بر صغیر کی تقسیم کے ساتھ اگست 1947ء میں پاکستان اور ہندوستان دو الگ الگ ممالک کی صورت میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی۔ جماعت احمدیہ نے تحریک پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح کا ساتھ دیا اور تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لیا۔ جماعت کا مرکز قادیان دارالامان ضلع گورداسپور میں واقع تھا۔ صوبہ پنجاب کی تقسیم کے دوران ضلع گورداسپور مشرقی پنجاب میں آکر ہندوستان کا حصہ بن گیا۔یوں جماعت احمدیہ کو اپنے مرکز سے ہجرت کرنا پڑی۔ جماعت کا عارضی مرکز لاہور ٹھہرا اور پھر نئے مرکز کے قیام کے لئے مناسب جگہ کی تلاش حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایات کے مطابق شروع ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نےجماعت کو ضلع جھنگ تحصیل چنیوٹ میں دریائے چناب کے کنارے سرگودھا اور فیصل آباد کے درمیان ربوہ کی زمین عطا کر دی جو حکومت سے خرید لی گئی۔
نئے مرکز ربوہ کی افتتاحی تقریب 20؍ستمبر 1948ء کو ہوئی۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس روز بعد نماز ظہر ابراہیمی دعاؤں کے ساتھ نئے مرکز ربوہ کا افتتاح فرمایا۔ یہ افتتاحی تقریب موجودہ فضل عمر ہسپتال والی جگہ پر ہوئی اور جس مقام پر حضرت مصلح موعودؓ نے نماز ظہر پڑھائی تھی وہاں بعد میں مسجد یادگار تعمیر کی گئی۔
ربوہ کی پہلی عارضی یا کچی مسجد
ربوہ کی افتتاحی تقریب کے بعد یہاں کی آبادکاری کا آغاز ہوا۔ شروع میں کچے مکانات اور کچے بازار تعمیر ہوئے اور پھر باقاعدہ نقشہ جات کی منظوری اور ٹاؤن پلاننگ کے مطابق مستقل رہائشی منصوبے، مساجد اور دفاتر سلسلہ کی تعمیر شروع ہوئی۔
عارضی قصر خلافت، حضرت اماں جان کی رہائش گاہ اور عارضی کچی مسجد کی تعمیر موجودہ دارالصدر جنوبی اور اس کے ارد گرد کی گئی۔ ایوان محمود سے دارالصدر غربی کو جانے والی یادگار روڈ ابتدائی کچی اور عارضی آبادی کا مرکز تھی۔ اسی روڈ پر یادگار حضرت اماں جان تعمیر شدہ ہے جو کہ حضرت اماں جان کے مکان کی نشاندہی کرتا ہے۔ حضرت اماں جان کی وفات اسی مکان میں 1952ء میں ہوئی تھی۔ اس مکان کے آگے مشرق کی طرف حضرت مصلح موعودؓ اور بیگمات کے گھر تھے اور اس سے آگے ریلوے لائن کی طرف کچی مسجد تعمیر کی گئی جس میں حضرت مصلح موعودؓ نے مسجد مبارک کی تعمیر اور نئے قصر خلافت میں منتقلی سے پہلے نمازیں پڑھائیں۔ (حضرت مصلح موعودؓ 19؍ستمبر 1949ء کو مستقل رہائش کےلئے لاہور سے ربوہ تشریف لائے تھے اور ربوہ میں پہلا جمعہ آپ نے 30؍ستمبر 1949ء کو پڑھایا تھا۔) یہ عارضی مسجد جو کچی تھی یہ پہلی مسجد تھی لیکن یہ مستقل نہ تھی۔ اس کچی مسجد کے بارہ میں دو بزرگان جنہوں نے اس میں نمازیں پڑھیں ان کی روایات بیان کرتا ہوں۔
