• 8 مئی, 2024

سورۃ الصّف، الجمعہ، المنافقون، التغابن اور الطلاق کا تعارف (حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

سورۃ الصّف، الجمعہ، المنافقون، التغابن اور الطلاق کا تعارف
از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

سورۃ الصّف

یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی پندرہ آیات ہیں۔

پچھلی سورت کے آخر پر جس عہد بیعت کا ذکر ہے اس میں صرف مومن عورتوں کی ذمہ داریوں کا ذکر ہی نہیں ہے بلکہ مومن مرد بھی عہد بیعت کے ذریعہ اسی قسم کی روحانی بیماریوں سے اجتناب کا عہد کرتے ہیں۔ پس دونوں کو سورۃ الصّفّ کے آغاز میں یہ تاکید ہے کہ اپنے عہد بیعت میں منافق نہ ہو جانا اور یہ نہ ہو کہ دوسروں کو تو نصیحت کرتے رہو اور خود اس پر کاربند نہ ہو۔ اگر تم اخلاص کے ساتھ عہد بیعت پر قائم رہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے دل ایک دوسرے سے اس طرح پیوستہ کر دے گا کہ تمہیں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح دشمن کے مقابل پر کھڑا کر دے گا۔

اسی سورت میں حضرت اقدس محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کا بھی ذکر ہے جس میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے نام یعنی احمد ؐ کا ذکر فرمایا جو جمالی شان کا مظہر ہے۔ احمدؐ کے تعلق میں اس کے بعد جو ذکر ملتا ہے اس سے صاف ثابت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک جمالی مظہر آخَرین کے زمانہ میں پیدا ہو گا۔ اس وقت جو اسلام کی جمالی رنگ کی خدمت کی اس کو اور اس کے متبعین کو توفیق ملے گی وہ نقشہ صاف ظاہر کر رہا ہے کہ یہ ایک مستقبل کی پیشگوئی ہے۔ چونکہ اس سورت کے آخر پر حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کی پیشگوئیوں کا ذکر چل رہا ہے اس لئے جس طرح آپؑ نے یہ اعلان کیا تھا کہ کون ہے جو اللہ کے لئے آپؑ کا مدد گار بنے، اُسی طرح لازم ہے کہ دَورِآخَرین میں جب دوبارہ یہ اعلان ہو تو تمام وہ سچے مسلمان جو سچے دل سے ان پیشگوئیوں پر ایمان لائے ہیں وہ بھی یہ اعلان کرتے ہوئے مسیح محمدیؐ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں کہ ہم ہر طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی نصرت کے لئے مسیحِ محمدیؐ کے خدمتِ دین کے کاموں میں اس کے مدد گار ہوں گے

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ1023)

سورة الجمعہ

یہ سورت مدنی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی بارہ آیات ہیں۔

یہ سورت گزشتہ سورت میں مذکور تمام پیشگوئیوں کی جامع ہے اور اس میں جمع کا ہر معنی بیان فرما دیا گیا ہے۔ یعنی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم آخَرین کو اوّلین کے ساتھ جمع کرنے کا موجب بنیں گے اور اپنی جلالی اور جمالی صفات کے جلووں کو بھی جمع فرمائیں گے اور جمعہ کے روز جو مسلمانوں کو ہر ہفتے جمع کیا جاتا ہے اس کا بھی اسی سورت میں ذکر ہے۔

اور اس کے آخر پر یہ پیشگوئی بھی کر دی گئی کہ بعد کے آنے والے مسلمان مال کمانے اور تجارتوں میں مشغول ہو کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ اس آیت کے متعلق بعض علماء کا یہ کہنا کہ گویا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسا ہوا کرتا تھا کہ آپؐ کے انتہائی مخلص صحابہ جنہوں نے کبھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خطرناک جنگوں میں بھی تنہا نہیں چھوڑا، جب تجارتی قافلوں کی خبریں سنا کرتے تھے تو آپؐ کو چھوڑ کر ان کی طرف بھاگ جایا کرتے تھے۔ یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ پر ایک بہتان ہے۔ یقیناً اس میں آخرین کے دور کے مسلمانوں کا ذکر ہے جو عملاً اپنے دین سے غافل ہو چکے ہوں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام سے کوئی سروکار نہ رکھیں گے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ،صفحہ1028)

سورۃ المنافقون

یہ سورت مدنی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی بارہ آیات ہیں۔

اس کا آغاز ہی اس بات سے کیا گیا ہے کہ جس طرح فی زمانہ بعض منافقین قسمیں کھاتے ہیں کہ تُو ضرور اللہ کا رسول ہے اور اللہ خوب جانتاہے کہ واقعةً تُو اللہ کا رسول ہے مگر اللہ یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں۔ اسی طرح آخَرِین کے دور میں مسلمانوں میں سے ایک کثیر تعداد کا یہی حال ہو چکا ہو گا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان کے اظہار میں قسمیں تو کھائیں گے مگر اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہو گا کہ وہ محض منہ کی قسمیں کھاتے ہیں اور ایمان کے حقیقی تقاضے پورے نہیں کرتے۔

