• 8 مئی, 2024

ایڈیٹر کے نام خط

الفضل آن لائن کو ’’نیا سال مبارک ہو‘‘

مکرمہ عفت وہاب بٹ۔ ڈنمارک سے لکھتی ہیں:
خاکسار کا تعارف الفضل آن لائن سے کچھ زیادہ پرانا نہیں۔ خاکسار کو پاکستان چھوڑےلمباعرصہ ہونے کی وجہ سےروزنامہ الفضل سے متعارف ہونے کی توفیق نہ مل سکی۔ بے شک یہ ایک نہایت ایمان افروز اور علمی کاوش ہے جس کے لئے محترم ایڈیٹر صاحب اورآپ کے جملہ معاونین مبارک باد کے مستحق ہیں۔ خدا تعالیٰ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃلمسیح الخامس کی خاص دعاؤں اور توجہ کی بدولت روز افزوں ترقی کی منازل طے کرنے والے اس اخبار کو مزید چار چاند لگائےاوردن دوگنی رات چوگنی ترقیات سے نوازتا چلاجائے۔ آمین

روزانہ صبح اس پیارے اخبار کا انتظارہوتا ہےاور پہلی فرصت میں اس کو کھولنا اور آگے احمدی احباب کی خدمت میں بھجوا کر اگلے دن کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔

سال 2023ء میں داخل ہو چکے ہیں۔ جہاں خاکسارگزرے سال میں اس اخبارکی کامیابی پرآپ کو اور آپ کے عملے کو دلی مبارک باد پیش کرتی ہے وہاں اپنے پیارے احمدی بہن بھائیوں سے یہ گزارش بھی کرنا چاہتی ہے کہ جہاں نئے سال میں جماعت احمدیہ کی ترقی کے لئے درد دل سے دعائیں کریں وہاں ہمیں اس بابرکت اخبار اور دوسرے جماعتی رسالہ جات اوراخبارات کی اعانت کا حق ادا کرتے ہوئے ان کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے اور ان سب مضامین کو پڑھ کر آگے اپنی اولادوں کو سمجھانے اور اس میں قلمی معاونت کرنے کی مخلصانہ کاوش کو تیز ترکرنے کا عہدکرنےاور اس کام پر سنجیدگی سے توجہ دینے کا عہد کرنا چاہئے۔ یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اور اپنی اولادوں اور آئندہ نسلوں کی اسلام احمدیت سے جڑے رہنےاورفدائیان احمدیت کی فوج بنانے میں اہم کرداررکھتی ہے۔ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی ایک نہایت فکر انگیز نصیحت یہاں بیان کرنا چاہوں گی جو آپ نے الفضل اخبار کی ترویج کے لئے جماعت کو کی آپؓ فرماتے ہیں کہ:
’’سب سے مقدم چیز تو ’’الفضل‘‘ ہے۔الفضل روزانہ کا اخبار ہے اور الفضل ہی ایک ایسا اخبار ہے جس کے ذریعہ سے ساری جماعتوں تک آواز پہنچتی ہےلیکن متواتر ہم کو آجکل یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ کئی جماعتیں ایسی ہیں کہ ساری جماعت میں ایک بھی الفضل نہیں پہنچ رہاحالانکہ چھوٹی جماعتیں آپس میں چندہ اکٹھا کر کے اور آپس میں مل کر ایک ایک اخبار خرید سکتی ہیں۔ درحقیقت دو ہی چیزیں ہیں جو قوم کی ترقی پر دلالت کرتی ہیں ایک اخبار اور ایک ریلوے کا سفر یا لاری کا سفر۔جو قوم سفر زیادہ کرتی ہے وہ ضرور کامیاب ہوتی ہےاور جس قوم میں اخبار زیادہ چلتے ہیں وہ ضرور کامیاب ہوتی ہےکیونکہ اخبار پڑھنے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اس شخص کی روح نچلی نہیں بیٹھ سکتی اس کے اندر ایک اضطراب پایا جاتاہے۔ اخبار کیاکرتا ہے؟ وہ ہرروز ہم کو ایک نئی خبر دیتا ہےجس دن اخبار نہیں آتا تو لوگ جس طرح افیون نہیں کھائی ہوتی گھبراتے پھرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمیں دنیا کے انقلاب کا پتہ نہیں لگتااور جو شخص انقلاب کی جستجو کرتا ہے درحقیقیت اس کے اندر بھی ایک انقلابی مادہ پایا جاتا ہے۔ تو قوم کی ترقی کا اگر کسی شخص نے اندازہ لگاناہوتودو چیزیں دیکھ لے کہ وہ قوم کتنا سفر کرتی ہے اوراخبار کے ساتھ اس کوکتنی دلچسپی ہے۔

