• 4 مئی, 2024

طوالو آئی لینڈ کا مختصر تعارف اور اس میں احمدیت کا نفوذ

طوالو آئی لینڈز کا مختصر تعارف

اس ملک کا شمار بحر الکاہل کے جنوبی جزائر میں ہوتا ہے جو ہوائی اور آسٹریلیا کے درمیان میں واقع ہے، کرنسی بھی آسٹریلین ڈالر ہی استعمال ہوتی ہے۔ یہ کل 9 جزائر پر مشتمل ملک ہے۔ اور اس ملک کا نام بھی طوالو ہی اس لئے ہے کیونکہ انکی زبان میں طوالو کا مطلب ہے 8 اکٹھے کھڑے ہونا۔ اسکا دار الخلافہ فانوفوتی ہے اسکی کل آبادی 11 ہزار کے قریب ہے، آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا اور رقبہ کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا چھوٹا ملک ہے جو صرف 26 مربع کلو میٹر ہے۔ اسکے ہمسایہ ممالک میں کریباس، ناؤرو، سامووا اور فجی ہیں اور یہ ملک طوالو بھی ڈیٹ لائن کی دوسری طرف ہونے کی وجہ سےدنیا کا کنارہ کہلاتا ہے۔ یہ جزیرہ پہلی مرتبہ 1568ء میں دریافت ہوا تھا، اور طوالو کے لوگ 3000 سال قبل ساؤتھ امریکہ سے آئے تھے۔یہ ایک عیسائی ملک ہے جہاں 1861ء میں عیسائی مذہب پہنچا اس سے قبل یہ اپنے آباؤ اجداد کی روحوں اور انکے مجسموں کو پوجتے تھے۔دراصل 1861ء میں کوکا آئی لینڈ سے چرچ کی ایک چھوٹی کشتی طوفان میں گھری لہروں کے باعث 8 ہفتوں بعد طوالو کے ایک چھوٹے سے جزیرے (ناکوکیلے) میں آ کر لگی جس میں ایک عیسائی پادری ایلیکاتا بھی سوار تھا جو سامووا برٹش کالج سے پڑھا ہوا تھا اس نے یہاں عیسائیت کا بیج بویا اور پھر یہاں پہلا عیسائی مشنری یورپ سے 1865ء میں آیا اور یہ مذہب پھر مضبوط ہوتا چلا گیا۔آج بھی یہاں عیسائیت 97 فیصد ہے، 1 فیصد بہائی 1.4 فیصد ملے جلے اور 0.4 فیصد صرف احمدیت ہے۔اور اس سے پہلے عام لوگ اسلام کے بارے میں بالکل بھی نہیں جانتے تھے۔

سیاسی اعتبار سے یہ ملک 1892ء تا 1916ء برٹش کے ماتحت تھا۔ 1916ء سے 1974ء تک اس میں دوسرے لوگ آکر آباد ہوتے رہے، پھر 1974ء میں گلبٹ آئی لینڈز کا ریفرینڈم ہوا اوریکم جنوری 1976ءمیں کیریباس طوالو سے الگ ہو گیا۔ اور طوالو مکمل طور پریکم اکتوبر 1978ء میں آزاد ہو گیا۔ اور پھر طوالو بھی 17 ستمبر 2000ء میں یہ یونائیٹڈ نیشن کا حصہ بن گیا۔

