• 9 مئی, 2024

خطبہ جمعہ مؤرخہ 17؍دسمبر 2021ء (بصورت سوال و جواب)

خطبہ جمعہ حضور انور ایّدہ الله مؤرخہ 17؍دسمبر 2021ء
بصورت سوال و جواب

سوال: حضرت ابوبکرؓ کے والد ابوقُحافہ نے اُن سے کہا کہ اَے میرے بیٹے! مَیں دیکھتا ہوں کہ تم کمزور لوگوں کو آزاد کرا رَہے ہو، اگر تم ایسا کرنا چاہتے ہو جو تم کر رہے ہو تو تم طاقتور مردوں کو آزاد کرواؤ تاکہ وہ تمہاری حفاظت کریں اور وہ تیرے ساتھ کھڑے ہوں۔ اِس پر آپؓ نے کیا جواب دیا؟

جواب: اَے میرے پیارے باپ! مَیں تو محض الله عزّوجل کی رضا چاہتا ہوں۔

سوال: بقول بعض مفسّرین علامہ قرطبیؒ اور علامہ آلوسیؒ وغیرہ کون سی آیات الله تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کے مذکورہ بالاعمل کی وجہ سے آپؓ کی شان میں نازل فرمائی ہیں؟

جواب: سُورۃ الّیل کی آیات 6تا22

سوال: جب مسلمان بڑھ گئے اور اسلام ظاہر ہو گیا تو کفّارِ قریش اپنے اپنے قبائل میں سےاُن لوگوں کو سخت اذیّتیں اور تکلیفیں دینے لگے جو اُن میں سے ایمان لا چکے تھے، اِس سےاُن کا مقصدکیا تھا؟

جواب: وہ اُنہیں اُن کے دین سے پِھرا دیں۔

سوال: مذکورہ بالا تناظر میں رسول اللهؐ نے مؤمنوں سے فرمایا کہ تم لوگ زمین میں بکھر جاؤ، یقینًا الله تم لوگوں کو اکٹھا کر دے گا۔ صحابہؓ نے عرض کیا! ہم کس طرف جائیں، اِس پر آپؐ نےکیا ارشاد فرمایا؟

جواب: اِس طرف اور آپؐ نے اپنے ہاتھ سے حبشہ کی سرزمین کی طرف اشارہ فرمایا۔ یہ رجب سنِ 5؍نبویؐ کی بات ہے، آنحضرتؐ کے ارشاد پر گیارہ مَردوں اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔

سوال: مسلمانوں کے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد کن کو اِیذاء پہنچائی گئی جس پر اُنہوں نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کا اِرادہ کیا؟

جواب: حضرت ابوبکر صدّیقؓ

سوال: حضرت ابوبکرؓ ہجرت کی غرض سے حبشہ کی طرف چل پڑے جب وہ برك الغماد مقام پر پہنچے تو اُنہیں کون مِلا؟

جواب: ابن الدّغنہ؍ سردار قارہ قبیلہ

سوال: ابن الدّغنہ نے پوچھا، اَے ابوبکر! کہاں کا قصد ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا! میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے اور مَیں چاہتا ہوں کہ زمین میں چلوں پِھروں اور اپنے ربّ کی عبادت کرتا رہوں۔ اِس پر اُس نے کیا کہا؟

جواب: تمہارے جیسا آدمی خود وطن سے نہیں نکلتا اور نہ اُسے نکالا جانا چاہیئے تم تو وہ خوبیاں بجا لاتے ہو جو معدوم ہو چکی ہیں اور تم صلۂ رحمی کرتے ہو، تھکے ہاروں کے بوجھ اُٹھاتے ہو، مہمان نوازی کرتے ہو اور مصائبِ حقّہ پر مدد کرتے ہو۔پھر اُس نے کہا! مَیں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں واپس چلو اور اپنے وطن میں ہی اپنے ربّ کی عبادت کرو۔

