• 7 مئی, 2024

حاصل مطالعہ

’’گاہے گاہے باز خواں ایں قصہء پارینہ را‘‘
گزرے ہوئے چند دلچسپ اور سبق آموز واقعات
بےدلائل بے حوالہ بے سند ہیں یہ سب باتیں مگر ہیں مستند

1۔ ذوالقرنین آب حیات کی تلاش میں

’’لکھا ہے‘‘ ایک دفعہ حضرت ذوالقرنین آب حیات کی تلاش میں نکلے۔ واپسی سفر میں ایک ایسی قوم سے گزرے جو بہت خوشحال تھی۔ اوران کے گھروں کے آگے قبریں بنی ہوئی تھیں۔ مکانوں میں دروازے نہیں تھے۔اور نہ ان کا کوئی بادشاہ تھا ان میں نہ کوئی امیر تھا نہ فقیر۔ ذوالقرنین نے ان سے پوچھا تمہارے گھروں کے آگے قبریں کیوں ہیں انہوں نے کہا تا کہ موت ہر وقت یاد رہے۔ پوچھا مکانوں میں دروازے کیوں نہیں انہوں نے جواب دیا ہمارے شہر میں کوئی چور اور خائن نہیں۔پوچھا تمھارے شہر میں امیر نہیں ہیں ؟انہوں نے کہا ہمارے شہر میں ظالم نہیں ہیں۔سوال کیا تمہارے شہر میں قاضی نہیں؟ جواب ملا ہم آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں ہیں۔ پوچھا تمہارے شہر میں کوئی بادشاہ بھی نہیں؟ جواب ملا ہم میں کوئی زیادتی کرنے والا نہیں ہے۔ ان سے پوچھا گیا تم سب لوگوں میں مساوات کس طرح ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں جس کے پاس کمی ہو جاتی ہےہم سب مل کر اسے پورا کر دیتے ہیں۔ ذوالقرنین نےان سے پوچھا تم میں لڑائی جھگڑا کیوں نہیں ہوتا انہوں نے جواب دیا ہم اپنے نفسوں پر قادر ہیں اور جھوٹ نہیں بولتے اور اپنا مال تقسیم کرتے رہتے ہیں اس لیے ہم میں نہ کوئی امیر ہے نہ غریب۔ ان سے پوچھا گیا تمہاری عمریں کیوں لمبی ہیں ؟جواب ملا ہم کسی کا حق غصب نہیں کرتے اور عدل و انصاف سے رہتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا تمہارے شہر میں قحط کیوں نہیں آتا؟ انہوں نے کہا ہم استغفار سے کبھی غافل نہیں رہتے۔ اس قوم سے حضرت ذوالقرنین اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے لئے اس جگہ کو پسند کر لیا اور اپنی باقی زندگی یہیں بسر کر دی۔‘‘

(ماخوذ از ہفت روزہ لاہور نومبر1986)

2۔لیلۃ القدر کی تلاش

تیرہویں صدی کے مجدد اور 14 ویں صدی میں آنے والے مہدی معہود اور مسیح موعود علیہ السلام کے ارہاص حضرت سیّد احمد شہید بریلویؒ ’’مخزنِ احمدی‘‘ ! جو آپ کی سوانح پر بڑی مستند کتاب ہے میں لکھا ہے کہ قیام دہلی کے دوران ایک بار رمضان آیا تو اکیسویں شب کو حضرت شاہ عبدالعزیزؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اس آخری عشرہ میں کس رات شب بیداری کرکے شب قدر کی سعادت حاصل کی جائے؟ مولانا نے متبسّم ہوکر فرمایا فرزندِ عزیز شب بیداری کا جو روزانہ کا معمول ہے اسی طرح ان راتوں میں بھی عمل کرو۔صرف شب بیداری سے کیا ہوتا ہے !دیکھو چوکیدار اور سپاہی ساری رات جاگتے ہیں مگر اس دولت سے محروم رہتے ہیں۔ اگر تمہارے حال پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے تو شب قدر میں اگر تم سوئے بھی رہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو جگہ دے گا اور ان برکات میں شریک کر دے گا۔

سیّد صاحب یہ سن کر اپنے مسکن پر آگئے اور عادت کے مطابق شب بیداری کا معمول رکھا۔ ستائیسویں شب کو آپ نے چاہا کہ ساری رات جاگوں اور عبادت کروں مگر عشاء کی نماز کے بعد کچھ ایسا نیند کا غلبہ ہوا کہ آپ سو گئے۔ تہائی رات کے قریب دو شخصوں نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر جگایا آپ نے دیکھا کہ آپ کے داہنے طرف رسول کریم ﷺاور بائیں طرف حضرت ابوبکر صدیق ؓ بیٹھے ہیں اور آپ سے فرما رہے ہیں کہ احمد! جلد اُٹھ اور غسل کر۔ سیّد صاحب ان دونوں حضرات کو دیکھ کر مسجد کے حوض کی طرف گئے اور باوجود یکہ سردی سے اس کا پانی یخ ہو رہا تھا آپ نے اس سے غسل کیا اور فارغ ہو کر خدمت اقدسﷺ میں حاضر ہوئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ فرزند! آج شب قدر ہے یاد الہی میں مشغول ہو اور دعا اور مناجات کرو اس کے بعد دونوں حضرات تشریف لے گئے۔