طوالو میں جماعت احمدیہ کا پہلی مرتبہ نفاذ
اور اس کی اصل حقیقت

1983ء میں جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فجی کا دورہ فرمایا تویہ دورہ جہاں اللہ تعالیٰ کی بہت ساری رحمتوں، برکتوں اور فضلوں کو لایا وہاں حضورؒ کی رہنمائی سے فجی میں تعلیم وتربیت اور تبلیغ کے ساتھ ساتھ اسکے ارد گرد جنوبی بحر الکاہل کے جزائر میں اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ بنا۔جس کے لئے حضور نے ہدایات اور منصوبہ بندی کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی، لیکن اس پر پوری طرح کام نہ ہونے کی وجہ سے خاطر خواہ نتائج نہ نکلے۔لیکن حضور کی اس دلی تمنا کو پورا کرنے کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حالات پیدا فرمائے اسکا ذکر خود حضورؒ نے جلسہ سالانہ یوکے 1986ء کے دوسرے دن کے خطاب میں یوں فرمایا۔
’’طوالو ایک جزیرہ ہے جو ہمارے نقطہٴ نگاہ سے بعد تین جزائر میں سے ہے یعنی جہاں ہم اس وقت کھڑے ہیں یا بیٹھے ہوئے ہیں وہاں سے اس جزیرے کا فاصلہ اتنی دور ہے کہ وہ گویا عملا زمین کا کنارہ ہے ساؤتھ ایسٹ پیسفک کے جزائر میں سے یہ ایک چھوٹا سا جزیرہ عملاً زمین کے کنارے پر ڈیٹ لائن کے پرلی طرف واقع ہے اس جزیرے کے متعلق ایک بہت ہی دلچسپ بات یہ بتانے کے قابل ہے کہ ایک دن مجھے فجی سے ایک ایسا خط موصول ہوا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ فلاں فلاں جزیرے ایسے ہیں جن میں کوئی مسلمان نہیں ہے اور ان میں ہمیں ضرور اسلام کو پھیلانے کا منصوبہ بنانا چاہئے۔اور اس میں خصوصیت سے طوالو کا ذکر تھا،چنانچہ میری نظر طوالو پر پڑی تو میں نے سوچا کہ اس جزیرے میں لازماً اس سال (1984۔ناقل) ان شاء اللّٰہ ہم کوشش کریں گے۔افتخار احمد ایاز ہمارے ایک دوست ہیں جو یونائیٹڈ نیشن میں کام کرتے ہیں وہ میرے پاس تشریف لائے اور مجھے کہا کہ ایک ضروری مشورہ کرنا ہے،وہ مشورہ یہ ہے کہ مجھے پہلی نوکری سے جواب مل چُکا ہے اور ایک دور دراز ملک میں پیشکش ہوئی ہے اسکا نام طوالو ہے۔آپ بتائیں میں یہ نوکری قبول کروں یا نہ کروں، آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اس وقت میرے دل کی کیا کیفیت تھی یوں لگتا تھا کہ آسمان سے خُدا نے اس تمنا کا جواب دے دیا ہے میں اُٹھ کر انکے گلے لگ گیا اور میں نے کہا کہ نیکی اور پوچھ پوچھ میں تو انتظار کر رہا تھا کہ کب خُدا تعالیٰ راستہ پیدا کرے۔ آپ جائیں اور آپ خُدا کے فضل سے پہلے مُبلغ ہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا انکے کام میں اتنی برکت دی کہ وہاں بڑی تیزی کے ساتھ جماعت قائم ہوئی‘‘۔

(الفضل انٹرنیشنل 17۔23 اکتوبر 2003 صفحہ3)

یوں ڈاکٹر افتخار ایاز صاحب اللہ کے فضل سے ان جزائر میں تبلیغ اسلام کا پہلا قطرہ ثابت ہوئے اور پھر حضور کی دعاؤں سے اور انکی محنت سے اسلام احمدیت کا پیغا م نہ صرف طوالو میں پھیلنے لگا بلکہ اسکی کرنیں ارد گرد کے دوسرے جزیروں کریباس اور ویسٹرن ساموا ٓ میں بھی پھوٹنے لگیں۔

1984ء میں ڈاکٹر افتخار ایاز صاحب محکمہ تعلیم کے تحت یہاں نوکری کرنے کےلئے آئے تھے لیکن حضورؒ کے ارشاد کے مطابق انہوں نے آتے ہی بطور مبلغ بھر پور محنت اور حکمت کے ساتھ اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کی کوششیں شروع کر دیں، انہوں نے سب سے پہلے یہاں ایک لوکل خاتون محترمہ (سونیا روسیا) صاحبہ جو ایک سوشل ادارہ (ریڈ کراس) میں کارکن تھیں اور اس جزیرے میں ہر آنے جانے والے کے لئے بطور ٹرانسلیٹر کی ذمہ داری بھی ادا کرتیں تھی کی خدمات کو حاصل کرتے ہوئے چند جماعتی لٹریچر کا لوکل زبان میں ترجمعہ کروایا، جس پر آپ نے جب اسکی اُجرت لینے کو کہا تو اُنہوں نے اپنے والد سے مشورہ کر کے انکار کر دیا کہ ہم مذہبی کام کی اُجرت نہیں لے سکتے۔ جس کے ایک ماہ بعد وہ بھی اسلام کی تعلیم سے متاثر ہوتے ہوئے احمدیت میں شامل ہو گئیں۔اور یوں پڑھے لکھے لوگوں کا اسلام احمدیت کو قبول کرنے کا یہ سلسلہ بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگا اور آغاز میں ایک پولیس آفسر اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی مکرم ڈاکٹر صاحب کی رہائش پر جمعہ بھی ادا کرنے لگا۔بہت جلد 52 احباب پر مشتمل ایک مضبوط جماعت قائم ہو گئی جس کے نتیجہ میں وہاں مخالفت بھی شروع ہو ئی اور رجسٹریشن میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی جانے لگی۔لیکن حضورؒ کی دعاؤں اور ہدایات پر جلد ہی 9 فروری 1987ء کو طوالو جزیرے میں انکے قواعد کے مطابق کہ کسی کمیونٹی کو رجسٹر ہونے کے لئے کم از کم 50 ممبران کی تعداد لازمی ہے کو پورا کرتے ہوئے یہاں جماعت احمدیہ بھی رجسٹرڈ ہو گئی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

اور اسی سال 1987ء میں طوالو جماعت سے 2 ممبران مکرم ولید احمد اور مکرم طاہر احمد تونی صاحب جلسہ سالانہ یوکے میں بطور نمائندہ شامل بھی ہوئے جن کو حضرت خلیفۃ المسیح نے بہت محبت اور پیار دیا اور بار بار انکا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ پیشگوئی (میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا) کے نشان ہیں۔

چونکہ اب وہاں جماعت رجسٹرڈ ہو چکی تھی اس لئے وہاں مخالفت بھی زور پکڑ رہی تھی حضور نے فجی سے اگست 1987ء میں مکرم حافظ جبرائیل سعید صاحب مربی سلسلہ کو ٹرانسفر کرکے طوالو بھجوا دیا،جنہوں نے وہاں پہنچ کر بڑی حکمت کے ساتھ کام کیا کیونکہ وہاں آپکے سامنے سب سے بڑاچیلنج نو مبائین کی تعلیم وتربیت کا تھا آپ نے وہاں کے وزیر اعظم اور دیگر حکومتی نمائندگان سے ملاقات کی اور ان تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا۔چنانچہ جب پارلیمنٹ میں جماعت کی رجسٹریشن کے خلاف شور اُٹھا تو وہاں کے وزیر اعظم نے بڑی مضبوطی کے ساتھ جماعت کا ساتھ دیا اور تائید کی کہ میرا اپنا مذہب بھی عیسائی ہے اور جیسے عیسائی عیسائیت کی پیروی کرتے ہیں ہم بحیثیت حکومت طوالو کے قانون کی پیروی کریں گے اور اس میں عیسائیت کو دخل نہیں دینے دیں گے،اسلئے جماعت ٹھیک رجسٹر ہوئی ہے اور وہ قائم رہے گی۔اس مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ دلوں کو پھیر رہا تھا اور اس مخالفت کے دوران وہاں کے گورنر جنرل نے بیعت بھی کر لی۔اس خوشخبری کی اطلاع ڈاکٹر افتخار ایاز صاحب نے فور ی طور پر حضور کو دی۔جس پر حضور نے جواب تحریر فرمایا۔ ’’جو بڑی شخصیات سیاسی دباؤ کے ڈر سے کھلم کھلا احمدی کہلانے کے لئے تیار نہیں ہیں انکے لئے بہترین طریقہ یہ ہو گا کہ اپنے اسلام کو سردست مخفی رکھیں اور اپنا سیاسی رسوخ حکمت سے اس طرح استعمال کریں کہ کثرت سے لوگ احمدی ہوں تا کہ سیاست سے احمدیت کا تضاد دور ہو جائے‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 17 تا 23 اکتوبر 2003 صفحہ10)