سوال: ابن الدّغنہ کے کفّار قریش سے ملنے اور حضرت ابوبکرؓ کے مذکورہ بالا مناقبِ عالیہ کے اُن سے تذکرہ پر اُنہوں نے اُس کی پناہ منظور کر لی اور آپؓ کو اَمن دیا نیز اُ سے کیا کہا؟

جواب: ابوبکر سے کہو کہ وہ اپنے ربّ کی عبادت اپنے گھر میں ہی کیا کرے، وہیں نماز پڑھے اور جو چاہے پڑھے لیکن ہمیں اپنی عبادت اور قرآن پڑھنے سے تکلیف نہ دے اور بلند آواز سے نہ پڑھے کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمارے بیٹوں اور ہماری عورتوں کو گمراہ کر دے گا۔

سوال: کس کیفیّت نے قریش کے مشرک سرداروں کو پریشان کر دیا تھا؟

جواب: کچھ عرصہ کے بعدحضرت ابوبکرؓ کو خیال آیا تو اُنہوں نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد یعنی نماز پڑھنے کی جگہ بنا لی اور کھلی جگہ میں نکلے، وہیں نماز بھی پڑھتے اور قرآنِ مجید بھی اور اُن کے پاس مشرکوں کی عورتیں اور بچے جھمگٹا کرتے، وہ تعجب کرتے (یعنی حضرت ابوبکرؓ کو دیکھ کر تعجب کرتے) اور حضرت ابوبکرؓ کو دیکھتے کہ وہ بہت ہی رونے والے آدمی تھے، جب قرآن پڑھتے تو اپنے آنسوؤں کو نہ تھام سکتے۔

سوال: ابن الدّغنہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ کو اِس شرط کا علم ہی ہے جس پر مَیں نے آپ کی خاطر یہ عہد کیا تھا، اِس لیئے یا تو آپ اِس حد تک محدود رَہیں ورنہ میری ذمّہ داری مجھے واپس کر دیں کیونکہ مَیں پسند نہیں کرتا کہ عرب یہ بات سُنیں کہ جس شخص کو مَیں نے پناہ دی تھی اُس سے مَیں نے بدّ عہدی کی ہے۔ اِس پر حضرت ابوبکرؓ نے کیا کہا؟

جواب: مَیں آپ کی پناہ آپ کو واپس کرتا ہوں اور الله ہی کی پناہ پر راضی ہوں۔

سوال: حضرت ابوبکرؓ نے اپنے صحن میں جو مسجد بنائی تھی اِس کے بارہ میں صحیح بخاری کی شرح عمدۃ القاری میں کیا لکھا ہے؟

جواب: یہ مسجد گھر کی دیواروں تک پھیلی ہوئی تھی اور یہ پہلی مسجد تھی جو اسلام میں بنائی گئی۔

سوال: کفّار کے خدشہ کہ قرآنِ کریم اور حضرت ابوبکرؓ کی رقّت بھری آواز سُن کر لوگ بے دین ہو جائیں گے، اِس حوالہ سے حضورِ انور ایّدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیا تبصرہ فرمایا؟

جواب: یہی حال آجکل اَحمدیوں سے بعض مُلکوں میں ہو رہا ہے خاص طور پر پاکستان میں کہ اگر قرآن پڑھتے اور نماز پڑھتے دیکھ لیا اَحمدیوں کو تو بے دین ہو جائیں گے، اِس لیئے بڑی سخت سزائیں ہیں اَحمدی کو نماز اور قرآن پڑھنے پہ۔

سوال: کون بیان فرماتے ہیں کہ جب قریش آنحضرتؐ کی اِیذاء رسانی پر متفق ہو گئے اور اُنہوں نے ایک دستاویز لکھی تو حضرت صدّیقؓ اُس تنگی کے زمانہ میں آنحضرتؐ کے شریکِ حال رہے لہٰذا اِس واقعہ کے بارہ میں ابو طالب نے یہ شعر کہا ہے ؂

وَ ھُمْ رَجَّعُوْا سَہْلَ ابْنَ بَیْضَاءَ رَاضِیًا
فَسُرَّ اَبُوْ بَکْرٍ بِھَا وَ مُحَمَّدٗ

