• 27 اپریل, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 24)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں (قسط 24)

چنانچہ یہی اخبار ڈیلی بلٹن جو لاس اینجلس کے علاقہ میں دوسرے نمبر پر بڑا اخبار ہے جس کا اوپر(گزشتہ قسط میں) ذکر کیاجاچکاہے۔ اس میں خاکسار کا مضمون Opinion کے سیکشن میں پوری وضاحت کے ساتھ شائع ہوا اور مضمون کے آخر میں خاکسار کے نام کے ساتھ مسجد احمدیہ بیت الحمید کا نام بھی لکھا گیاتھا۔ خداتعالیٰ کے فضل سے اس مضمون میں وہ ساری ہدایات شامل کر دی گئیںتھیں جو حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشادفرمائی تھیں۔ اس اخبار کے علاوہ بھی دیگر اخبارات نے ہمیں کوریج دی۔ میرا نہیں خیال کہ جس قدر کوریج ہمیں خداتعالیٰ کے فضل سے ملی اور کسی کو اتنی کوریج ملی ہو۔ باقی مسلمانوں کا تو ردعمل بتایا جا چکا ہے کہ صرف توڑ پھوڑ، جھنڈے جلانا، سفارتخانوں پر حملہ اور یہ سب کچھ تو بانی اسلام رحمۃ للعالمین کی تعلیم اور اسوہ دونوں کے خلاف ہے۔ اسی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو پھر مسلمانوں کے رویہ کی وجہ سے انہیں مزید مشتعل اور بدنام کرنے کا موقعہ مل جاتاہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام کی تعلیم کے مطابق ہی کر رہے ہیں اور نتیجہ نکالتے ہیں کہ اسلام اسی قسم کی نفرت اور تشدد کی اجازت اور تعلیم دیتا ہے۔ (نعوذ باللہ)

اب خاکسار ڈیلی بلٹن میں جو مضمون شائع ہوا ہے اس کی طرف آتاہے۔ اخبار نے لکھا:

کارٹونز سے مسلمانوں کی دل آزاری

ڈنمارک کے اخبار (Jylland Posten) میں مسلمانوں کے پیغمبر آنحضرت ﷺ کے گستاخانہ کارٹونز شائع ہونے پر پوری دنیا ایک ابتلاء میں سے گزر رہی ہے۔

اس کی اشاعت کے بعد فرانس ، جرمنی، نیدرلینڈ، اٹلی اور سپین میں بھی مختلف قسم کے کارٹونز شائع ہوئے۔ اس کی وجہ سے مسلم ممالک میں احتجاجی مظاہرے بھی ہو ئے کیونکہ اسلامی کلچر میں آنحضرت ﷺ کی تصویر بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ مسلمان اور مذہبی آزادی کے معاونین اس سے افسردہ اور غمزدہ ہوئے۔ان کی دل آزاری بھی ہوئی اور اسی کا اظہار انہوں نے پر امن مظاہروں کی صورت میں مختلف شہروں میں کیا۔ تاہم کچھ گروپس اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور انہوں نے پرچم جلائے اور ایمبیسیز کو جلایا اور موت کی دھمکیاں دیں۔

احمدی مسلمان پوری دنیا میں جو نبی کریم ؐ کی شان اقدس کو اور اس کی حقیقت کو پہچانتے ہیں ان کی بھی دل آزاری ہوئی۔ لیکن مسلمانوں کی اس پر امن جماعت جس کا پیغام ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ہے‘‘ نے ڈنمارک کی پارٹیز سے بات چیت کی اور اس پر متعلقہ اخبار کے حکام نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اگر احمدی جماعت کی وضاحت کا ان کو پہلے سے علم ہوتا تو وہ یہ مواد کبھی شائع نہ کرتے۔ پوری دنیا میں مختلف قسم کے ردعمل سامنے آئے۔ کچھ نے کہا کہ یہ پریس کی آزادی ہےجو کہ جمہوریت کے لئے ضروری ہے۔ مسٹر Lakah جو کہ فرانس کی ایک اخبار French Soir کا مالک ہے ، نے اخبار کے ایڈیٹر کو اس کی پوزیشن سے برطرف کر دیا۔

برلن میں Die Welt جو کہ ایک نامور اخبار ہے، نے یہ دلیل دی کہ توہینِ رسالت کی مغرب میں اجازت ہے۔ اور اس نے پوچھا کہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اسلام اس مضحکہ خیز تنقید کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔

UK کے ایک صحافی Mr. Robert Fisk نے لکھا کہ یہ آزادی رائے کی بات نہیں۔ مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ محمد ﷺ نے اللہ سے وحی پا کر تعلیم دی ہے۔ اور وہ اس پر عمل پیرا ہیں جبکہ ہم اس کو چھوڑ چکے ہیں۔ موازنے کے لئے اس نے یورپ میں ایک سینما میں چلنے والی فلم ’’Last Temptation of Christ‘‘ کے بعد کچھ یورپین نے سینما گھروں کو جلا دیا تھا تو ہم مسلمانوں سے یہ توقع کیوں کرتے ہیں کہ وہ ان ظالمانہ کارٹونز پر خاموش رہیں گے؟ ان کی اشاعت سے بہت دور رس نتائج نکلتے ہیں۔ اگرچہ ہو سکتا ہے کہ شروع میں اس کی نیت ایسا کرنے کی نہ ہو۔ بہت سے ایسے اسلام مخالف گروہ ہیں جو کہ ایسے موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں اور اسے اپنے Agenda کا حصہ سمجھتے ہیں۔

تاہم کسی بھی صورت میں مسلمانوں کا جواب اسلام کی حقیقی اقدار کے مطابق ہونا چاہئے۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ اسلام کی اعلیٰ تعلیم اور حضرت محمد ؐ کے طور اطوار کو اپناتے ہوئے جوابی ردعمل دیں۔ آنحضرت محمد ﷺ جنہوں نے ہمیشہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اگر چہ جیسے بھی Challenging حالات ان کو اور ان کے صحابہ کو پیش آئے اس کے باوجود انہوں نے ہمیشہ امن کا راستہ چنا اور پر امن حل نکالا۔

اسلام میں اصل بہادر وہ نہیں ہے جو لڑتا ہے بلکہ اصل بہادر وہ ہے جو کہ فراست اور عقل رکھتا ہے اور اگروہ کوئی فیصلہ کرے تو اس پر قائم رہتا ہے۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ ہر اس رد عمل سے بچیں جس سے کسی کی بھی دل آزاری ہوتی ہو۔ ان کی زبان اور ان کے عمل سے کسی کو بھی کوئی تکلیف نہیں پہنچنی چاہئے۔ اس کی بجائے مسلمانوں کو میڈیا کو خطوط اور مختلف آرٹیکل لکھنے چاہئیں اور اپنےد ائرہ احباب کو اور روابط کو بڑھانا چاہئے۔

اس سے بھی اہم یہ بات ہےکہ ان کو اپنے کردار کی تعمیر کرنی چاہئےجس سے حضرت اقدس محمد ﷺ کے کردار کی جھلک نظر آئے۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ حقیقی اسلام ان کے عمل سے نظر آئے۔ وہ ایک دوسرے کے لئے نفع بخش، محبت اور رحم کے جذبات رکھتے ہوں۔

ان کو اپنے رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے طریقۂ  کار کو صحیح کرنے کی ضرورت ہے اور ان کو یکجہتی کی بھی ضرورت ہے۔ اسی طرح آگ لگانے، مجسموں کو آگ لگانے،عمارتوں کو اور جھنڈوں کو جلانے کی بجائے ان کے دلوں میں محبت کی اور انسانیت کی آگ روشن کرنے کی طرف توجہ ہوتی چاہئے۔

نوٹ: اخبار نے خاکسار کے مضمون/ رائے کو بالکل واضح صورت میں لکھا اور خاکسار نے یہ سارے پوائنٹس حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے خطبہ سے اخذ کئے تھے اور جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ خلافت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر مرحلہ اور ہر قدم پر جماعت کی بھی اور غیروں کی بھی راہنمائی کر رہی ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ اس پر ہم خداتعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں۔

چینو چیمپئن اخبارنے اپنی اشاعت 11تا 17 فروری 2006ء میں صفحہ اول پر ہماری یہ خبر اس عنوان سے شائع کی:

Chino Muslim Leader Condemsns Cartoons

یعنی چینو کے مسلم لیڈر کارٹونز کی مذمت کرتے ہیں۔

اخبار نے لکھا کہ چینو کی مسجد بیت الحمید کے امام شمشاد ناصر نے کارٹونز کی اشاعت پر مذمت کی ہے۔ انہوں نے اپنی ایک پریس ریلیز میں بتایا ہے کہ سب سے پہلے تو میں حضرت مرزا مسرور احمد صاحب جو کہ جماعت احمدیہ عالمگیر کے روحانی امام اور پیشوا ہیں، کے جذبات کا اس بارے میں اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت مرزا مسرور احمدصاحب نے کہا ہے کہ کچھ اخبارات نے نبی کریم ﷺ کے خاکے شائع کئے ہیں اس پر میں ان کی مذمت کرتا ہوں اور یہ نبی کریم ﷺ کی شان پر بہت بڑا گستاخانہ حملہ ہے۔ اخبار نے مزید لکھا:
یہ خاکے ڈنمارک کے ایک اخبار نے گزشتہ سال شائع کئے تھے اوریہ چنگاری اسی وقت زیادہ بھڑکی جب ایک ڈنمارک کے مسلمان مسٹر احمد اکاری نے یہ خاکے مشرقِ وسطیٰ میں تقسیم کئے۔ اور اس نازیبا حرکت کی وجہ سےکچھ اموات بھی واقع ہوئی ہیں۔

مسٹر ناصر (یعنی خاکسار) نے کہا ہے کہ ان خاکوں کی اشاعت اور پھر اس کے نتیجہ میں ہونے والی توڑ پھوڑ اور فسادات کسی طرح بھی جائز نہیں ہیں۔ ہماری کمیونٹی امن پسند ہے۔ اس سے لوگ کبھی بھی ایک دوسرے کے قریب نہیں آسکتے۔ انہوں نے مزید کہا۔

چینو ہل چیمپئن اور چینو چیمپئن دونوں اخبارات جو دو مختلف شہروں کے لئے ہیں، نے اپنی اشاعت 25 فروری تا 3 مارچ 2006ء کی اشاعت میں صفحہ B-4 پر خاکسار کے ایک ہی مضمون Opinion کے تحت پبلک فورم میں دیا۔ جس کا عنوان یہ رکھا: Islam Reaction to Cartoons
یعنی کارٹونز کی اشاعت پر ’’اسلام‘‘ کا ردعمل۔ (انہیں مسلمانوں کا ردعمل لکھنا چاہئے تھا اور مسلمانوں میں سے بھی دراصل جماعت احمدیہ مسلمہ کا ردعمل صحیح ہوتا) بہرکیف۔

اخبار نے اس عنوان سے خاکسار کا مضمون بمعہ نام اور پتہ شائع کیا ہے۔ مضمون کا ماحصل وہی ہے کہ اس وقت دنیا ایک بڑے بحران سے گزر رہی ہے اور وہ یہ کہ یورپ کے ممالک میں آنحضرت ﷺ کے خلاف ہتک آمیز خاکے اور کارٹونز شائع ہوئے ہیں جن کے نتیجہ میں کئی جگہ بدامنی کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ یہ دراصل مسلمانوں کو تکلیف دینے والی بات ہے اور سب سے زیادہ تکلیف جماعت احمدیہ کے افراد کو ہوئی ہے۔ اس لئے ہم اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیڈروں کو بھی چاہئے کہ ایسے مواقع پر ان کا ردعمل جوش کی بجائے ہوش والا ہونا چاہئے۔ جس قسم کا ردعمل مسلمانوں سے ظاہر ہو رہا ہے اس کا نتیجہ برعکس بھی ہو سکتا ہے۔ ہمیں ہر وقت ایسے کام کرنے چاہئیں جن سے اسلام کی برتری اور آنحضرت ﷺ کی اعلیٰ شان ظاہر ہوتی ہو۔

دنیا کے تمام احمدی مسلمانوں اور اس امریکہ میں احمدی مسلمانوں کو آنحضرت ﷺ کی ارفع و اعلیٰ شان کا دوسروں کی نسبت زیادہ فہم اور ادراک ہے۔ اس کے لئے ہمیں پرامن ماحول میں بات چیت کرنی چاہئے اور جہاں آپ کو پریس کی آزادی ہے وہاں آپ کو اپنی ذمہ داریاں بھی سمجھنی چاہئیں۔ آزادی بغیر ذمہ داری کے بےمعنیٰ ہے اور دوسروں کے جذبات اور احساسات کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔

انڈیا ویسٹ نے اپنی 24 فروری 2006ء کی اشاعت کےصفحہ C-34 پر کارٹونز کے بارہ میں خبر شائع کی ہے۔ اخبار نے یہ عنوان لگایا:

Ahmadiyya Muslims condemn Prophet Muhammad Caricatures

احمدی مسلمان آنحضرت ﷺ کے خاکوں کی اشاعت پر مذمت کرتے ہیں۔

جماعت احمدیہ نے کہا کہ تمام دیگر مذہبی لیڈروں کو چاہئے کہ وہ اس مذموم حرکت کی مذمت کریں جو آنحضرت کی شان کے خلاف خاکے شائع کئے ہیں۔

جماعت احمدیہ مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد احمد ناصر نے کہا کہ ہمارے عالمگیر روحانی پیشوا حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے آنحضرت ﷺ کے خاکوں کی پرزور مذمت کی ہے۔ ’’احمد‘‘ (حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے کہا ہے کہ پریس کو اس معاملے میں سنجیدگی دکھانی چاہئے تھی اور اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہئے تھی اور عوام الناس میں افہام و تفہیم کے ذریعہ ایک دوسرے کا احترام اور بلاامتیاز مذہب و قومیت ایک دوسرے کو قریب کرنے کی بجائے غیرذمہ دارانہ اورجارحانہ قدم اٹھایا ہے جس سے بانیٔ اسلام کی ہتک کی گئی ہے۔ پریس کو مذہبی تقدس کا احترام کرنا چاہئے نہ کہ آزادیٔ صحافت کی آڑ میں دل آزاری کا رویہ اختیار کیا جائے۔

انڈیا پوسٹ نےا پنی 17 فروری 2006ء کی اشاعت کےصفحہ 19 پر انڈیا پوسٹ نیوز سروس کے حوالہ سے اس عنوان کےتحت خبر دی:

Ahmadi Muslims condemn profanity

احمدی مسلمانوں کی پرزور مذمت

مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد احمد ناصر نے کہا ہے کہ تمام مذہبی لیڈروں کو اس وقت مل کر مذہبی تقدس کو پامال کرنے والوں کی مذمت کرنی چاہئے۔

امام شمشاد ناصر نے اس سے قبل جماعت احمدیہ عالمگیر کے روحانی پیشوا حضرت مرزا مسرور احمد (ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) کی طرف سے جاری کئے گئے پیغام کے مطابق جس میں انہوں نے آنحضرت ﷺ کی شان میں بنائے اور شائع کئے گئے خاکوں اور کارٹونز کی پرزور مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خدا کے نبی اور رسول کی شان میں اس طرح کیوں گستاخی کی گئی ہے؟

انہوں نے مزید کہاکہ میں بلا تردد اخبارات کے اس غیرذمہ دارانہ رویہ کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ یہ بہت افسوسناک دن ہے جبکہ میڈیا نے اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی سے نہیں نبھایا۔صحافت اور میڈیا کا کام ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کر ے اور باہمی افہام و تفہیم کی فضا پیدا کرے۔ نہ کہ نفرت اور دوری پیداکی جائےجس سے مذہبی تقدس کے احترام کو نقصان پہنچے۔ اگرچہ اس واقعہ میں آزادیٔ صحافت کو ایک بہانہ بتایا گیا ہے حالانکہ صحافت کی آزادی کو دوسروں کے مذہبی احساسات کا خیال رکھنا چاہئے۔ ہم اسوقت ایسے معاشرہ میں رہ رہے ہیں جہاں مختلف المذاہب لوگ رہتے ہیں ہمیں ایک دوسرے کا احترام اور ایک دوسرے کے ساتھ امن اور پیار کے ساتھ رہنا ہے۔

امام شمشاد نے کہا کہ جماعت احمدیہ یوایس اے کی نیشنل مجلس عاملہ کی میٹنگ جو کہ 6 فروری کو منعقد ہوئی تھی، نے بھی متفقہ طور پر آنحضرت ﷺ کے خاکوں کی اشاعت پر شدید مذمت کی ہے۔

الانتشار العربی نے اپنے انگریزی سیکشن میں مؤرخہ 16 فروری کی اشاعت میں صفحہ 27 پر خاکسار کی پریس ریلیز کو شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے:

Ahmadi Muslims condemn profanity (ﷺ) against Prophet Muhammad

احمدی مسلمان آنحضرت ﷺ کی شان کے خلاف خاکوں کی شدید مذمت کرتے ہیں

اخبار نے خاکسار کے حوالہ سے ایک بیان کو شائع کیا ہے کہ امام شمشاد آف مسجد بیت الحمید چینو (کیلیفورنیا) نے آج علاقہ کے تمام مذہبی لیڈروں سے کہا ہے کہ وہ یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان خاکوں کی مذمت کریں جو ڈنمارک کے اخبار میں شائع ہوئے ہیں۔ یہ آواز دراصل جماعت احمدیہ کے عالمگیر روحانی پیشواحضرت مرزا مسرو احمدایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے عالمگیر اور روحانی پیشوا نے اعلان کیا ہے کہ مسلمان آنحضرت ﷺ کے لئے بہت اونچا مقام رکھتے ہیں اس لئے ان لوگوں نے ہمارے نبی کریم ﷺ کی شان میں کیوں اتنی گستاخی کی ہے اور کیوں یہ خاکے اور کارٹونز بنائے گئے ہیں؟ میں ان خاکوں کی پرزور مذمت کرتا ہوں جو مغربی ممالک کے اخبارات نے شائع کئے ہیں۔ اس سے آنحضرت ﷺ کی ہتک اور شان میں گستاخی ہوئی ہے۔ صحافت کے لئے یہ بہت افسوسناک دن ہے۔ ان کا کام تو یہ ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لائیں اور ان کو آگاہی دیں۔ یہ کام بغیر کسی مذہب و ملت کے امتیاز کے ہونا چاہیئے۔ کجا یہ کہ وہ ایسے مکروہ کام کریں جس سے نفرت پھیلے اور دوری ہو اور مقدس شخصیات کی ہتک ہو۔ انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہئے تاکہ سوسائٹی میں ہر شخص پر امن زندگی گزار سکے۔ یہ وقت ہے کہ تمام مذاہب کے لیڈر اکٹھے ہو کر ایسے کاموں کی مذمت کریں۔

اخبار مزید لکھتا ہے کہ امام شمشاد نے کہا ہے کہ جماعت احمدیہ یوایس اے کی نیشنل مجلس عاملہ جس کا اجلاس 6 فروری 2006ء ہوا تھا، نے بھی متفقہ طور پر ان کارٹونز کی اشاعت پر پُر زور مذمت کی ہے جو بانیٔ اسلام ﷺ کی شان کے خلاف گستاخی ہے۔

آخر پر خاکسار کا تعارف لکھا ہوا ہے کہ امام شمشاد ناصر نے خدمت اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے۔ یہ علاقہ میں اپنے علمی کاموں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ اس وقت تک یہ یو ایس اے کے مختلف شہروں میں اسلام و احمدیت کی خدمات بجا لا چکے ہیں۔ اور امریکہ آنے سے پہلے گھانا اور سیرالیون (مغربی افریقہ) میں بھی خدمت کر چکے ہیں۔

اردو لنک نے اپنی اشاعت 10 تا 16 فروری 2006ء کےصفحہ 6 پر ’’دین کی باتوں‘‘ کے عنوان تحت خاکسار کا مضمون بعنوان ’’قرآن کریم کے محاسن و فضائل و برکات‘‘ کی اگلی قسط خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کی۔

اس قسط میں خاکسار نے ’’اعمال صالحہ کیا ہے؟‘‘ کے تحت دو باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے یعنی عبادت اور اخلاق حسنہ۔ اور بتایا ہے کہ عبادت کا تعلق خداتعالیٰ سے ہے اور اخلاق حسنہ کا تعلق اللہ تعالیٰ کے بندوں سے۔ پس عبادات اور اخلاق کے لئے ہمیں دنیا کے سے بڑے معلم، سب سے بڑے استادِ کامل اوردنیا کے سب سے بڑے راہبر حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ سے راہنمائی لینی ہو گی۔

پھر خاکسار نے مضمون میں آنحضرت ﷺ کی بعثت سے قبل عربوں کی حالت کا نقشہ بیان کیا ہے۔ اس کے بعد قرآن کریم کی قوت قدسیہ اور صحابہ کا تزکیہ نفس اور اس ضمن میں قرآن کریم کی یہ آیت نقل کی ہے:
يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا (25:65) پھر آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے سے اور قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے سے ان کی کایا ایسی پلٹی کہ وہ اپنے رب کے حضور راتیں سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے گزارتے ہیں اور تَرٰى أَعْيُنَهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ (المائدة 84) ان کی آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں اس کی وجہ سے جو انہوں نے حق کو پہچان لیا اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا یہ شعر بھی نقل کیا ہے :

صادفتھم قوما کروث ذلۃ
فجعلتھم کسبیکۃ العقیان

اے محمد رسول اللہ ﷺ تو نے ان لوگوں کو (عربوں کو) گناہوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے گوبر کی مانند ذلیل قوم پایا۔ مگر آپ ﷺ نے انہیں اپنی قوت قدسیہ سے خالص سونے کی ڈلی بنا دیا۔ اس کے علاوہ قصیدہ سے دو اور عربی اشعار بھی لکھے گئے ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا برکات الدعا سے وہ حوالہ بھی درج کیا گیا ہے کہ
’’وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے ہی دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے …… اللّٰھم صل وسلم و بارک علیہ و اٰلہٖ بعددھمّہ و غمّہ و حزنہٖ ……الخ‘‘ برکات الدعا
اور آخر میں سورۃ النور کی آیت مع ترجمہ ہے۔

’’اور جو لوگ سرکش ہستیوں کی فرمانبرداری سے بچتے ہیں اور اللہ کی طرف جھکتےہیں ان کے لئے بڑی خوشخبری پس تو میرے ان بندوں کو خوشخبری دے جو ہماری بات کو سنتے ہیں اور پھر اس میں سے سب سے بہتر حکم کی اتباع کرتے ہیں۔ وہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور وہی لوگ عقلمند ہیں۔‘‘ (39:18-19) (ترجمہ از تفسیر صغیر)

مسجد بیت الحمید کا ایڈریس اور فون نمبر بھی مضمون کے آخر پر درج ہے۔ تا جو لوگ مزید معلومات حاصل کرنا چاہیں کال کر سکتے ہیں۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 24 فروری 2006ء صفحہ 69 پر اس عنوان سے خاکسار کا مضمون شائع کیا ہے جو نصف سے زائد صفحہ پر ہے۔

Great Disrespect shown to Islam

اسلام کی بہت ہتک کی گئی ہے۔

خاکسار نے لکھا کہ دنیا اس وقت بہت بڑے بحران سے گزر رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈینش اخبار نے آنحضرت ﷺ کے خاکے شائع کئے جس سے مسلمانوں کی بہت بڑی دل آزاری ہوئی ہے۔ اگرچہ یہ اشاعت کچھ ماہ پہلے ہوئی تھی اب یورپ کے دیگر ممالک میں بھی ایسا ہی ہو گیا ہے جیسے فرانس، جرمنی، نیدرلینڈ، اٹلی اور سپین وغیرہ میں۔ مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذہبی لیڈرز بھی ہیں جو سب اس حرکت پر حیران ہیں،جنہوں نے اس کی مذمت کی ہے اور مختلف ممالک میں مسلمانوںنے مظاہرے کئے ہیں اور بعض ان میں سے اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے اور توڑ پھوڑ کے ساتھ ساتھ املاک کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ جس میں جھنڈوں کا جلانا، سفارت خانوں کو جلانا بھی شامل ہے۔ اور یہ سب اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ جلد سے جلد ڈینش اخبار کے خلاف پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ اسے موت کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔

احمدی مسلمان جو آنحضرت ﷺ کے ارفع مقام کا ادراک رکھتے ہیں، بھی ان خاکوں کی اشاعت سے اُن کے دل مجروح ہوئے ہیں او ر انہیں شدید دھچکا لگا ہے لیکن یہ امن پسند گروپ ہے۔ اور ان کا ماٹو بھی یہی ہے کہ ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘۔ نے ڈینش پارٹیز کے ساتھ رابطہ کر کے انہیں اسلام کی تعلیمات کے بارے میں سمجھایا ہے۔ انہوں نے اس پر شکریہ بھی ادا کیا اور کہا کہ اگر ہمارا آپ کے ساتھ پہلے رابطہ ہو جاتا تو ہم یہ شائع نہ کرتے۔

دنیا کے اخبارات میں اس بارے میں مختلف قسم کا ردعمل بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ عرب دنیا کو جمہوریت کا پتہ نہیں ہے، کچھ کہتے ہیں کہ پریس کی آزادی ہے۔ فرانس میں تو جس اخبار نے کارٹون شائع کئے تھے انہوں نے ایڈیٹر کو نوکری سے برخاست کر دیا ہے جو کہ بہت اچھا اقدام تھا۔

برلن کے اخبار نے لکھا کہ یہ تو مغرب میں ان کا حق ہے وہ لوگ جیسا چاہیں اور جو چاہیں شائع کریں۔ یہ صحافتی آزادی ہے۔ لیکن اس کے برعکس انگلستان کے ایک معروف اخبار کے جرنلسٹ Robert Fisk نے لکھا کہ حقیقت میں کوئی صحافتی آزادی نہیں بلکہ اسلام کا جب یہ عقیدہ ہے کہ ان کا مذہب آسمانی ہےا وران کے نبی پر خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے جبکہ ہم اپنے مذاہب کے بارے میں ایسا نہیں سمجھتے، مسلمان تو اس بارہ میں اس یقین پر قائم ہیں اور اسے اپنی زندگیوں کا حصہ سمجھتے ہیں اورہم اپنے مذہب کی اقدار کو کھو چکے ہیں۔

انہوں نے اپنے اس مضمون میں اس بات کو نقل کیا ہے کہ جب Last Temptation of Christ فلم چلائی گئی تھی اس وقت یورپ میں بعض عیسائیوں نے سینما گھر جلائے تھے۔ پھر ہم مسلمانوں سے کس طرح امید کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے نبی کے خاکوں کی اشاعت پر خاموشی اختیار کر لیتے۔

خاکسار نے لکھا کہ: اس وقت بہت سارے گروہ ایسے بھی ہیں جو اسلام کے خلاف اپنی کارروائیوں کو تیز کر رہے ہیں اور ایسے مواقع مہیا کر رہے ہیں جن سے مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہو اور پھر بعد میں وہ کہہ دیں گے کہ دیکھا مسلمانوں کا مذہب یہ ان کو سکھاتا ہے۔ حالانکہ شرارت خود ان کی طرف سے ہوتی ہے اور اس طرح بعد میں یہ لوگ خود مظلوم بھی بن جاتے ہیں۔ ان لوگوں کو نہیں چاہئے کہ پریس کی آزادی کی آڑ میں یہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کریں۔ آزادی کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور حد ہوتی ہے۔ اس قسم کی اشاعت سے قبل انہیں سوچنا چاہئے کہ اس سے کسی کے جذبات مجروح تو نہیں ہوں گے۔

ادھر مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں اور آنحضرت ﷺ کے نمونہ کو اپنائیں آپؐ کی تعلیم صبر اور برداشت کی تعلیم ہے۔ اور یہی نمونہ انہوں نے ایسے حالات میں دکھایا جبکہ آپؐ کے سامنے بہت بڑا چیلنج تھا۔ انہوں نے ہمیشہ امن کا راستہ پسند کیا اور اختیار کیا۔

خاکسار نے یہاں پر ایک حدیث نبوی ﷺ کو درج کیا کہ بہادر وہ نہیں جو غصے میں دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ بہادروہ ہے جو غصہ میں اپنے آپ پر کنٹرول رکھے۔ اور یہ حدیث بھی نقل کی کہ ہر حالت میں ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی کو تکلیف اورنقصان نہ پہنچے۔

املاک کو نقصان پہنچانا، جھنڈے جلانا، سفارتخانوں کو آگ لگانا یہ امن کا راستہ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی مسلمانوں کو چاہئے کہ پریس میں ایڈیٹر کے نام خطوط لکھیں اور انہیں اسلام کی تعلیمات کے بارے میں سمجھائیں اور سب سے اہم یہ کہ وہ اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں پہلے خود اسلام کی تعلیمات کو لاگو کریں۔ نیز وہ برداشت کا مظاہرہ کریں اور سب پر رحم، محبت، بھائی چارے کا سلوک کریں۔ انہیں اپنا کردار بدلنا ہو گا۔ اپنے طریق کار درست بنانے ہوں گے۔ اپنے اعمال کو اپنے اقوال کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ ان کا اس طرح املاک کو جلانے سے نقصان ہو گا۔ ہمیں انسانیت کے لئے محبت کی آگ جلانی پڑے گی ۔ شمشاد احمد ناصر۔ چینو

یہ ساری باتیں حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ اور ہدایات سے لی گئی ہیں۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک ۔

العرب۔ عربی اخبار نے اپنی 22 فروری 2006ء کی اشاعت میں صفحہ 16پر عربی زبان میں خاکسار کا وہی مضمون مع خاکسار کی تصویر کے اس عنوان سے شائع کیا:

’’السلوک غیر المحترم بحق الاسلام‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات اور پوائنٹس خاکسار نے انگریزی میں لکھے تھے پھر ان کا عربی ترجمہ مکرم عابد ادلبی آف چینو نے کیا۔ جسے عربی اخباروں میں شائع ہونے کے لئے دیا۔ خداتعالیٰ کے فضل سے عربی اخبار نے بھی من و عن اس کو شائع کیا۔ عنوان کا ترجمہ یہ ہے کہ: ’’اسلام کی ہتک کی گئی ہے‘‘۔ اس مضمون میں وہی کچھ لکھا گیا ہے جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ یعنی ڈینش اخبار نے جو ’’خاکے‘‘ شائع کئے تھے ان کا ردعمل اور احمدیوں کا طرز عمل اور نصائح۔

دی سن سین برناڈینو کونٹی نیوز پیپر نے اپنی اشاعت 19 فروری 2006ء اتوار صفحہ B-7 پر مندرجہ بالا مضمون اس عنوان سے شائع کیا۔

Violent Response to political cartoons ultimately hurts Islam.

سیاسی خاکوں کی اشاعت میں مسلمانوں کا غلط ردعمل۔ اسلام کو نقصان پہنچانے کا باعث ہو گا۔

اخبار نے اپنے نصف صفحہ پر ہمارے اس مضمون کو شائع کیا جس میں ڈینش اخبار میں شائع کئے گئے خاکوں کی وجہ سے اور پھر مغربی ممالک میں بھی اس کی اشاعت پرمسلمانوں نے جو ردعمل ظاہر کیا۔ اس پر جماعت احمدیہ کا تبصرہ، نصائح اور آنحضرت ﷺ اور اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی۔ مسلمان اس توڑ پھوڑ کے شکار ہو کر مغرب کی نگاہ میں ظالم بن جائیں گے۔ اگرچہ یہ ان کی سیاسی شرارتیں بھی ہیں تاہم انہیں اس بات کا موقعہ نہ فراہم کرنا چاہئے کہ اسلام انہیں توڑ پھوڑ، گھیراؤ اور جلاؤ ہی سکھاتا ہے، مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے اعمال اور اقوال میں ہم آہنگی پیدا کریں اور اخبارات سے رابطہ کرکے انہیں سمجھائیں اور اس کے خلاف مضامین لکھے جائیں۔ ان امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

الاخبار ۔ اخبار نے اپنے عربی سیکشن میں یکم مارچ 2006ء کی اشاعت میں صفحہ 15 پر ایک تصویر کے ساتھ ایروزونا جماعت کی خبر دی ہے۔

خبر میں بتایا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ فی نکس ایروزونا نے شہر کی لائبریری میں صحت سے متعلق بنیادی معلومات بہم پہنچانے کے لئے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اس میں خصوصیت کے ساتھ ’’شوگر‘‘ بیماری کے بارے میں لوگوں کے مفت ٹیسٹ اور اس کے ساتھ اس موضوع پر لیکچر اور معلومات دی گئیں۔ مکرم ڈاکٹر اسامہ بخاری، ڈاکٹر عاطف ملک، ڈاکٹر انواراحمد، ڈاکٹر عبدالسلام رفیق نے اس میں حصہ لیا۔ ڈاکٹر صاحبان نے ذیابیطس، کولیسٹرول، بلڈ پریشر کے بارہ میں شاملین کے سوالوں کے جواب بھی دیئے۔

تقریب کے آخر میں امام شمشاد ناصرصاحب نے جو کیلیفونیا سے اس میں شامل ہونے کے لئے آئے تھے سب ڈاکٹرصاحبان اور منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور جماعت احمدیہ کی خدمات کا تذکرہ کرنے کے ساتھ انہوں نے کہا کہ اصل میں انسانیت کی خدمت کرنا ہمارے اصولوں میں سے اور تعلیم اسلام کا یہ بہت بڑا حصہ ہے۔ جس کے لئے جماعت احمدیہ ہر وقت تیار ہے۔ دعا پر یہ اجلاس ختم ہوا۔

ہفت روزہ اردو لنک نے اپنی 9 مارچ 2006ء کی اشاعت میں خاکسار کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے:

’’آزادی صحافت کے نام پر مغرب کی ایک اور مذموم دجالیت‘‘

کیا آزادی صحافت و ضمیر اس بات کا نام ہے کہ خدا کے مقدس رسول ﷺ کی ہتک کی جائے اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا جائے۔ مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ نیک اور عملی نمونہ سے آنحضرت ﷺ کے ساتھ پیار اور فدائیت کا مظاہرہ کریں۔‘‘

