• 15 مئی, 2024

دیارِ مسیح قادیان کا دینی سفر

دیارِمسیح قادیان کا دینی سفر
123 ویں جلسہ سالانہ قادیان 2014ء کے یاد گار لمحات

21 دسمبر 2014ء کو تیس احباب و خواتین پر مشتمل ہمارا قافلہ صبح چار بجے درود شریف استغفار اور دعاؤں کا ورد کرتے ہوئے آزاد کشمیر سے 123 ویں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لیے عازم قادیان ہوا۔ پروگرام کے مطابق خدام نے قافلہ کو اپنی نگرانی میں واہگہ بارڈر تک پہنچا دیا۔ واہگہ بارڈر پر ڈیوٹی پر مامور احبابِ جماعت نے والہانہ استقبال سے رونق بڑھائی۔ خدام نے سامان اتارا اور کیمپ پہنچے۔ جہاں مسیح موعودؑکے لنگر سے آلو کی بھجیا اور حلوہ سے ناشتہ کیا اور چائے نوش کی۔ اس پُرتکلف ناشتہ کرنے سے دل سے دعائیں نکل رہی تھیں۔ انتظامیہ اور ان احبابِ جماعت کے لیے جو اتنی مستعدی سے چوبیس گھنٹے کام اور مہمانوں کی خدمت میں مصروف تھے۔ دفتری کاروائی کے بعد سارا قافلہ دیگر احبابِ جماعت کے ساتھ پاکستان کے پسنجر ٹرمینل سے کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد واہگہ بارڈر کراس کر کے انڈیا میں داخل ہوا۔ ان کی شٹل سروس انڈین پسنجر ٹرمینل پر لے گئی۔ دفتری کاروائی اور کاغذات چیک ہونے کے بعد جب باہر نکلے تو قادیان کے خدام نے خوش آمدید کہا اور ساتھ ہی مسیح موعودؑ کے لنگر سے تواضع کی اور ساتھ ہی کھڑی گاڑیوں کے لیے ٹکٹ حاصل کیے اور سوار ہو کر قادیان کے لیے روانہ ہو گئے۔ تمام قافلہ والوں کے دل حمد سے مسرور تھے۔ اس لیے کہ صرف تین چار احباب کے علاوہ تمام قافلہ والے قادیان دیارِ مسیح موعودؑ میں ہونے والے جلسہ سالانہ میں پہلی مرتبہ شمولیت کرنے جا رہے تھے۔ جس کے لیے حضرت مسیح موعودؑنے فرمایا ہے کہ ’’اس جلسہ کو معمولی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لیے قومیں تیار کی ہیں۔ جو عنقریب اس میں آ ملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ341)

یہ قافلہ امرتسر اور پھر بٹالہ پہنچا۔ بتانا مشکل ہے کہ یہ لمحات کس قدر بے چینی اوراضطراب میں گزر رہے تھے کہ قادیان پہنچیں۔ بٹالہ پہنچنے پر تاریخی اوراق آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگے کہ ہم واقعی اسی بٹالہ میں ہیں جہاں سے عاشقانِ مسیح موعودؑریلوے اسٹیشن پر اتر کر پیدل یا پھر تانگہ پر سوار ہو کر دیارِمسیح میں حضرت موعودؑکی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے تھے۔ آج ہم قافلہ والے بھی اسی بٹالہ سے گزر رہے تھے اور دل سے دعائیں نکل رہی تھی۔ قادیان سے چند کلومیٹر دور فاصلہ سے مینارة المسیح نظر آیا یہ نظارہ دیکھتے ہی بے اختیار دل سے دعائیں نکلنا شروع ہو گئیں اور ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ ہم نئی دنیا میں آ گئے ہیں۔ تقریباًساڑھے چار بجے ہماری بس قادیان کی بستی میں جا ٹھہری۔ استقبالیہ کی جانب سے نعرہ ہائے تکبیر اور جلسہ سالانہ قادیان زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج اٹھی یہ منظر دیکھ کر دل میں شکر کے جذبات ابھرنے لگے اور آنکھیں اشکبار ہو گئیں کیونکہ ناچیز نے تیس اکتیس سال بعد پہلی مرتبہ یہ نظارہ آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا۔ جو ربوہ میں دیکھتے تھے کس قدر ہم محرومیت کا شکار ہیں۔ یہ منظر دیکھتے ہی حضرت مسیح موعودؑ کا یہ شعر زبان پر جاری ہو گیا۔