(ازمخزنِ احمدی)

3۔ایک حکایت اور مفید سبق

کہتے ہیں ایک بادشاہ کے زمانہ میں ایک بہت بوڑھے بزرگ آدمی رہتے تھے۔انھوں نے موجودہ بادشاہ کے والد اور دادا کا زمانہ بھی دیکھا تھا۔ ایک دن بادشاہ نے اس بزرگ کو اپنے دربار میں بلایا اور کہا بزرگو! آپ نے میرا زمانہ بھی دیکھا ہے اور میرے والد اور دادا کا زمانہ بھی دیکھا ہوا ہے۔آپ کو ان تینوں ادوار میں کیا فرق نظر آتا ہے۔بزرگ نے کہا حضور! آپ کے دادا کے زمانہ میں ایک دن میں جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہا تھا کہ میں نے ایک ڈاکو کو دیکھا جو ایک دُلہن کو اٹھا کر لے جا رہا تھا وہ میرا جوانی کا زمانہ تھا۔میں نے ڈاکو کا مقابلہ کیا اور اسے زیر کر کے بے ہوش دُلہن کو اپنی جھونپڑی میں لے آیا دلہن نے لاکھوں کا زیور پہنا ہوا تھا مگر اس کے زیوروں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا بلکہ میں اسے ہوش میں لا کر اسے اپنے گھر چھوڑ آیا۔تو حضور یہ آپ کے دادا کا زمانہ تھا۔جب آپ کے والد بادشاہ بنے تو یہ واقعہ یاد آنے پر بجائے خوشی کے مجھے افسوس ہوتا تھا کہ میں نے اس عورت کی عزت اور جان بچائی یہی کافی تھا۔میں اگر اس کے کچھ زیورات اتار لیتا تو اسے کون سا پتہ چلنا تھا، اپنی باقی عمر آرام سے کٹ جاتی۔ تو حضور یہ آپ کے والد کا زمانہ تھا۔اور بادشاہ سلامت اب جب سے آپ صاحب اقتدار ہوئے ہیں جب کبھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو مجھے عورت کی خوبصورتی اور اپنی بیوقوفی پر سخت غصہ آتا ہے کہ کیا عمدہ موقع تھا جو میں نے اپنے ہاتھ سے گنوا دیا۔

(ازروزنامہ نوائے وقت 17 ستمبر 1984)

4۔ قضائے آسمانی

کہتے ہیں کہ امیر مہدی کے عہد میں ایک دفعہ سخت قحط پڑا ہر چند کے امیر نے خزانے کا منہ فی سبیل اللہ کھول دیا اور غلّہ کے انبار وقفِ عام کر دیے۔لیکن قحط کی مصیبت کم نہ ہوئی اس سبب سے امیر کو خلقت کی یہ حالت دیکھ کر اپنی جان بھی تلخ معلوم ہوتی۔ نہ پیٹ بھر کر کھانا کھاتے نہ چین سے بچھونے پر سوتے۔ ایک روز بستر پر حیرت اور حسرت زدہ لیٹا ہوا تھا خادم پاس بیٹھا تھا اسے کوئی کہانی سنانے کا کہا کہ دل بہلے اور کچھ غم غلط ہو۔خادم نے کہانی شروع کی کہ ہند کی سرزمین پر ایک شیر رہا کرتا تھا اور سب درندے جنگل کے اس کی خدمت میں حاضر رہتے۔ایک دن لومڑی نے کہا بادشاہ سلامت ہم تیری رعیت ہیں اس لیے بادشاہ پر رعیت کی رعایت لازم اور واجب ہے۔اب مجھے ایک ضروری سفر درپیش ہے اس کے بغیر چارہ نہیں۔مشکل یہ ہے کہ میرا بچہ ہے میں چاہتی ہوں کہ وہ بادشاہ سلامت کے سپرد کردوں اور کسی دشمن کے چنگل تک نہ پہنچنے پائے شیر نے یہ بات قبول کرلی اور لومڑی اپنا بچہ اس کے حوالے کر کے سفر پر روانہ ہو گئی۔شیر نے اس بچے کو اپنی پیٹھ پر بٹھا لیا تا کہ جنگل کا کوئی درندہ اسے گزند نہ پہنچا سکے ایک دن اچانک ایک عقاب اپنا شکار تلاش کرتا ہوا اڑتا پھر رہا تھا اس کی نظر لومڑی کے بچے پر پڑی اور شیر کی پیٹھ پر جھپٹا مار کر لومڑی کے بچے کو لے اڑا۔جب لومڑی سفر سے واپس آئی تو بچے کو نہ دیکھ کر شیر سے بولی بادشاہ سلامت تم نے تو عہد کیا تھا کہ میں تیرے بچے کی حفاظت کروں گا اب کیا ہوا شیر نے کہا میں نے تو ذمہ داری زمینی جانوروں سے بچانے کی لی تھی لیکن بلائے ناگہانی اگر آسمان سے نازل ہو تو میرا کیا قصور ہے یہ میرا ذمہ نہ تھا۔

