موجودہ زمانے میں جہاد کے تصور نے ایک خاص شکل اختیار کرلی ہے جس کی بنا پر ایک طرف اسلامی تعلیمات کو غلط صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف اصل جہاد نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے۔جہاد کا نام آتے ہی تیرو تلوار کی شکلیں یا موجودہ زمانے میں بم اور بارودذہن میں آتا ہے جس سے خوف کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ محبت، الفت اور نرمی کا احساس تو دور دور تک نظر نہیں آتا۔
اگر جہاد کے لفظ پر ہی غور کر لیا جائے تو ایک ایسی حقیقت آشکار ہوتی ہے جس کے بغیر کسی بھی میدان میں کامیابی ممکن نہیں۔ جہاد کے لغوی معنی کیا ہیں؟
جہاد۔ جہد سے مشتق ہے اور جہد کے معانی ہیں مشقت برداشت کرنا اور جہاد کے معنی ہیں کسی کام کے کرنے میں پوری طرح کوشش کرنا اور کسی قسم کی کمی نہ کرنا۔
(تاج العروس)
مولاناسید سلیمان ندوی صاحب لکھتے ہیں: ’’جہاد کے معنی عموماً قتال اور لڑائی کے سمجھے جاتے ہیں۔ مگر مفہوم کی یہ تنگی قطعاً غلط ہے لغت میں اس کے معنی محنت اور کوشش کے ہیں‘‘
(سیرۃ النبی جلد۵ صفحہ۰۱۲ طبع اول۔ دار الاشاعت کراچی نمبر۱)
جہاد کے مفہوم میں تنگی پیدا کرنے والے احادیث کا وسیع تر مطالعہ نہیں کرتے۔اگر احادیث کا ہی مطالعہ کیا جائے تو جہاد کا وسیع تر مفہوم اس طرح واضح ہوتا ہے کہ جہاد مالوں،جانوں اور زبانوں سے ہوتا ہے۔ نفسانی خواہشات کو کوشش کرکے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع کرنا اکبر اور افضل جہاد ہے۔ دنیاوی نفس کو زیر کرکے اللہ تعالیٰ کے زیر نگیں کرنا سب سے بڑا جہاد ہے۔والدین کی خدمت جہاد ہے۔یہاں تک ذکر ہے کہ اگر والدین جہاد بالسیف کی اجازت نہ دیں تو گھر سے بھی نہیں نکلنا چاہیے۔حج مبرور بھی جہاد ہے۔
اگر جہاد کا مطلب تلوار اٹھانا ہی ہوتا تو احادیث میں دوسرے کسی اور قسم کے جہاد کا ذکر نہیں ہونا چاہیے تھا۔جب یہ فرمایا کہ اکبر جہاد یا افضل جہاد تو اس کا مطلب ہے کوئی اصغر یعنی چھوٹا بھی ہے جس سے بڑا کسی کو قرار دیا جا رہا ہے یا افضل کہا تو اس سے مراد ہے کوئی ادنی ٰ بھی ہے جس سے افضل قرار دیا جارہا ہے۔
یہ فضیلت مقابلۃً بیان ہوئی ہے۔ افضل میں جو خصوصیات اور فوائد ہیں وہ ادنیٰ میں نہیں ہیں اسی لیے تووہ افضل اور اعلیٰ ہوا اور ان خصوصیات کے نہ ہونے سے دوسرا ادنیٰ اورکم تر ہوا۔مومن کی فراست تو یہی کہتی ہے کہ اعلیٰ اور افضل کا انتخاب کیا جائے۔ہاں کسی مجبوری سے ادنیٰ کا انتخاب کرنا پڑا تو مجبوری ختم ہونے پر افضل اور اعلیٰ کو ہی اختیار کرنا چاہیے۔
احادیث کی طرف رجوع کرتے ہیں تو جہاد کی صورت کچھ اس طرح نظر آتی ہے۔
اگر جہاد صرف تلوار کا ہوتاتو مشرکین کے ساتھ مال اور زبان سے جہادکا ذکر کیوں ہے؟
مال اور زبان کا جہا د
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیﷺ قَالَ: جَاہِدُوا الْمُشْرِکِینَ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ وَأَلْسِنَتِکُمْ
(سنن ابی داؤد کتاب الجھاد باب کراھیۃ ترک الغزو حدیث 2504)
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: مشرکین سے اپنے اموال اور اپنی جانوں اور اپنی زبانوں کے ساتھ جہاد کرو۔
سب سے افضل انسان جان اور مال سے جہاد کرنے والا
عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ حَدَّثَنِیْ عَطَاءُ بْنُ یَزِیْدَ اللَّیْثِیُّ اَنَّ اَبَا سَعِیْدٍ اَلْخُدْرِیَّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَدَّثَہُ قَالَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَیُّ النَّاسِ اَفْضَلُ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مُؤْمِنٌ یُجَاہِدُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِنَفْسِہِ وَمَالِہِ. قَالُوْا ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ مُؤْمِنٌ فِیْ شِعْبٍ مِنَ الشِّعَابِ یَتَّقِی اللّٰہَ وَیَدَعُ النَّاسَ مِنْ شَرِّہٖ۔
