حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظہر کے وقت ایک نووارد صاحب سے ملاقات کی اور ان کو تاکید کی کہ وہ اپنے والد کے حق میں جو سخت مخالف ہیں دعا کیا کریں انہوں نے عرض کی کہ حضور میں دعا کیا کرتا ہوں۔ اور حضور کی خدمت میں بھی دعا کے لئے ہمیشہ لکھا کرتا ہوں۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ:
’’توجہ سے دعا کرو باپ کی دعا بیٹے کے واسطے اور بیٹے کی باپ کے واسطے قبول ہوا کرتی ہے اگر آپ بھی توجہ سے دعا کریں تو اس وقت ہماری دعا کا بھی اثر ہوگا۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ نمبر502 ایڈیشن1988)
بٹالہ کے سفر کے دوران حضرت اقدس، شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی سے ان کے والد صاحب کے حالات دریافت فرماتے رہے اور نصیحت فرمائی کہ:
’’ان کے حق میں دعا کیاکرو ہر طرح اور حتی الوسع والدین کی دلجوئی کرنی چاہیئے اور ان کو پہلے سے ہزار چند زیادہ اخلاق اور اپنا پاکیزہ نمونہ دکھلا کر اسلام کی صداقت کا قائل کرو۔ اخلاقی نمونہ ایسا معجزہ ہے کہ جس کی دوسرے معجزے برابری نہیں کرسکتے سچے اسلام کا یہ معیار ہے کہ اس سے انسان اعلیٰ درجے کے اخلاق پر ہو جاتا ہے اور وہ ایک ممیز شخص ہوتا ہے شاید خداتعالیٰ تمہارے ذریعہ ان کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے۔ اسلام والدین کی خدمت سے نہیں روکتا۔ دنیوی امور جن سے دین کا حرج نہیں ہوتا ان کی ہر طرح سے پوری فرمانبرداری کرنی چاہئے۔ دل و جاں سے ان کی خدمت بجا لاؤ۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 492 ایڈیشن1988ء)