اور اُنہوں نے سہل بن بیضاء کو خوش کرتے ہوئے واپس بھیجا تو اِس پر ابوبکرؓ اور محمدؐ خوش ہو گئے؟

جواب: حضرت شاہ ولی اللهؒ

سوال: کون ارشاد فرماتے ہیں کہ جب ابوبکر صدّیقؓ نے ابو جہل سے شرط لگائی اور قرآنِ شریف کی وہ پیشگوئی مدارِ شرط رکھی کہ الٓـمّٓ ۚغُلِبَتِ الرُّوۡمُ ۙ فِیۡۤ اَدۡنَی الۡاَرۡضِ وَ ھُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ غَلَبِھِمۡ سَیَغۡلِبُوۡنَ ۙ فِیۡ بِضْعِ سِنِیۡنَ (الرّوم: 2تا5) اور تین برس کا عرصہ ٹھہرایا تو آپؐ پیشگوئی کی صورت کو دیکھ کر فی الفور دُور اندیشی کو کام میں لائے اور شرط کی کسی قدر ترمیم کرنے کے لیئے ابوبکر صدّیقؓ کو فرمایا اور فرمایا کہ بِضۡعِ سِنِیۡنَ کا لفظ مجمل ہے اور اکثر نو برس تک اطلاق پاتا ہے؟

جواب: سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ ِ الصّلوٰۃ والسّلام

سوال:حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں، جب الله تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو حکم دیا کہ وہ اپنے آپؐ کو عرب قبائل کے سامنے پیش کریں تو آپؐ اِس غرض سے نکلے، مَیں اور حضرت ابوبکرؓ بھی آپؐ کے ہمراہ تھے۔ ہم ایک مجلس میں پہنچے جس میں سکینت اور وقار تھا، وہ لوگ بلند مقدرت والے اور ذی وجاہت تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اُن سے پوچھا! تم لوگ کس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہو؟ اُنہوں نے کہا! ہم بنو شَیْبَان بن ثَعْلَبَہ میں سے ہیں۔ اِس پر حضرت ابوبکر صدّیقؓ نے رسولِ کریمؐ کی طرف متوجّہ ہو کر کیا کہا؟

جواب: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! اِن کی قوم میں اِس سے بڑھ کر کوئی اور معزز نہیں، اِن لوگوں میں مفروق بن عَمرو، مُثَنّٰی بن حارثہ، ہانی بن قبیصہ اور نعمان بن شریک تھے۔

سوال: رسول اللهؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ یَنۡھٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡبَغۡیِ ۚ یَعِظُکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ (النّحل: 91) یعنی یقینًا الله عدل کا اور احسان کا اور اقرباء پر کی جانے والی عطاء کی طرح عطاء کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور نا پسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرو۔ یہ کلام سننے کے بعد مفروق نیز مُثنّٰی نے کیا کہا؟

جواب: مفروق نے کہا! اَے قریشی بھائی، الله کی قسم! آپؐ نے اعلیٰ اخلاق اور اچھے کاموں کی طرف بلایا ہے۔ یقینًا ایسی قوم سخت جھوٹی ہے جس نے آپؐ کی تکذیب کی اور آپؐ کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی۔؛ مُثَنّٰی نے کہا! ہم نے آپؐ کی بات سنی، اَے میرے قریشی بھائی! آپؐ نے بہترین گفتگو کی اور جو باتیں آپؐ نے کہیں اُنہوں نے مجھے متعجب کیا لیکن ہماراکسریٰ کے ساتھ ایک معاہدہ ہے کہ نہ ہم کوئی نیا کام کریں گے اور نہ کوئی نیا کام کرنے والے کو ہم پناہ دیں گے اور غالبًا جس چیز کی طرف آپؐ ہمیں بُلا رہے ہیں یہ اُن میں سے ہے جسے بادشاہ بھی ناپسند کرتے ہیں۔