امیر نے جب یہ کہانی یہاں تک سنی تو اٹھ بیٹھا اور رو رو کر جنابِ کبریائی میں التجا کرنے لگا کہ الہی! جو فتنہ فساد زمین میں اٹھے اسے تو میں رفع کر سکتا ہوں مگر قضائے آسمانی قدرتِ یزدانی میں بندہ ناچیز سے کیا ہو سکتا ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ قحط چند روز میں دور ہوگیا۔

(بحوالہ مخزن الاخلاق منقول از ماہنامہ مصباح نومبر1995)

5۔حضرت امام غزالی ؒ بنام محمد بن ملک شاہ

؎واعظِ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برقِ طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی

؎رہ گئی رسمِ اذاں روح بِلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

لکھا ہے حقوق اللہ یہ ہیں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور حقوق العباد۔ عدل و انصاف ہیں۔ حقوق اللہ آسانی سے معاف ہوسکتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ غفورالرحیم ہے حقوق العباد معاف ہونے کی کوئی تدبیر نہیں۔ اس کے بعد لکھتے ہیں سب سے پہلے تجھ کو جاننا چاہیے کہ اقتدار اور حکومت کتنا بڑا عظیم اور پُرخطر فرض ہے آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے کہ قیامت میں سب سے زیادہ جن کو عذاب دیا جائے گا وہ ظالم بادشاہ اور حکمران ہوں گے۔ حضرت عمر ؓفرمایا کرتے تھے کہ اگر ایک خارشی بکری کی خبرگیری مجھ سے رہ گئی تو قیامت کے دن مجھ سے مواخذہ ہوگا۔ اے بادشاہ! دیکھ حضرت عمر رضیؓ کو باوجود اپنی کمال احتیاط قیامت کے مواخذہ کا کس قدر ڈر رہتا ہے۔اور تیرا یہ حال ہے کہ تجھ کو اپنی رعایا کی بھی کچھ پروا نہیں اور کچھ نہیں جانتا کہ تیرے ملک والوں کا کیا حال ہے تجھ کو صرف اس پر قناعت نہیں کرنی چاہیے کہ تو خود ظلم کا ارتقاب نہیں کرتا بلکہ تو اس بات کا بھی ذمہ دار ہے کہ تیرے غلام اور خدام و خشم، عہدہ دار، عامل بھی کسی پر ظلم نہ کر پائیں۔ ایّھاالسلطان! اگر تو دنیا کے حظوظ کی غرض سے لوگوں پر ظلم کرتا ہے تو غور سے دیکھ کے دنیا کے حظوظ کیا ہیں۔ اگر تو کھانے کا زیادہ حریص ہے تو تُو جانور ہے۔ اگر حریر اور دیبا کے استعمال کا دلدادہ ہے تو تُو مرد نما عورت ہے۔ اگر اپنے غیظ و غضب کے قابو میں ہے تو تُو آدمی کی صورت درندہ ہے۔ہر معاملہ میں تجھ کو یہ فرض کرلینا چاہیے کہ تُو ایک آدمی ہے اور فرمانروا کوئی اور شخص ہے۔اس بات میں اندازہ کر لے جو معاملات تُو اوروں کے ساتھ کرنا چاہتا ہے اگر تیرے ساتھ کیا جاتا تو تو پسند کرتا یا نہیں اگر تو اپنے حق میں اسے جائز رکھتا اور وہی معاملہ اپنے زیر دستوں کے ساتھ جائز رکھنا چاہتا ہے توتُو دغا باز اور خائن ہے تجھ کو صرف یہ کوشش کرنی چاہیے کہ تمام رعایا تجھ سے شریعت کے اصول کے موافق راضی اور خوشنود رہے۔

(از نصیحۃالملوک-ترجمہ از فارسی)