استاذی المحترم سیدمیر محمود احمد ناصر صاحب سے ان کے بیٹے سید غلام احمد فرخ صاحب کے ذریعہ میں نے کچی مسجد کے حوالے سے دریافت کیا تو آپ نے بتایا کہ عارضی کچی مسجد کا کوئی نام نہیں تھا یہ حضرت اماں جان کے گھر (چوک یادگار دارالصدر جنوبی) سے آگے ریلوے لائن کی طرف بنائی گئی تھی جو قصر خلافت کے ساتھ ہی تھی۔ اس مسجد میں پرائمری سکول بھی قائم کیا گیا تھااور بسا اوقات سکول کے بچے حضرت مصلح موعودؓ سے شرف مصافحہ بھی حاصل کرتے تھے۔محترم و معظم میر صاحب نے اس مسجد سے متعلق اپنا ایک واقعہ بھی بیان کیا کہ ایک بار مؤذن اذان دیکر چلا گیا اور میں مسجد میں تھا کہ تھوڑی ہی دیر بعد حضرت مصلح موعودؓ اکیلے مسجد تشریف لے آئے۔ کافی دیر تک ہم دونوں ہی مسجد میں تھے۔ پھر دوسرے نمازی آئے تو حضرت مصلح موعودؓ نے نماز پڑھائی۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ اذان کے بعد کچھ وقفہ کے بعد نماز کے لئے آتے تھے لیکن اس روز جلد تشریف لے آئے۔
کچی مسجد اور اس میں پرائمری سکول کے حوالے سے دوسری روایت محترم مرزا نصیر احمد صاحب چٹھی مسیح مربی سلسلہ و استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ کی ہے۔ آپ اس کچی مسجد کے پرائمری سکول کے طالب علم رہے ہیں۔ آپ مجھ سے بیان کرتے ہیں کہ میں 1951-52ء میں اس کچی مسجد کے پرائمری سکول میں چوتھی جماعت میں پڑھتا رہا ہوں۔ ہمیں ماسٹر تاج دین صاحب فاضل پڑھایا کرتے تھے۔ سکول کی کلاسز ظہر کی نماز سے پہلے ختم ہو جاتی تھیں اور پھر نمازیں ہوتی تھیں۔ کچی اور عارضی مسجد کی سمت اور ہیئت کا تذکرہ کرتے ہوئے مرزا نصیر احمد صاحب چٹھی مسیح نے مجھے بتایا کہ حضرت اماں جان کے گھر کے مشرق کی طرف پہلے آپ کا ورانڈہ تھا پھر صحن۔ اس صحن کے بعد ایک گلی تھی اس کے بعد قصر خلافت تھا اور اس کے بعد ریلوے لائن کی طرف کچی مسجد تھی۔ اس مسجد کا ہال چھوٹا ہی تھا مسجد محمود کے ہال کے قریب یا اس سے کچھ چھوٹا ہو گا لیکن اس کا صحن کافی بڑا تھا اور صحن کی کچی دیواریں تقریباً دو دو فٹ اونچائی کی تھیں۔
مرزا نصیر احمد صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ انہی ایام میں ایک کچی مسجد کرنل مرزا داؤد احمد صاحب کی کوٹھی (دارالصدر غربی قمر) کے سامنے ریلوے لائن کی طرف بھی تھی جہاں اب مکانات بنے ہوئے ہیں۔ یہ چوک بن جاتا تھا یہاں کچے بازار کے لوگ بھی نماز پڑھنے آتے تھے۔ آپ بتاتے ہیں کہ قصر خلافت کے آگے مغرب کی طرف دارالصدر جنوبی و دارالصدر غربی قمر ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ کچا بازار بنا ہوا تھا۔ اس بازار کی چار دکانیں انہیں ابھی تک یاد ہیں جن میں حضرت مولوی غلام رسول صاحب صحابی کی دودھ دہی کی دکان، داؤد جنرل سٹور، نعمت اللہ خان پٹھان کی دکان اور سیلون ٹی سٹال شامل ہیں۔
مکرم حنیف احمد محمود ایڈیٹر الفضل آن لائن بیان کرتے ہیں کہ اس قصر خلافت کا کچھ حصہ اس زمین میں شامل ہوا جس کو خاکسار کے ابا مکرم چوہدری نذیر احمد سیالکوٹی مرحوم نے خریدا اور ریلوے لائن کی جانب پلاٹ کے آخری حصہ کو قبلہ رخ کھدائی کریں تو ابھی بھی پتھروں کی بنیاد ملتی ہے۔ آج کل یہاں مریم ہسپتال قائم ہے۔
مسجد یادگار ربوہ
مسجد یادگار ربوہ کو بعض لوگ ربوہ کی پہلی مسجد سمجھ لیتے ہیں لیکن یہ درست نہیں۔ نئے مرکز سلسلہ ربوہ کے افتتاح کے موقع پر 20؍ستمبر 1948ء بروز پیر (دوشنبہ) حضرت مصلح موعودؓ نے جس مقام پر نماز ظہر پڑھائی جس میں 250 کے قریب افراد شامل تھے (افتتاحی تقریب کے وقت کل موجود لوگوں کی فہرست جو 619 احباب پر مشتمل تھی تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 460 تا 472 میں شائع شدہ ہے) اس مقام پر دس سال بعد مسجد کی تعمیر عمل میں آئی،اس مسجد کو مسجد یادگار کا نام دیا گیا۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد 21؍مارچ 1958ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے مسجد مبارک قادیان سے لائی گئی ایک اینٹ سے رکھا جس پر حضرت مصلح موعودؓ نے دعا کی تھی۔ مسجد یادگار اس وقت احاطہ فضل عمر ہسپتال میں واقع ہے۔ یہ مسجد محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کی نگرانی میں تعمیر ہوئی۔
ربوہ کی پہلی مستقل مسجد۔مسجد مبارک
مسجد مبارک ربوہ کی پہلی مستقل مسجد ہے جس کا سنگ بنیاد حضرت مصلح موعودؓ نے ابراہیمی دعاؤں کے ساتھ صحابہ اور بزرگان سلسلہ اور افراد جماعت کی کثیر تعداد کی موجودگی میں 3؍اکتوبر 1949ء کو بعد نماز عصر بروز دوشنبہ بمطابق 9؍ ذی الحجہ کے مبارک دن رکھا تھا۔
مسجد مبارک نئے مرکز سلسلہ میں تعمیر ہونے والی پہلی مستقل عمارت تھی۔ یوں سر زمین ربوہ کی مستقل آبادکاری کا آغاز مسجد کی تعمیر کے ساتھ ہوا۔ تقریب سنگ بنیاد کی تاریخ طے شدہ تھی اور اس کا اعلان الفضل میں کر دیا گیا لہٰذا دور نزدیک کی جماعتوں سے ایک کثیر تعداد اس مبارک تقریب میں شرکت کے لئے پہنچ گئی۔
تقریب سنگ بنیاد کے لئے حضرت مصلح موعودؓ اسی روز لاہور سے ربوہ پہنچے تھے۔ اس تقریب کی تفصیلی رپورٹ تاریخ احمدیت جلد 14 اور روزنامہ الفضل 6، 8، 19؍اکتوبر 1949ء کے شماروں میں شائع شدہ ہے۔ تقریب کے مختصر کوائف ہدیہ قارئین کئے جا رہے ہیں:
حضرت مصلح موعودؓ 19؍ستمبر 1949ء کو ربوہ میں مستقل رہائش کے لئے پہنچے تھے۔ اس وقت مسجد مبارک کی جگہ کی نشاندہی ہو چکی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ جب اس مجوزہ جگہ میں داخل ہوئے تو تین بکرے اہل ربوہ کی طرف سے صدقہ کئے گئے تھے اسی طرح جب حضور اپنے گھر داخل ہونے لگے تو دو بکرے صدقہ کئے گئے۔
تقریب سنگ بنیاد کے لئے عصر کا وقت مقرر کیا گیا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اسی مقام پر نماز عصر پڑھائی جہاں سنگ بنیاد رکھا جانا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت کے مطابق تقریب سنگ بنیاد کے لئے 7 صفیں / لائنیں بنائی گئیں:
(1)صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صف (2)خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نرینہ افراد کی صف (3)واقفین زندگی کی صف (4)امراء جماعت اور ناظران سلسلہ کی صف (5)مہاجرین قادیان کی صف (6)خاندان مسیح موعودؑ کی خواتین مبارکہ کی صف (7)صحابیات و مہاجرات قادیان کی صف
حضرت صاحب کی ہدایت تھی کہ اینٹ سیمنٹ کی تغاریاں ان صفوں سے ہوتے ہوئے حضرت صاحب تک پہنچائی جائیں گی اور اس دو ران احباب دعائیں دہراتے جائیں گے۔ چنانچہ عصر کی نماز کی ادائیگی کے بعد تمام احباب اپنی اپنی مذکورہ بالا صفوں میں پہنچ گئےاور پھر دست بدست حضور کی خدمت میں اینٹ سیمنٹ کی تغاریاں پہنچائی گئیں۔ ہر صف سے تین اینٹیں پہنچائی گئیں گویا یہ 21 اینٹیں بنیاد میں رکھی گئیں اور اس کے علاوہ دو اینٹیں مسجد مبارک قادیان کی اینٹوں سے بھی لگائی گئیں یوں کل 23 اینٹیں بنیاد میں رکھی گئیں۔ سنگ بنیاد کے دوران حضرت مصلح موعودؓ ابراہیمی دعائیں دہراتے جاتے اور شرکاء تقریب بھی ان دعاؤں کا ورد کرتے رہے۔ سنگ بنیاد کے بعد حضور نے دعا کروائی اور اس کے بعد آپ نے ایمان افروز خطاب فرمایا جس میں آپ نے احباب جماعت کو اس کی تعمیر میں حصہ لینے کے لئے مالی تحریک بھی فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی تعمیر پر تیس پینتیس ہزار روپیہ خرچ ہو گا میں نے اپنی طرف سے 21 روپے نقد اور پانچ سو روپے کا وعدہ کیا ہے۔پھر آپ نے خاندان کے افراد کے وعدے بعض دیگر افراد و جماعتوں کے وعدے بھی بیان فرمائے۔ اس موقع پر نقد اور وعدہ جات کا میزان سترہ ہزار روپے سے اوپر نکل گیا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے خطاب کے بعد وہیں نماز مغرب پڑھائی اور آخری رکعت میں ابراہیمی دعاؤں کو دہرایا۔ نماز کے بعد یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔ اس مبارک تقریب میں شریک خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مردوں کی تعداد 10 اور خواتین مبارکہ کی تعداد بھی 10 تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی ایک بڑی تعداد اس میں شریک ہوئی چنانچہ الفضل 19؍اکتوبر 1949ء میں 69 صحابہ مسیح موعودؑ کی فہرست شائع شدہ ہے جو اس مبارک تقریب میں شامل تھے۔ ان کے علاوہ 88 واقفین زندگی اور 6 امراء جماعت بھی شریک تھے۔کل دو ہزار کے قریب افراد اس مبارک تقریب میں شامل ہوئے۔
مسجد مبارک ربوہ کی تعمیر اور افتتاح
مسجد مبارک ربوہ میں تعمیر ہونے والی پہلی باقاعدہ عمارت ہے جس کا باقاعدہ نقشہ منظور کروا کر کام کا آغاز ہوا۔ اس کا نقشہ مکرم حفیظ الرحمان صاحب ہیڈ ڈرافٹس مین نے تیار کیا تھا۔ ان کا بیان ہے کہ میں 14؍جولائی 1949ء کو ربوہ آیا اور میرے سپرد دفتر تعمیرات کی پلاننگ برانچ کی گئی یعنی صدر انجمن اور تحریک جدید کی تمام پختہ عمارات کے نقشہ جات کے ڈیزائن تیار کرنا میرے ذمہ لگایا گیا۔ سب سے پہلا نقشہ مسجد مبارک کا تیار کیا گیا۔ ایک کچے کمرے میں گیس کی روشنی میں رات کے وقت محترم قاضی عبدالرحیم بھٹیؓ کی ہدایات کی روشنی میں نقشہ تیار کیا۔ پھر یہ نقشہ منظوری کے لئے بھجوایاگیا اور ڈپٹی کمشنر مسٹر بٹر نے اس پر منظوری کے دستخط کئے۔
(تاریخ احمدیت جلد14 صفحہ31)
مسجد مبارک کی تعمیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابی حضرت قاضی عبدالرحیم بھٹی صاحبؓ کی نگرانی میں مکمل ہوئی۔مسجد مبارک ایک رنگ میں مارچ 1951ء میں مکمل ہو گئی تو حضرت مصلح موعودؓ نے جمعہ سے افتتاح فرمادیا۔ مسجد کی تعمیر اگست 1951ء میں مکمل ہوئی اور مینار بعد میں بنے۔
(تاریخ احمدیت جلد14 صفحہ31)
23؍مارچ جو کہ تاسیس جماعت احمدیہ کا مبارک دن ہے۔ 1951ء کی 23؍مارچ کو جمعہ کا دن تھا اور جماعت کی شوریٰ بھی ہو رہی تھی۔ اس مبارک روز حضرت مصلح موعودؓ نے مسجد مبارک ربوہ میں پہلا جمعہ پڑھا کر اس کا افتتاح فرمایا۔ افتتاح سے قبل آپ نے سجدہ شکر ادا کیا اور حضور کی اقتداء میں احباب جماعت نے بھی سجدہ شکر ادا کیا۔
حضرت مصلح موعودؓ مسجد مبارک ربوہ میں پہلے جمعہ کے لئے تشریف لائے تو آپ نے خطبہ جمعہ سے قبل فرمایا:
’’خطبہ شروع کرنے سے پہلے میں دوستوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ پہلی مستقل مسجد ہے جو ہجرت کے بعد ربوہ میں بنی ہے اور جیسے قادیان میں ہمارے گھر کے پاس ایک مسجد تھی جسے چھوٹی مسجد یا مسجد مبارک کہتے تھے اُسی طرح یہ مسجد بھی قصرِخلافت کے پاس بنائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اَور مسجد بھی بنائی جائے گی جو جامع مسجد ہو گی اور مجلس شوریٰ کے اجلاس بھی اس میں ہوا کریں گے۔ چونکہ ایک مستقل مسجد میں آنے کا یہ پہلا موقع ہے جسے خداتعالیٰ اور اسلام کے نام کو بلند کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اس لیے ضروری تھا کہ اس کا افتتاح کرنے سے قبل بطور شکرانہ نوافل ادا کیے جاتے لیکن یہ موقع ایسا نہیں کہ صحیح اور منظّم طور پر نوافل ادا کیے جا سکیں۔ اس لیے میری خواہش ہے کہ ہم افتتاح سے پہلے خداتعالیٰ کے حضور بطور شکرانہ ایک سجدہ کر لیں کہ اس نے ہمیں ربوہ میں پہلی مستقل مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی اور یہ کہ وہ ایک رنگ میں مکمل کر لی گئی ہے۔‘‘
(خطبات محمود جلد32 صفحہ48)
مسجد مبارک سرزمین ربوہ کی پہلی باقاعدہ مسجد ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے دور خلافت میں یہیں نماز اور جمعہ پڑھاتے۔ خلافتِ ثالثہ میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر ہوئی۔ مسجد اقصیٰ کی تکمیل سے قبل حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ مسجد مبارک میں ہی جمعہ پڑھاتے رہے اور پھر اس کی تکمیل کے بعد نماز جمعہ وعیدین مسجد اقصیٰ میں شروع ہوگئے۔
مسجد مبارک میں تین خلفاء نے نماز پڑھائیں اور ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلافت سے قبل مسجد مبارک میں ہی نمازوں کی ادائیگی کے لئے تشریف لایا کرتے تھے۔خلفاء کرام نے یہاں مجالس عرفان بھی منعقد کیں۔
مسجد مبارک ربوہ کو یہ بھی تاریخی اعزاز حاصل ہے کہ یہاں 1965ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ اور 1982ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کے انتخاب خلافت کی کاروائی عمل میں آئی تھی۔
خلافتِ رابعہ میں مسجد مبارک کی توسیعی منصوبہ کا کام کیا گیا جس کے نتیجہ میں اس کی وسعت میں دوچند سے بھی زیادہ اضافہ ہوگیا۔مسجد مبارک ربوہ کو اب بھی کئی لحاظ سے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کی میزبانی کے علاوہ یہاں ایک عرصہ تک مرکزی جلسہ ہائے سیرةالنبیؐ ، یوم مسیح موعودؑ، یوم مصلح موعودؓ اور یوم خلافت منعقد ہوتے رہے۔ شوریٰ کے موقع پر بھی یہ مرکزی مسجد کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اعلانات نکاح اور نماز جنازہ بالخصوص موصیان کے جنازوں کے لئے بھی یہ لوگوں کی ترجیح ہوتی تھی۔ اسی طرح حالات کی موافقت تک رمضان المبارک کے ایام میں مسجد مبارک ایک مرکزی مسجد کا کردار ادا کرتی تھی۔ جہاں فجر کے بعد درس حدیث، ظہر یا عصر کے بعد درس القرآن اور عشاء کے بعد نماز تراویح کا اہتمام ہوتا اور آخری عشرہ میں ایک محدود تعداد یہاں اعتکاف کی سعادت بھی حاصل کرتی تھی۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ حالات پلٹا کھائیں اور پھر سے مرکز احمدیت ربوہ کی رونقیں بحال ہوجائیں اور اس کے ساتھ مسجد مبارک سے وابستہ روحانی و علمی برکتوں سے احباب جماعت مستفیض ہوسکیں۔ آمین۔
(ایم۔ایم۔طاہر)