• 26 اپریل, 2024

خیرات کر اب ان کی رہائی مرے آقا!

26 اکتوبر 1984ء کو علی الصبح مدرسہ جامعہ رشیدیہ کے اساتذہ و طلبہ نے مسجد احمدیہ ساہیوال مشن چوک پر دھاوا بول دیا اور مسجد میں توڑ پھوڑ کرکے مسجد پر لکھا کلمہ طیبہ اور قرآنی آیات مٹائیں تو خادم مسجد نے حفاظتی اقدام کے طور پر ہوائی فائر کیا۔ لیکن حملہ آوروں نے کہا یہ محض پٹاخے ہیں اسے پکڑ لو جس پر خادم مسجد نےحفاظتی نکتہ نظر سے دو فائر کئے جس کے نتیجہ میں دو حملہ آور ہلاک ہوگئے اور باقی حملہ آور فرار ہوگئے۔ تب حکومتی کارندوں اور پولیس اہلکاروں نے چند سرکردہ احمدیوں کی پکڑدھکڑ شروع کی اور گیارہ کے قریب احمدیوں کو پکڑ کر جیل میں محبوس کیا اور ایک جھوٹا مقدمہ بنایا جو تقریباً ساڑھے نو سال تک مختلف عدالتوں میں انصاف کا منتظر رہا اور ہمارے یہ احمدی اسیران راہ مولیٰ مختلف جیلوں میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔احباب جماعت نے ان کی رہائی کے لئے بہت درد دل سے دعائیں کیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ان اسیران کے لئے خود بھی دن رات دعائیں کیں اور احباب جماعت کو بھی دعاؤں کی طرف متوجہ رکھا۔ آپؒ نے اپنی اس التجا کا ذکر ایک دعائیہ نظم میں یوں فرمایا۔

خیرات کر اب ان کی رہائی مرے آقا!
کشکول میں بھر دے جو مرے دل میں بھرا ہے
میں تجھ سے نہ مانگوں تو نہ مانگوں گا کسی سے
میں تیرا ہوں، تُو میرا خدا میرا خدا ہے

ان دعاؤں کے طفیل سب اسیر رہا ہوئے جن میں موت کی سزا سنائے جانے والے دو اسیر بھی رہائی پاکر گھروں کو لوٹے۔

آج بعض ممالک میں جماعت احمدیہ کی مخالفت زوروں پر ہے مختلف جگہوں پر احمدیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنا کر اسیر بنانے کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ بعض مقامات پر ٹارگٹڈ کلنگ (Targeted Killing) بھی ہورہی ہے۔ اس سال ماہ اکتوبر و نومبر میں پاکستان میں چار افراد نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ لہذا دعاؤں پر بہت زور دینے کی ضرورت ہے اور اس شعر کا واسطہ دے کر دعاؤں کی ضرورت ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے بارہا احباب جماعت کو ان شہداء، ان کے اہل خانہ اور اسیران راہ مولیٰ کی رہائی کے لئے دُعا کی تلقین فرمائی ہے۔ ایک موقع پر حضور فرماتے ہیں:
’’پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی آجکل بہت دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں مولویوں اور حکومت کے اہلکاروں کے شر سے محفوظ رکھے۔ وہاں پھر مخالفت کی شدید لہر آئی ہوئی ہے قانون کے محافظ نہ صرف یہ کہ انصاف کو نہیں جانتے بلکہ اس کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور جو مولوی کہتا ہے اس کے پیچھے چل رہے ہیں شاید اپنی جان بچانے کے لئے میرا خیال ہے کہ سیاسی استحکام شاید ان کو اسی طرح مل جائے لیکن یہ ان کی بھول ہے یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہی چیز ان کی تباہی کا ذریعہ بنے گی ہم تو پہلے بھی ان تکلیفوں سے گزرتے رہے ہیں۔ اب بھی ان شاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کی مدد سے گزر جائیں گے لیکن ان کی یہ حرکتیں اگر یہ باز نہ آئے تو ان کی تباہی یقینی ہے۔ پس احمدی آجکل بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ یہ مشکلات دور فرمائے۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق میں بڑھیں خاص طور پر پاکستان میں رہنے والے احمدی، باہر رہنے والے احمدی بھی جو پاکستان سے آئے ہوئے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت جلد آئے اور ان مشکلات سے وہاں کے رہنے والے احمدی چھٹکارا پا سکیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 2اکتوبر 2020ء)

قرآن اور حدیث کی پیشگوئیوں کے مطابق اُخروی زمانہ میں مسیح و مہدی کے پیروکار، قربانیوں کی وہی مبارک تاریخ زندہ کریں گے جو خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ نے قائم کی تھیں۔ سو آج احمدی، اس زندہ و تابندہ تاریخ کو اپنے خونوں اور جسمانی، مالی، عزت و آبرو کی مثالی قربانیوں سے زندہ کررہے ہیں۔ تب ہی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا:

مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مے ان کو ساقی نے پلا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِی

جماعت احمدیہ کی زندہ تاریخ ایسی ہی لازوال اور بے مثال قربانیوں سے گندھی پڑی ہے۔ اس کاآغاز تو خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں حضرت عبدالرحمٰنؓ اور حضرت شہزادہ عبداللطیفؓ کی جان کی قربانیوں سے ہوا اور آج ان دو صحابہ کے نقش قدم پر سینکڑوں کی تعداد میں احمدی دنیا بھر کے مختلف ممالک بالخصوص پاکستان میں اپنی جانوں کا نذرانہ بطور شہادت اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرچکے ہیں اور ابھی بھی یہ مظالم رواں ہیں اور شہادتیں جماعت احمدیہ کے حصہ میں آرہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان شہداء کے خون کو قبول فرمائے اور اس خون کی بدولت نہ صرف ان شہداء کے فیملی ممبرز بلکہ جماعت احمدیہ کو من حیث الجماعت ترقیات وفتوحات عطا فرمائے۔ آمین۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اس مخالفت کو روڑی (فرٹیلائزر) کا نام دیا کرتے تھے کہ جس طرح درختوں، پودوں اور فصلوں کی بڑھوتی اور سرسبزوشاداب رہنے کے لئے کھاد ڈالی جاتی ہے اِسی طرح جماعت احمدیہ بھی تو حضرت محمدﷺ کے باغ کا حصہ ہے اور یہ شہادتیں اور اسیری جماعت کی ترقی اور اس کے flourishing کے لئے کھادکا کام کررہی ہے یہی شہید بھائی عشق ووفا کے کھیتوں کو اپنے خون سے سینچ کر ان باغوں میں سرسبز و شاداب سدا بہار کھیتیاں اُگا رہے ہیں اور یوں اصحاب کہف اور شعب ابی طالب کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔

ہم نے بارہا دیکھا اور ملاحظہ کیا کہ ان دشمنوں اور مخالفین نے اگر کسی خاندان میں سے ایک کی جان لی تو اللہ تعالیٰ نے اس خاندان کو باگھ لگائے اور جماعت دنیا میں پھیلتی چلی گئی۔ خلفاء یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ پوری دنیا میں جماعت کی ترقی اور پھیلاؤ، پاکستان میں مخالفین کے ہاتھوں احمدیوں کی جانی، مالی، عزت و آبرو کی قربانی کا مرہون منت ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

خوں شہیدانِ اُمت کا اے کم نظر!
رائیگاں کب گیا تھا کہ اَب جائے گا
ہر شہادت ترے دیکھتے دیکھتے، پھول
پھل لائے گی، پھول پھل جائے گی
ہے ترے پاس کیا گالیوں کے سوا،
ساتھ میرے ہے تائید ِربّ الورٰی
کل چلی تھی جو لیکھو پہ تیغ ِدعا،
آج بھی، اِذن ہو گا تو چل جائے گی
دیر اگر ہو تو اندھیر ہرگز نہیں،
قول اُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْن
سنت اللہ ہے، لاجرم بالیقیں،
بات ایسی نہیں جو بدل جائے گی
یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا، پھیلتی
جائے گی شش جہت میں سدا
تیری آواز اے دشمن بد نوا!
دو قدم دور دو تین پل جائے گی

(کلام طاہر ایڈیشن 2004ء صفحہ 15۔16)

جہاں تک اسیران راہ مولیٰ کی قربانیوں کاتعلق ہے۔ انہوں نے (جن میں دو خلفاء احمدیت بھی شامل ہیں) 130 سالہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں قربانیوں کی ایک تابناک تاریخ رقم کی ہے۔ اسیران کی قربانیوں کی تاریخ جو 1984ء سے شروع ہوئی بہت لمبی ہے۔ اسیران نے قیدوبند کی یہ صعوبتیں اللہ کی رضا اور اسلام و احمدیت کی محبت میں برداشت کیں اور ابھی بھی بعض جگہوں پر برداشت کررہے ہیں۔ انہوں نے ہتھکڑیوں کو اپنے ہاتھوں کا زیور قرار دیا۔ انہوں نے خدا کی راہ میں دُکھ اٹھائے، کلمہ طیبہ کی خاطر، اس کی حفاظت کی خاطر، اس کی عزت و ناموس کے لئے بڑی بڑی تکالیف اٹھائیں۔ اکثر و بیشتر جگہوں پر یہ اسیران اپنے اہل خانہ اور بچوں کو تسلی دیتے دکھائی دیئے اور باوجود تکالیف و مصائب کے اپنے بچوں کے حوصلے بڑھائے۔

