• 26 اپریل, 2024

ہومیوپیتھی پر توجہ

خلفاء سلسلہ کی ہومیوپیتھی پر توجہ اور اس کی ترویج کے لئے احسانات

خلافت احمدیہ کی برکت اور توجہ سے ہومیوپیتھی کا مستقبل ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا ہے

اب ضرورت ہے کہ واقفین نو اور واقفاتِ نو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خواہش پر لبیک کہتے ہوئے ہومیوپیتھی کے عظیم الشان نظامِ شفاء کے ذریعہ خدمت خلق کےمیدان میں ٹریننگ کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں

حضرت مصلح موعودؓ کے احسانات جماعت پر ہی نہیں ساری دنیا پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک ہومیوپیتھی کی ترویج واشاعت بھی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اُس وقت جماعت میں ہومیوپیتھی کو رواج دینا شروع کیا جب دنیا اس کو چھوڑ رہی تھی۔

ہو میوپیتھی یوں تو 18 ویں صدی کے آخر میں باقاعدہ دریافت ہو چکی تھی لیکن اسے مقبولیتِ عام انیسویں صدی کے آخر سے لے کر بیسویں صدی کے آغاز تک حاصل ہوئی۔ انٹی بائیوٹکس کی دریافت اور پھر ان کی بےحد مقبولیت کے بعد جب دنیا کی ہومیو پیتھی سے توجہ ہٹ رہی تھی اس وقت حضرت مصلح موعودؓ اِس طریقہ علاج کو جماعت میں متعارف فرمارہے تھے۔

اسی حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’مجھے ہومیوپیتھک کا شوق ہے اور میں محض خدمت خلق کے طور پر بیس سال سے مفت علاج کر رہا ہوں اور میرے کتب خانہ میں اتنی کتابیں ہیں جو بڑے بڑے ڈاکٹروں کے کتب خانوں میں بھی نہیں۔‘‘

(تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1958ء)

جیسا کہ الہٰی بشارتوں میں تھا کہ وہ نور ہوگا۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اوریہ کہ وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا، سیّدنا حضرت مصلح موعود ؓ کی عظیم الشان خداداد بصیرت نے یہ پرکھ لیا تھا کہ یہ طریقۂ علاج خداتعالیٰ کے عطا کردہ قدرتی مدافعتی نظام کو ہی استعمال کرتا ہے۔ مدافعتی نظام وہ immune system ہے جو اللہ تعالیٰ نے کروڑ ہا سالوں کے ارتقائی عمل سے گزار کر ہمیں عنایت کیا اور یہ ایک صدی یا دو صدیوں کے لئے نہیں بلکہ تا قیامت آنے والی تمام ممکنہ بیماریوں سے حفاظت اور شفا کے لئے عطا فرمایا ہے۔

ہومیوپیتھی کی دریافت سے لے کر اب تک گزشتہ سوا دوسو سالوں میں 10 ہزار سے زائد ہومیوپیتھک دوائیں مٹیریا میڈیکا کا حصّہ بنیں لیکن اِن میں سے ایک بھی نہ تو ban ہوئی اور نہ ہی مسترد۔ بلکہ ہر آنے والا دن اِن دواؤں کے چھپے ہوئے خواص مزید نکھار کر ظاہر کرنے والا ہوتا ہے۔

مثلاً کروٹیلس (Crotalus) ایک ہومیوپیتھک دوا ہے جو ایبولہ بیماری کے علاج کے لئے مقبول ہے یہ ایبولہ (Ebola) وائرس کی دریافت سے بھی کوئی ڈیڑھ سو سال پہلے ہومیوپیتھک مٹیریا میڈیکا کا حصّہ بنی۔ 1837ء میں اِس کی پرووِنگ شروع کرنے والے ڈاکٹرہیرنگ (Hering) نے اِس کے جو اثرات ریکارڈ کئے وہ اب بھی پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ ایبولہ بیماری (Ebola Virus Disease) کی علامات پڑھ رہے ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ یورپ اور امریکہ میں شائع ہونے والی نہائیت ہی اعلیٰ ہومیوپیتھک کتب منگوا کر مطالعہ فرماتے رہے۔ جن میں سے چند اب بھی خلافت لائبریری کی زینت ہیں۔ یورپ کے آخری سفر کے دوران مختلف یورپین ہومیو پیتھس کے ساتھ تبادلہ خیال بھی فرماتے رہے اِن ہومیوپیتھس میں سوئٹزرلینڈ کے مشہور ڈاکٹر شَمِٹ (Pierre Schmidt) بھی شامل تھے۔