اب دیکھتے ہو کیسا رجوعِ جہاں ہوا
اک مرجعِ خواص یہی قادیاں ہوا

قادیان کے خدام نے خوب دل کھول کر اللہ اکبر کے نعروں سے خوش آمدید کہہ کر دل کو گرما دیا۔ استقبالیہ کیمپ سے پھر ہم اسی بس کے ذریعہ سرائے طاہر پہنچے۔ سرائے طاہر میں احبابِ جماعت جبکہ نصرت گرلز کالج میں مستورات کا قیام تھا۔ خدام نے جگہ دکھائی اور بستر لگا دیئے۔ نماز سے فارغ ہو کر رجسڑیشن کروائی۔ کمپیوٹرائزڈ کارڈ سے اپنے سینوں کو سجایا ۔قیام سرائے طاہر میں تھا۔ صبح نماز تہجد کی ادائیگی کے لیےدیارِمسیح موعودؑ کا رخ کیا۔ بیت الفکر میں پہنچ کر دو رکعت نوافل ادا کیے اور مولا کریم کا شکر ادا کیا جس نے ہمیں دیارِمسیح موعودؑ تک پہنچنے کی توفیق عطاء فرمائی۔ زیرِ لب دعاؤں میں مصروف بیت الریاضت میں بھی دعاؤں کا موقع ملا۔ سانسوں کی تیزی چشم پُر آب سے بیت الدعا میں جانے کی باری آئی۔ پہنچ کر جسم اور دل پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی کہ وہاں سے نکلنے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ ناچار چشم پُر آب مسجد مبارک میں پہنچ کر نماز تہجد با جماعت ادا کرنے کا موقع ملا۔ فجر کی نماز مسجد اقصیٰ میں ادا کی۔ درس قرآن کریم سے مستفیض ہونے کے بعد باہر صحن میں نکلے مینارة المسیح کا نظارہ قریب سے کیا جس کی روشنی سارے قادیان کو منور کر رہی تھی۔ ساتھ ہی حضرت مسیح موعودؑ کے والد ماجد کی قبر کی زیارت کی۔ زیرِ لب دعاؤں اور درود شریف کا ورد کرتے ہوئے دارالمسیح سے باہر نکل کر بہشتی مقبرہ کی زیارت کے لیے چل پڑے۔ بہشتی مقبرہ میں حضرت اقدسؑ کے مزار پر پہنچتے ہی دل کے سب بندھن ٹوٹ گئے آنکھوں سے زارو قطار ساون بھادوں کی جھڑی جو رُ کنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا سلام پہنچایا۔ دعا کرنے کا خوب موقع ملا۔ مزا رِ مبارک کے ساتھ وفا کے پروانوں کے مزار پر بھی دعائیں کی جنہوں نے عشق ِمسیح موعودؑمیں گھر بار لٹایا اور قادیان میں ایسی دھونی رمائی کہ پھر قادیان کے ہی ہو کر رہ گئے۔ ان تمام وفا کے پروانوں جو خلیفہ وقت کی ندا پر قادیان میں ڈٹ گئے تھے ان کی بلندی درجات کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعائیں نکلیں۔

