• 25 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کا مقصد

انبیاء علیہم السلام کی دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کر یں اور اس زندگی سے جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں، نجات پا ئیں، حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد ان کے آگے ہوتا ہے پس اس وقت بھی جو خدا تعالی نے ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرےآنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی یعنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں، اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف رہبری کرتا ہوں۔ دنیا میں لوگوں نے جس قدرطریقے اور حیلے گناہ سے بچنے کے لئے نکالے ہیں اور خدا کی شناخت کے جو اصول تجویز کئے ہیں، وہ انسانی خیالات ہونے کی وجہ سے بالکل غلط ہیں اور محض خیالی باتیں ہیں جن میں سچائی کی کوئی روح نہیں ہے۔ میں ابھی بتاؤں گا اور دلائل سے واضح کروں گا کہ گناہوں سے بچنے کا صرف ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ ہے کہ اس بات پر کامل یقین انسان کو ہوجاوے کہ خدا ہے اور وہ جز اسزا دیتا ہے جب تک اس اصول پر یقین کامل نہ ہو گناہ کی زندگی پر موت وارد نہیں ہوسکتی۔ در اصل خدا ہے اور ہونا چاہیے یہ دو لفظ ہیں جن میں بہت بڑے غور و فکر کی ضرورت ہے۔

پہلی بات کہ خدا ہے، علم الیقین بلکہ حق الیقین کی تہہ سے نکلتی ہے اور دوسری بات قیاسی اور ظنی ہے، مثلاً ایک شخص جو فلاسفر اور حکیم ہووہ صرف نظام شمسی اور دیگر اجرام اور مصنوعات پر نظر کر کے صرف اتنا ہی کہہ دے کہ اس ترتیب محکم اور ابلغ نظام کو دیکھ کر میں کہتا ہوں کہ ایک مدبر اور حکیم علیم صانع کی ضرورت ہے تو اس سے انسان یقین کے اس درجہ پر ہرگز نہیں پہنچ سکتا جو ایک شخص خود الله تعالىٰ سے ہمکلام ہو کر اور اس کی تائیدات کے چمکتے ہوئے نشان اپنے ساتھ رکھ کر کہتا ہے کہ واقعی ایک قادر مطلق خدا ہے وہ معرفت اور بصیرت کی آنکھ سے اسے دیکھتا ہے ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک حکیم یا فلاسفر جو صرف قیاسی طور پر خدا کے وجود کا قائل ہے سچی پاکیزگی اور خداترسی کے کمال کو حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ظاہر بات ہے کہ نری ضرورت کا علم کبھی بھی اپنے اندر وہ قوت اور طاقت نہیں رکھتا جو الٰہی رعب پیدا کر کے اسے گناہ کی طرف دوڑنے سے بچالے،اور اس تاریکی سے نجات دے جو گناہ سے پیدا ہوتی ہے،مگر جو براہ راست خدا کا جلال آ سمان سے مشاہدہ کرتا ہے وہ نیک کاموں اور وفاداری اور اخلاص کے لئے اس جلال کے ساتھ ہی ایک قوت اور روشنی پاتا ہے جو اس کو بدیوں سے بچا لیتی اور تاریکی سے نجات دیتی ہے، اس کی بدی کی قوتیں اور نفسانی جذبات پر خدا کے مکالمات اور پر رعب مکاشفات سے ایک موت وارد ہو جاتی ہے، اور وہ شیطانی زندگی سے نکل کر ملائکہ کی سی زندگی بسر کرنے لگتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارادے اور اشارے پر چلنے لگتا ہے جیسے ایک شخص آتش سوزندہ کے نیچے بد کاری نہیں کر سکتا اسی طرح جوشخص خدا کی جلالی تجلیات کے نیچے آتا ہے اس کی شیطنت مر جاتی ہے اور اس کے سانپ کا سر کچلا جاتا ہے۔ پس یہی وہ یقین اور معرفت ہوتی ہے جس کو انبیا علیہم السلام آ کر دنیا کو عطا کرتے ہیں جس کے ذریعہ سے وہ گناه سے نجات پا کر پاک زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ347تا349 ایڈیشن2016ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 نومبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