حضرت مصلح موعودؓ ایک ہومیو پیتھک ہسپتال تعمیر کروانا چاہتے تھے اور اس کی عمارت کے لئے نقشے بھی حضور نے پسند فرما لئے تھے۔

(رپورٹ الفضل فورم۔ 15دسمبر1997ء مطبوعہ روزنامہ الفضل 17 دسمبر 1997ء)

حضرت مصلح موعودؓ کی یہ خواہش دورِخلافت رابعہ میں طاہر ہومیوپیتھک ہاسپٹل اینڈ ریسرچ انسیٹیٹوٹ کی صورت میں پوری ہوئی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے مسلسل 50 برس انتھک محنت اور جدوجہد سے ہومیوپیتھی کے ذریعے خدمتِ انسانیت کو انتہا تک پہنچا دیا تھا۔حضور ؒ ہومیوپیتھی میں اپنی دلچسپی کے آغاز کے سلسلے میں فرماتے ہیں۔

’’ہومیوپیتھی میں میری دلچسپی کے اسباب کی داستان دلچسپ ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان بننے کے ابتدائی سالوں کی بات ہے کہ مجھے بار بار سر درد کے دورے پڑا کرتے تھے جسے انگریزی میں میگرین (Migraine) اور اُردو میں دردِ شقیقہ کہتے ہیں۔ یہ بہت شدید درد ہوتا ہے جس کے ساتھ متلی، قے اور اعصابی بے چینی بہت ہوتی ہے۔ میں کئی کئی دن اس بیماری میں مبتلا رہتا تھا ۔ علاج کے طور پر اسپرین استعمال کرتا جس کی وجہ سے معدہ کی جھلی اور گردوں پر برا اثر پڑتا اور دل کی دھڑکن بھی تیز ہو جاتی۔

میرے والد مرحوم ایک ایلوپیتھک دوا سینڈول (Sandol) اپنے پاس رکھا کرتے تھے جس کی انہیں خود بھی ضرورت پڑتی تھی۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد یہ دوا پاکستان میں نہیں ملتی تھی بلکہ کلکتہ سے منگوانی پڑتی تھی۔ اس سے مجھے جلد آرام آجاتا ۔
ایک دفعہ جب مجھے سردرد کی شدید تکلیف ہوئی تو حضرت ابا جان مرحوم کے پاس سینڈول موجود نہ تھی اس لئے آپ نے اس کی بجائے کوئی ہومیوپیتھک دوائی بھجوا دی۔ مجھے اس وقت ہومیوپیتھی پر کوئی یقین نہیں تھا لیکن تبرکاً میں نے یہ دوا کھا لی۔ مجھے اچانک احساس ہوا کہ درد بالکل ختم ہو گیا ہے اور میں بے وجہ آنکھیں بند کئے لیٹا ہوں۔ اس سے پہلے کبھی کسی دوا کا مجھ پر ایسا غیر معمولی اور اتنا تیز اثر نہیں ہوا تھا۔‘‘