6۔نماز میں حضورِ قلب کا ایک بہترین سبق

دلچسپ اور عمدہ مثال:
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی رضیؓ فرماتے ہیں ایک روز میں نے عرض کیا حضرت نماز میں حضور اور لذّت اور ذوق و شوق اور تضرع کیوں کر پیدا ہووے۔ فرمایا مکتب میں کبھی پڑھے ہو؟ عرض کیا ہاں پڑھا ہوں، فرمایا کبھی استاد نے کان پکڑوائے ہیں؟ عرض کیا ہاں پکڑوائے ہیں فرمایا پھر کیا حال ہوا عرض کیا میں پہلے تو برداشت کرتا رہا اور جب تھک گیا اور ہاتھ پیر دکھ گئے اور درد ہوا اور پسینہ پسینہ ہوا تو رو پڑا اور آنسو جا ری ہو گئے۔ فرمایا پھر کیا ہوا ؟عرض کیا پھر استاد کو رحم آگیا اور کان چھڑوا دئیے اور خطا معاف کردی پھر پیار کیا اور کہا کہ جاؤ پڑھو۔ فرمایا یہی حالت نماز میں پیدا کرو پھر خدا تعالیٰ کے رحم پر نظر ہوگی۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ بھی رجوع برحمت ہو گا اور دریائے رحمت جوش مارے گا۔پھر حضور اور خشُوع و خضوع اور لذت اور ذوق و شوق پیدا ہو جائے گا۔

(از تذکرۃالمہدی جلد2 صفحہ212)

کسی نے خوب کہا ہے:

سلیقہ نہیں تجھ کو رونے کا ورنہ
بڑے کام کا ہے یہ آنکھوں کا پانی

7۔خداوندا فقط تُو ہے

گزرتی ہے جو دل پر دیکھنے والا فقط تو ہے
اندھیرےمیں اجالا دھوپ میں سایہ فقط تو ہے
گدائے دہر کا کیا ہے؟ اگر یہ در نہیں وہ ہے
تیرے د ر کے فقیروں کی تو کُل دنیا فقط تو ہے
تو ہی دیتا ہے نشہ اپنے مظلوموں کو جینے کا
ہر ایک ظالم کا نشہ توڑنے والا فقط تو ہے
وہی دنیا وہی اِک سلسلہ ہے تیرے لوگوں کا
کوئی ہو کربلا اس دیں کا رکھوالا فقط تو ہے
ہر اک بے چارگی میں بے بسی میں اپنی رحمت کا
جو دل پر ہاتھ رکھتا ہے خداوندا فقط تُو ہے
میرے حرف و بیاں میں آئینوں میں آبگینوں میں
جو سب چہروں سے روشن تر ہے وہ چہرہ فقط تو ہے

(کلام عبیداللہ علیم)

یہ شور و غوغا مچانے والے فساد و فتنہ اٹھانے والے
کیا تیرے پاس ہے یہی قوم! تیری بگڑی بنانے والے
سنوسنو! آج آسماں سےصدائےپیہم یہ آرہی ہے
بچا سکیں گے نہ اپنا گھر بھی خدا کے گھر کو جلانے والے

8۔حضرت اقدس مسیح موعود ؑکے
عالمِ شباب کا دلربا نقشہ

1859ء کے قریب جب کہ حضور علیہ السلام کی عمر مبارک 24 سال کے قریب تھی فرمایا مساجد میرا مکان، صالحین میرے بھائی ذکرِ الہی میرا مال اور خلق خدا میرا کنبہ ہے۔

(اخبار بدر 3؍ جون 1909ء صفحہ 2)

پھر فرمایا جو بدی کا بدی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اپنے تئیں شریر کے حملہ سے بچاؤ مگر خود شریرا نہ مقابلہ مت کرو۔مگر جو اس غرض سے کسی کو تلخ دوا دیتا ہے کہ وہ اچھا ہو جائے وہ اس سے نیکی کرتا ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ اس نے بدی کا بدی سے مقابلہ کیا ہے۔ ہر ایک نیکی اور بدی نیت سے ہی پیدا ہوتی ہے پس چاہیے کہ تمہاری نیت کبھی نا پاک نہ ہو تا تم فرشتوں کی طرح ہو جاؤ۔

(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد 16 صفحہ29)

پھر فرمایا چاہیے کہ تمہارے ہاتھ اور قلم نہ رُکیں اس سے ثواب ہوتا ہے۔ جہاں تک بیان اور انسان سے کام لے سکو لیے جاؤ اور جو جو باتیں تائیدِ دین کے لئے سمجھ میں آتی جائیں انہیں پیش کیے جاؤ کسی نہ کسی کو فائدہ پہنچائیں گی۔

(اخبارالحکم17 فروری 1904)

9۔عملِ صالح کی حقیقت

فرمایا اس وقت اللہ تعالیٰ کے اسمِ ستار کی تجّلی ہے۔اس تجّلی کے وقت بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو آج بڑے متقی اور پرہیز گار نظر آتے ہیں۔قیامت کے دن وہ بڑے فاسق فاجر نظر آئیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عملِ صالح ہماری اپنی تجویز اور قرارداد سے نہیں ہوسکتا۔ اصل میں عملِ صالح وہ ہیں جس میں کسی نوع کا کوئی فساد نہ ہو۔کیوں کہ صالح فساد کی ضد ہے۔ اور اسی طرح پر ضروری ہے کہ عملِ صالح میں بھی کسی قسم کا فساد نہ ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو۔ اور پھر آنحضرت ﷺکی سنت کے موافق ہو۔ پھر نہ اس میں کسی قسم کا کسل ہو نہ عُجب ہو، نہ ریا ہو، نہ وہ اپنی تجویز سے ہو جب ایسا عمل ہو تو وہ عمل صالح کہلاتا ہے۔اور یہ کبریت احمر ہے۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ630)