(صحیح بخاری کتاب الجھاد و السیر باب افضل الناس مومن مجاھد بنفسہ و مالہ حدیث 2786)
زہری روایت کرتے ہیں کہ مجھے عطاء بن یزید لَیْثِی نے بتایا کہ حضرت ابو سعید خدریؓ نے انہیں بتایا کہ کسی نے کہا: یا رسول اللہ! لوگوں میں سے کون افضل ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ مومن جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور اپنے مال سے جہاد کرتا ہو۔ لوگوں نے کہا: پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا: وہ مومن جو پہاڑ کی گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں اللہ کو اپنی سِپَر بنائے بیٹھا ہو اور لوگوں کو اپنے شر سے بچائے۔
اس حدیث میں تلوار کی بجائے جان اور مال کے ذریعہ جہاد کرنے والے کو لوگوں میں افضل انسان قرار دیا گیا ہے۔مال اور جان انسان کو سب سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں۔ جو مومن ان دونوں چیزوں کو اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے۔اپنی نفسانی خواہشات اور مال کو اللہ کی رضا کی خاطر قربان کرتا ہے وہ سب سے افضل انسان ہے۔ اگر جہاد صرف تلوار کا ہوتا تو نفس اور مال کا جہاد کرنے والا افضل انسان نہ ہوتا۔
پھر رسول کریم ﷺ نے تلوار کے جہاد کو اصغر یعنی سب سے چھوٹا جہاد اور اس کے علاوہ جہاد کو جہاد اکبر یعنی بڑا جہاد بیان فرمایا ہے۔
جہاد اکبر
قَالَ ﷺ وَ قَدْ رَجَعَ مِنْ غَزَاۃٍ رَجَعْنَا مِنَ الْجِھَادِ الْاَصْغَرِ اِلَی الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ۔
(رد المختار علی الدر المختار جلد 3صفحہ 237کتاب الجھاد مطلب فی فضل الجھاد۔ مکتبۂ ماجدیہ کوئٹہ پاکستان۔ طبع دوم 1404ھ)؎
رسول اللہ ﷺ نے ایک غزوہ سے واپس آتے ہوئے فرمایا ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
رسول کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر مومن، مسلمان، مجاہد اور مہاجر کی حقیقت واضح کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ
حَدَّثَنِیْ فَضَالَۃُ بْنُ عُبَیْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ اَلَا اُخْبِرُکُمْ بِالْمُؤْمِنِ مَنْ اَمِنَہُ النَّاسُ عَلٰی اَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ وَالْمُجَاہِدُ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہُ فِیْ طَاعَۃِ اللّٰہِ وَالْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ الْخَطَایَا وَ الذَّنُوْبَ۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 10صفحہ 1019 مسند فضالہ بن عبید الانصاری حدیث 24458 عالم الکتب بیروت 1998ء)
فضالہ بن عبید کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا کیامَیں تمہیں مومن کے بارے میں نہ بتاؤں۔ (مومن وہ ہے) جسے لوگ اپنے اموال اور اپنی جانوں پر امین بنائیں اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ا س کے ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں اور مجاہد وہ ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لئے اپنے نفس سے جہاد کیا اور مہاجر وہ جس نے (اپنی) خطاؤں اور گناہوں کو چھوڑا۔
حقیقی مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مجبور کرے۔نفسانی خواہشات کا گلا کاٹ دے اور نفس کی ہر تمنا کو اللہ کے حضور جھکا دے
نفس کے خلاف لڑنا افضل جہاد ہے
دوسری جگہ نفس کے خلاف لڑنے کو افضل جہاد کہا گیا۔
اَفْضَلُ الْجِہَادَ اَنْ تُجَاہِدَ نَفْسَکَ وَہَوَاکَ فِیْ ذَاتِ اللّٰہِ تَعَالٰی۔
(کنز العمال جلد 2 جزء 4 صفحہ 185 کتاب الجھاد / فی قسم الاقوال الباب السادس ’’الجھاد الاکبرمن الاکمال‘‘ حدیث 11261 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004 ء طبع دوم)
افضل جہاد یہ ہے کہ تُو اپنے نفس اور اس کی خواہشات کے خلاف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے لڑے۔
اپنی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا جہاد اکبر ہے
