• 27 اپریل, 2024

وہ جگہ تمام دنیا کی مساجد کا محور بن گئی

حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی دعا کو تو خدا تعالیٰ نے ایسا قبول فرمایا کہ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ وہ جگہ تمام دنیا کی مساجد کا محور بن گئی اور اس کو اللہ تعالیٰ نے بنانا تھا۔ اور ان دونوں کی ذریت سے وہ عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے جنہوں نے فرمانبرداری اور اطاعت اور عبادت کے بھی نئے اور عظیم معیار قائم کر دئیے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں دعاؤں اور عبادتوں کے معیار قائم کروا دئیے اور پھر ہمیں حکم دیا کہ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (سورۃ الاحزاب: 22) یقینا تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول میں اُسوہ حسنہ ہے۔ اور اُس اُسوہ حسنہ میں ہم نے کیا دیکھا؟ آج مسجد کے حوالے سے مَیں بات کرتا ہوں تو عبادتوں کے جو نئے سے نئے معیار قائم ہو رہے ہیں۔ یہ نہ صرف خود قائم کئے بلکہ صحابہ میں وہ روح پھونک دی کہ جنہوں نے عبادتوں کے نئے سے نئے معیار قائم کئے۔ ایک جگہ جمع ہو کر نماز پڑھنے کے لئے مدینہ میں پہنچ کر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ مسجد کی بنیاد رکھی تاکہ اُمّت کے افراد خدائے واحد کی عبادت کرنے کی طرف متوجہ رہیں۔ ایک جگہ جمع ہو کر سب عبادت کر سکیں۔ پھر دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ مسجدِ نبوی دن رات خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کی آماجگاہ بن گئی اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ پس اللہ کے گھر کی تعمیر کے ساتھ اپنی نسلوں کو خدا تعالیٰ کے ساتھ جوڑنے کی کوشش اور دعا بھی ہونی چاہئے۔ تبھی مسجد کی تعمیر کے مقصد کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ اینٹ، سیمنٹ، لکڑی کے جو ڈھانچے ہیں یہ کھڑے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ پس یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہم کچھ مالی قربانی کر کے مسجد کی تعمیر کر دیں گے تو ہماری ذمہ داری ختم ہو جائے گی۔ مسجد کی تعمیر کی جو بنیادی اینٹ ہے اس سے لے کر چھت تک پہنچنے والی ہر اینٹ جب رکھی جا رہی ہو تو اسے پہنچانے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کا فرض بنتا ہے کہ اس کی آبادی کے لئے بھی دعا کرتے رہیں تا کہ ہمارے دل بھی خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف خالص ہو کر مائل رہیں اور ہماری اولاد کے دل بھی خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف مائل رہیں، ان کو توجہ پیدا ہوتی رہے۔ ایسی مسجدیں بھی ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں مثال دی کہ ان کی بنیاد ہی فساد پر تھی۔ لیکن ہم نے تو وہ مسجد اٹھانی ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر اٹھائی گئی تھی۔ پس مسجد کی بنیاد کی اصل خوشی یہ ہے کہ یہ ہمیں پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والا بنا دے۔ اور جب اس کی تعمیر مکمل ہو تو عبادت کے لئے بے چین دلوں سے یہ بھر جائے۔

پھر اس آیت میں یہ بھی دعا ہے کہ ہمیں اپنی ایسی عبادتوں کے طریق سکھا، ہمیں ایسی قربانیوں کے طریق سکھا جو تیرے حضور مقبول ہونے والی ہیں۔ ہماری عبادتوں کے معیار بھی پہلے سے بڑھتے چلے جائیں۔ اور ہماری قربانیوں کے معیار بھی پہلے سے بڑھتے چلے جائیں۔ پس یہ مسجد، یہاں رہنے والوں پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالنے جا رہی ہے، اگر اس اصل کو پکڑ لیں گے تو ہم اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے فضل سے مقبول ہو جائیں گے۔

(خطبہ جمعہ 17؍ ستمبر 2010ء)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 ستمبر 2020