کیا ہی سچ ہے کہ،
پھر چلو ہم دیارِ یار چلیں
کرکے آنکھوں کو اشکبار چلیں
جس طرح پھول کوئی کانٹوں میں
اس طرح زندگی گزار چلیں

تم دوسرے لوگوں کو ظلمت سے نور کی طرف لانے کا وسیلہ بنو۔نجات صرف رحم اور فضل سے ہے۔

10۔امروزقوم ِمن نشناسد مقام ِمن

فرمایا اب وقت آ گیا ہے کہ پھر اسلام کی عظمت شوکت ظاہر ہو۔ اور اسی مقصد کو لے کر میں آیا ہوں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ جو انوار و برکات اس وقت آسمان سے اتر رہے ہیں۔ وہ ان کی قدر کریں کہ وقت پر ان کی دستگیری ہوئی اور خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اس مصیبت کے وقت ان کی نصرت فرمائی۔ لیکن اگر وہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر نہ کریں گے تو خدا تعالیٰ بھی ان کی کچھ پروا نہ کرے گا وہ اپنا کام کر کے رہے گا مگر ان پر افسوس ہوگا۔

میں پورے زور سے اور پورے یقین اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ دوسرے مذاہب کو مٹا دے اور اسلام کو قوت اور غلبہ ہو اب کوئی ہاتھ اور طاقت نہیں جو خدا تعالیٰ کے ارادہ کا مقابلہ کرے ’’وہ فعالُ لِّماء یُرید ہے‘‘ مسلمانو! یاد رکھو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تمہیں یہ خبر دی ہے اور میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا ہے اب اس کو سننا نہ سننا تمہارے اختیار میں ہے یہ سچی بات ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو موعود آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں۔ اور یہ بھی پکی بات ہے کہ اسلام کی زندگی عیسیٰ علیہ السلام کے مرنے میں ہے۔

(لیکچر لدھیانہ صفحہ 290)

یاروجو مرد آنے کو تھا وہ توآ چکا –
یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا

11۔ ایک ضروری نصیحت

’’حضرت اقدس امام الزمان مسیحِ موعود علیہ السلام نے اپنی ایک آخری نصیحت میں فرمایا ! جماعتِ احمدیہ کےلیے بہت فکر کا مقام ہے کیونکہ ایک طرف تو لاکھوں آدمی اُنہیں کافر کافر کہتے ہیں۔ دوسری طرف اگر یہ خدا تعالیٰ کی نظر میں بھی مومن نہ بنیں تو اُن کیلئے دوہرا گھاٹا ہے۔‘‘

(حوالہ ازکتاب ایاز محمود سوانح حضرت ڈاکٹر حشمت اللہؓ جلد اول صفحہ 44)

12۔ فضیلت علم و ایمان

’’ایمان بھی انسان کو اعلیٰ سے اعلیٰ ترقیات کا وارث بناتا ہے اور علم بھی۔ایمان علم کو اور علم اِیمان کو بڑھاتا ہے۔ ایمان اپنے اندر اسی طرح نورِ علم رکھتا ہے جیسے کُفر جہالت کی ظلمت کو۔ غرض اِن دونوں کا تعلق آپس میں نہایت گہرا ہے۔‘‘

(بحوالہ صحیح بخاری جلد اول کتاب العلم صفحہ 116)

13۔ اُبسط رِداک

’’اپنی چادر پھیلاو‘‘ یہ ایک محاورہ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ فارغ البال ہو کر توجہ اور اطمینان سے سننے کےلئے بیٹھ جاؤ۔ اپنے اندر اُس سوالی کی سی حالت پیدا کرو جو لینے کے لئے اپنی چادر پھیلا دیتا ہے۔ جب تک طالبِ علم کی یہ حالت نہ ہو گی وہ کچھ فائدہ نہ اٹھائے گا جو سنے گا بھول جائے گا۔ استفادہٴ علم کے لئے شوق حرص اور حضورِ قلب ہونا ضروری ہے۔ اُبسط رِداک کا ایک معنی یہ بھی ہیں کہ آنحضرتﷺ اپنے فیضان کے چُلو بھر بھر کر ڈالتے رہے اور حضرت ابو ہریرہؓ ان فیضان کو اپنی چادرِ سینہ میں سمیٹتے رہے۔‘‘

(صحیح بخاری ایضاً تشریحات حضرت سیّد زین العابدین ولی اللہ شاہؓ)

