• 1 مئی, 2024

اب بعض متفرق باتیں جو جلسہ کے تعلق میں ہیں میں کہنا چاہتا ہوں …

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس جو مہمان آ رہے ہیں اس نیک مقصد کے لئے آئیں اور اگر کوئی سہولت میسر آ جائے اور آرام سے یہ دن کٹ جائیں توخداتعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے یہ سامان مہیا فرما دئیے۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بغیر اجر کے کسی نیکی کو جانے نہیں دیتا تو آپ کے یہاں آنے کے مقصد کو ضائع نہیں کرے گا اور بے شمار فضل اور رحمتیں نازل ہوں گی۔

ایک حدیث میں آتا ہے۔ ایک دعا ہے جو آنے والے مہمانوں کو پڑھتے رہنا چاہئے۔ حضرت خولہؓ بنت حکیم بیان کرتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص کسی مکان میں رہائش اختیار کرتے وقت یا کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے وقت یہ دعا مانگے کہ اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّمَا خَلَقَ یعنی میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں اور اس شر سے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے پناہ چاہتا ہوں۔ تو اس شخص کو یہاں کی رہائش ترک کرنے یا اس جگہ سے کوچ کرنے تک کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی۔

(مسلم کتاب الذکرباب التعوذ من سوء القضاء ودرک الشقاء وشرہ)

یہ دعائیں پڑھتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہر آنے والے کو ہر شر سے بچائے اور نیک اثرات لے کر یہاں سے جائیں اور نیک اثرات چھوڑ کر جائیں۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جلسے پر آنے والے مہمانوں کو یہ مقصد پیش نظر رکھنا چاہئے کہ آپس میں محبت و اخوت پیدا ہو تو اس بات میں جو تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی ہے اس کا بھی اس روایت سے اظہار ہوتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ کون سا اسلام سب سے بہتر ہے۔ فرمایا ضرورت مندوں کو کھانا کھلاؤ اور ہر اس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے، سلام کہو۔

(صحیح بخاری کتاب الایمان باب اطعام الطعام من الاسلام)

تو جب اس طرح سلام کا رواج ہو گا تو آپس میں محبت بڑھے گی۔ اور ان شاء اللہ تعالیٰ جب آپ ایک دوسرے کو سلام کر رہے ہوں گے، ہر طرف سلام سلام کی آوازیں آ رہی ہوں گی تو یہ جلسہ محبت کے سفیروں کا جلسہ بن جائے گاکیونکہ محض للہ یہ سب عمل ہو رہاہو گا تو اللہ کے پیار کی خاص نظر بھی آپ پرپڑ رہی ہوگی۔ اس لئے ان دنوں میں خاص طور پر عورتیں بھی، بچے بھی، مرد بھی سلام کو بہت رواج دیں۔ کیونکہ اس سے ایک تو محبت بھی آپس میں بڑھے گی اور پھر اسلام کا صحیح نمونہ بھی پیش ہو رہاہو گا جو غیروں کو بھی نظر آ رہا ہو گا۔

اب بعض متفرق باتیں جو جلسہ کے تعلق میں ہیں میں کہنا چاہتا ہوں جو مہمانوں، میزبانوں، ڈیوٹی والوں ہر ایک کے لئے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مسجد میں اور مسجد کے ماحول میں اس کے آداب اور تقدس کا خیال رکھیں۔ مسجد فضل میں جب یہاں سے جائیں گے وہاں بھی کافی رش ہوتا ہے۔

جلسہ کے دنوں میں یہ مارکی بھی مسجد کا ہی متبادل ہے بلکہ یہ پورا علاقہ یعنی جلسہ گاہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق وہی نظارے نظر آنے چاہئیں جو ایک ایسے پاکیزہ مقدس ماحول میں ہونے چاہئیں۔ جہاں صرف اللہ اور اس کے رسول کی باتیں ہو رہی ہوں، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی باتیں ہو رہی ہوں۔

جلسہ کے ایام ذکر الٰہی اور درود شریف پڑھتے ہوئے گزاریں اور التزام کے ساتھ بڑی باقاعدگی کے ساتھ توجہ کے ساتھ نماز باجماعت کی پابندی کریں۔

نمازوں اور جلسے کی کارروائی کے دوران بچوں کی خاموشی کا بھی انتظام ہونا چاہئے۔ ڈیوٹی والے بھی اس چیز کا خاص خیال رکھیں اور مائیں اور باپ بھی اس کا بہت خاص خیال رکھیں اور ڈیوٹی والوں سے اس سلسلے میں تعاون کریں۔ جو جگہیں بچوں کے لئے بنائی گئی ہیں وہاں جا کے چھوٹے بچوں کو بٹھائیں تاکہ باقی جلسہ سننے والے ڈسٹرب نہ ہوں۔

جلسہ کے دوران اگر کسی غیر از جماعت مہمان کی تقریر آپ سنیں، اس میں سے آپ کو کوئی بات پسند آئے اور اس کو خراج تحسین دینا چاہتے ہوں تو اس کے لئے تالیاں بجانے کی بجائے جو ہماری روایات ہیں اللہ اکبر کا نعرہ لگانا۔ ماشاء اللہ وغیرہ کہنا ایسے کلمات ہی کہنے چاہئیں کیونکہ تالیاں بجانا ہمارا شعار نہیں ہے۔ ہماری اپنی بھی کچھ روایات ہیں اور ان کا خیال رکھنا چاہئے۔ یہاں پر بھی اور دنیا میں جہاں جہاں جلسے ہوتے ہیں انہیں روایات کا خیال رکھنا چاہئے۔

نعروں کے ضمن میں یاد رکھیں کہ ہر کوئی اپنی مرضی سے نعرے نہ لگائے بلکہ انتظامیہ نے اس کے لئے پروگرام بنایا ہوا ہے، نعرے لگانا کچھ لوگوں کے سپرد کیا ہوا ہے۔ وہی جب نعرے لگانے کی ضرورت محسوس کریں گے تو نعرے لگا دیں گے۔ لیکن بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو اگر نعرے نہ لگ رہے ہوں تو تقریر کے دوران نیند آ جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے پھر نعروں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بے وجہ نعرے لگاتے جائیں تو نظم یا تقریر جو ہو رہی ہوتی ہے بعض دفعہ اس کا مزا نہیں رہتا۔ ایسے لوگ جن کو نیند آ رہی ہو خاموشی سے ساتھ والا ان کو ٹھوکا مار کر جگا دیا کرے۔

(خطبہ جمعہ 30؍جولائی 2004ء)

پچھلا پڑھیں

اعلان برائے خصوصی شمارہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 دسمبر 2021