یوں الگ گوشۂ ویراں میں جو چھوڑا ہم کو
نہیں معلوم کہ کیا قوم نے سمجھا ہم کو
کل تلک تو یہ نہ چھوڑے گا کہیں کا ہم کو
آج ہی سے جو لگا ہے غمِ فردا ہم کو
ہے خدا کی ہی عنایت پہ بھروسہ ہم کو
نہ عبادت کا نہ ہے زہد کا دعویٰ ہم کو
دردِ الفت میں مزہ آتا ہے ایسا ہم کو
کہ شفایابی کی خواہش نہیں اصلا ہم کو
تجھ پر رحمت ہو خدا کی کہ مسیحا تو نے
رشتۂ الفت و وحدت میں ہے باندھا ہم کو
اپنا چہرہ کہیں دکھلائے وہ رب العزت
مدتوں سے ہے یہی دل میں تمنا ہم کو
گالیاں دشمنِ دِیں ہم کو جو دیتے ہیں تو دیں
کام لیں صبر و تحمل سے ہے زیبا ہم کو
کچھ نہیں فکر ، لگائی ہے خدا سے جب لو
گو سمجھتا ہے بُرا اپنا پرایا ہم کو
ایک تسمہ کی بھی حاجت ہو تو مانگوں مجھ سے
ہے ہمیشہ سے یہ اُس یار کا ایما ہم کو
زخمِ دل زخمِ جگر ہنستے ہیں کِھل کِھل کر کیوں
حالتِ قوم پہ آتا ہے جو رونا ہم کو
کہیں موسیٰ کی طرح حشر میں بیہوش نہ ہوں
لگ رہا ہے اسی عالم میں یہ دھڑکا ہم کو
ایک دم کے لئے بھی یاد سے کیوں تُو اترے
اور محبوب کہاں تجھ سا ملے گا ہم کو
تجھ پہ ہم کیوں نہ مریں اے مرے پیارے کہ ہے تو
دولت و آبرو و جان سے پیارا ہم کو
آدمی کیا ہے تواضع کی نہ عادت ہو جسے
سخت لگتا ہے برا کبر کا پتلا ہم کو
دشمنِ دین درندوں سے ہیں بڑھ کر خونخوار
چھوڑیو مت مرے مولیٰ کبھی تنہا ہم کو
(کلام محمود)