ہمارا یہ قافلہ 21 دسمبر 2014 ء کو قادیان پہنچ گیا تھا۔ اس لیے 26 دسمبر سے قبل قادیان کے مقدس مقامات کی زیارت ، دفاتر اور دیگر تاریخی مقامات دیکھنے کا خوب موقع ملا اور مقدس مقامات میں بار بار جانے اور دعائیں کرنے کا موقع ملتا رہا۔ ان مقدس مقامات میں بیت الدعا، بیت الریاضت، بیت الفکر، حجرہ جہاں سرخ چھینٹوں والا نشان ظاہر ہوا۔ دالان حضرت اماں جانؓ، دار المسیح، تاریخی کنواں ، تائی صاحبہ والا کنواں، گول کمرہ، دیوار والی جگہ جو حضرت مسیح موعودؑ کے چچا زاد بھائیوں نے مسجدمبارک جانے سے روکنے کے لیے بنوائی تھی۔ مسجداقصیٰ، مقام خطبہ الہامیہ، مینارة المسیح، مہمان خانہ، حضرت خلیفة المسیح الثا لثؒ، حضرت خلیفةالمسیح الرا بعؒ کی جائے پیدائش اور جائے رہائش، قدیم ڈیوڑھی، جس سے نکلتے ہوئے اس انگریز آفیسر کا سر ٹکرایا جو بغیر کسی نوٹس کے اچانک پنڈت لیکھرام کے قتل کے متعلق دار المسیح کی تلاشی کے لیے آیا۔ ڈھاب والی جگہ جس کا ذکر حضرت مسیح موعودؑنے رسالہ الوصیت میں کیا ہے۔ بہشتی مقبرہ ، مقام بیعت اولیٰ، شہ نشین، مکان حضرت اماں جانؓ، کمرہ جہاں جنازہ سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ کا تابوت مبارک رکھا گیا۔ کوٹھی دارالسلام، تعلیم الاسلام کالج، مسجد نور، نور ہسپتال (نیا اور پرانا) لنگر خانہ حضرت مسیح موعودؑ، حضرت مسیح موعودؑکا آبائی قبرستان ، بیت الظفر ، بیت الرحمت ، بیت الفضل، احمدیہ محلّہ، مسجد انوار ، سرائے طاہر، یادگاری گیٹ خلافت جوبلی ، گیسٹ ہاؤس لجنہ اماء اللہ، ماریشس گیسٹ ہاؤس، آسٹریلیا گیسٹ ہاؤس، احمدیہ بورڈنگ، بورڈنگ تحریک جدید (موجودہ خالصہ ہائی سکول) قادیان ریلوے اسٹیشن، احمدیہ لائبریری، نمائش قرآن اور تصویری نمائش جس میں رفقائے حضرت مسیح موعودؑ کی تصاویر دیکھنے کا موقع ملا۔ انجمن احمدیہ کے دفاتر، خدام الاحمدیہ کے دفاتر، سرائے وسیم، سمرقند ہاؤس اور دیگر دفاتر، جدید لنگر خانہ روٹی پلانٹ جس میں آٹا گوندھنےسے لے کر روٹی پکنے تک کا تمام عمل بذریعہ مشین (پلانٹ) ہوتا ہے۔ سلسہ کے نظاروں سے تشنہ آنکھوں کی پیاس تھی کہ بجھنے کا نام نہ لیتی تھی۔

