• 12 مئی, 2025

میں خدا کی باڑ ہوں (الہام حضرت مسیح موعود ؑ)

اِنِّیْ حِمیَ الرَّ حْمٰن (الہام حضرت مسیح موعود ؑ)
میں خدا کی باڑ ہوں

یہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جو 12دسمبر 1903ء کو ہوا۔ اس عربی الہام کا ترجمہ جو ملفوظات میں درج ہے یہ ہے کہ ’’میں خدا کی باڑ ہوں‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’یہ خطاب میری طرف ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعداء طرح طرح کے منصوبے کرتے ہوں گے۔ ایک شعر بھی اس مضمون کا ہے۔

اے آنکہ سوئے من بدویدی بصد تبر
از باغبان بترس کہ من شاخ مثمرم

(ملفوظات جلد6 صفحہ213 ایڈیشن1984ء)

مندرج بالا فارسی شعر کا ترجمہ یوں ہے کہ
اے وہ شخص! جو میری طرف سینکڑوں کلہاڑے لے کر دوڑ رہا ہے باغبان سے ڈر کہ میں ایک با ثمر شاخ ہوں۔

حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کاپی الہامات کے صفحہ 21 پر اس الہام کا اردو ترجمہ ’’میں ہوں خدا کی چراہ گاہ‘‘ بھی تحریر فرمایا ہے۔

باڑ جس کو انگریزی میں Fence کہتے ہیں۔ اور یہ جنگلہ، احاطہ، چار دیواری کے معنوں میں آتا ہے جو حفاظت کی غرض سے بنائی جاتی ہے۔ ہمارے ملک کے سرائیکی ایریا کے شہروں میں بھیڑ بکریوں کی حفاظت کے لئے جو جگہ بنائی جاتی ہے اسے باڑی بولتے ہیں۔ دراصل پرانے زمانے میں جب چار دیواری کا رواج یا شعور نہ تھا اور نہ ہی لوگوں میں چار دیواری کرنے یا کروانے کی سکت ہوا کرتی تھی اور نہ ہی چوری چکاری کا خطرہ ہوتا تھا۔ تو گھر والے اپنے مکانوں کے باہر مختلف پودوں کی باڑ لگا لیا کرتے تھے۔ میں نے اپنے بچپن میں کراچی اور راولپنڈی میں سرکاری کوارٹرز کے باہر اسی طرح کی باڑیں لگی دیکھی تھیں۔ جو پردے کے کام بھی آجایا کرتی تھیں اور گھروں سے باہر نکل کر اہل خانہ کھلی فضا میں بیٹھ بھی لیا کرتے تھے اور راہ چلتے شخص سےپردہ یا اوٹ بھی بن جایا کرتی تھی۔ بعض کسان اپنے کھیتوں کے ارد گرد ایک ہی قسم کے درختوں کو اگا کر باڑ بنا لیتے ہیں۔ فوج میں سپاہیوں اور فوجیوں کی باہرکی اطراف میں صف بندی کو بھی باڑ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

یہ معنی روحانی معنوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ احادیث میں نوافل کو اصل نماز کے لئے باڑ قرار دیا ہے۔ مفہوم اس کا یہ ہے کہ نمازوں میں کمی اور سستی کو نوافل کے ذریعہ دُور کیا جا سکتا ہے۔

زیر نظر موضوع میں اللہ تعالیٰ نے مامورِ زمانہ اور اس دَور کے فرستادہ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام کو الہام فرمایا کہ
’’میں رحمان خدا کی باڑ ہوں‘‘ جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود فرمایا ’’یہ خطاب میری طرف ہے‘‘

تین معانی

اس الہام کے تین معنی لیے جا سکتے ہیں۔

1: میں رحمان خدا کی باڑ ہوں یعنی اللہ رحمان کی ذات پاک پر ہونے والے حملوں کے دفاع کے لئے مجھے باڑ قرار دیا گیا ہے۔ کہ اس آخری دور میں دہریت کا اثر و رسوخ بڑھے گا اور خدا پر حملے ہوں گے جن کے دفاع اور جواب کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پلیٹ فارم ایک مضبوط پلیٹ فارم ثابت ہو گا۔ اور آج بفضل اللہ تعالیٰ دربار خلافت سے، ایم ٹی اے کے ذریعہ، روزنامہ الفضل آن لائن و دیگر اخبارات و رسائل اور علماء و مربیان اور مبلغین کی تقاریر، خطبات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اعلیٰ مرتبت دنیا بھر میں نہ صرف بیان ہو رہی ہے بلکہ اللہ اکبر کی صدائیں چاروں اطراف میں بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی ہیں اور کلیساؤں کے علاقوں میں تثلیث کے خلاف احمدی میدان عمل میں برسر پیکارہیں۔

