• 25 اپریل, 2024

خطبہ جمعہ20 دسمبر 2019ءبمقام مسجد مبارک اسلام آباد ٹلفورڈ یوکے

بدری صحابی حضرت عتبہؓ بن غزوان کا مزید کچھ ذکر خیر۔ حضرت سعد بن عبادةؓ کی سیرت و سوانح کا دلکش نقشہ

اِن جاں نثارانِ اسلام کی زندگی کاایک ایک واقعہ اِن کی شجاعت اور فدائیت پر شاہد ہے

حضرت عتبہ بن غزوانؓ رسول اللہ ﷺ کے ماہر تیر اندازوں میں سے تھے۔ حضرت عمرؓ نے آپ کو بصرہ کا والی مقرر فرمایا

حضرت سعد بن عبادةؓ سردار اور سخی تھے، تمام غزوات میں انصار کا جھنڈا ان کے پاس رہا، انصار میں صاحب وجاہت اور ریاست تھے

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح ا لخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ20 دسمبر 2019ء کو مسجد مبارک اسلام آباد ٹلفورڈ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو کہ مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ ایم ٹی اےانٹر نیشنل پر براہ راست نشر کیا گیا۔

حضرت عتبہؓ بن غزوان کا ذکرخیر

حضور انور نے فرمایا: گزشتہ خطبہ میں صحابہؓ کے ذکر میں حضرت عتبہؓ بن غزوان کا ذکر چل رہا تھا اور وہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ اس ضمن میں کچھ اور باتیں بھی ہیں جو اب بیان کروں گا۔ آنحضرتﷺ نے سن 2 ہجری میں اپنے پھوپھی زاد بھائی حضرت عبداللہ بن جحشؓ کی قیادت میں ایک سرّیہ نخلہ کی طرف بھیجا۔ حضرت عتبہؓ بھی اس سریہ میں شامل تھے۔ حضور انور نے سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد ؓ سےاس سرّیہ کی تفصیل بیان فرمائی۔ آپ ؓ لکھتے ہیں کہ اِن جاں نثارانِ اسلام کی زندگی کاایک ایک واقعہ اِن کی شجاعت اور فدائیت پر شاہد ہے۔فرمایا :حضرت عتبہ بن غزوانؓ کو غزوہ بدر اور بعد کے تمام غزوات میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرت عتبہ بن غزوان ؓکے دو آزاد کردہ غلاموں خباب اور سعد کو بھی ان کے ساتھ جنگ بدر میں شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرت عتبہ بن غزوانؓ رسول اللہﷺ کے ماہر تیر اندازوں میں سے تھے۔
حضرت عمر ؓنے حضرت عتبہؓ کو ارضِ بصرہ کی سرزمین کی طرف روانہ فرمایا تاکہ وہ اُبُلة مقام کے لوگوں سے لڑیں جو فارس سے ہیں۔ روانہ کرتے ہوئے حضرت عمر ؓنے انہیں فرمایا کہ: تم اور تمہارے ساتھی چلتے جاؤ یہاں تک کہ سلطنت عرب کی انتہا اور مملکت عجم کی ابتدا تک پہنچ جاؤ۔ پس تم اللہ کی برکت اور بھلائی کے ساتھ چلو۔ جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہنا اور جان لو کہ تم سخت دشمنوں کے پاس جا رہے ہو۔ پھر آپ ؓنے فرمایا کہ: میں اُمید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور میں نے حضرت علا بن حضرمی کو لکھ دیا ہے کہ ارفجہ بن حرسمہ کے ذریعہ تمہاری مدد کرے کیونکہ وہ دشمن سے لڑنے میں بڑا تجربہ کار اور فنِ حرب سے خوب واقف ہے۔ پھر حضرت عمر ؓنے فرمایا: پس تم اس سے مشورہ لینا اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا۔ جو شخص تمہاری بات مان لے اُس کا اسلام قبول کرنا اور جو شخص نہ مانے اُس پر جزیہ مقرر کرنا جس کو وہ خود اپنے ہاتھ سے عاجزی کے ساتھ ادا کرے اور جو اس کو بھی نہ مانے تو تلوار سے کام لینا ۔ عربوں میں سے جن کے پاس سے گزرو انہیں جہاد کی ترغیب دینا اور دشمن کے ساتھ ہوشیاری سے برتاؤ کرنا اور اللہ سے ڈرتے رہنا جو تمہارا ربّ ہے۔
