• 18 اپریل, 2024

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال اعلیٰ درجہ کا کمال ہے جس کی نظیر نہیں مل سکتی۔(حضرت مسیح موعود ؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث قدسی ہے کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاک۔ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر مَیں تجھے پیدا نہ کرتا تو دنیا پیدا نہ کرتا۔ یہ زمین و آسمان پیدا نہ کرتا۔

(الموضوعات الکبریٰ لِمُلَّا علی القاری صفحہ 194حدیث نمبر754 مطبوعۃ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)

گو مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ اس حدیث کی صحت پر اعتراض کرتا ہے لیکن ہمیں اس زمانہ کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عاشقِ صادق نے اس حدیث کی صحت کا علم دیا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی مقام کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔ آپؐ تمام رسولوں سے افضل ہیں۔ آپؐ تا قیامت تمام زمانوں کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ آپؐ کو خدا تعالیٰ نے یہ مقام بخشا ہے کہ آپ کی اتباع سے انسان اللہ تعالیٰ کی محبت پاتا ہے۔ آپؐ کو وہ مہرِ نبوت عطا ہوئی ہے جو تمام سابقہ انبیاء پر ثبت ہو کر ان انبیاء کے نبی ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔ آپؐ کو وہ مقامِ خاتم النبیین ملا ہے جس کے اُمّتی کو بھی نبوت کا درجہ ملا اور آپؐ کا اُمّتی اور عاشق صادق ہونا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آنے والے مسیح و مہدی کو نبوت کا مقام دلا گیا۔ آپؐ کا قربِ خدا وندی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یوں فرمایا ہے کہ دَنٰی فَتَدَلّٰی (النجم: 9)۔ یہ اللہ تعالیٰ سے قرب کی انتہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’(یہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اوپر کی طرف ہو کر نوعِ انسان کی طرف جھکا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال اعلیٰ درجہ کا کمال ہے جس کی نظیر نہیں مل سکتی اور اس کمال میں آپؐ کے دو درجے بیان فرمائے ہیں۔ ایک صعود (یعنی بلندی کی طرف جانا)۔ دوسرا نزول۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف تو آپ ؐ کا صعود ہوا یعنی خدا تعالیٰ کی محبت اور صدق و وفا میں ایسے کھینچے گئے کہ خود اس ذاتِ اقدس کے دُنُوّ کا درجہ آپؐ کوعطا ہوا۔ دُنُوّ، اَقْرَب سے زیادہ اَبْلَغ ہے۔ اس لئے یہاں یہ لفظ اختیار کیا‘‘۔ (یعنی دُنُوّ، قرب کی نسبت زیادہ انتہائی اور وسیع معنی دیتا ہے۔ قرب میں تو صرف قربت کا تصور پیدا ہوتا ہے لیکن دُنُوّ میں اتنا قرب ہے، یعنی کہ ایک ہو جانا۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ) جب اﷲ تعالیٰ کے فیوضات اور برکات سے آپؐ نے حصہ لیا تو پھر بنی نوع پر رحمت کے لئے نزول فرمایا۔ یہ وہی رحمت تھی جس کا اشارہ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (الانبیاء: 108) میں فرمایا ہے (کہ ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن بنا کر)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم قاسم کا بھی یہی سرّ ہے کہ آپ اﷲ تعالیٰ سے لیتے ہیں اور پھر مخلوق کو پہنچاتے ہیں۔ پس مخلوق کو پہنچانے کے واسطے آپ ؐ کا نزول ہوا۔ اس دَنٰی فَتَدَلّٰی میں اسی صعود اور نزول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عُلوّ مرتبہ کی دلیل ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ356 مطبوعہ ربوہ)

پس آپؐ کے نزول سے جو نئے زمین و آسمان پیدا ہوئے، جس میں آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے انتہائی درجہ کا قرب پا کر انسانوں کی نجات اور خدا تعالیٰ سے محبت اور اللہ تعالیٰ کے حضور شفاعت کا مقام بھی حاصل کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن کا مقام عطا فرمایا۔ آپؐ سے محبت کو اپنی محبت قرار دیا۔ یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ یہ افلاک بھی خدا تعالیٰ کے آپ سے خاص پیار کے نتیجہ میں آپؐ کے لئے پیداکئے گئے۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ آپ کی علُوِّ شان کے لئے ہم اس حدیثِ قدسی کو صحیح تسلیم نہ کریں۔ پس یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر آنحضرت ﷺ کے اس مقام کو پہچانا ہے۔ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَ فْلَاک میں کیا مشکل ہے؟ قرآنِ مجید میں ہے خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا (البقرۃ: 30)، زمین میں جو کچھ ہے وہ عام آدمیوں کی خاطر ہے۔ تو کیا خاص انسانوں میں سے ایسے نہیں ہو سکتے کہ ان کے لئے افلاک بھی ہوں؟ … (اگر زمین میں سب کچھ عام انسانوں کے لئے ہو سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے خاص آدمیوں کے لئے افلاک کی پیدائش بھی کر سکتا ہے)۔ فرمایا کہ ’’… دراصل آدم کو جو خلیفہ بنایا گیا تو اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ وہ اس مخلوقات سے اپنے منشاء کا خدا تعالیٰ کی رضامندی کے موافق کام لے۔ اور جن پر اس کا تصرف نہیں وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے انسان کے کام میں لگے ہوئے ہیں، سورج، چاند، ستارے وغیرہ‘‘۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 213۔ جدید ایڈیشن۔ مطبوعہ ربوہ)

یعنی جس پر انسان کا تصرف نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ سب انسان کے کام پر لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ چیزیں سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کام کر ر ہی ہیں۔ ماضی میں بھی کیا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شق القمر کا واقعہ ہوا۔ یہ ایک معجزہ تھا۔ دنیا نے دیکھا۔ اس کی تفصیلات اس وقت بیان نہیں کروں گا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی بات بیان فرمائی ہے اور ثابت فرمایا ہے کہ یہ معجزہ ہوا۔

(سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 60حاشیہ)

اور ایک جگہ یہ بھی فرمایا کہ ہو سکتا ہے یہ کسی قسم کے گرہن کی صورت ہو۔ (مأخوذ از نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 506) جو دوسروں کو بھی نظر آئی۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مہدی کے لئے جو پیشگوئی فرمائی کہ فلاں مہینے میں اور فلاں دن میں سورج اور چاند کو گرہن لگے گا۔

(سنن الدارقطنی کتاب العیدین باب صفۃ صلٰوۃ الخسوف والکسوف وھیئتھما نمبر1777 مطبوعۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)

یہ بھی افلاک کی، کائنات کی جو چیزیں ہیں ان کو تابع کرنے والی بات ہے۔ اور اُس زمانہ میں جب یہ گرہن لگا تواُس زمانہ کے اخبارات بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ واقعہ ہوا۔

(خطبہ جمعہ 28؍ جنوری 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مارچ 2021