کہتے ہیں تثلیث کو اب ا ہلِ دانش الوِ دَاع
پھر ہوئے ہیں چشمۂ توحید پر از جاں نِثار

2: میں رحمان خدا کی باڑ ہوں کے دوسرے اہم معنی یہ بنتے ہیں کہ جو میری باڑی میں داخل ہو گا وہ شر پسندوں اور غیروں سے الگ سے محفوظ ہو گا اور برائیوں و گناہوں سے بھی حفاظت میں آئے گا۔ اس مضمون کو اِنِّیْ اُحَا فِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ لفظ کشتی نوح میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ جو اس دَور کے نوح علیہ السلام کی کشتی میں سوار ہو گا وہ محفوظ رہے گا۔

ہم نے جماعت احمدیہ کی 132سالہ تاریخ کا مشاہدہ کیا ہے۔ مخالفین و معاندین نے اس جماعت کو ختم کرنے کی انتہا درجے کو ششیں کیں۔ انفرادی مخالفت، مذہبی جتھوں میں تبدیل ہوئی۔ بعض جگہوں پر سیاست دانوں، صحافی برادری، اینکر حضرات سول سوسائٹی کے ممبران کے علاوہ حکومتی سطح پر بھی مخالفت جماعت احمدیہ کو جھیلنی پڑی۔ غیر مسلم کہلائے گئے۔ ہمارے پیاروں کو اپنی قیمتی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ سینکڑوں بے گناہوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا گیا، ہماری آواز دبائی گئی۔ ہماری تبلیغ کو روکا گیا، ہمارے پریس و اخبار ات کی اشاعت بند کر دی گئی۔ ہمارے احمدیوں کی جائیدادوں کو اپنی متاع اور مال سمجھ کر لوٹا گیا۔ جائیدادوں کو آگ لگائی گئی۔ زمینوں پر قبضہ کیا گیا۔ مسجدیں گرا دی گئیں یا محراب اور مینارے مسمار کر دئے گئے عبادات کی ادائیگی سے روکا گیا حتٰی کہ وفات یافتہ احمدی بھی ان ظالموں کے ہاتھوں محفوظ نہ رہے۔ قبروں سے نکال کر ان کی عزت کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی۔ قبرستانوں میں کتبوں کو مسمار کیا گیا جن پر عربی عبارات لکھی تھیں۔ ان امور میں بعض جگہوں پر حکومتی مشینری نے بھی ساتھ دیا یا پشت میں رہ کر سہولت کار بنے رہے۔

مگر ان تمام ہتھکنڈوں کے استعمال کے باوجود کیا احمدیوں کی تعداد میں کمی ہوئی؟ کیا 1953ء کی مخالفت، کیا 1974ء میں احمدیوں کے خلاف غیر اسلامی طریق کا استعمال اور کیا 1984ء میں اس وقت کے جنرل کی طرف سے نا انصافی پر مبنی آرڈیننس کی پابندیاں جماعت کی ترقی روک سکیں۔ نہیں۔ ہر گز نہیں بلکہ جماعت پہلے سے بڑھ کر ایک نئی آن بان شان اورعزت و آبرو کے ساتھ دنیا بھر میں اُبھری اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی اتنی بارش برسی کہ دنیا کے چاروں کو نوں میں پھیلتی چلی گئی۔ پاکستان میں جن احمدیوں کے گھر جلائے گئے۔ مویشیوں کو آگ لگائی گئی، زمینوں پر قبضے کر لئے گئے، جن کے عزیزوں کی جانیں چھین لی گئیں۔ آج وہ پاکستان سے ہجرت کے بعد دنیا کے کونوں میں پھیل گئے ہیں اور لاکھوں کروڑوں میں کھیل رہے ہیں۔ ان کی آمدنیوں میں بے انتہا اضافہ کی وجہ سے جماعت کے چندوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اور ان کی رقوم پاکستان میں مسمار کی گئی مسجدوں کی جگہ دنیا بھر میں مساجد کی تعمیر میں صرف ہو رہی ہیں۔ خاکسار جب اسلام آباد، پاکستان میں مربی ضلع کے فرائض سر انجام دے رہا تھا تو خاکسار نے خطوط کے ذریعہ نام نہاد صحافی حامد میر اور ربوہ میں جماعت کی مخالفت کے لئے متعین مولوی اللہ یار کو الگ الگ وقتوں میں مشورہ دیا تھا کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کرنا ترک کردو۔ آپ لوگوں کی مخا لفت کی وجہ سے ہزاروں احمدی پاکستان چھوڑ کر دنیا بھرمیں آباد ہو گئے ہیں۔ لیکن ان مخالفین کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور آج ان کا چراغ معدوم ہوتا جا رہا ہے اور ان ہجرت کرنے والے احمدیوں کی آمدنی میں غیر معمولی اضافہ سے جماعت مستحکم ہو رہی ہے۔