میں جب فلسطین گیاتو اس وقت یہودی سارے ملک کی آبادی کا دسواں حصہ تھےاور دسواں حصہ عیسائی تھے اسّی فیصدی مسلمان تھے لیکن ریلوں میں مَیں نے سفر کرکے دیکھا کہ یہودی ہوتا تھا قریباً ستّر فیصدی اورعیسائی پندرہ بیس فیصدی اور مسلمان ہوتا تھا دس فیصدی۔ میرے پاس ایک سفر میں ایک یہودی آیا وہ ریلوے کا افسر تھامیں تو اس سے واقف نہ تھانہ پہلے کبھی ملا معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے ہماری ٹوہ رکھی تھی۔ وہ آیا اور اس نے کہا کہ میں نے آپ سے ملنا ہے وہیں کمرہ میں آ کر بیٹھ گیا کہنے لگا کہ میں ریلوے کا افسر ہوں اور شام وغیرہ جاتے وقت بارڈرکی نگرانی میرے سپرد ہےمیں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں میں نے کہا کہو۔کہنے لگا میں یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ہمارے مخالف کیوں ہیں؟ میں نے کہا کہ تمہیں کس نے بتایا ہے کہ میں مخالف ہوں؟ کہنے لگا میں سن رہا ہوں کہ آپ ہمارے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں مخالفت کروں یا کچھ کروں (اس وقت میں نے یہی بات کہی کہ) میری مخالفت تم جانے دو میں نے یہاں جو نظارہ دیکھا ہے چنانچہ ریل پر دیکھ لو ابھی چلو اس وقت اسٹیشن پر (اس وقت گاڑی چل چکی تھی) جب اگلا اسٹیشن آئے گا اس وقت دیکھ لینا کہ ستّر فیصد یہودی بیٹھا ہوا ہے۔پندرہ فیصدی عیسائی بیٹھا ہوا ہےباقی دس فیصدی اسّی فیصدی کا نمائندہ بیٹھا ہوا ہے۔ تو میں مخالفت کروں یا کوئی کرے جب تک مسلمان اپنا نظریہ نہیں بدلیں گے اپنے حالات نہیں بدلیں گےاپنا طریقہ نہیں بدلیں گے جیتنا تم نے ہی ہے انہوں نے توجیتنا نہیں۔گھبراتے کس بات پر ہو؟ اور پھر یہ ہی ہواآخر اس قوم میں جوباہر نکلتی ہے بھاگی پھرتی ہےکوئی نہ کوئی بے کلی کی وجہ ہوتی ہے یونہی تو نہیں لوگ گھروں سے باہر نکل کھڑے ہوتے۔ ان کے اندر ایک جوش ہوتا ہے ایک ارج (URGE) ہوتی ہے پیچھے سے کہ چلو چلو چلو اوروہ چلو چلو کی ارج (URGE) کے ماتحت چل پڑتے ہیں اور پھر ان کا بچہ بڑا ہر ایک اس میں کام کرتا ہے۔ امریکنوں کودیکھ لو ساری دنیا کا سفر کرتے پھریں گے پہلے انگلستان والے کرتے تھے اور اب ان میں کمی آ گئی ہےاب امریکن ہیں کہ ساری دنیا میں گھومتے پھرتے ہیں۔کسی زمانہ میں عرب میں یہ رواج تھابلکہ اب بھی یہ بات حجاز کے لوگوں میں کسی قدر پائی جاتی ہےاب بھی وہ دنیا کے سارے اسلامی ملکوں کے باشندوں سے زیادہ غیر ملکوں میں پھرتے ہوئے نظرآجائیں گے۔ کیونکہ دھکا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لگایا تھا اور گاڑی چلائی تھی وہ اب بھی رینگتی چلی جاتی ہے چودہ پندرہ سو سال ہو گئے مگرگاڑی ساکن نہیں ہوئی تواخبار ایک دلیل ہوتا ہے اس بات کی کہ قوم کے اندر کتنی بیداری ہے، کتنا اضطراب ہے اور انقلاب کی کتنی خواہش ہے۔ اگر کوئی قوم اخبار کی طرف توجہ نہیں کرتی تو یقیناً وہ اپنی ترقی کی پوری طرح خواہش نہیں رکھتی۔ پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ پورے زور سے الفضل کو پھیلانے کی کوشش کریں۔‘‘

(انوارالعلوم جلد25 صفحہ6-8)

خدا تعالیٰ کے ہم پر کس قدر فضل اوراحسانات ہیں کہ اب ہم ایک انگلی کی جنبش سے اپنے بہت سے کام کر سکتے ہیں چھوٹی چھوٹی ذمہ داریوں کو نبھا سکتے ہیں آئیے اس نئے سال کی آمد پر ہم سب خدا تعالیٰ سے مدد اور توفیق کے لئے دعا مانگیں کہ ہم اپنے سلسلہ کی ترویج کے لئے ہر قسم کی کوشش میں ہمہ تن مصروف ہو جائیں اور آنے والا سال پہلے سے زیادہ ترقیات کا دروازہ کھولنے والا ہو۔ آمین

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی