• 8 مئی, 2024

دانشوروں کی غیر معمولی ہمدردی

لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت ہڈیوں تک نوچ لئے گئے
لیکن یہ آزمائشیں بھی انہیں اپنے دین سے نہیں روک سکیں
دانشوروں کی غیر معمولی ہمدردی
یہ خواہش رکھتے ہیں کہ تو اپنے دین میں کچھ نرمی کرے تو وہ بھی (اپنے طریق میں) کچھ نرمی کریں

یہ مضمون بعد ملاحظہ حضور انور شائع کیا جارہا ہے۔

گزشتہ دنوں امریکہ سے ایک دوست نے انیق ناجی کا ایک وڈیو کلپ بھجوایا جس میں وہ جماعت احمدیہ کو یہ مشورے دیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ بس آپ بہت ظلم سہہ چکے ہیں اب آپ کو کوئی ایسا پائیدار حل سوچنا چاہئے جس کے نتیجے میں پاکستان کا انتہا پسند طبقہ آپ پر ظلم کرنا بند کردے۔ ان کے بیان کے مطابق چونکہ پاکستان میں اجتماعی ضمیر نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے اس لئے اسے جگانا بے سود اور بے فائدہ ہے۔ وہاں تو طاقتور لیڈرز بھی احمدیوں کے حق میں کھڑے نہیں ہو سکتے اسلئے آپ کی لیڈر شپ کو ہی اپنے موقف اور عقائد میں نرمی پیدا کرتے ہوئے اور کروڑوں لوگوں کی طاقت کو دیکھتے ہوئے کوئی Out of the Boxطریقہ تلاش کرنا چاہئے لیکن اس حوالے سےجو طریقہ انہوں نے تجویز کیا وہ ایسا مضحکہ خیز تھا کہ اسے سن کر یہ احساس ہوا کہ اگر ان کی اس بات کو ایک لمحہ کے لئے بھی قابل توجہ سمجھا جائے تو ہمیں تمام مذہبی تاریخ کا انکار پڑے گا اور تمام مذاہب کےکروڑوں متبعین کو ان کی اس دانشمندی پر قربان کرنا پڑے گا۔ جماعت احمدیہ کے پاس تو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے خلافت احمدیہ کی صورت میں آسمانی ہدایت کا وہ سرچشمہ موجود ہے جسے اس قسم کے مشوروں کی کوئی بھی ضرورت نہیں ہے اور جس کی قیادت اور راہنمائی کے سبب جماعت احمدیہ دنیا کے 210 سے زائد ممالک میں ترقیات کی منزلیں طے کرچکی ہے لیکن اگر ان کا یہ مشورہ دیگر ممالک میں بھی پہنچ گیا تو ان کی اس ترکیب کی روشنی میں روہنگیا ، کشمیر ، فلسطین اور دنیا بھر میں اسلام کے نام پر مظالم کا شکارہونے والے مسلمانوں کو از سر نو اپنی قربانیوں کا جائزہ لینا پڑے گا اورانیق ناجی کے بیان کردہ مشورہ کے مطابق اپنے عقائد میں ممکنہ ردوبدل کرکے اکثریت کو خوش کرنے کا طریق اپنانا ہوگا۔کیا ناجی یہ مشورہ ان کمزور مسلمانوں کو دینا پسند کریں گے؟

لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمینی حقائق ان کے اس خیال کی بھی صاف نفی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ابھی گزشتہ دنوں ہی پشاور میں ولیم سراج جو عیسائیت کے ایک پادری تھے انہیں محض مذہبی اختلاف کی بنیاد پر بے دردی سے قتل کردیا گیا ہے۔وہ توایک مسیحی ہونے کے سبب وضاحت سے یہ اظہار کر چکے تھے کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ تو خود کو ایک اقلیت تسلیم کئے ہوئے تھے۔وہ تو احمدیوں کی طرح خود کو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ساتھ منسوب نہیں کر رہے تھے۔ پھر ان کے قتل کے بعد ایسے مشورے کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے؟

کیا یہ مشورے قابل قدر ہیں

دراصل سیاسی لوگوں اور عمائدین کے درمیان رہتے ہوئے اور ان کے حالات زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے ان جیسے سطحی دانشور اس قسم کےمشورےہی دے سکتے ہیں کیونکہ وہ مذہب اور عقیدے کو بھی سیاست کی ایک ایسی دکان سمجھتے ہیں جس میں وقت پڑنے پر مفاہمت کا چورن بڑی آسانی کے ساتھ بیچاجا سکتا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ مذہبی دنیا میں اس قسم کی صورت کو مداہنت یا منافقت کہا جاتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے مامورین کو بھی دنیاوی جتھوں اور امداد کے ذریعہ ہی ترقیات نصیب ہوا کرتی ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ تاریخ مذاہب میں آنے والا ہر سچا نبی اور اس کی جماعت ظلم و ستم کے وہ مناظر دیکھتی ہے جن کا بیان بھی انسانیت کو شرما دیتا ہے۔صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب کفار کے مظالم ناقابل برداشت ہوگئے تو، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی حالت زار بیان کی اور عرض کیا کہ حضور! آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد کیوں نہیں مانگتے؟

ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے بہت سے نبیوں اور ان پر ایمان لانے والوں کا حال یہ ہوا تھاکہ ان میں سے کسی ایک کو پکڑ لیا جاتا اور گڑھا کھود کر اس میں انہیں ڈال دیا جاتا تھا پھر آرے کو ان کے سر پر رکھ کراس کے دو ٹکڑے کر دئیے جاتے تھے یا لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت ہڈیوں تک نوچ لئے جاتے تھے لیکن یہ آزمائشیں بھی انہیں اپنے دین سے نہیں روک سکتی تھیں۔

(صحیح بخاری، کتاب الاکراہ حدیث نمبر 6943)

یہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایسا کوئی دانشور اس وقت وہاں اس مجلس میں موجود نہیں تھا جو صحابہ کو یہ مشورہ دیتا کہ ان مظالم سے بچنے کے لئے فی الوقت اپنے ایمان سے، اپنے عقائد سے، اپنے مذہب سے انکار کردو کیونکہ تم تمام دنیا کا مقابلہ تونہیں کرسکتے اور نہ ہی تم دنیا کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگا سکتے ہو، اور اگر ایسا کوئی مشورہ پیش کیا بھی جاتا تو کیا دینی عزت اور عظمت کے لئے ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کا عزم کرکے کھڑے ہونے والے صحابہ ایسے مشورے کو قبول کرلیتے؟

لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ مشورہ بالکل ہی نیا ہے۔ ایسے دنیا دار دانشور مذہبی لوگوں کو پہلے بھی اس قسم کے مشورے دینے کی کوشش کرتے چلے آئے ہیں جو ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سیرت اور قرآن کریم کی تعلیمات نے ہماری راہنمائی کے لئے ابدی طور پر محفوظ بھی کردئیے ہیں اور بڑی حقارت سے انہیں رد بھی کرکے دکھا دیا ہے۔ پس آؤٹ آف دی باکس طریق دوسرے لفظوں میں وہ طریق ہے جو آؤٹ آف قرآن طریق ہے اور ایک الٰہی جماعت ہونے کے ناطے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ادنی غلام ہوتے ہوئے ہم کسی ایسے طریق کے بارہ میں سوچ بھی نہیں سکتے جو آپ کے طریق عمل کے خلاف ہو۔ صاحب قلم ہونے کے دعویدار اس دانشور نے اگر سورۃ القلم ہی پڑھ لی ہوتی تو وہ اس کی ابتدائی آیات پر ہی ٹھہر جاتے جو پکار پکارکر صاحب ایمان لوگوں کو یہ نصیحت کرتی ہے کہ:

فَلَا تُطِعِ الْمُکَذِّبِیْنَ۔ وَدُّوْا لَوْ تُدْھِنُ فَیُدْھِنُونَ

(القلم: 9-10)

اور تو ان منکروں کی بات نہ مان۔ یہ (کفار) خواہش رکھتے ہیں کہ تو اپنے دین میں کچھ نرمی کرے تو وہ بھی (اپنے طریق میں) کچھ نرمی کریں۔

پس کیا ان کا یہ مشورہ ان آیات میں بیان کردہ معاملے سے مختلف ہے؟ کیا مداہنت کے ذریعہ سے مذاہب وہ فتوحات حاصل کرسکتے ہیں جو اللہ کی تائیدات کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہیں، اور تمام سچے مذاہب کی طرح جماعت احمدیہ کی 133 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ایک عظیم بادشاہ اور طاقتور مددگار کی طرح ہر مشکل اور ابتلاء میں جماعت کا ہاتھ تھاما ہے اور خود اسے بچایا بھی ہے اور خلافت احمدیہ کی قیادت میں اسے ایسی عالمگیر ترقیات بھی دی ہیں جو دیگر جماعتوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتیں اور خلافت کی یہی عظیم الشان نعمت ہے جو ہمیں دیگر جماعتوں سے ممتاز کرتی ہے۔

سوشل میڈیا کے دانشور

ان دنوں سوشل میڈیا پر اس قسم کے دانشوروں کی تعداد برسات میں اگنے والی کھمبیوں سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ ہر وہ شخص جس نے ایک موبائل فون خرید لیا ہے اور اسے بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولت میسر آگئی ہے وہ اپنی ذات میں خود کو ایک دانشور سمجھ بیٹھا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ہر شخص کو دھوکہ دے سکتا ہے۔ ان میں سے بعض کو جماعت احمدیہ کے مالی نظام پر افسوس ہوتا رہتا ہے۔بعض کو ہماری اطاعت کی روح بری لگتی ہے۔ بعض کو ہمارے صبر پر غصہ آتا ہے۔بعض ہمارے نظم و ضبط سے نالاں ہیں۔ بعض کو ہمارے اموال اور نسلوں کی حفاظت کی فکر کھائے جارہی ہےبعض کے نزدیک خلافت کے لئے جماعت کی محبت اور خلیفہ وقت کی جماعت سے محبت ایک ایسا عقدہ ہے جو روحانی دنیا سے ناآشنا ہونے کے سبب ان کی سمجھ سے بالا ہے۔ ان میں سے بعض کو غریب احمدیوں کے ساتھ شدید ہمدردی پیدا ہوچکی ہے اور ان کو اسلام کی عالمگیر ترقیات کے لئے چندہ دینے والے احمدی تو بہت مظلوم نظر آتے ہیں لیکن ان کو اپنے ہی ملک میں اور دنیا بھر میں دکھوں کی چکی میں پستے ہوئے دیگر کمزور مسلمان بالکل بھی دکھائی نہیں دیتے کہ ان کی بھلائی کے لئے بھی کوئی راہ عمل سوچ سکیں۔ ان کے پروگراموں کا مرکز ی نکتہ غریب اورمذہبی جنون کی چکی میں پسے ہوئے احمدی تو ہوتے ہیں لیکن وہ گیارہ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر خاموش رہتے ہیں۔ لاکھوں یتیم جو عرب ملکوں اور دنیا کے دوسرے حصوں میں ان کی ہمدردی کے منتظر ہیں ان پر تو شفقت کی کوئی نگاہ نہیں پڑتی۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ منظم طریق سے کی جانے والی منافقت کی وہ کوششیں ہیں جو اس وقت شروع کی جاتی ہیں جب دوسرا ہر حربہ بے کار ہوجائے۔ اور بدقسمتی سے جن کروڑوں لوگوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لئے یہ ہمیں بلا رہے ہیں وہ ان کے اپنے الفاظ میں اجتماعی ضمیر سے عاری ایک ہجوم ہے، ریوڑ ہے ،ایک بے لگام جتھہ ہے جن کے وجود کا کوئی بھی مذہبی یا اخلاقی جواز نہیں ہے۔جن میں سے ہر ایک جتھے کے نزدیک دوسرا گروہ قابل گردن زدنی ہے۔ جہاں عقیدے کے فرق کی سزا موت ہے۔جہاں نہ تو مشعال خان محفوظ ہے، نہ ہی پرانتھا کمارا اور نہ ہی کوئی ایسا مجنون اور دیوانہ جسے شریعت نے بھی دینی معاملات میں مکلف نہیں بنایا۔ جہاں ہر ایک شخص دوسرے کو جہنم واصل کرنے کے بعد جنت میں پہنچنے کے لئے قطار میں لگا ہوا ہے۔ایسے میں اگر احمدی ہدف نہ بھی ہوں تو کیا ضمانت ہے کہ وہاں مذہب کے نام پر خون خرابے اور قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ رک جائے گا۔ لیکن یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس قسم کی مداہنت اور منافقت کے مشورے دینے والے لوگ مذہبی جنونیوں کو سمجھانے اور روکنے کی بجائے صرف ان لوگوں کو مشوروں سے نوازتے ہیں جو دنیا میں سچائی کی آواز لے کر کھڑے ہوئے اجتماعی ضمیر کو جگانے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ کمزور اور غریب احمدی تووہ ہیں جو قرآنی تعلیمات کے مطابق دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنے کے لئے اپنی جان ، مال ، وقت اور عزت قربان کرنے کے عہد کرتے ہیں اور پھر ان عہدوں کو پورا بھی کرتے ہیں۔ یا شاید ان سطحی دانشوروں کے خیال میں قرآن کی یہ آیات اب قابل عمل نہیں رہیں جو انہی کمزوروں کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں:

اَلَّذِیۡنَ یَلۡمِزُوۡنَ الۡمُطَّوِّعِیۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَالَّذِیۡنَ لَا یَجِدُوۡنَ اِلَّا جُہۡدَہُمۡ فَیَسۡخَرُوۡنَ مِنۡہُمۡ ؕ سَخِرَ اللّٰہُ مِنۡہُمۡ ۫ وَلَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ

(التوبہ: 79)

وہ لوگ جو مومنوں میں سے دلی شوق سے نیکی کرنے والوں پر صدقات کے بارہ میں تہمت لگاتے ہیں اور ان لوگوں پر بھی جو اپنی محنت کے سوا (اپنے پاس خرچ کرنے کے لئے اور) کچھ نہیں پاتے۔ پس وہ ان سے تمسخر کرتے ہیں۔ اللہ ان کے تمسخر کا جواب دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب (مقدر) ہے۔

اور اسی سے پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو ایسے فتنہ پردازوں کے مشوروں میں آنے سے منع بھی کرتا ہے اور یہ سمجھاتا ہے کہ جو خدا دینے کی طاقت رکھتا ہے وہ واپس لینے پر بھی قادر ہے اسلئے ایسے لوگوں سے ہمیشہ ہوشیار رہنا اور اپنے وعدوں کو تا دم آخر نبھانا مبادا تم بھی ان لوگوں کا حصہ بن جاؤ جنہوں نے عہد کرکے توڑ دیا۔ قرآن فرماتا ہے کہ:
اور انہی میں سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہمیں اپنے فضل سے کچھ عطا کرے تو ہم ضرور صدقات دیں گے اور ہم ضرور نیک لوگوں میں سے ہو جائیں گے۔ پس جب اس نے اپنے فضل سے انہیں عطا کیا تو وہ اس میں بخل کرنے لگے اور (اپنے عہد سے) پھر گئے اس حال میں کہ وہ اِعراض کرنے والے تھے۔ پس عقوبت کے طور پر اللہ نے ان کے دلوں میں اس دن تک کے لئے نِفاق رکھ دیا جب وہ اس سے ملیں گے بوجہ اس کے کہ انہوں نے اللہ سے وعدہ خلافی کی نیز اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔

(التوبہ: 75-77)

تاریخ مذاہب کیا کہتی ہے؟

اگر ہم مذہبی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی اصلاح اور انہیں قابل قدر وجود بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سلسلہ نبوت و خلافت شروع فرمایا اور حضرت آدم علیہ السلام کو پہلا خلیفہ بناکر انہیں اور ان کے ساتھیوں (زوج) کو شیطانی حملوں اور وساوس سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی نصیحت کی لیکن ابلیس جو اپنی ناکامی اور شکست پر نالاں تھا اس نے اپنے ایک مظہر کے ذریعہ سے اور یہ وعدہ دے کر کہ تم میرے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرکے کامیاب ہوجاؤ گے حضرت آدم اور ان کے ساتھیوں کو بہکانے کی کوشش کی اور ایک غیر معمولی طریق ان کے سامنے پیش کیا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے بھی یہی طریق اختیار کیا تھا چنانچہ فرماتا ہے شیطان نے آدم علیہ السلام کو شجرۂ ممنوعہ کے قریب لے جانے کے لئے کہا کہ قَالَ مَانَھٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَةِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْتَکُوْنَا مِنَ الْخَالِدِیْنَ (الاعراف: 21) یعنی شیطان نے آدم علیہ السلام سے کہا کہ آپ کو شجرۂ ممنوعہ سے بچنے کی حکمت پر غور کرنا چاہئے صرف حکم کے ظاہری الفاظ کو نہیں دیکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ اس شجرہ سے بچ کر آپ فرشتے ہو جائیں اور ہمیشہ کی زندگی پائیں پس جب یہ حکم آپ کو نیک بنانے اور دائمی زندگی دینے کے لئے تھا تو اب اگر اس شجرہ کے قریب جانے سے وہی غرض پوری ہوتی ہو تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی رُوح کو مقدم رکھتے ہوئے اب آپ کو اس کے قریب جانے سے دریغ نہیں کرنا چاہئے اور اس کے قریب جانے کو ہی منشائے الٰہی کو پُورا کرنے والا سمجھنا چاہئے ۔۔۔۔۔ شیطان کا فریب یہی تھا کہ اس نے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی بات کی تصدیق کر کے آدم علیہ السلام کے سامنے اپنے ایمان کا ثبوت دیا دوسری طرف اجتہاد کی آڑ لے کر یہ بتایا کہ اب حالات بدل گئے ہیں۔ اللہ تعالےٰ کی غرض اور اس کا منشاء اس درخت سے دُور رہ کر نہیں بلکہ اس کے قریب جا کر پُورا ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے کے لئے اور اس کے حکم کی رُوح کو مقدم رکھتے ہوئے اب آپ کو اس درخت کے قریب جانا چاہئے۔ آدم علیہ السلام اس کے اس دھوکے میں آ گئے اور اس کی بات کو مان لیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنت دُکھ کا مقام بن گئی۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 344-345)

اسی بارہ میں آپ فرماتے ہیں:
’’ہر ایک انسان جو پیدا ہوتا ہے وہ آدم ہے۔ ملائکہ کو جو دنیا کے رُوحانی نظم و نسق کو قائم رکھنے کے لئے ایک واسطہ کے طور پر پیدا کئے گئے ہیں انہیں اس کی مدد کرنے کا حکم دیا جاتا ہے ملائکہ جن اشیاء کے نگران ہیں وہ سب انسان کی مدد کرتی اور اس کی زندگی کو با آرام بنانے میں کار آمد ہوتی ہیں لیکن بعض شریر لوگ دوسرے بھائیوں کا سکھ نہیں دیکھ سکتے وہ شیطان بن کر ان کو اس رُوحانی جنت سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جو، ہر ایک انسان کو اس کی پیدائش سے ملا ہے اور بہت کچھ دکھ دیتے ہیں۔ لیکن وہ جو آدم کی طرح اپنے رب کے حضور جھکتا ہے اور اس سے اپنی مصیبت کے دُور کرنے کی التجا کرتا ہے آخر کامیاب ہو جاتا ہے اور ہر خوف و حزن کی حد سے باہر نکل جاتا ہے لیکن جو لوگ آدم کے نقش قدم پر نہیں چلتے بلکہ ابتلاؤں میں اُن کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور شیطان سے صلح کر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو رد کر دیتے ہیں وہ دُکھ میں پڑ جاتے اور ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک سورج جو چڑھتا ہے اس واقعہ کو بار بار دُہرا رہا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 348-349)

یہ دانشور ہمیں کس خطرہ سے ڈراتے ہیں؟ کیا یہ حضرت نوح علیہ السلام کے واقعات کو بھول چکے ہیں یا سرے سےان کو پڑھا ہی نہیں ہے؟ آپ بالکل تنہا تھے ، گھر کے افراد جو کسی شخص کے لئے مصیبت میں سہارا ہوسکتے ہیں وہ بھی ساتھ نہیں تھے۔ ایسے میں ایک سچے پیغام کو لے کر کھڑے ہونا اور تمام قوم کی دشمنی قبول کرلینا کیا کوئی آسان کام تھا؟ لیکن نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اللہ تعالی قرآن میں ان کا واقعہ سناتا ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے ایک سچے شخص کی خاطر ایک پوری قوم کی پرواہ نہیں کی اور اور انہیں طغیانیوں کی نذر کردیا۔

قرآن اس حقیقت کو یوں بیان فرماتا ہے کہ:

وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَأَ نُوحٍ اذْ قَالَ لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ اِن کَانَ کَبُرَ عَلَیْکُم مَّقَامِیْ وَتَذْکِیْرِیْ بِآیَاتِ اللّٰہِ فَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ فَأَجْمِعُواْ أَمْرَکُمْ وَشُرَکَاء کُمْ ثُمَّ لاَ یَکُنْ أَمْرُکُمْ عَلَیْکُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُواْ اِلَیَّ وَلاَ تُنظِرُونِ

(یونس: 72)

اور تُو ان پر نوح کی خبر پڑھ جب اس نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! اگر تم پر میرا موقف اور اللہ کے نشانات کے ذریعہ نصیحت کرنا شاق گزرتا ہے تو میں تو اللہ ہی پر توکل کرتا ہوں۔ پس تم اپنی تمام طاقت اکٹھی کر لو اور اپنے شرکا کو بھی۔ پھر اپنی طاقت پر تمہیں کوئی اشتباہ نہ رہے پھر کر گزرو جو مجھ سے کرنا ہے اور مجھے کوئی مہلت نہ دو۔

جماعت احمدیہ کو لاکھوں کروڑوں کے جتھوں کی طاقت سے دھمکانے اور مداہنت کا مشورہ دینے سے قبل اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہ الفاظ پڑھ لئے ہوتے تو شاید کبھی یہ مشورہ دینے کی نوبت ہی نہ آتی جب آپ نے فرمایا تھا:

وَکَیْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَکْتُمْ وَلاَ تَخَافُونَ أَنَّکُمْ أَشْرَکْتُم بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ عَلَیْکُمْ سُلْطَاناً فَأَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ أَحَقُّ بِالأمْنِ ان کُنتُمْ تَعْلَمُونَ…

(الانعام: 82-84)

اور میں اس سے کیسے ڈروں جسے تم شریک بنا رہے ہو جبکہ تم نہیں ڈرتے کہ تم ان کو اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہو جن کے حق میں اس نے تم پر کوئی حجت نہیں اتاری۔ پس دونوں میں سے کونسا گروہ سلامتی کا زیادہ حقدار ہے؟ اگر تم کچھ علم رکھتے ہو۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو کسی ظلم کے ذریعے مشکوک نہیں بنا یا یہی وہ لوگ ہیں جنہیں امن نصیب ہو گا اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔ یہ ہماری حجت تھی جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے خلاف عطا کی۔ ہم جس کو چاہتے ہیں درجات میں بلند کر دیتے ہیں۔ یقینا تیرا ربّ بہت حکمت والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات بھی آپ کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے انہیں وقت کے جابر اور طاقتور ترین حاکم کے چنگل سے نکالا اور فرعون اپنے تمام لاؤ لشکر سمیت غرق کردیا گیا اور حضرت موسیٰ کے ماننے والوں کو عزت ، عظمت، طاقت، دولت اور زمینیں عطا کی گئیں۔ وہ ملکوں اور علاقوں کے وارث بنا دئیے گئے۔قرآن فرماتا ہے:

وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُواْ یُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَھا الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْھا وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنَی عَلَی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ بِمَا صَبَرُواْ وَدَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہُ وَمَا کَانُواْ یَعْرِشُون

(الاعراف: 138)

اور ہم نے ان لوگوں کو جو (زمین میں) کمزور سمجھے گئے تھے اس زمین کے مشارق و مغارب کا وارث بنادیا جسے ہم نے برکت دی تھی اور بنی اسرائیل کے حق میں تیرے ربّ کے حسین کلمات پورے ہوئے اس صبر کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے تھے۔ اور ہم نے برباد کردیا اس کو جو فرعون اور اس کی قوم کیا کرتے تھے اور جو وہ بلند عمارتیں تعمیر کرتے تھے۔

کیا آپ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قربانی پر بھی کوئی شک ہے کہ انہوں سچ بولنے کی پاداش میں صلیب پر چڑھنا تو قبول کرلیا لیکن یہود کے ساتھ مداہنت کا رویہ اختیار نہ کیا۔کیا انہیں یہ طریق معلوم نہ تھا کہ اگر وہ اپنے عقائد میں کچھ ترمیم کرلیں تو بڑی آسانی سے یہود کے مظالم سے بچ سکتے ہیں۔مرقس کی انجیل ان دردناک لمحات کا ذکر اس طرح سے کرتی ہے کہ ایک دردمند دل کو دو ہزار سال بعد بھی رونا آجاتا ہے۔مرقس اپنی انجیل کے باب 15 میں لکھتے ہیں:
فوجی عیسیٰ کو گورنر کے محل بنام پریٹوریُم کے صحن میں لے گئے اور پوری پلٹن کو اکٹھا کیا۔ اُنہوں نے اُسے ارغوانی رنگ کا لباس پہنایا اور کانٹےدار ٹہنیوں کا ایک تاج بنا کر اُس کے سر پر رکھ دیا۔ پھر وہ اُسے سلام کرنے لگے، ’’اے یہودیوں کے بادشاہ، آداب!‘‘ لاٹھی سے اُس کے سر پر مار مار کر وہ اُس پر تھوکتے رہے۔گھٹنے ٹیک کر اُنہوں نے اُسے سجدہ کیا۔ پھر جب وہ اُس کا مذاق اُڑانے سے تھک گئے تو اُنہوں نے ارغوانی لباس اُتار کر اُسے دوبارہ اُس کے اپنے کپڑے پہنائے۔ پھر وہ اُسے مصلوب کرنے کے لئے باہر لے گئے۔ اُس وقت لبیا کے شہر کرین کا رہنے والا ایک آدمی بنام شمعون دیہات سے شہر کو آ رہا تھا۔ وہ سکندر اور روفس کا باپ تھا۔ جب وہ عیسیٰ اور فوجیوں کے پاس سے گزرنے لگا تو فوجیوں نے اُسے صلیب اُٹھانے پر مجبور کیا۔ یوں چلتے چلتے وہ عیسیٰ کو ایک مقام پر لے گئے جس کا نام گلگتا (یعنی کھوپڑی کا مقام) تھا۔ وہاں اُنہوں نے اُسے مَے پیش کی جس میں مر ملایا گیا تھا، لیکن اُس نے پینے سے انکار کیا۔ پھر فوجیوں نے اُسے مصلوب کیا اور اُس کے کپڑے آپس میں بانٹ لئے۔ یہ فیصلہ کرنے کے لئے کہ کس کو کیا کیا ملے گا اُنہوں نے قرعہ ڈالا۔ نو بجے صبح کا وقت تھا جب اُنہوں نے اُسے مصلوب کیا۔اور ایک تختی صلیب پر لگا دی گئی جس پر یہ الزام لکھا تھا، ’’یہودیوں کا بادشاہ۔‘‘

(مرقس باب 15، آیات 16-26)

کیا یہ سب تمسخر، تکلیفیں، ابتلاء اور سزائیں ہمارے پیارے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مداہنت پر مجبور کر سکیں؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہوئے اور اس کے سچے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے قربانی کے میدان میں آگے بڑھتے چلے گئے اور آج دنیا بھر میں اربوں لوگ ان کی عزت کرتے اور ان سے محبت رکھتے ہیں۔

سنت رسول اللہ ؐ

اور پھر سب سے بڑھ کر ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ نے جو سنت اور نمونہ ہمارے لئے قائم فرمایا ہے۔ کیا وہ بھی اس بات کو سمجھانے کے لئے کافی نہیں ہے کہ سچ کی راہ میں قربانیاں پیش کرنا سنت انبیاء و صلحاء ہے۔ وہ جان دینا تو قبول کرلیتے ہیں لیکن کبھی اپنے سچے موقف سے پیچھے نہیں ہٹاکرتے۔کون سا ظلم تھا جو آپ اور آپ کے ساتھیوں پر نہیں کیا گیا۔ جانیں لی گئیں۔ سزائیں دی گئیں۔ تپتی ریت پر لٹا کر انکار کا کہا گیا، شعب ابی طالب میں تین سال کے لئے محصور کردیا گیا۔ اپنا وطن چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی اور پھر اس ہجرت کے بعد بھی پیچھا نہ چھوڑ ا بلکہ اپنے جتھے لے کر حملہ آور ہو گئے۔لیکن ان سب مصائب و آلام کے جواب میں آپ نے اور صحابہ نے جو نمونے دکھائے وہ رہتی دنیا تک سنہری الفاظ میں لکھے جائیں گے۔

ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے حق کی تبلیغ شروع کی تو قوم مخالف ہوگئی۔آپ نے اپنا کام جاری رکھا اور باطل عقائدکی تکذیب کرتے رہے۔ اہلِ مکہ سے صبر نہ ہوسکا اور ان کے بعض دانشور ابو طالب کے پاس اۤئے اور انہیں سمجھایا کہ اپنے بھتیجے کو ان باتوں سے روکیں یا ان کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا۔ ابو طالب کو اپنے یتیم بھتیجے کی فکر ہوئی اور انہیں بلا کر سمجھانے لگے۔ حضور ﷺ نے جب اپنے مہربان چچا کے منہ سے تبلیغِ حق ترک کر دینے کا مشورہ سنا تو فرمایا:
’’خدا کی قسم! اگر وہ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی لاکر رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں خدا تعالیٰ کا دامن چھوڑ دوں تو میں ہرگز اس کے لئے اۤمادہ نہیں ہوں۔ یا تو خدا کا سچا دین لوگوں میں پھیل جائے گا یا پھر میں اس جدوجہد میں اپنی جان دے دوں گا۔ ابو طالب نے جب اپنے بھتیجے کا یہ عزم دیکھا تو کہا، تم اپنا کام کرتے رہو، میں تمہاری حمایت سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہوں گا۔‘‘

کفارِ مکہ نے جب یہ دیکھا کہ ان کی سب تدبیریں ناکام ہورہی ہیں اور اۤپؐ کی دعوت عام ہورہی ہے تو انہوں نے مشورہ کرکے مکہ کے سب سے چالاک اور زیرک سردار عتبہ بن ربیعہ کو اۤپؐ کے پاس بھیجا کہ وہ اۤپؐ کو دنیاوی طمح اور لالچ دے کر تبلیغِ دین سے روک دے۔عتبہ نے اۤپؐ کے پاس پہنچ کر کہا، ’’بھتیجے! تم حسب و نسب میں ہم سے بہتر ہو۔ تم نے ہمارے اۤباؤ اجداد کے طریقہ کو باطل قرار دیا ہے اور انہیں جاہل سے تعبیر کیا ہے۔ تم اۤج اپنے دل کی بات کہہ دو کہ تمہارا مدعا کیا ہے؟ اگر تم دولت کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہو تو ہم تمہارے واسطے اتنا مال جمع کردیں گے کہ تم اہلِ مکہ میں سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤ گے۔ اگر سرداری حاصل کرنا چاہتے ہو تو ہم اس پر راضی ہیں کہ تمہیں قریش کا سردار بنادیں۔ اگر تم شادی کے خواہش مند ہو تو مکہ کی سب سے خوبصورت لڑکی کو تمہاری دلہن بنادیں گے۔‘‘ عتبہ کے اس طویل لیکچر کو سن کر آپ نے جواب میں سورۃ حٰم السجدہ کی تلاوت کی۔ عتبہ گم سم سنتا رہا۔ پھر اٹھ کر اپنی قوم میں واپس اۤگیا۔ عتبہ کو اۤتا دیکھ کر مشرکین نے ایک دوسرے سے کہا، خدا کی قسم! ابو الولید تمہارے پاس وہ چہرہ لے کر نہیں اۤرہا جو چہرہ لے کر گیا تھا۔ پس عتبہ نے واپس پہنچ کر کفار سے کہا کہ اۤج میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس سے پہلے اپنی عمر میں کبھی نہیں سنا تھا۔ خدا کی قسم! نہ وہ شاعری ہے، نہ جا دو ہے اور نہ ہی وہ نجومیوں کا کلام ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ تم سب اس کو اذیت دینے سے باز اۤجاؤ۔ جو کلام میں نے سنا ہے اس کی شان ظاہر ہونے والی ہے۔ میری بات مانو اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اگر عرب اس پر غالب اۤگئے تو تمہارا کام دوسرے کے ذریعے انجام پائے گا اور اگر وہ عرب پر غالب اۤگیا تو اس کی عزت ہماری عزت ہے۔ کیونکہ وہ ہمارے ہی قبیلہ سے ہے۔ ’’لوگ حیرت سے اس کو تکنے لگے پھر انہوں نے رائے قائم کی کہ عتبہ پر محمدؐ کا جادو چل گیا ہے۔