اخبار نے جلی حروف میں یہ ہیڈلائنز دیں اور خاکسار کی تصویر بھی ساتھ شائع کی۔ اس کے علاوہ ایک اور تصویر بھی شائع کی جس میں مسلمان مرد و خواتین مختلف جگہوں پر مظاہرے کر رہے ہیں۔ یہ نصف صفحہ سے زائد کا مضمون ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے لکھا کہ: ہمارے پیارے آقا سرور کونین وجہ تخلیق کائنات حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ خاتم النبیین ﷺ کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر کس مسلمان کا دل چھلنی نہیں ہوا؟ کس آنکھ نے آنسو نہیں بہایا؟ ہمارے دل بے چین ہیں ہم خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ اور ادھر مغرب کی دجالی طاقتوں کا کہنا ہے کہ یہ آزادی صحافت ہے، یہ آزادی ضمیر ہے، ہم اس آزادی کے پاسبان ہیں، اگر ہم نے آج اس آزادی کی حفاظت نہ کی تو ہم مجرم ٹھہریں گے۔

ہمیں بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مغرب نے آزادی صحافت کے نام پر تمام مسلمانان عالم کے دل زخمی اور چھلنی کر دیئے حالانکہ انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو انہیں بھی یہ معلوم ہو جائے گا کہ یہ آزادی صحافت کا غلط استعمال ہے۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، آزادی صحافت کی بھی ایک حد ہے۔

خاکسار نے یہ بھی لکھا کہ بعض ممالک کے ذمہ دار لوگوں نے توہین آمیز خاکوں کی دوبارہ اشاعت کی۔ ایسے لوگوں کو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں کے بارے میں نازیبا اظہار خیال آزادی ضمیر کے زمرے میں نہیں آتا۔ تم جو جمہوریت اور آزادی ضمیر کے چیمپئن بن کر دوسروں کے جذبات سے کھیلتے ہو، یہ نہ تو جمہوریت ہے اور نہ ہی آزادی ضمیر۔ ہر چیز کی طرح صحافت کا بھی ضابطہ اخلاق ہے۔ اہل مغرب کا یہ دجالی کرشمہ ہے کہ وہ آزادی کے نام پر مذہبی اور اخلاقی اقدار کا مذاق اڑا رہا ہے اور اس سے وہ اپنی ہلاکت کو خود دعوت دے رہا ہے۔

’’اس نازک اور تکلیف دہ صورت میں ہمارا کیا ردعمل ہونا چاہئے۔‘‘

کیا ہم اپنے ہی لوگوں کو جوش میں آکر مار ڈالیں؟

کیا ہم اپنے وطنوں کو آگ لگا دیں؟ یا کیا ہم نے حملے کرنے سے، توڑ پھوڑ کرنے سے جھنڈے جلانے سے اور سفارتخانوں کو جلا دینے سے اسلام کی کوئی خدمت کر دی ہے؟ یا آنحضرت ﷺ کا نام مزید روشن کر دیا ہے؟

ہمیں چاہئے کہ اس نازک موقع پر درج ذیل طریق اختیار کریں۔

1۔ آنحضرت ﷺ کی سیرت مبارکہ پر ہر ملک، ہر شہر، ہر سکول، ہر کالج، یونیورسٹی میں قرآن و حدیث کی روشنی میں آپؐ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کریں۔
2۔ غیرمذاہب کے لوگوں کو بھی ان جلسوں میں بلائیں۔
3۔ سوال و جواب کی مجالس کا اہتمام کریں اور اس میں بھی ایک بات یاد رہے کہ تحمل کے ساتھ ہر ایک کا سوال سن کر تحمل کے ساتھ ہی جواب دیں۔
4۔ آنحضرت ﷺ کے اخلاق کریمانہ کی جھلک اپنے اعمال میں دکھائیں۔
5 ۔ خداتعالیٰ سے سیدھے راستہ کے لئے دعا بھی کریں۔
6۔ تبلیغ اسلام بھی کریں۔
7۔ اخبارات میں آنحضرت ﷺ کی سیرت پر مضامین بھی لکھیں۔ ایک اور بات جس کا اس مضمون میں ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اپنا عملی نمونہ دکھائیں اور اپنے نفس کا محاسبہ بھی کریں۔

آنحضرت ﷺ کے بارے میں اس حدیث کو جو حضرت عائشہؓ سے مروی ہے مدنظر رکھیں کہ ’’آپ نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے کوئی انتقام نہ لیا۔‘‘ اور قرآن کریم کی سورۃ احزاب کی یہ آیت جس کا ترجمہ یہ ہے یقیناً وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں اللہ نے ان پر دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی اور اس نے ان کے لئے رسوا کن عذاب تیار کیا ہے۔ احزاب آیت 58 مضمون کے آخر میں درود شریف لکھا گیا ہے۔ مسجد کا ایڈریس اور فون نمبر بھی ہے۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)

(از مولانا سید شمشاد احمد ناصر ۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 فروری 2021