حضرت عمر ؓنے حضرت عتبہؓ کو بصرہ کی طرف 800 آدمیوں کے ساتھ روانہ فرمایا تھا۔ بعد میں مزید مدد بھی پہنچائی۔ حضرت عتبہؓ نے اُبُلة مقام کو فتح کیا اور اس جگہ بصرہ شہر کی حد بندی کی۔ آپؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے بصرہ کو شہر بنایا اور اسے آباد کیا۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے جب حضرت عتبہ بن غزوانؓ کو بصرے پر والی مقرر فرمایا تو خریبہ مقام پر وہ ٹھہرے تھے ۔خریبہ فارس کا ایک پُرانا شہر تھا ۔ اس کے پاس جنگِ جمل بھی ہوئی تھی۔ حضرت عتبہؓ نے حضرت عمر ؓکے نام خط میں لکھا کہ مسلمانوں کے لئے ایک ایسی جگہ ناگزیر ہے جہاں وہ سردیوں کا موسم گزار سکیں اور جنگوں سے واپسی پر ٹھہر سکیں۔ حضرت عمر ؓنے انہیں لکھا کہ انہیں ایک ایسی جگہ جمع کرو جہاں پانی اور چراگاہ قریب ہو ،اگر یہ منصوبہ ہے تو جگہ ایسی ہونی چاہئے جہاں پانی بھی موجود ہو اور جانوروں کے لئے چراگاہ بھی ہو۔ اس پر حضرت عتبہؓ نے انہیں بصرہ میں جا ٹھہرایا۔ مسلمانوں نے وہاں بانس سے مکان تعمیر کئے۔ حضرت عتبہؓ نے بانس سے مسجد تعمیر کروائی۔ یہ 14ہجری کا واقعہ ہے حضرت عتبہؓ نے مسجد کے قریب ہی کھلی جگہ پر امیر کا گھر بنوایا۔ لوگ جب جنگ کے لئے نکلتے تو ان بانس سے بنے گھروں کو اُکھاڑتے اور باندھ کر رکھ جاتے اور جب واپس آتے تواسی طرح دوبارہ گھر بناتے۔ بعد میں لوگوں نے وہاں پکے مکان بنانے شروع کئے۔ حضرت عتبہؓ نے مہجن بن ادرة کو حکم دیا جس نے بصرہ کی جامع مسجد کی بنیاد ڈالی اور اسے بانسوں سے تیار کیا۔ اس کے بعد حضرت عتبہؓ حج کرنے کے لئے نکلے اور مجاشع بن وسود کو جانشین ،اپنا قائمقام بنایا اور اُسے فرات کی طرف کُوچ کا حکم دیا اور حضرت مغیرةؓ بن شعبہ کو حکم دیا کہ وہ نماز کی امامت کیا کریں۔ جب حضرت عتبہؓ حضرت عمر ؓکے پاس پہنچے تو انہوں نے بصرہ کی ولایت سے استعفیٰ دینا چاہا ،کہہ دیا کہ اب بڑا مشکل ہے میرے لئے کسی اور کو مقرر کر دیں وہاں کا امیر۔ تاہم حضرت عمر ؓنے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا۔ روایت میں آتا ہے کہ اس پر اُنہوں نے دُعا کی کہ اے اللہ ! مجھے اب اس شہر کی طرف دوبارہ نہ لوٹانا۔ چنانچہ وہ اپنی سواری سے گر پڑے ۔ 17 ہجری میں 57سال کی عمر پا کر بصرہ میں حضرت عتبہؓ نے وفات پائی۔ انہیں پیٹ کی بیماری تھی۔ حضرت عتبہؓ دراز قد اور خوبصورت تھے۔