’’قَدِمْتُمْ خَیْرَ مَقْدَمٍ وَقَدِمْتُمْ مِنَ الْجِہَادِ الْاَصْغَرِ إِلَی الْجِہَادِ الْاَکْبَرِ مُجَاہَدَۃُ الْعَبْدِ ہَوَاہُ‘‘
(کنز العمال جلد2 جزء4 صفحہ84 کتاب الجھاد فی قسم الاقوال الباب السادس ’’الجھاد الاکبر‘‘ من الاکمال حدیث11260 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء طبع دوم)
تمہارا آنا کیا ہی اچھا آنا ہے۔ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف آئے ہو (اور وہ) بندے کا اپنی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا ہے۔
نفس کو قابو میں رکھنا بھی جہاد ہے
(انس بن مالک) لَیْسَ الْجِھَادُ اَنْ یَضْرِبَ (رَجُلٌ) بِسَیْفِہِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، اِنَّمَا الْجِھَادُ مَنْ عَالَ وَالِدَیْہِ وَ عَالَ وَلَدَہُ فَھُوَ فِیْ جِھَادٍ وَ مَنْ عَالَ نَفْسَہُ فَکَفَّھَا عَنِ النَّاسِ فَھُوَ فِیْ جِھَادٍ۔
(فردوس الاخبار لدیلمی جز 3 صفحہ 448 باب اللام حدیث 5266 دار الفکر بیروت 1997ء)
(حضرت انس بن مالکؓ) جہاد یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی تلوار سے اللہ کے راستہ میں (گردنیں) مارے۔ جہاد یہ ہے کہ وہ اپنے والدین کی اور اپنی اولاد کی دیکھ بھال کرے(اگر وہ ایسا کرتا ہے تو) وہ جہاد (کی حالت) میں ہے اور جو شخص اپنے نفس کو قابو میں رکھتا ہے اور اس کی (ایذا) سے لوگوں سے روکے رکھتا ہے تو وہ بھی جہاد میں ہے۔
مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے
سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ اَلْمُجَاہِدُ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہُ۔
(سنن ترمذی کتاب الجھاد باب ما جاء فی فضل من مات مرابطا حدیث 1621)
(فضالہ بیان کرتے ہیں کہ) مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے۔
کلمہ ٔحق کہنا افضل جہاد
موقع اور محل پر ضرورت کے وقت زبان سے کلمہ ٔحق کی ادائیگی ہی افضل جہاد ہے۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدنِ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَفْضَلُ الْجِھَادِ کَلِمَۃُ عَدْلٍ عِنْدَ ذِیْ سُلْطَانٍ جَائِرٍ۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب الامر بالمعروف و النھی عن المنکر حدیث4011)
حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے انصاف کی بات کرنا ہے۔
ظالم حکمران کے سامنے حق بات زبان سے کہنا افضل جہاد قرار دیا گیا۔
حج مبرور افضل جہاد
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّہَا قَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ نَرَی الْجِہَادَ اَفْضَلَ الْعَمَلِ اَفَلَا نُجَاہِدُ؟ قَالَ لَکُنَّ اَفْضَلُ الْجِہَادِ حَجٌّ مَبْرُوْرٌ۔
(صحیح بخاری کتاب الجھاد و السیر باب فضل الجھاد و السیر حدیث 2784)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے کہا: یا رسول اللہؐ! ہم جہاد کو تمام اعمال سے افضل سمجھتے ہیں تو کیا ہم بھی جہاد نہ کریں؟ آپؐ نے فرمایا: لیکن افضل جہاد وہ حج بھی ہے جو سراسر نیکی پر مبنی ہو۔
والدین کی خدمت جہاد ہے
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ جَآءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ ﷺ یَسْتَاْذِنُہُ فِی الْجِہَادِ فَقَالَ اَلَکَ وَالِدَانِ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَفِیْہِمَا فَجَہِدْ۔
(سنن ترمذی کتاب الجھاد باب ما جاء فیمن خرج فی الغزو و ترک ابویہ حدیث 1671)
حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جہاد کرنے کی اجازت لینے کے لئے حاضر ہوا۔ آپؐ نے فرمایا کہ کیا تیرے والدین ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا ان دونوں میں جہاد کر۔
اپنے والدین اور اولاد کی کفالت بھی جہاد ہے
(انس بن مالک) لَیْسَ الْجِھَادُ اَنْ یَضْرِبَ (رَجُلٌ) بِسَیْفِہِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، اِنَّمَا الْجِھَادُ مَنْ عَالَ وَالِدَیْہِ وَ عَالَ وَلَدَہُ فَھُوَ فِیْ جِھَادٍ وَ مَنْ عَالَ نَفْسَہُ فَکَفَّھَا عَنِ النَّاسِ فَھُوَ فِیْ جِھَادٍ۔
(فردوس الاخبار لدیلمی جز2 صفحہ210 باب اللام حدیث5226 دار الفکر بیروت 1997ء)
(حضرت انس بن مالکؓ) جہاد یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی تلوار سے اللہ کے راستہ میں (گردنیں) مارے۔ جہاد یہ ہے کہ وہ اپنے والدین کی اور اپنے اولاد کی دیکھ بھال کرے (اگر وہ ایسا کرتا ہے تو) وہ جہاد (کی حالت) میں ہے اور جو شخص اپنے نفس کو قابو میں رکھتا ہے اور اس کی (ایذا) سے لوگوں سے روکے رکھتا ہے تو وہ بھی جہاد میں ہے۔
والدین کی اجازت کے بغیر جہاد پر نہ نکلو
جہاد بالسیف پر جانا والدین کی اجازت سے مشروط ہے۔
اِذَا کَانَ الْجِھَادُ عَلَی بَابِ اَحَدِکُمْ فَلَا یَخْرُجَ اِلَّا بِاِذْنِ اَبَوَیْہِ۔
(کنز العمال جلد2 جزء4 صفحہ152 کتاب الجھاد / قسم الاقوال۔ الفرع الثالث فی آداب متفرقۃ حدیث10874 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء طبع دوم)
جب تمہارے گھر کے سامنے بھی جہاد ہو رہا ہو تب بھی اپنے والدین کی اجازت کے بغیر جہاد کے لئے نہ نکلو۔
والدین اگر جہاد کی اجازت نہ دیں تو ان سے نیکی کرنا جہادہے
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدنِ الْخُدْرِیِّ اَنَّ رَجُلًا ھَاجَرَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ مِنَ الْیَمَنِ فَقَالَ: ھَلْ لَکَ اَحَدٌ بِالْیَمَنِ؟ فَقَالَ: اَبَوَایَ۔ فَقَالَ اَذِنَا لَکَ؟ قَالَ: لَا۔ قَالَ: اِرْجِعْ اِلَیْھِمَا فَاسْتَأْذَنْھُمَا، فَاِنْ اَذِنَا لَکَ فَجَاھِدْ وَ اِلَّا فَبَرَّھُمَا۔
(سنن ابو داؤد کتاب الجھاد باب فی الرجل یغزو و ابواہ کارھان حدیث 2530)
حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص یمن سے ہجرت کر کے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ آپؐ نے اس سے فرمایا کہ کیا یمن میں تیرا کوئی ہے؟ اس نے کہا ماں باپ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا انہوں نے تجھ کو اجازت دے دی تھی۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ان دونوں کے پاس لوٹ جاؤ اور ان سے اجازت مانگو۔ اگر وہ دونوں تجھے اجازت دے دیں تو جہاد کر ورنہ ان کے ساتھ نیکی (کا سلوک)کر۔
رسول کریم ﷺ نے جہاد بالسیف کی اجازت نہیں دی بلکہ والدہ کی خدمت کو ہی جنت کے حصول کا ذریعہ قرار دیا۔
والدہ کی خدمت ہی جہاد ہے
عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ جَاہِمَۃَ السَّلَمِیِّ قَالَ اَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنّیْ کُنْتُ اَرَدْتُ الْجِہَادَ مَعَکَ اَبْتَغِیْ بِذَالِکَ وَجْہَ اللّٰہِ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ قَالَ وَیْحَکَ اَحَیَّۃٌ اُمُّکَ؟ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ اِرْجِعْ فَبَرَّہَا۔ ثُمَّ اَتَیْتُہُ مِنَ الْجَانِبِ الْاٰخَرِ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنّیْ کُنْتُ اَرَدْتُ الْجِہَادَ مَعَکَ اَبْتَغِیْ بِذَالِکَ وَجْہَ اللّٰہِ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ قَالَ وَیْحَکَ اَحَیَّۃٌ اُمُّکَ؟ قُلْتُ نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ فَارْجِعْ إِلَیْہَا فَبَرَّہَا ثُمَّ اَتَیْتُہُ مِنْ اَمَامِہِ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنّیْ کُنْتُ اَرَدْتُ الْجِہَادَ مَعَکَ اَبْتَغِیْ بِذَالِکَ وَجْہَ اللّٰہِ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ قَالَ وَیْحَکَ اَحَیَّۃٌ اُمُّکَ؟ قُلْتُ نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ وَیْحَکَ اِلْزَمْ رِجْلَہَا فَثَمَّ الْجَنَّۃُ۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الجھاد باب الرجل یغزو و لہ ابوان حدیث 2781)