14۔ حقیقتِ ایمان کیا ہے

حضرتِ اقدس امام الزمان علیہ السلام فرماتے ہیں ’’بھائیو یقیناً سمجھو کہ نجات ایمان سے وابسطہ ہے اور ایمان اُمورِ مخفیہ سے وابسطہ ہے۔ اگر حقائقِ اشیاء مستور نہ ہوتی تو ایمان نہ ہوتا اور اگر ایمان نہ ہوتا تو نجات کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا۔ سو اُٹھو ایمان کو ڈھونڈو اور فلسفہ کے خشک اور بےسُود ورقوں کو جلاؤ کہ ایمان سے تم کو برکتیں ملیں گی۔ ایمان کا ایک ذرّہ فلسفہ کے ہزار دفتر سے بہتر ہے۔ اور ایسی کوئی دولت نہیں جیسا کہ ایمان۔ دنیا میں ہر ایک ماتم زدہ ہے مگر ایمان دار۔ دنیا میں ہر ایک سوزش اور حرکت اور جلن میں گرفتار ہے مگر مومن۔ اے ایمان کیا ہی تیرے ثمرات شیریں ہیں۔ کیا ہی تیرے پھول خوشبو دار۔ سبحان اللہ کیا عجیب تجھ میں برکتیں ہیں۔ کیا ہی خوش نور تجھ میں چمک ہے۔ کوئی ثریا تک نہیں پہنچ سکتا مگر وہی جس میں تیری کششیں ہیں۔ خدا تعالیٰ کو یہی پسند آیا کہ اب تو آوے اور فلسفہ جاوے۔ ولا رادّلِفضلہٖ۔

(از آئینه کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحه 270-273 مقدمہ حقیقتِ اسلام)

15۔خطبات اور درس لکھنے کی اہمیت

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ آنحضورﷺ کی زبان مبارک سے جو بھی سنتے وہ لکھ لیتے اس پر بعض لوگوں نے منع کیا کہ آنحضور ﷺ کبھی خوش ہوتے ہیں کبھی ناراض تم سب لکھتے جاتے ہو یہ درست نہیں۔ عبداللہ بن عمرو نے اس پر لکھنا چھوڑ دیا۔ لیکن جب آپﷺ تک یہ خبر پہنچی تو فرمایا تم بے شک لکھا کرو کیونکہ خدا تعالیٰ کی قسم میری زبان سے جو کچھ نکلتا ہے حق اور راست نکلتا ہے۔ اس کے بعد عبداللہ بن عمرو آپ کی باتیں لکھ کر محفوظ کر لیا کرتے تھے۔

(ابو داود کتاب العلم حدیث نمبر3161)

امام الزمان علیہ السلام نے ارشاد فرمایا میں پھر پکار کر کہتا ہوں اور میرے دوست سُن رکھیں کہ میری باتوں کو ضائع نہ کریں۔ میں نے یہ ساری باتیں نہایت دل سوزی اور سچی ہمدردی سے جو فطرتاً میری روح میں ہے کی ہیں۔ ان کو گوشِ دل سے سنو اور اس پر عمل کرو۔

(از ملفوظات جلد اول صفحہ 90)

حضرت خلیفۃالمسیح ثانیؓ ارشاد فرماتے ہیں ہمارے پرانے بزرگ اس بات کی احتیاط کرتے تھے کہ جب درس دیتے تو سننے والوں کو کاپی اور قلم دوات کے بغیر نہ بیٹھنے دیتے۔ لکھا ہے کہ حضرت امام مالک ؒ درس دیا کرتے تھے اُن کے درس میں حضرت امام شافعی ؒ بھی آ گئے اُن کی عمر بھی چھوٹی تھی (13،12 سال) جب وہ دو تین دن اُنکے درس میں بیٹھے تو حضرت امام مالکؒ نے دیکھا کہ اُن کے پاس کاپی اور قلم دوات نہیں تو اُنہوں نے کہا لڑکے تو کیوں یہاں بیٹھا کرتا ہے۔ امام شافعی نے کہا میں جو کچھ سنتا ہوں یاد ہو جاتا ہے۔ امام مالکؒ نے کہا اچھا جو کچھ میں نے پڑھایا ہے سُناوٴ اُنہوں نے سنا دیا۔ حضرت امام مالکؒ کے دوسرے شاگرد کہتے ہیں ہماری کاپی میں غلطی تھی مگر امام شافعی نے صحیح صحیح سنا دیا۔ اس لئے لکھنے کا یہ بھی فائدہ ہوتا ہے انسان اُسے بار بار دیکھ کر یاد کر لیتا ہے۔

(کتاب ملائکۃ اللہ صفحہ 4)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔خلیفہ وقت کے خطبات کا سننا بھی بہت ضروری ہے یا دوسری باتیں جو مختلف وقتوں میں کی جاتی ہیں اُن پر غور کرنا اور نوٹ کرنا بہت ضروری ہے۔ عہدے درانِ جماعت جہاں احبابِ جماعت کو توجہ دلائیں وہاں خود بھی توجہ دیں۔ اگر کوئی تربیت کا پہلو ہو تو فوراً نوٹ کر لیا کریں۔

(بحوالہ خطبہ جمعہ 16 اگست 2013)