ان اسیران پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہامی شعر صادق آتا ہے:

گر قضا را عاشقے گردَد اسیر
بوسد آں زنجیر را کز آشنا

کہ اگر قضائے الہٰی سے عاشق قید ہوجاتا ہے تو وہ اُس زنجیر کو چوم لیتا ہے جس کا سبب آشنا ہے۔

(درثمین فارسی)

پس آج ہر احمدی کو اسیروں کی رستگاری کا موجب بنتے ہوئے ان باوفا اور باصفا شہیدوں اور اسیران کے لئے بہت دعائیں کرنی چاہئیں۔ جنہوں نے مصائب کو برداشت کیا اور اپنے صدق کا نمونہ دکھایا، قیدو بند میں ہمارے لئے دعائیں کرتے رہے۔ آج ہم پر بھی لازم ہے کہ ہم بھی راتوں کو ان کی خاطر جاگیں اور ان کی رہائی کے لئے دعائیں کریں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 1990ء کے جلسہ سالانہ برطانیہ کی اختتامی اجتماعی دعا سے قبل فرمایا:
’’ان (شہداء اور اسیران) کی یادوں کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ شہداء کو خدا تعالیٰ نے زندہ قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شہداء قوموں کی زندگی کے ضامن ہوا کرتے ہیں۔ جو قومیں اپنی زندگی کو بھول جائیں وہ کیسے زندہ رہ سکتی ہیں۔ پس شہدائے احمدیت بھی زندہ ہیں اور اسیران راہ مولیٰ بھی آزاد ہیں …… پس ان روحوں کو بھی یاد رکھو جو قید کی آزاد روحیں ہیں۔ اپنے شہیدزندوں کو بھی یاد رکھو۔ جہاں تک بس چلتا ہے خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری جاری رکھو۔ خداتعالیٰ ان کی تکلیفوں کو دور کرے اور ہمارے دُکھ ٹال دے۔‘‘ آمین

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’وہ کرامت جو خدا کا جلال اور چمک اپنے ساتھ رکھتی ہے اور خدا کو دکھلا دیتی ہے وہ خدا کی ایک خاص نصرت ہوتی ہے جو اُن بندوں کی عزت زیادہ کرنے کے لئے ظاہر کی جاتی ہے جو حضرت احدیت میں جان نثاری کا مرتبہ رکھتے ہیں جب کہ وہ دنیا میں ذلیل کئے جاتے اور اُن کو برا کہا جاتا اور کذاب اور مفتری اور بدکار اور لعنتی اور دجال اور ٹھگ اور فریبی ان کا نام رکھا جاتا ہے اور اُن کے تباہ کرنے کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں تو ایک حد تک وہ صبر کرتے اور اپنے آپ کو تھامے رہتے ہیں۔ پھر خدا تعالیٰ کی غیرت چاہتی ہے کہ اُن کی تائید میں کوئی نشان دکھاوے تب یکدفعہ اُن کا دل دکھتا اور ان کا سینہ مجروح ہوتا ہے تب وہ خداتعالیٰ کے آستانہ پر تضرعات کے ساتھ گرتے ہیں اور ان کی درد مندانہ دعاؤں کا آسمان پر ایک صعب ناک شور پڑتا ہے اور جس طرح بہت سی گرمی کے بعد آسمان پر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بادل کے نمودار ہوجاتے ہیں اور پھر وہ جمع ہوکر ایک تہہ بہتہ بادل پیدا ہوکر یکدفعہ برسنا شروع ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی مخلصین کے دردناک تضرعات جو اپنے وقت پر ہوتے ہیں رحمت کے بادلوں کو اُٹھاتے ہیں اور آخر وہ ایک نشان کی صورت پر زمین پر نازل ہوتے ہیں۔ غرض جب کسی مرد صادق ولی اللہ پر کوئی ظلم انتہا تک پہنچ جائے تو سمجھنا چاہئے کہ اب کوئی نشان ظاہر ہوگا۔‘‘

(رازِ حقیقت، روحانی خزائن جلد14 صفحہ157-158)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 دسمبر 2020