمدیہ مسلمہ میں شامل ہوتے ہیں۔ غیر بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اسلام کی یہ تعلیم تو ایسی پُر اثر ، محبت اور سلامتی پھیلانے والی تعلیم ہے کہ یہی دنیا کے امن کا آج واحد حل ہے۔بہرحال ہمارے مخالفین جو بھی چاہےسوچیں یا کریں، ہمارا کام ہے کہ اگر ہمیں آنحضرتؐ سے سچی محبت ہے تو آپؐ کی تعلیم کو اپنائیں اور دنیا میں پھیلائیں، دنیا کو بتائیں کہ آج دنیا کے امن و سلامتی کا یہی واحد حل ہے۔ پس آؤ اور امن و سلامتی دینے والے اِس عظیم وجود سے جُڑ کر دنیا اور آخرت میں اپنی سلامتی کے سامان کر لو۔پس آنحضرتؐ وہ وجود ہیں جنہوں نے ہمیں خدا تعالیٰ سے ملنے کےراستے دکھائے اور یہی وجود ہے جس پر اُتری ہوئی تعلیم پر عمل کر کے ہم دنیا میں امن و سلامتی پیدا کر سکتے ہیں۔

حقیقی امن عالَم

حضرت المصلح الموعود رضی الله عنہ کے ایک موقع پر بیان فرمودہ مضمون آنحضرتؐ اور امن عالَم سے استفادہ کرتے ہوئے حضور انور ایدہ الله نے بیان کیا کہ یہ تو ہم دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ امن بڑی اہم چیز ہے اور امن کی حالت ہی گھر اور بین الاقوامی سطح پر بھی سکون وسلامتی کی ضمانت ہے اور خواہش بھی رکھتے ہیں کہ ہر سطح پر امن قائم ہو لیکن صرف خواہش امن پیدا نہیں کر دیتی کیونکہ یہاں بھی امن کی خواہش خود غرضی لئے ہوئے ہوتی ہے اور یہی ہم دنیا میں دیکھتے ہیں  جو لوگ امن چاہتے ہیں وہ اِس رنگ میں امن کے متمنی ہیں کہ صرف اُنہیں اور اُن کے قریبیوں یا اُن کی قوم کو امن حاصل رہے ورنہ دوسروں اور دشمنوں کے لئے وہ یہی چاہتے ہیں کہ اُن کے امن کو مٹا دیں ۔ پس اگر اِس اصول کو رائج کر دیا جائے کہ اپنے لئے اور معیار اور دوسرے کے لئے اور تو دنیا میں جو بھی امن قائم ہو گا وہ چند لوگوں کا امن ہو گا ساری دنیا کا نہیں اوراگر ساری دنیا کا امن نہ ہو تو وہ حقیقی امن نہیں کہلا سکتا۔ حقیقی امن تبھی ہو گا جو ذاتی، خاندانی، نسلی ، قومی، ملکی ترجیحات سے بالا ہو کر قائم کرنے کی کوشش کی جائے، ایک مرکزی محور کے حصول کے لئے کی جائے اور یہ اِسی صورت میں ہو سکتا ہے جب انسان اِس بات کی سمجھ اور اِس کا فہم و اِدراک پیدا کر لے کہ میرے اوپر ایک بالا ہستی ہے جو میرے لئے ہی نہیں تمام دنیا کے لئے امن چاہتی ہے، جو میرے گھر اور ملک کے لئے ہی امن نہیں چاہتی بلکہ تمام ملکوں کے لئے امن چاہتی ہے۔ پس آنحضرت صلی الله علیہ و سلم کی تعلیم امن کا نقطۂ محور یہ احساس ہے کہ ایک بالا ہستی مجھے دیکھ رہی ہے جس کے لئے مَیں نے اپنے قول و فعل کو ایک کرنا ہے۔ ہمیشہ اِس اصول پر چلنے کے لئے آپؐ کے بتائے ہوئے اِس سنہری اصول کو سامنے رکھنا ہو گا کہ دوسرے کے لئے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لئے، پس اِس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیشہ یہ سوچ رکھنی ہو گی کہ اگر مَیں صرف اپنے یا اپنی قوم یا صرف اپنے ملک کے لئے امن کا متمنی ہوں تو اِس صورت میں مجھے الله تعالیٰ کی مدد، نصرت اور خوشنودی کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ جب اِس عقیدہ پر انسان قائم ہو جائے کہ الله تعالیٰ کی خاطر سب کچھ کرنا ہے تبھی حقیقی امن قائم ہو سکتا ہے۔

پس آج ہر احمدی کا کام ہے

آخر پر حضور انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا! پس آج ہر احمدی کا کام ہے کہ قرآن کریم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائے، جب ہمارے معیار اِس حد تک جائیں گے کہ قرآن کریم کا ہر حکم اور آنحضرتؐ کا ہر ارشاد ہمارے قول و فعل کا حصہ بن جائے گا تبھی ہم دنیا کو اسلام کا حقیقی پیغام پہنچا سکیں گے، اُنہیں امن کے گُر نہ صرف حقیقی تعلیم پیش کر کے بتائیں گے بلکہ اپنے عمل سے بھی سکھائیں گے اور یہی دنیا میں حقیقی امن قائم کرنے، آنحضرتؐ کو امن عالَم کا عظیم وجود ثابت کرنے نیز اسلام پر اعتراض کرنے والوں کے منہ بند کرنے کا ذریعہ ہے۔ بہرحال آج یہ کام مسیح موعودؑ کی جماعت کے سپرد کیا گیا ہے، اگر ہم نے بھی گھریلو سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اِس کے مطابق اپنا کردار ادا نہ کیا تو ہمارے، ہماری نسلوں اور نہ ہی دنیا کے امن و سلامتی میں رہنے کی کوئی ضمانت ہے۔ الله تعالیٰ ہمیں دنیا کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جانے کا ذریعہ بنائے اور احسن رنگ میں فرض ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

رپورٹ حاضری جلسہ

اختتامی دعا کے بعد حضور انور نے ارشاد فرمایا!  کُل حاضری جلسہ 19 ہزار 782 ہے جس میں مستورات 9 ہزار 482 اور مرد حضرات 10 ہزار 300 نیز اِس کے علاوہ جو دوسرے ذرائع سے لوگ جلسۂ سالانہ کی کاروائی دیکھ یا سن رہے ہیں اُن کی تعداد بھی 40 ہزار سے اوپر ہے۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 اگست 2022

اگلا پڑھیں

عیسیٰؑ کی الوہیت ثابت نہیں ہوتی