یہ وہ انعامات ہیں جو اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ پر من حیث المجموعی اور انفرادی طور پر ہر فردِ جماعت پر نازل کرتا چلا جا رہا ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام، ہم سب احمدیوں کے لئے محفوظ ترین باڑ ثابت ہو رہے ہیں۔

اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اور جگہ پر یوں بیان فرمایا ہے کہ

ایک طوفان ہے خدا کے قہر کا جوش میں
نوحؑ کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہو رستگار
صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار
پشتیٴ دیوار دیں ہوں، مامن اسلام ہوں
نا رسا ہے دستِ دشمن تا بحدّ این جدار

آپؑ فرماتے ہیں
’’میں اس زمانے کا حصن حصین (مضبوط قلعہ۔ ناقل) ہوں۔ جو میرے میں داخل ہو گا وہ چوروں اور درندوں اور قزاقوں سے اپنی جان بچائے گا مگر جو شخص میری دیوار وں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت در پیش ہے اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ34)

3: اس الہام کے الفاظ کہ ’’میں خدا کی باڑ ہوں‘‘ کے تیسرے معنی کی تشریح خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس الہام کو بیان کرتے ہوئے یوں کر دی کہ
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعداء طرح طرح کے منصوبے کر رہے ہوں گے۔ ان اعداء کو مخاطب ہو کر اس شعر میں لکھتے ہیں کہ جو بھی سینکڑوں کلہاڑے لے کر مجھے نقصان پہنچانے کے لئے میری طرف دوڑرہا ہے اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ میں اس سر سبز لہلاتے باغ میں سے ایک درخت کی با ثمر شاخ ہوں جس کا باغبان خود خدا تعالیٰ ہے۔

ہم یہ امر روزانہ ہی مشاہدہ کرتے ہیں با لخصوص پاکستان اور دیگر ایشیائی ممالک میں کہ باغات، باغیچوں، کیاریوں اور گھروں کے ارد گرد لگے پھل دار و دیگر درختوں کی حفاظت کے لئے جو مالی (باغبان) رکھے جاتے ہیں وہ ان سے پھل، پھول اور سبزیاں لینے کے لئے ان کی کس قدر حفاظت کرتے ہیں۔ بر وقت پانی دیتے، کھاد اور فرٹیلائزر ڈالتے ہیں،آندھیوں، تیز تند ہواؤں اور طوفانوں سے بچانے کے لئے ان کی باڑ لگاتے ہیں۔ ان کی حفاظت کرتے ہیں۔

روحانی دنیا میں انبیاء، اولیا ءاور بر گزیدہ بندوں کو گلستانِ اسلام کے سر سبز درخت قرار دیا گیا ہے جن کی حفاظت اور ان کے مذہب کو پروان چڑھانے کے ذرائع وہ خود یعنی اللہ تعالیٰ بطور باغبان نکالتا رہتا ہے۔ جماعت احمدیہ بھی باغ اسلام کا ایک باغیچہ ہے۔ جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود خدا تعالیٰ نے لے رکھی ہے اور جب تک ہم اطاعت اور دیگر نیکیوں کو حرز جان بنائے رکھیں گے اس وقت تک خدا کی غیرت جوش میں رہے گی اور خلافت کی حفاظت فرماتی رہے گی۔ اور جماعت بھی دنیا بھر میں قائم رہے گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بھجوائے ہوئے کامل دین کی حفاظت کی خاطر قوموں کو بدل دیا کرتا ہے۔ اللہ نہ کرے ہم پر وہ وقت آئے۔ اللہ تعالیٰ ہماری قربانیوں کی توفیق بڑھاتا رہے اور اپنے ہاں مقبولیت کی سند دئیے رکھے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

گھر سے باہر جانے کی دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 فروری 2022