معاویہ بن جَاہِمَہ سَلَمِی کہتے ہیں مَیں نے رسول اللہ ؐکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی کہ یا رسول اللہؐ! مَیں آپؐ کے ساتھ مل کر جہاد کرنا چاہتا ہوں اور اس سے اللہ کی رضا اور اور آخرت کے گھر کا متلاشی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ کیا تیری ماں زندہ ہے؟ مَیں نے کہا جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جاؤ اور جا کر اس سے نیک سلوک کرو۔مَیں پھر دوسری جانب سے آیا اور کہا کہ یا رسول اللہؐ! مَیں آپؐ کے ساتھ مل کر جہاد کرنا چاہتا ہوں اور اس سے اللہ کی رضا اور اور آخرت کے گھر کا متلاشی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کیا تیری ماں زندہ ہے؟ مَیں نے کہا جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جاؤ اور جا کر اس سے نیک سلوک کرو۔پھر مَیں آپؐ کے سامنے سے آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! مَیں آپؐ کے ساتھ مل کر جہاد کرنا چاہتا ہوں اور اس سے اللہ کی رضا اور اور آخرت کے گھر کا متلاشی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ کیا تیری ماں زندہ ہے؟ مَیں نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول۔ آپؐ نے فرمایا کہ جاؤ اور جا کر اس کی ٹانگ سے چپکے رہو۔ وہاں ہی جنت ہے۔
والدین کی خدمت جہاد ہے
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ اَتَی رَجُلٌ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّیْ جِئْتُ اُرِیْدُ الْجِہَادَ مَعَکَ اَبْتَغِیْ بِذَالِکَ وَجْہَ اللّٰہِ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَقَدْ اَتَیْتُ وَإِنَّ وَالِدَیَّ لَیَبْکِیَانِ قَالَ فَارْجِعْ إِلَیْہِمَا فَاَضْحِکْہُمَا کَمَا اَبْکَیْتَہُمَا۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الجھاد باب الرجل یغزو و لہ ابوان حدیث 2782)
حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ یا رسول اللہؐ! مَیں آپؐ کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کے ارادہ سے آیا ہوں اور مَیں اس سے اللہ کی رضا اور آخرت کے گھر کا متلاشی ہوں۔ اور مَیں آپؐ کے پاس اس حالت میں آیا ہوں کہ میرے والدین رو رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: جس طرح ان کو روتا چھوڑ کر آیا ہے ان دونوں کے پاس جا کر ان کو ہنسا۔
اگر تلوار کا جہاد ہی مقصود بالذات ہوتااور اشاعت اسلام کے لیے ضروری ہوتا تو کبھی رسول کریم ﷺ اس بات کی نصیحت نہ کرتے کہ دشمن سے مڈبھیڑ کی خواہش نہ رکھو۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ لَا تَمَنَّوْا لِقَآءَ الْعَدُوِّ فَإِذَا لَقِیْتُمُوْہُمْ فَاصْبِرُوا۔
(صحیح مسلم کتاب الجھاد والسیر باب کراھۃ تمنی لقاء العدو حدیث 4541)
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم دشمن سے مڈبھیڑ کی خواہش نہ رکھو لیکن جب تم ان سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو جائے تو ثابت قدم رہو۔
عَنْ سَالِمٍ اَبِی النَّضْرِ مَوْلَی عُمَرَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ، وَکَانَ کَاتِبًا لَہُ قَالَ: کَتَبَ اِلَیْہِ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اَبِیْ اَوْفٰی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا فَقَرَاْتُہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ فِیْ بَعْضِ اَیَّامِہِ الَّتِیْ لَقِیَ فِیْھَا، اِنْتَظَرَ حَتّٰی مَالَتِ الشَّمْسُ ثُمَّ قَامَ فِی النَّاسِ خَطِیْبًا قَالَ: اَیُّھَا النَّاسُ لَا تَتَمَنَّوْا لِقَآءَ الْعُدُوِّ وَ سَلُوا اللّٰہَ الْعَافِیَۃِ فَاِذَا لَقِیْتُمُوْھُمْ فَاصْبِرُوْا وَ اعْلَمُوْا اَنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیُوْفِ۔ ثُمَّ قَالَ اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ وَ مُجْرِیَ السَّحَابِ وَ ھَازِمَ الْاَحْزَابِ اِھْزِمْھُمْ وَ انْصُرْنَا عَلَیْھِمْ۔