اس دور کا یہ دانشور کوئی عام شخص نہیں تھا بلکہ ابو الولید عتبہ بن ربیعہ عہد نبوی میں قریش کے مشہور بت پرست سرداروں میں سے ایک تھا۔ وہ ابو حذیفہ،ولیداورہندہ کا والد اور ابو سفیان کا سسر تھا۔

پس سوشل میڈیا کے ان تمام سطحی دانشور وں کی خدمت میں جو تاریخ انبیاء سے تو سبق نہیں سیکھ سکے اور ہمیں اپنے طریق عمل میں تبدیلی کے مشورے دے رہے ہیں انہی کی طرح کے ایک مسلمہ دانشور عتبہ بن ربیعہ کےیہ الفاظ پیش ہیں کہ:
خدا کی قسم! نہ یہ شاعری ہے، نہ جادو ہے، نہ ہی یہ نجومیوں کا کلام ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ تم سب اس کو اذیت دینے سے باز اۤجاؤ۔ جو کلام میں نے سنا ہے اس کی شان ظاہر ہونے والی ہے۔ میری بات مانو تو اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔

تاریخ نے اس کے بعد جو داستان ہمارے لئے پیچھے چھوڑی ہے اس کی روشنی میں تو عتبہ بن ربیعہ کا یہ مشورہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔ کم ازکم انیق ناجی کے مشورے سے تو بہت بہتر ہے۔

بس فیصلہ یہی ہے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اے نادانو اور اندھو! مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاؤں گا۔کس سچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا۔ یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں۔ مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ ہیچ ہیں۔ میں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا۔ میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں ،کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا کبھی نہیں چھوڑے گا،کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا کبھی نہیں ضائع کرے گا۔دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا۔ میں اس کے ساتھ وہ میرے ساتھ ہے کوئی چیز ہمارا پیوند توڑ نہیں سکتی اور مجھے اس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اس کے دین کی عظمت ظاہر ہو اس کا جلال چمکے اور اس کا بول بالا ہو۔ کسی ابتلا سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگرچہ ایک ابتلا نہیں کروڑ ابتلا ہو۔ ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے۔

من نہ آنستم کہ روز جنگ بینی پشت من
آں منم کاندرمیان خاک و خوں بینی سرے

پس اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو مجھ سے الگ ہو جائے مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پرخار باد یہ درپیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے پس جن لوگوں کےنازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہوسکتے نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب وشتم سے نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے اور جو میرے نہیں وہ عبث دوستی کا دم مارتے ہیں کیونکہ وہ عنقریب الگ کئے جائیں گے اور ان کا پچھلا حال ان کے پہلے سے بدتر ہوگا۔ کیا ہم زلزلوں سے ڈر سکتے ہیں۔ کیا ہم خداتعالیٰ کی راہ میں ابتلاؤں سے خوفناک ہو جائیں گے۔ کیا ہم اپنے پیارے خدا کی کسی آزمائش سے جدا ہوسکتے ہیں ہرگز نہیں ہوسکتے مگر محض اس کے فضل اور رحمت سے۔ پس جو جدا ہونے والے ہیں جدا ہو جائیں ان کو وداع کا سلام۔ لیکن یاد رکھیں کہ بدظنی اور قطع تعلق کے بعد اگر پھر کسی وقت جھکیں تو اس جھکنے کی عند اللہ ایسی عزت نہیں ہوگی جو وفادار لوگ عزت پاتے ہیں۔ کیونکہ بدظنی اور غداری کا داغ بہت ہی بڑا داغ ہے۔‘‘

(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد9، صفحہ24-23)

(احمد نوید۔ گھانا)

پچھلا پڑھیں

گھر سے باہر جانے کی دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 فروری 2022