• 24 اپریل, 2024

صاف اور سیدھی بات کیا کرو

اطفال کارنر

تقریر

صاف اور سیدھی بات کیا کرو

اللہ تعالىٰ قرآن کرىم مىں فرماتا ہے۔

ىٰۤاَىُّہَا الَّذِىۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِىۡدًا ﴿ۙ۷۱﴾ ىُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَ ىَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ

 (الاحزاب: 71۔72)

اخلاق حسنہ مىں سچائى اور اخلاق سئىہ مىں جھوٹ آپس مىں ضد ہىں۔ اگر سچائى کو اپناىا جائے تو جھوٹ ترک ہوگا اور اگر جھوٹ چھوڑا جائے تو سچائى جنم لے گى۔ قرآن و احادىث مىں جہاں بھى سچ کواپنانے کا ذکر ملتا ہے وہاں جھوٹ سے بچنے کى تلقىن بھى ملتى ہے۔بلکہ اللہ تعالىٰ نے جہاں شرک کا ذکر فرماىا ہے وہاں جھوٹ سے بچنے کى تلقىن بھى کى ہے کىونکہ اللہ تعالىٰ کا شرک خواہ وہ بت بنا کر کىا جائے ىا کسى غىر دىنى رسم پر قدم مار کر۔ ىہ جھوٹ ہے اور باقى تمام جھوٹ اس کے ذىل مىں آتے ہىں۔ حضرت مسىح موعود علىہ السلام نے بھى شرائط بىعت مىں شرک سے اجتناب کے ذکر کے معاً بعد جھوٹ سے بچنے کا ذکر فرماىا ہے۔

اخلاق حسنہ اپنانے مىں ہمارے پىارے رسول حضرت محمد مصطفىٰ ﷺ ہم سب کے لىے نمونہ ہىں۔ آپ ﷺ ہمىشہ سچ بولتے۔ آپ معاشرہ مىں’’اَلصَّادِق‘‘ کے نام سے ىاد کىے جاتے تھے۔ اىک دفعہ آپﷺ نے اہل قرىش کو مخاطب ہو کر فرماىا اگر مىں کہوں کہ اس پہاڑ کے پىچھے اىک بڑا لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کىا تم ىقىن کر لو گے۔ تمام اہل مکہ نے ىک زبان ہو کر کہا کہ ہاں۔ ہم نے کبھى بھى آپ ﷺ کو جھوٹ بولتے نہىں دىکھا۔ سب سے بڑا دشمن اسلام ابو جہل بھى آپ ﷺ کى سچائى کا معترف تھا۔ وہ برملا اس بات کا اظہار کىا کرتا تھا کہ مىں آپ ﷺ کو جھوٹا نہىں کہتا مگر کىا کروں آپ ﷺ کى تعلىم پر دل نہىں ٹھہرتا۔

پھر صحابہ رسول ﷺ نے اپنے آقاو مولىٰ کى اقتداء مىں سچائى کےعَلم کو بلند رکھا۔ آج کے دور مىں اس عَلم کو از سرِ نو حضرت مسىح موعود علىہ السلام اورآپ کے خلفاء نے بلند کىا۔ اىک دفعہ آپ علىہ السلام نے اىک خط کسى پىکٹ مىں رکھ کر پوسٹ کر دىا جو کہ محکمہ ڈاک کے قواعد کے مطابق نہ تھا۔ آپ کو مقدمہ کا سامنا کرنا پڑا۔ آ پ کے وکىل نے آپ کو مشورہ دىا کہ عدالت مىں کہہ دىں کہ مىں نے نہىں رکھا۔ آپ نے جلالى انداز مىں فرماىا۔ىہ کىسے ہو سکتا ہے۔ مىں نے رکھا ہے اور مجھے محکمہ ڈاک کے قواعد کا علم نہ تھا۔

گھروں مىں آج کل بہت سے خفىف جھوٹ تو بے خىالى مىں بولے جا رہے ہوتے ہىں جىسے دکھاوے کے طور پر،بہلاوے کے طور پر۔ مذاق مىں، کسى کا دل جىتنے کے لىے، افواہ پھىلاتے ہوئے، بہانے کے طور پر، اپرىل فول کے موقع پر گپ شپ لگاتے ہوئے، جىسے باپ گھر مىں ہوتا ہے اور بچوں کو کہہ دىا جاتا ہے کہ جا کر کہہ دو کہ وہ گھر مىں نہىں ہىں۔ موبائل فون پر اکثر جھوٹ بولا جاتا ہے اور کہہ دىا جاتا ہے کہ مىں Out of city ہوں حالانکہ وہ گھر مىں موجود ہوتا ہے۔

آنحضور ﷺ کسى کے گھر موجود تھے کہ مالکہ نے اپنے بىٹے کو بلاىا اور کہا جلدى آؤ! مىں تمہىں کچھ دوں گى۔ آنحضور ﷺ نے کچھ دىر بعد مالکہ سے پوچھا کہ کىا تم نے اپنے وعدہ کے مطابق بچے کو کچھ دىا ہے؟ مالکہ نے ہاں مىں جواب دىا۔ آپ ﷺ نے فرماىا۔ اگر تم اسے کچھ نہ دىتى تو تمہارا شمار جھوٹوں مىں ہوتا۔حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ بنصرہ العزىز فرماتے ہىں:
’’پھر جھوٹ ہے ىہ اتنا عام ہو گىا ہے کہ باتىں کرتے ہوئے بعض لوگوں کو پتا نہىں چلتا کہ جھوٹ کىا ہے اور سچ کىا ہے۔ اور اس جھوٹ کى بىمارى اتنى عام ہو گئى ہے کہ نوجوانوں اور بچوں کو اب اىک خاص مہم کے تحت اس سے بچانا ضرورى ہو گىا ہے۔ جب مذاق مىں بھى آپ اىک دوسرے کے ساتھ غلط بىانى کرتے ہىں تو وہ جھوٹ ہى ہے۔کئى دفعہ مىں کہہ چکا ہوں اس بارہ مىں۔ لىکن سمجھ رہے ہوتے ہىں کہ ہم نے مذاق کىا ہے۔ مذاق مىں بعض دفعہ دوسرے لوگوں کو غلط قسم کے فون کر دىتے ہىں، بعض اى مىل بھىج دىتے ہىں اور بعض دفعہ اىسى حرکتوں سے لوگوں کو پرىشانىوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ جانى نقصان بھى ہو جاتا ہے۔‘‘

 (مشعل راہ جلد5 حصہ دوم صفحہ187۔188)

؎راستى کے سامنے کب جھوٹ پھلتا ہے بھلا
قدر کىا پتھر کى لعلِ بے بہا کے سامنے

(فرخ شاد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 نومبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