26دسمبر 2014ء بروز جمعة المبارک جلسہ کا آغاز ہوا۔ جلسہ گاہ نئی جگہ پر بنائی گئی تھی۔ جہاں 2005ء میں حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قادیان تشریف لائے تھے اور جلسہ منعقد ہوا تھا۔ وسیع و عریض جلسہ گاہ، جلسہ گاہ کے انتظامات یہ تمام وہ چیزیں تھیں جو روحانی پیاسوں کی تسکین کا موجب تھی۔ جن کے لیے روحانی پیاسے تاریخ مقررہ تک پہنچنے کے لمحات کس قدر بے چینی اور اضطراب میں گزار رہے ہوتے ہیں۔ دس بجے صبح پرچم کشائی ہوئی دعا کے بعد فضا نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھی۔ تلاوت ،نظم کے بعد افتتاحی خطاب و دعا مکرم مولانا محمد انعام غوری ناظر اعلی ٰقادیان نے کی۔ دعا کے ساتھ ہی سہ روزہ جلسہ کا آغاز ہوا۔ نماز جمعتہ المبارک جلسہ گاہ میں ادا کی گئی۔ پھر جلسہ سالانہ کے تینوں ایام میں روح پرور اور ایمان افروز تقاریر سے استفادہ کرتے رہے۔ جلسہ پر مذہبی رواداری کا وہ عظیم الشان مظاہرہ دیکھا جو صرف اور صرف جماعت احمدیہ کا ہی طرہ امتیاز ہے۔ پیار، محبت اور یگانیت کا عملی نمونہ انہی کا ورثہ ہے۔ جلسہ سے نہ صرف اکابرین جماعت نے بلکہ دیگر مذاہب ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر سر کردہ شخصیات نے بھی خطاب کیا اور جماعت کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ بھارت کے علاوہ 37 ممالک کے نمائندوں نے جلسہ سالانہ میں اپنے ملکوں کی نمائندگی کی۔ جلسہ میں سب ایک دوسرے سے ایسے مل رہے تھے جیسے مدتوں بچھڑے مل رہے ہوں اور اس کا اظہار نہ صرف زبان سے بلکہ خوشی سے کِھلتے چہروں سے بھی دکھا ئی دے رہا تھا۔ 28 دسمبر بروز اتوار سہ پہر مکرم محمد انعام غوری ناظر اعلیٰقادیان نے تمام شاملین جلسہ کا شکریہ ادا کیا اور اختتامی دعا کروائی۔ اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا لندن سے براہِراست اختتامی خطاب تھا جو مردانہ اور زنانہ جلسہ گاہ میں لگی بڑی سکرین پر سنا اور دیکھا گیا۔ خطاب کے آخر پر حضورپُرنور نے اجتماعی دعا کروائی عجیب سماں تھا کہ قادیان کے نعرے لندن میں اور لندن سے لگائے جانے والے نعرے قادیان میں سنے جا رہے تھے۔ جلسہ کے ایام میں دھند بھی رہی بادل جھکے رہے اور سخت سردی میں عشاق حضرت مسیح موعودؑ نہایت صبرو وقار سے اس جلسہ کی کاروائی سنتے رہے۔ جنہوں نے جلسہ نہیں دیکھا ان کی چشم تصور اس کا نظارہ کرنے سے قاصر ہے۔ جلسہ دیکھنے کی ایک یہ چیز ہوتی ہے کہ روحانی بھوکے سیر ہو کر گھروں کو لوٹتے ہیں۔ اے کاش ! یہ دن اور یہ جلسے بار بار آئیں جو ہماری اولادوں کو یاد رہ سکیں۔ ہمارے سنانے سے نہیں سمجھ سکتے کہ جلسہ کیا کیا برکات لے کر آتا ہے۔ کاش! یہ فضائل ہماری اولادیں دیکھیں اور آئندہ نسلوں کو ان کا آنکھوں دیکھا حال سنانے کے قابل ہوں۔

اس طرح یہ خالص دینی جلسہ حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کو جو اس للہی جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لیے آپ نے کیں سمیٹتے ہوئے اختتام پذیر ہوا۔ قادیان میں تو مدتوں رہنے کو جی کرتا ہے اور عرصہ دراز سے بچھڑے ہوئے رشتہ داروں سے ملنے کو آنکھیں ترستی ہیں لیکن وہ دن بھی آ گیا کہ مسکراتے چہروں کے ساتھ آنے والے مہمان نمناک آنکھوں کے ساتھ رخصت ہونے لگے جن میں قادیان کے علاوہ جموں وکشمیر، راجوری، چار کوٹ ، کوٹلی کالا بن اور دیگر علاقے شامل ہیں کثیر تعداد میں جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے تھے اور ایک لمبے عرصے کے بعد ان کے چہروں کی زیارت نصیب ہوئی۔ اس طرح ہم سب کے لیے یہ جلسہ ہر رنگ میں یاد گار اور باعث برکت اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کا باعث بنا۔ اے خدا! تو ہمارے گناہ معاف کر دے۔ ہمیں پھر وہ دن عطا فرما کہ ہم دوبارہ جلسہ سالانہ پر اپنے پیاروں کی زیارت کر سکیں۔ دس روز برکات کے سایہ میں وقت گزار کر جماعتی احکامات کی تعمیل میں مورخہ 31 دسمبر 2014ء کو واپس آنا پڑا۔

بیٹھ کر دار المسیح کے سایہ میں سوچا کے
یہ سعادت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے

(محمود احمد اختر)

پچھلا پڑھیں

اعلان برائے خصوصی شمارہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 دسمبر 2021