16۔گانے بجانے اور بیہودہ پروگرام سننے
اور سنانے کا انجام

حضرت خلیفۃالمسیح الثانی المصلح الموعودؓ ایسے پروگراموں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ تاریخوں میں لکھا ہے کہ جب روم کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائی ہوئی تو رومی جرنیل نے اپنا ایک وفد مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا۔ اور کہا کہ تم مسلمانوں کے حالات کو جا کر دیکھو اور واپس آ کر بتاؤ کہ ان کی کیا کیفیت ہے۔وہ وفد اسلامی لشکر کا جائزہ لیکر واپس آیا تو اس نے کہا کہ ہم مسلمانوں کے لشکر کو دیکھ آئے ہیں،وہ ہمارے مقابلہ میں بہت تھوڑے ہیں۔مگر ایسا معلوم ہوتا ہے وہ کوئی جنّ ہیں۔ کیونکہ ہم نے دیکھا وہ دن کو لڑتے ہیں اور رات کو تہجد پڑھنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔(لیکن) ہمارے سپاہی جو دن بھر تھکے ماندے ہوتے ہیں وہ تو رات کو شرابیں پیتے ہیں اور ناچ گانے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ اور ان کاموں سے فارغ ہوتے ہیں تو سو جاتے ہیں۔ مگر وہ لوگ یعنی (مسلمان) کوئی عجیب مخلوق ہیں کہ دن کو لڑتے ہیں اور راتوں کو اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور اس کا ذکر کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے لڑنا بے فائدہ ہے۔ چنانچہ دیکھو اس ذکرِ الہی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ بھی آسمان سے ان کی مدد کیلئے اترا اور اس نے انہیں بڑی بڑی طاقتور حکومتوں پر غالب کردیا…لیکن جب مسلمان بگڑ گئے اور انہوں نے ذکرِ الہی میں راتیں بسر کرنے کی بجائے رنگ رلیوں اور ناچ گانوں میں راتیں بسر کرنی شروع کر دیں اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ اسحاق،موسیٰ بڑا اچھا گانا گانے والا ہے اور فلاں کنجری خوب گاتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی تباہی کیلئے ہلاکو خان کو بغداد پر مسلط کر دیا۔ اور اس نے ایک دن میں اٹھارہ ہزار مسلمانوں کو قتل کر دیا۔ اور شاہی خاندان کی کوئی عورت ایسی نہ چھوڑی جس کے ساتھ بدکاری نہ کی گئی ہو۔ اس وقت مسلمان ایک بزرگ کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ دعا کریں کہ بغداد تباہی سے بچ جائے۔ انہوں نے کہا میں کیا دعا کروں میں تو جب بھی ہاتھ اٹھاتا ہوں اللہ تعالیٰ کے فرشتے مجھے یہ آوازیں دیتے سنائی دیتے ہیں کہ:۔ اَیُّھَاالکُفَّارُاُقْتُلُوا الفُجَّار۔ یعنی اے کافرو ان فاجروفاسق مسلمانوں کو خوب مارو۔ چنانچہ بغداد تباہ ہو گیا اور عباسی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ حالانکہ ایک زمانہ میں ان کی طاقت کا یہ عالم تھا کہ رومی حکومت کے لشکر کو جو ساٹھ ہزار کی تعداد میں تھا مسلمانوں کے صرف ساٹھ آدمیوں نے شکست دے دی تھی۔یہ اس لیے ہوا کہ ان کی زبانیں ذکرِالہی سے تر رہتی تھیں اور اُن کی راتیں خدا تعالیٰ کے حضور قیام اور سجود میں گزر جاتی تھیں۔

(تفسیرِ کبیر جلد ششم صفحہ 563-564)

دوستو! ہرگز نہیں یہ ناچ اور گانے کے دن
مشرق و مغرب میں ہیں یہ دیں کے پھیلانے کے دن
دوستو! اب بھی کرو توبہ اگر کچھ عقل ہے
ورنہ خود سمجھائے گا وہ یار سمجھانے کے دن

(کلامِ محمود صفحہ21)

17۔غیر قوموں کی رِیس مت کرو

حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تم غیر قوموں کو دیکھ کر اُن کی رِیس مت کرو۔کہ انہوں نے دنیا کے منصوبوں میں بہت ترقی کر لی ہے۔ آؤ ہم بھی اُن کے نقشِ قدم پر چلیں۔ سنو اور سمجھو کہ وہ اُس خدا سے سخت بیگانہ اور غافل ہیں جو تمہیں اپنی طرف بُلاتا ہے۔ اُن کا خدا کیا چیز ہے۔ صرف ایک عاجز انسان۔ اس لئے وہ غفلت میں چھوڑے گئے۔میں تمہیں دنیا کے کسب اور حرفت سے نہیں روکتا مگر تم اُن لوگوں کے پَیرو مت بنو جنہوں نے سب کُچھ دنیا کو ہی سمجھ رکھا ہے۔ چاہیے کہ تمہارے ہر ایک کام میں خواہ دنیا کا ہو خواہ دین کا خدا سے طاقت اور توفیق مانگنے کا سلسلہ جاری رہے۔

