• 9 مئی, 2025

ہر شہیدِ احمدیت کے نام

نوٹ: خاکسار نے یہ نظم اپنے پیارے بھائی عزیزم ڈاکٹر مہدی علی شہید کی زبانی تحریر کی تھی۔پھر خیال آیا کہ احمدیت کا ہر شہید ہی میرا اپنا تھا اور وہ اسی بہشت میں ہے جہاں میرا سگا بھائی عزیزم مہدی علی شہید ہے۔ پس خاکسار یہ نظم اپنے ہر شہید احمدیت کی نذر کرتا ہے۔

کچھ ذکر کروں اپنے پیاروں سے میں اپنا
ازلی یہ حقیقت ہے، نہیں کوئی یہ سپنا

جس راہ سے میں گزرا تھا، موعود تھی جنّت
تھا خونِ شہادت مرا فردوس کی رنگت

لینے کو قدم آئے تھے واں جنّتی میرے
اک بزمِ مزیّن میں تھے فضلوں کے بسیرے

ہے مَدھ بھری ولیوں کی وہ تسبیح، وہ تحمید
رس گھولتی کانوں میں سریلی سی وہ تمجید

اک سمت میں کوثر کا ہے اک حوض چمکتا
پانی ہے کہ اک قلزمِ انوار دمکتا

اک گھونٹ پیا، نور سا، یوں اترا بدن میں
دل حمد سے لبریز ہوا، شکر ہے من میں

اِستبرق و سندس میں وہ کمخواب پہ سونا
خوابیدہ سے رنگوں میں طلوع صبح کا ہونا

انگور کے، رُمّان کے، ریحان کے باغات
اِس لذّتِ اثمار کی ہے اور ہی کچھ بات

ہے عسلِ مصفّٰی کا تلذّذ بھی انوکھا
اور شربتِ کافوری کا بھی ذائقہ چوکھا

اور دودھ کی نہروں کی وہ پاکیزہ غذائیں
عرفانِ الٰہی سے معطّر ہیں فضائیں

خوش رنگ پرندوں سے بھرا رہتا ہے گلزار
پھل ایسے لدے، گر گئے سجدے میں ہیں اشجار

وِلدان کہ بکھرے ہوئے موتی ہیں چمن میں
آنکھوں کی طراوت بھی ہے جھرنوں کے دمن میں

جنّت میں ہے ہر روح حسیں حور پُر از نور
جب روح کے حرفوں کو پلٹ دیں تو بنے حور

حقدار ہے جنّت کا جو دراصل حسیں ہے
جز روح کی تجسیم کے کچھ حور نہیں ہے

میں نے جو رضا پائی ہے فردوسِ خدا میں
ویسی نہیں شے کوئی بھی اس ارض و سما میں

احمدؑ کی قدم بوسی سے ہے سر پہ مرے تاج
یہ عجز کا انعام ہے جو مجھ کو ملا آج

محبوبِ خداؐ میری نہیں آنکھوں سے اوجھل
خوشبختی کو میں چومتا رہتا ہوں مسلسل

موسیٰؑ نے بھی جس جلوے کو چاہا تھا سرِ طور
اس جلوے کے دیدار سے ہر روح ہے مسحور

ہر لمحہ میسر مجھے رحمٰن کا دیدار
یہ اس کا کرم ہے کہ ملا مجھ کو مرا یار

اس دنیا سے اٹھا ہوں، جہاں کون رہا ہے
اس عالمِ فانی میں سدا کون جیا ہے

میں زندہ تھا، زندہ ہوں، میں زندہ ہی رہوں گا
رضوانِ خدا کے گھنے سائے میں جیوں گا

اے میرے عزیزو! نہ جدائی سے دکھی ہو
میری تو دعا یہ ہے کہ ہر کوئی سکھی ہو

(ہادی علی چوہدری۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