خالد بن عمیر عدوی بیان کرتے ہیں کہ:حضرت عتبہ بن غزوانؓ نے ہمیں خطاب کیا ،انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا کی پھر کہا اما بعد دنیا نے اپنے ختم ہونے کا اعلان کر دیا ہے اور اس نے تیزی سے پیٹھ پھیر لی ہے یعنی دنیا اب قیامت کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس میں کچھ بھی باقی نہ رہا سوائے اس کے کہ جتنا برتن میں کچھ مشروب رہتا ہے جسے اس کا پینے والا چھوڑ دیتا ہے۔ تم یہاں سے ایک لازوال گھر کی طرف منتقل ہونے والے ہو یعنی یہ زندگی عارضی ہے پس جو تمہارے پاس ہے اس سے بہتر میں منتقل ہو جاؤ ۔ پھر فرمایا : کیا تم تعجب کرتے ہو اور تمہیں بتایا گیا کہ جنت کے دو کواڑوں میں سے ایک کواڑ سے دوسرے کواڑ تک چالیس برس کا فاصلہ ہے اور ضرور اس پر ایک ایسا دن آئے گا کہ وہ لوگوں کی کثرت سے بھر جائے گی۔ میں نے اپنے تئیں دیکھا ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سات میں سے ایک تھا ۔ پھر آپؓ کہتے ہیں مجھے ایک چادر ملی اور اسے پھاڑ کر اپنے اور سعد بن مالکؓ کے لئے دو ٹکڑے کر لئے۔ یہ حالت تھی ہماری کہ پوری طرح ڈھانکنے کے لئے چادر بھی نہیں تھی۔ آدھے کا میں نے اپنے لئے جسم کو لپیٹنے کے لئے آزار بنا لیا اور آدھے کا سعد ؓنے۔ آپؓ نے فرمایا : لیکن آج ہم میں سے کوئی صبح کرتا ہے تو کسی شہر کا امیر ہوتا ہے اور میں اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اپنے نفس میں بڑا سمجھوں اور اللہ کے نزدیک بہت چھوٹا ہوں۔ حالات اب تبدیل ہوگئے ہیں، کشائش پیدا ہو گئی ہے اور اب تم لوگوں کو بہت زیادہ فکر کرنی چاہئے۔
پھر فرمایا : کوئی نبوت ماضی میں ایسی نہیں ہوئی جس کا اثر زائل نہ ہوا ہو حتیٰ کہ اس کا انجام بادشاہت نہ ہو اور تم حقیقت حال جان لو گے اور حکام کا تمہیں ہمارے بعد تجربہ ہو جائے گا۔ آپؓ نے فرمایا کہ: مسلمانوں میں بھی ایسے حالات آ جائیں گے کہ دنیاداری پیدا ہوجائے گی، اس وقت تم دیکھ لینا کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ صحیح ہے لیکن تم لوگ ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ رکھنا ،دین کی طرف توجہ رکھنا، روحانیت کی طرف توجہ رکھنا اور اسی سے جنت میں جانے کے سامان پیدا ہو سکتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا: اگلے جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت سعد بن عبادةؓ۔ آپؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو ساعدة سے تھا ۔ ان کے والد کا نام عبادة بن ظلیم اور والدہ کا نام عمرة تھا جو کہ مسعود بن قیس کی تیسری بیٹی تھیں۔ ان کی والدہ کو بھی نبی کریمﷺ کی بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرت سعد بن عبادةؓ حضرت سعد بن زید اشعلی ؓکے خالہ زاد بھائی تھے جو کہ اہل بدر میں سے تھے۔ حضرت سعدؓ نے دو شادیاں کی تھیں۔ غزیہ بنت سعد جس سے سعید، محمد اور عبدالرحمن پیدا ہوئے اور دوسری فقیہہ بنت عبید جس سے قیس، عمامہ اور سدوس کی پیدائش ہوئی۔مندوس بنت عبادة حضرت سعدؓ بن عبادة کی بہن تھیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کر کے اسلام قبول کیا تھا۔ حضرت سعدؓ بن عبادة کی ایک اور بہن بھی تھیں جن کا نام لیلیٰ بنت عبادة تھا ۔انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کی بیعت کر کے اسلام قبول کیا تھا۔حضرت سعدؓ بن عبادة کی کنیت ابو ثابت تھی۔ بعض نے ان کی کنیت ابو قیس بھی بیان کی ہے جبکہ پہلا قول درست اور صحیح لگتا ہے یعنی ابو ثابت۔ حضرت سعدؓ بن عبادة انصار کے قبیلہ خزرج کے نقیب تھے۔ حضرت سعد بن عبادةؓ سردار اور سخی تھے اور تمام غزوات میں انصار کا جھنڈا ان کے پاس رہا۔ حضرت سعد بن عبادةؓ انصار میں صاحب وجاہت اور ریاست تھے۔ ان کی سرداری کو ان کی قوم تسلیم کرتی تھی۔ حضرت سعد بن عبادة ؓزمانہ جاہلیت میں عربی لکھنا جانتے تھے حالانکہ اس وقت کتابت کم لوگ جانتے تھے ۔وہ تیراکی اور تیر اندازی میں بھی مہارت رکھتے تھے اور ان چیزوں میں جو شخص مہارت رکھتا تھا اس کو کامل کہا جاتا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں حضرت سعد بن عبادةؓ اور ان سے قبل ان کے آباؤ اجداد اپنے قلعہ پر اعلان کروایا کرتے تھے کہ جس کو گوشت اور چربی پسند ہو تو وہ دلیم بن حارثہ کے قلعہ میں آ جائے۔ ہشام بن عروة نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ میں نے سعدؓ بن عبادة کو اُس وقت پایا جب وہ اپنے قلعہ پر آواز دیا کرتے تھے کہ جو شخص چربی یا گوشت پسند کرتا ہے وہ سعدؓ بن عبادة کے پاس آئے یعنی جانوروں کا گوشت ذبح کروا کےتقسیم کرتے تھے۔ میں نے اُن کے بیٹے کو بھی اسی حالت میں پایا کہ وہ بھی اسی طرح دعوت دیتا تھا۔
حضرت سعد بن عبادة ؓنے بیعت ِعقبہ ثانیہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا۔حضور انور نے سیرت خاتم النبیینؐ سے بیعتِ عقبہ ثانیہ کے حالات بیان فرمائے۔جب یہ بیعت ہو چکی تو آپ ﷺنے ان سے فرمایا کہ: موسیٰ نے اپنی قوم میں سے بارہ نقیب چنے تھے جو موسیٰ کی طرف سے اُن کے نگران اور محافظ تھے۔ میں بھی تم میں سے بارہ نقیب مقرر کرنا چاہتا ہوں جو تمہارے نگران اور محافظ ہوں گے اور وہ میرے لئے عیسیٰ کے حواریوں کی طرح ہوں گے اور میرے سامنے اپنی قوم کے متعلق جوابدہ ہوں گے۔ پس تم مناسب لوگوں کے نام تجویز کر کے میرے سامنے پیش کرو۔ چنانچہ بارہ آدمی تجویز کئے گئے جنہیں آپؐ نے منظور فرمایا اور انہیں ایک ایک قبیلہ کا نگران مقرر کر کے ان کے فرائض سمجھا دیئے اور بعض قبائل کے لئے آپؐ نے دو دو نقیب مقرر فرمائے۔ جب نقیبوں کا تقرر ہو چکا تو آنحضرتﷺ کے چچا عباس بن عبدالمطلب نے انصار سے تاکید کی کہ انہیں بڑی ہوشیاری اور احتیاط سے کام لینا چاہئے کیونکہ قریش کے جاسوس سب طرف نظر لگائے بیٹھے ہیں ایسا نہ ہو کہ اس قول و اقرار کی خبر نِکل جائے اور مشکلات پیدا ہو جائیں۔ ابھی غالباً وہ یہ تاکید کر ہی رہے تھے کہ گھاٹی کے اوپر سے رات کی تاریکی میں کسی شیطان کی آواز آئی یعنی کوئی شخص چھپا تھا جاسوسی کر رہا تھا کہ اے قریش! تمہیں بھی کچھ خبر ہے کہ یہاں (نعوذ باللہ) مذمّم اور اس کے ساتھ کے مرتدّین تمہارے خلاف کیا عہدوپیمان کر رہے ہیں۔ اس آواز نے سب کو چونکا دیا مگر آنحضرتﷺ بالکل مطمئن رہے اور فرمایا کہ: اب آپ لوگ جس طرح آئے تھے اسی طرح ایک ایک دو دو ہو کر اپنی قیام گاہوں میں واپس چلے جاؤ۔ عباس بن نضلہ انصاریؓ نے کہا۔ یارسول اللہ! ہمیں کسی کا ڈر نہیں ہے۔ اگر حکم ہو تو ہم آج صبح ہی ان قریش پر حملہ کر کے انہیں ان کے مظالم کا مزہ چکھادیں۔ آپؐ نے فرمایا : نہیں نہیں مجھے ابھی تک اس کی اجازت نہیں ہے۔ بس تم صرف یہ کرو کہ خاموشی کے ساتھ اپنے اپنے خیموں میں واپس چلے جاؤ۔ جس پر تمام لوگ ایک ایک دو دو کر کے دبے پاؤں گھاٹی سے نکل گئے اور آنحضرت ﷺ بھی اپنے چچا عباس کے ساتھ مکہ واپس تشریف لے آئے۔ قریش کے کانوں میں چونکہ بِھنک پڑ چکی تھی کہ اس طرح کوئی خفیہ اجتماع ہوا ہے ،وہ صبح ہوتے ہی اہل یثرب کے ڈیرہ میں گئے اور ان سے کہا کہ آپ کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں اور ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ ان تعلقات کو خراب کریں مگر ہم نے سنا ہے کہ گزشتہ رات محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کے ساتھ آپ کا کوئی خفیہ معاہدہ یا سمجھوتہ ہوا ہے۔ یہ کیا معاملہ ہے؟ اوس اور خزرج میں سے جو لوگ بُت پرست تھے ان کو چونکہ اس واقعہ کی کوئی اطلاع نہیں تھی وہ سخت حیران ہوئے اور صاف انکار کیا کہ قطعاً کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ عبداللہ بن ابی بن سلول بھی جو بعد میں منافقینِ مدینہ کا سردار بنا وہ بھی اس گروہ میں تھا۔ اس نے کہاکہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ بھلا یہ ممکن ہے کہ اہلِ یثرب کوئی اہم معاملہ طے کریں اور مجھے اس کی اطلاع نہ ہو؟ غرض اس طرح قریش کا شک رفع ہوا اور وہ واپس چلے آئے اور اس کے تھوڑی دیر بعد ہی انصار بھی واپس یثرب کی طرف کُوچ کر گئے لیکن اُن کے کُوچ کر جانے کے بعد قریش کو کسی طرح اس خبر کی تصدیق ہو گئی کہ واقعی اہل یثرب نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ کوئی عہدوپیمان کیا ہے جس پر اُن میں سے بعض آدمیوں نے اہل یثرب کا پیچھا کیا۔ قافلہ تو نکل گیا تھا مگر سعد ؓبن عبادة کسی وجہ سے رہ گئے تھے۔ اُن کو یہ لوگ پکڑ لائے اور مکہ کے پتھریلے میدان میں لا کر خوب زدوکوب کیا اور سرکے بالوں سے پکڑ کر اِدھر اُدھر گھسیٹا۔ آخر جبیربن مطعمؓ اور حارث بن حربؓ کو جو سعد کے واقف تھے انہیں اطلاع ہوئی تو انہوں نے ان کو ظالم قریش کے ہاتھ سے چھڑایا۔حضور انور نے فرمایا: حضرت سعد ؓبن عبادة کے تعلق سے ابھی کچھ اور ذکر بھی ہے۔ انشاءاللہ آئندہ خطبہ میں بیان ہو گا۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21دسمبر 2019

اگلا پڑھیں

خطبہ جمعہ سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 29نومبر2019ء بمقام مسجد بیت الفتوح