(صحیح بخاری کتاب الجھاد و السیر باب کان النبی ﷺ اذا لم یقاتل اول النھار اخر القتالحدیث 2965-2966)
سالم بن نضرکہتے ہیں کہ عبد اللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہما نے عمر بن عبید اللہ کو خط لکھا۔ مَیں نے اس کو پڑھا (اس میں تھا) کہ رسول اللہ ﷺ نے دشمن سے مڈ بھیڑ کے دوران ایک دن سورج کے ڈھلنے کا انتظار کیا، پھر آپ خطاب کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے لوگو تم دشمن سے لڑائی کی تمنا نہ کیا کرو اور اللہ سے عافیت مانگا کرو اور جب تمہاری ان سے مڈ بھیڑ ہو جائے تو ثابت قدم رہو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اے اللہ !کتاب کے نازل کرنے والے اور بادلوں کو چلانے والے ! اور اے گروہوں کو ہزیمت دینے والے! ان کو شکست سے دوچار کر اور ان کے خلاف ہماری مدد فرما۔
جہاد بالسیف کے لیے روانہ ہونے والے لشکر کو نصائح
ان نصائح سے جہادبالسیف کا حقیقی مقصود واضح ہوتا ہے۔اس زمانے میں عرب میں رائج نظام یہی تھا کہ قیام امن،خود حفاظتی، دفع اور ظالم کو ظلم سے روکنا یہ سب خود ہی کرنے ہیں۔قبائل اسی طرح اپنے وجود کو قائم رکھے ہوئے تھے۔لیکن موجودہ زمانے میں یہ سب امور حکومتوں نے اپنے ذمہ لیے ہوئے ہیں۔
رسول کریم ﷺ جب کسی لشکر کو روانہ فرماتے تھے تو اسے جو نصائح بیان فرماتے ان سے اس زمانے کے جہاد بالسیف کی حقیقی غرض واضح ہوتی۔
آپؐ فرماتے تھے:
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَائِذٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ إِذَا بَعَثَ بَعْثًا قَالَ تَاَلَّفُوا النَّاسَ وَتَاَوَّبُوْہُمْ وَلَا تُغِیْرُوْا عَلَیْہِمْ حَتّٰی تَدْعُوْہُمْ مَا عَلَی الْاَرْضِ اَہْلَ بَیْتٍ مِنْ وَبَرٍ وَلَا مَدَرٍ اِلَّا یَاْتُوْنِیْ کُلُّہُمْ مُسْلِمِیْنَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ تَاْتُوْنِیْ بِنِسَآئِہِمْ وَاَبْنَآئِہِمْ وَتَقْتُلُوْارِجَالَہُمْ۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر جزء36 صفحہ311 ”عبد الرحمان بن عائذ“۔ دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء)
عبد الرحمان بن عائذ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کوئی لشکر بھیجتے تو فرماتے کہ لوگوں کی تالیف قلب کرو اور ان کو توبہ کی تلقین کرو اور اسلام کی دعوت دئیے بغیر ان پر چڑھائی نہ کر دو۔ سطح زمین پر بسنے والوں میں سے جو خیموں میں رہتے ہیں یا اینٹ گارے کے مکانوں میں رہتے ہیں ان سب کوتمہارا مسلمان ہونے کی حالت میں لے کر آنا مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ تم ا ن کے مردوں کو قتل کر کے ان کی عورتوں اور بچوں کو میرے پاس لے آؤ۔
عَنْ خَالِدِ بْنِ الْفِرْزِ حَدَّثَنِیْ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِﷺ قَالَ انْطَلِقُوْا بِاسْمِ اللّٰہِ وَبِاللّٰہِ وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ وَلَا تَقْتُلُوا شَیْخًا فَانِیًا وَلَا طِفْلاً وَلَا صَغِیرًا وَلَا امْرَأَۃً وَلَا تَغُلُّوْا وَضُمُّوْا غَنَآئِمَکُمْ وَأَصْلِحُوْا وَأَحْسِنُوْا إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔
(سنن ابی داؤد کتاب الجھاد باب فی دعاء المشرکین حدیث 2614)
خالد بن فِرز روایت کرتے ہیں کہ مجھے انس بن مالکؓ نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر چلواور اللہ کی مدد کے ساتھ اور رسول اللہ کے دین پر رہتے ہوئے نکلو۔ کسی بوڑھے کو نہ مارنا اور نہ بچے اور نہ چھوٹے لڑکے کو اور نہ کسی عورت کو قتل کرو اور تم خیانت نہ کرنا اور غنیمتوں کے مال کو جمع کرنا اور صلح کرنا اور احسان کا سلوک فرمانا۔یقینا ًاللہ تعالیٰ محسنوں کو پسند فرماتا ہے۔
عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ قَالَ بَعَثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فِیْ سَرِیَّۃٍ فَقَالَ سِیْرُوْا بِاسْمِ اللّٰہِ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ قَاتِلُوْا مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ وَلَا تُمَثِّلُوْا وَلَا تَغْدِرُوْا وَلَا تَقْتُلُوْا وَلِیْدًا۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الجھاد باب وصیۃ الامام حدیث 2857)
صفوان بن عَسَّال روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک سریہ کے لئے بھیجتے ہوئے فرمایا: اللہ کے نام کے ساتھ، اللہ کے راستے میں چلو۔ جو اللہ کا انکار کرے اس سے قتال کرو اور مُثلہ نہ کرنا اور (عہدوں میں) غداری نہ کرنا اور نہ ہی کسی بچے کو قتل کرنا۔
عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ أَنَّ أَبَا بَکْرنِ الصِّدِّیقَ بَعَثَ جُیُوْشًا إِلَی الشَّامِ فَخَرَجَ یَمْشِیْ مَعَ یَزِیْدَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ وَکَانَ أَمِیْرَ رُبْعٍ مِنْ تِلْکَ الْأَرْبَاعِ فَزَعَمُوْا أَنَّ یَزِیْدَ قَالَ لِأَبِی بَکْرٍ إِمَّا أَنْ تَرْکَبَ وَإِمَّا أَنْ أَنْزِلَ فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ مَا أَنْتَ بِنَازِلٍ وَمَا أَنَا بِرَاکِبٍ إِنِْی أَحْتَسِبُ خُطَایَ ہَذِہِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ قَالَ لَہُ إِنَّکَ سَتَجِدُ قَوْمًا زَعَمُوْا أَنَّہُمْ حَبَّسُوْا أَنْفُسَہُمْ لِلّٰہِ فَذَرْہُمْ وَمَا زَعَمُوْا أَنَّہُمْ حَبَّسُوْا أَنْفُسَہُمْ لَہُ………… وَ إِنِْی مُوصِیْکَ بِعَشْرٍ لَا تَقْتُلَنَّ امْرَأَۃً وَلَا صَبِیًّا وَلَا کَبِیرًا ہَرِمًا وَلَا تَقْطَعَنَّ شَجَرًا مُثْمِرًا وَلَا تُخَرِّبَنَّ عَامِرًا وَلَا تَعْقِرَنَّ شَاۃً وَلَا بَعِیْرًا إِلَّا لِمَأْکَلَۃٍ وَلَا تَحْرِقَنَّ نَحْلًا وَلَا تُغَرِّقَنَّہُ وَلَا تَغْلُلْ وَلَا تَجْبُنْ۔
(مؤطا امام مالک کتاب الجھاد باب النھی عن قتل النساء و الولدان فی الغزو حدیث 982)
یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکر صدیقؓ لشکر کو شام بھجوانے لگے تو آپؓ یزید بن ابی سفیان کے ساتھ ساتھ چلتے لگے۔ اور وہ ان چار لشکروں میں سے ایک لشکر کے امیر تھے۔ یزید نے حضرت ابو بکرؓ سے کہا کہ یا تو آپ بھی سوار ہو جائیں یا مَیں بھی نیچے اتر آؤں گا۔ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ نہ تو تُو سواری سے نیچے اترے گا اور نہ ہی مَیں سوار ہوں گا۔ مَیں اپنے قدموں کو اللہ کے راستہ میں شمار کرتا ہوں۔ پھر حضرت ابو بکرؓ نے یزید سے فرمایا: تو یقینا ًایسے لوگوں کو بھی پائے گا جو یہ گمان کرتے ہوں گے کہ انہوں نے اپنے نفوس کو اللہ کے لئے روکے رکھا ہوا ہے پس تُو ان کو اور ان کے اس گمان کو کہ انہوں نے اللہ کے لئے اپنے آپ کو روکا ہوا ہے چھوڑ دے ۔………… اور مَیں تجھے دس باتوں کی نصیحت کرتا ہوں۔ کسی عورت کو اور نہ کسی بچے کو ، نہ ہی کسی بوڑھے کو قتل کرنا۔ اور نہ ہی باثمر درختوں کوکاٹنا۔ اور آبادیوں کو ویران نہ کرنا اور کسی بکری اور اونٹ کو خوراک کے علاوہ ذبح نہ کرنا۔ کھجور کے باغات کو مت جلانا اور نہ ہی اس کو پانی میں ڈبو دینا۔ خیانت نہ کرنا اور بزدلی نہ دکھانا۔
ا س زمانے میں قبائل ایک دوسرے کے ساتھ جنگ اور لڑائی کرتے ہوئے کوئی لحاظ نہیں رکھتے تھے۔اخلاقی قدروں کا تو دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں تھااس ماحول میں اسلام کو مجبوراً تلوار اٹھانی پڑی تو اس میں بھی غرض ظالم کو روکنا اور سزا دینا تھا اور امن قائم کرنا تھا۔اخلاقی قدروں کی پاسداری کرنا تھا۔اس لیے کسی قسم کی تخریب کاری سے منع کیا گیا اورقتال کی بجائے مسلمان بنانا زیادہ پسندیدہ عمل تھا۔
جہاد کی چار اقسام