اسی سورت میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پیدا ہونے والے رئیس المنافقین یعنی عبداللہ بن اُبی بن سلول کا ذکر آیا ہے کہ کس طرح اس نے ایک غزوہ سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح طور پر انتہائی گستاخی کی تھی یہاں تک کہ اپنے متعلق اہلِ مدینہ میں سب سے معزز ہونے کا دعویٰ کیا اور اس کے بر عکس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گستاخانہ کلمات کہتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ وہ مدینہ جانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ سے نکال دے گا۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے جو کچھ دکھایا وہ اس کے بالکل بر عکس تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عفو کا عظیم نمونہ دکھاتے ہوئے، طاقت رکھتے ہوئے بھی اس کو مدینہ سے باہر نہ نکالا اور اس کے مرتے دم تک اس کے لئے استغفار کرتے رہے یہاں تک کہ بالآخر اللہ تعالیٰ نے حکماً منع فرما دیا کہ آئندہ اس کی قبر پر کھڑے ہو کر اس کے لئے دعائے مغفرت نہ کیا کریں۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ1032)

سورۃ التغابن

یہ سورت مدنی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی انیس آیات ہیں۔

اس سورت کا آغاز بھی سورۃ الجمعہ کی طرح یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ کے کلمات سے ہوتا ہے۔ اس سورت میں بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کا ذکر فرماتے ہوئے یہ بیان کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اللہ کی تسبیح کررہا ہے جیسا کہ سب تسبیح کرنے والوں سے بڑھ کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی۔ پس کیسے ممکن ہے کہ مُسَبِّحِ اَعْظَم کی جو بھی اہانت کرے اس کو وہ اپنے غضب کا مورد نہ بنائے۔

سورۃ الجمعہ میں آخری دَور میں جس جمع کا ذکر ہے اس کے متعلق یہاں یہ پیشگوئی بھی فرما دی گئی کہ وہ تغابن یعنی کھرے کھوٹے کے درمیان تمیز کا دن ہو گا۔ اس دَور میں جو دین کی اعانت کے لئے کثرت سے مالی قربانی کا دَور ہو گا، تمام مالی قربانی کرنے والوں کو یہ خوشخبری دی جا رہی ہے کہ جو کچھ بھی وہ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں گے اس کو اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہوئے اس کا بہت عظیم اجر عطا فرمائے گا۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ1036)

سورۃ الطّلاق

یہ سورت مدنی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی تیرہ آیات ہیں۔

اس کا نام سورۃ الطلاق ہے اور اس میں آغاز سے لے کر آخر تک طلاق کے متعلق مختلف مسائل کا بیان ہے۔
پچھلی سورت سے اس سورت کا مرکزی نقطہ ٔ اتَصال یہ ہے کہ اس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسے نور کے طور پر پیش فرمایا گیا ہے جو اندھیروں سے ظلمات کی طرف نکالتا ہے اور یہی وہ نور ہے جو آخَرین کے زمانہ میں ایک دفعہ پھر آپؐ کی امّت کے ان لوگوں کو اند ھیروں سے نکالے گا جو دنیا کے اندھیروں میں بھٹکتے پھر رہے ہوں گے۔ اور اندھیروں سے نکلنے کے مضمون میں فسق و فجور کی زندگی سے نکل کر پاکبازی کی زندگی میں داخل ہونے کا مفہوم بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یعنی اعتقادی اندھیروں سے بھی وہ نکالے گا اور عمل کے اندھیروں سے بھی نکالے گا۔ چنانچہ سورۃ الطّلاق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا کہ یہ رسول تو سراپا ذکر ہے اور ذکر ہی کے نتیجہ میں نور عطا ہوتا ہے اور ذکرِ الہٰی کے نتیجہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ عظیم فضیلت عطا فرمائی کہ آپؐ سراپا نور ہو گئے اور اپنے سچے غلاموں کو بھی ہر اندھیرے سے نور کی طرف نکالا۔

اس سورت میں ایک اور ایسی آیت ہے جو زمین و آسمان کے اسرار سے حیرت انگیز طور پر پردہ اٹھاتی ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسے بذاتِ خود اندھیروں سے نکالنے والے تھے، اسی طرح آپؐ پر وہ کلام نازل فرمایا گیا جو کائنات کے اندھیروں سے اور اَسرار سے پردے اٹھا رہا ہے۔ جہاں قرآن کریم میں بارہا سات آسمانوں کا ذکر ہے وہاں یہ بھی فرما دیا گیا کہ سات آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات پیدا فرمائی گئی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس طرح ان زمینوں پر بسنے والوں پر وحی کا نزول ہوا اور کن کن اندھیروں سے ان کو نجات بخشی گئی۔ سردست کائنات میں جستجو کرنے والے سائنسدانوں کی اس مضمون کے آغاز تک بھی رسائی نہیں ہوئی لیکن جیسا کہ بار ہا ثابت ہو چکا ہے قرآنی علوم ایک کوثر کی طرح لا متناہی ہیں اور آئندہ زمانہ کے سائنسدان یقیناً ان علوم کی کسی حد تک اطلاع پائیں گے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ1041)

(عائشہ چودہری۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