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ23)

حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اپنے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ 1924ء میں میں انگلستان تبلیغِ اسلام کے مواقع دیکھنے کےلئے گیا۔میں نے اُس وقت وہی لباس پہنے رکھا جو میں ہندوستان (قادیان) میں پہنتا تھا۔ اور یورپین لوگ نہ صرف یہ کہ اس لباس کو ذلیل سمجھتے ہیں بلکہ چونکہ ان کا رات کا لباس ایسا کُھلا ہوتا ہے جیسے ہماری شلوار قمیض۔وہ اس لباس کو رات کو پہنتے ہیں۔ اس لئے وہ کسی کے سامنے نہیں آتے۔ایک دن ہمارے مبلّغ انچارج میرے پاس آئے اور بڑی تشویش سے کہنے لگےکہ آپ کے اس لباس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو بڑی ٹھوکر لگ رہی ہے۔ آپ اگر پتلون نہیں پہن سکتے تو کم سے کم علی گڑھ فیشن کا گرم پاجامہ پہن لیں اور قمیض کو اس کے اندر ٹھونس لیا کریں۔میں نے اُن سے پوچھا کہ آخر میں ایسا کیوں کروں؟ اِن لوگوں کو میرے قومی لباس پراعتراض کرنے کا حق کیا ہے۔ مبلّغ صاحب نے کہا کہ حق ہو یا نہ ہو بہرحال اس سے بہت بُرا اثر پڑتا ہے۔ اور ہماری قومی تحقیر ہوتی ہے۔

اُسی دن مجھے ملنے کے لئےلندن کے اوریئنٹل کالج کے پرنسپل سر ڈینی سن راس اور کُچھ اور بڑے بڑے آدمی آئے۔ میں نے اُن کے سامنے یہی سوال رکھا،اور کہا کہ کیا آپ لوگ اس لباس کو ذلیل سمجھتے ہیں؟ جیسا کہ یورپین تہذیب ہے۔اُنہوں نے کہا نہیں نہیں یہ کس طرح ہو سکتا ہے، ہم آپ کے لباس کو بڑا اچھا سمجھتے ہیں۔ میں نے سمجھ لیا کہ محض مغربی تہذیب کے نتیجہ میں یہ ایسا کہہ رہے ہیں۔ لیکن ان کے دل میں یہ بات نہیں، میں نے پھر اصرار سے کہا آپ میرے دوست ہیں سچ سچ بتائیے کہ آپ کی قوم پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے؟ اس پر اُنہوں نے کہا کہ سچی بات تو یہی ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ اس لباس میں لوگوں کے سامنے آنے کو بُرا سمجھتے ہیں،اور اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔سر ڈینی سن راس علی گڑھ اور کلکتہ میں بھی پروفیسر رہ چکے تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ سر ڈینی سن ! آپ یہ بتایئے کہ جب آپ ہمارے ملک (ہندوستان) میں تھے تو کیا آپ شلوار قمیض اور دھوتی پہنا کرتے تھے؟ اُنہوں نے کہا نہیں۔میں نے کہا تو پھر آپ یہ بتائیں کہ آپ ہمارے ملک میں آکر اپنا ہی لباس رکھیں تو حرج نہیں،اور ہم آپ کے ملک میں آکر اپنا لباس رکھیں تو یہ بُری بات ہے۔

فرمایا میں نے ہندوستان سے چلتے ہوئے یہاں کی سردی کا خیال کر کے گرم کپڑے کے ایسے پاجامے سلوا کر اپنے ساتھ لایا تھا جو علی گڑھ فیشن کے ساتھ ملتے تھے۔مگر اب میں وہ کپڑے نہیں پہنوں گا۔اور اسی طرح واپس لے جاؤں گا۔میں انگریز کے ہندوستان پر حاکم ہو جانے کیوجہ سے نہ اپنے ملک کے لوگوں کو انگریز سے کم تر سمجھتا ہوں اور نہ اپنے ملک کی تہذیب کواِس کی تہذیب سے کم تر سمجھتا ہوں۔اور انگریزی تہذیب اور اِس کے تمدّن کو نقل کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں۔

(تفسیرِ کبیر جلد دہم صفحہ 386-387تفسیر سورۃ الکافرون)

خلاصہٴ کلام

جیسا کہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارے ہاتھ اور قلم نہ رُکیں اس سے ثواب ہوتا ہے۔ جہاں تک بیان اور انسان سے کام لے سکو لیے جاؤ اور جو جو باتیں تائیدِ دین کے لئے سمجھ میں آتی جائیں انہیں پیش کیے جاؤ کسی نہ کسی کو فائدہ پہنچائیں گی۔

(محمد عاصم حلیم)

پچھلا پڑھیں

گھر سے باہر جانے کی دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 فروری 2022