سوال: بمطابق ایک روایت رسولِ کریمؐ نے یہ فرمایا ! تمہارا کیا خیال ہے اگر تھوڑی سی مدّت میں الله تعالیٰ تمہیں اِن یعنی کسریٰ کی سرزمین اور مُلک کا وارث بنا دے اور اُن کی خواتین تمہارے قبضہ میں آ جائیں تو کیا تم الله کی تسبیح و تقدیس کرو گے؟ یہ سُن کر اُس(مَثنّٰی) نے کہا! اِلٰہی ہم تیار ہیں۔ خدا کی قدرت کے تحت آنحضرتؐ کی یہ بات حرف بہ حرف کیسے پوری ہوئی؟

جواب: وہی مَثنّٰی جو اُس وقت کسریٰ کی طاقت سے اتنا مرعوب تھا کہ اُس کی ناراضگی کے ڈر سے اسلام قبول کرنے سے ہچکچا رہا تھا کچھ ہی دیر بعد حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں اِسی کسریٰ سے مقابلہ کرنے والی اسلامی فوج کے سپۂ سالار یہی حضرت مُثَنّٰی بن حارثہ ہی تھے جنہوں نے کسریٰ کی کمر توڑ کر رکھ دی اور آنحضرتؐ کی بشارتوں کے مصداق بنے۔

سوال: حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے افغانستان اور پاکستان کے اَحمدیوں نیز مجموعی طور پر دنیا کے لیئے کیادعائیہ تحریک فرمائی؟

جواب: آج مَیں افغانستان کے اَحمدیوں کے لیئے دعا کے لیئے بھی کہنا چاہتا ہوں، بہت تکلیف میں گزر رہے ہیں، بعض گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ عورتیں، بچے بڑے پریشان ہیں گھروں میں اپنے۔ جو باہر ہیں مرد، جو گرفتار نہیں ہوئے وہ بھی بے گھر ہوئے ہوئے ہیں کیونکہ خطرہ ہے کہ گرفتاریاں نہ ہو جائیں۔ الله تعالیٰ اُن کے لیئے آسانیاں پیدا فرمائے اور اُن کو اِس مشکل سے نکالے۔ پھر پاکستان کے اَحمدیوں کے لیئے بھی دعا کریں وہاں بھی عمومی طور پر حالات خراب ہی ہوتے ہیں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا ہے، جو لوگ اَحمدیوں کو تکلیفیں دے رہے ہیں۔ اِسی طرح مجموعی طور پر بھی دعا کریں الله تعالیٰ دنیا کو حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کو پہچاننے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہر شرّ کو ختم کرے اور دنیا اپنے پیدا کرنے والے کی حقیقت کو پہچان لے۔

سوال: خطبۂ ثانیہ سے قبل حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کن پانچ مرحومین کا ذکرِ خیر کیا نیز بعد اَز نمازِ جمعۃ المبارک اُن کی نمازِ جنازہ پڑھانے کا اعلان فرمایا؟

جواب: الحاج مکرم عبدالرّحمٰن عینن صاحِب آف گھانا؍ سابق سیکریٹری امورِ عامہ و افسر جلسہ سالانہ؛ مکرم اذیاب علی محمد الجبالی صاحِب آف اُردن؛ مکرم دین محمد شاہد صاحِب حال مقیم کینیڈا؍ ریٹائرڈ مُربّیٔ سلسلہ؛ مکرم میاں رفیق احمد صاحِب آف ربوہ؍ کارکن دفتر جلسہ سالانہ (ناظم ٹیکنیکل امور) موصوف کے بارہ میں حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ذاتی مشاہدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان فرمایا! یہ مَیں نے بھی دیکھا ہے اِن میں انتہائی شریف النّفس انسان، بڑی عاجزی سے ہر کام کرنے والے اور وفا کے ساتھ اپنا بیعت کا حقّ ادا کرنے والے تھے۔؛ مکرمہ قانتہ ظفر صاحِبہ آف امریکہ؍ اہلیہ مکرم احسان الله ظفر صاحِب

(سابق امیر جماعت امریکہ)

(قمر احمد ظفر۔نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