’’اس کے بعد ایک اور واقعہ ہومیوپیتھی میں میری دلچسپی کا موجب یہ بنا کہ جب میری شادی ہوئی تو میری اہلیہ آصفہ بیگم (رحمہا اللہ) کو ایک پرانی تکلیف تھی جس کا انہوں نے مجھ سے ذکر کیا ۔ حضرت ابا جان کے پاس ہومیوپیتھی کی کتابیں بہت تھیں، میں نے سوچا کہ ان میں کوئی دوائی ڈھونڈتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ایسا تصّرف ہوا کہ پہلی کتاب کو جس جگہ سے میں نے کھولا وہاں ایک دوائی نیٹرم میور (Natrum mur) کی جو علامات درج تھیں وہ با لکل وہی تھیں جو آصفہ بیگم نے بتائی تھیں ۔ وہ دوا میں نے اونچی طاقت میں انہیں دی۔ ان کو اس کی ایک خوراک سے ہی ایسا آرام آیا کہ پھر کبھی زندگی بھر وہ تکلیف دوبارہ نہیں ہوئی۔ اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ ہومیوپیتھی خواہ میری سمجھ میں آئے یا نہ آئے، اس کا فائدہ ضرور ہوتا ہے اور اس میں ضرور کچھ حقیقت ہے۔ اس کے بعد میں نے حضرت ابا جان کی لائبریری سے ہومیوپیتھی کی کتابیں لے کر پڑھنا شروع کیں ۔ بعض اوقات ساری ساری رات انہیں پڑھتا رہتا۔ لمبا عرصہ مطالعہ کے بعد میں نے دوائیوں اور ان کے مزاج سے واقفیت حاصل کی اور ان کے استعمال اور خصوصیات کا اچھی طرح ذہن میں نقشہ جمایا اور پھر مریضوں کا علاج شروع کیا۔‘‘

(دیباچہ ہومیوپیتھی یعنی علاج بالمثل)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے خلافت سے پہلے بہت لمبا عرصہ تک محض خدمت خلق کے جذبہ کے تحت لاکھوں مریضوں کا علاج کیا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ہومیو پیتھک کلاسز کے ذریعہ ہومیوپیتھی کا علم ساری دنیامیں پھیلادیا۔ ان کلاسز کے لیکچرز کو حضور نے ہی مدوّن بھی فرمایا اور ایک کتاب ’’ہومیوپیتھی یعنی علاج بالمثل‘‘ کے نام سے طبع فرمائی۔جو احمدی ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کے ساتھ ساتھ غیر از جماعت ڈاکٹرز بھی اپنے پاس رکھنا اعزاز سمجھتے ہیں اور اس انتہائی مفید کتاب سے مدد لے کر علاج بھی کرتے ہیں۔

آج سے 170 سال پہلے 1849 ء میں Royal London Homoeopathic Hospital قائم ہوا جس کی سرپرست ملکہ برطانیہ تھیں ۔ ہومیوپیتھی کی تاریخ میں اِس ادارے اور اِس سے منسلک ڈاکٹرز کی بے مثال خدمات ہیں ۔ چند سال قبل جب جلسہ سالانہ UK جانے کی سعادت ملی تو اس ہسپتال کو د یکھنے گیا ۔ یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ اس ادارے کو ختم کر دیا گیا ہے۔ لیکن جب دورانِ ملاقات حضورِانور نے ارشاد فرمایا کہ ربوہ میں F.Sc پاس کرنے والے واقفینِ نو کی ہومیوپیتھک ٹریننگ بھی کی جائے تو حضور انور کے اس ارشاد مبارک پر دل کو تسلی ہو گئی کہ اب اللہ تعالیٰ نے ہومیوپیتھی باقاعدہ طور پر ہماری جماعت کے سپرد کر دی ہے اور خلافتِ احمدیہ کی برکت اور توجہ سے اس کا مستقبل ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا ہے۔ الحمدللہ۔

اب ضرورت ہے کہ واقفین ِنو اور واقفاتِ نو پیارے امام کی آواز اور خواہش پر والہانہ لبیک کہتے ہوئے ہومیوپیتھی کے اس عظیم الشان نظامِ شفاء کے ذریعے خدمتِ خلق کے میدان میں اپنے آپ کو ٹر یننگ کے لئے پیش کریں ۔

(ڈاکٹر وقار منظور بسراء)

پچھلا پڑھیں

اوقات سحر و افطار

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جنوری 2020