(علی بن ابی طالب) اَلْجِھَادُ اَرْبَعٌ: اَلْاَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ، وَ النَّھْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَ الصِّدْقُ فِیْ مَوَاطِنِ الصَّبْرِ، وَ شَنَآنُ الْفَاسِقِ۔ فَمَنْ اَمَرَ بِالْمَعْرُوْفِ شَدَّ عَضُدَ الْمُؤْمِنِ، وَ مَنْ نَھَی عَنِ الْمُنْکَرِ اَرْغَمَ اَنْفَ الْفَاسِقِ، وَ مَنْ صَدَّقَ (فِیْ مَوَاطِنِ) الصَّبْرِ فَقَدْ قَضَی مَا عَلَیْہِ۔
(فردوس الاخبار لدیلمی جز1 صفحہ336 باب الجیم حدیث2462 دار الفکر بیروت1997ء)
(علی بن ابی طالبؓ) جہاد چار قسم کاہے۔ معروف باتوں کاحکم دینا اور ناپسندیدہ باتوں سے روکنا اور صبر کے موقعوں پر سچ بولنا اور فاسق سے عداوت رکھنا۔ پس جس نے معروف باتوں کا حکم دیا اس نے مومن کے بازو کو مضبوط کیا اور جس نے ناپسندیدہ باتوں سے روکا اس نے فاسق کی ناک کو مٹی میں ملایا اور جس نے صبر کے موقعوں پر سچ بولا تو اس نے وہ ادا کر دیا جو اس پر تھا۔
اسلام کے پھیل جانے کے بعد قتال کی ضرورت نہیں
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَجُلًا جَآءَ ہُ فَقَالَ یَا اَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَلَا تَسْمَعُ مَا ذَکَرَ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہِ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا اِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ فَمَا یَمْنَعُکَ اَنْ لَّا تُقَاتِلَ کَمَا ذَکَرَ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہِ؟ فَقَالَ یَا ابْنَ اَخِیْ اَغْتَرُّ بِہٰذِہِ الْاٰیَۃِ وَلَا اُقَاتِلُ، اَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ اَنْ اَغْتَرَّ بِہٰذِہ الْاٰیَۃِ الَّتِیْ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا إِلٰی آخِرِہَا قَالَ فَإِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ قَالَ ابْنُ عُمَرَ قَدْ فَعَلْنَا عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ إِذْ کَانَ الْإِسْلَامُ قَلِیْلًا فَکَانَ الرَّجُلُ یُفْتَنُ فِیْ دِیْنِہِ إِمَّا یَقْتَلُوْہُ وَإِمَّا یُوْثِقُوْہُ حَتّٰی کَثُرَ الْإِسْلَامُ فَلَمْ تَکُنْ فِتْنَۃٌ،
(صحیح بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الانفال باب و قاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ و یکون الدین للہ۔ حدیث4650)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے ابو عبد الرحمان! کیا آپ نہیں سنتے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے ’’وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا‘‘ (الحجرات: 9) اگر مومنین میں سے دو گروہ آپس میں لڑائی کریں (آیت کے اخیر تک)۔ پس آپؓ کو کس چیز نے منع کیا ہے کہ آپ لڑائی نہیں کرتے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہوا ہے۔ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! مَیں اس آیت کے حکم کی تاویل کرکے نہ لڑوں یہ بات مجھے اس بات کی نسبت زیادہ پسند ہے کہ مَیں آیت کریمہ وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا (النساء: 94) کی تاویل کروں۔ اس شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تو یہ حکم دیتا ہے وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ۔ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا: یہ تو ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں کر چکے ہیں۔ جب اسلام قلیل تھا اور آدمی کو اس کے دین کی وجہ سے آزمائش میں ڈالا جاتا تھا۔ وہ چاہتے تو اسے مار ڈالتے یا چاہتے تو قید کر لیتے تھے۔ یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا اور فتنہ باقی نہ رہا۔
حضرت عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے واضح فرمادیا کہ کمزوری کے زمانے میں اسلام کو تلوار کی ضرورت پیش آئی تھی لیکن پھر فتنہ نہیں رہا اور اسلام کے پھیل جانے کے بعد وہ آزمائش جو کمزوری کی وجہ سے تھی،باقی نہیں رہی۔اب فتنہ نہیں رہا اس لیے اب قتال کی ضرورت نہیں۔
(ازابن قدسیؔ)