چنانچہ حافظ صاحب نے حضور کی ہدایت پر کام کرتے ہوئے سب سے پہلے جماعت کی تعلیم و تربیت کے لئے بطور نماز سینٹر ایک مکان کرایہ پر لیا اور دوسرا بطور مشن ہاؤس کے لئے اور ساتھ ہی مسجد کے لئے زمین کی تلاش بھی شروع کر دی، اورچونکہ یہاں انفرادی بیعتوں کا سلسلہ شروع تھا اس لئے ساتھ ہی انکی تربیت کو مدنظر رکھتے ہوئے لجنہ اور انصار کی تنظیموں کا بھی آغاز کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ جلد ہی مسجد کے لئے بھی ایک مناسب زمین جو شہر کے وسط میں ہے 99 سال کے لیس پر 19,800 آسٹریلین ڈالرز میں مل گئی، اس معاہدے پر جماعت کی طرف سے اس وقت کے صدر مکرم ولید صاحب نے دستخط کئے تھے۔ جس پرفروری 1991ء میں ایک خوبصورت احمدیہ مسجد بھی تعمیر کر دی گئی۔ اس موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے پیغام بھی بھجوایا کہ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بہترین رنگ میں اس کام کو پایہٴ  تکمیل تک پہنچانے کی توفیق بخشے اور یہ مرکز ان سب جزائر میں اسلام کا نور پھیلانے کے لئے روشنی کا مینار ثابت ہو اور بہتوں کی ھدایت کا موجب ہو۔آمین۔

(الفضل انٹر نیشنل 17-23 اکتوبر 2003 صفحہ 10)

حافظ جبرائیل سعید صاحب مرحوم نے بھی وہاں بہت محنت کی تعلیم و تربیت اور تبلیغ کے ذریعہ ارد گرد کے قریبی جزائر کریباس اور ویسٹرن ساموآ،مارشل آئی لینڈ،سولمن آئی لینڈ اور مائیکروشیا اور ناؤرو جزیروں تک تبلیغی دورے کئے اس سلسلے میں انکی فیملی نے بھی وہاں ہفتوں اکیلے رہ کر بہت قربانی دی۔1990ء میں وہاں طوالو کی لوکل زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ بھی مکمل ہوا، جو وہاں کے ایجوکیشن بورڈ کے چئیرمین کی مدد سے کیا گیا اور پھر اسکو ابتدائی ایک احمدی دوست ولید صاحب نے چیک بھی کیا۔جس کے بعد حافظ صاحب 1991ء میں طوالو سے بطور پہلے مبلغ قریبی ملک کریباس جزیرہ پر چلے گئے اور 1994ء تک وہاں خدمت کی توفیق پائی۔یہاں انکی تبلیغ کا ایک دلچسپ واقعہ ہے جو انہوں نے خود خاکسار کو سُنا یا ہے کہ ایک مرتبہ میں طوالو سے جب پہلی دفعہ کریباس دورہ پر گیا تو ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا اور لوگوں سے کوئی خاص رابطہ اور تعلق نہیں ہو رہا تھا تو اگلی صبح میں نے ایک مصروف سڑک کے کنارے درخت کے نیچے 2 رکعات نوافل ادا کرنے شروع کرد ئیے، لوگ اپنے دفاتر اور سکولز کی طرف جا رہے کہ اچانک انہوں نے مجھے دیکھا کہ گرمی کا موسم ہے اور سورج نکلا ہوا ہے یہ بندہ کبھی اُٹھتا ہے کبھی گرتا ہے اسکو کیا ہو گیا ہے ؟ اس تماشے کو دیکھنے کے لئے ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا جب میں نے نماز ختم کی تو لوگ پوچھنے لگے کہ بھائی آپ کو کیا ہو گیا تھا یہ آپ کیسی حرکتیں کر رہے تھے میں نے بتایا کہ کچھ نہیں میں تو اپنے خالق کی عبادت کر رہا تھا جس پر وہ بہت حیران ہوئے اور سوالات کرنے لگے میں نے ان میں سے چند سمجھدار لوگوں کو بتایا کہ میں یہاں اس ہوٹل میں ٹھہرا ہوں شام کو آ جائیں آرام سے بیٹھ کر بات کریں گےچنانچہ یوں وہاں تعارف کے ساتھ ماشاءاللّٰہ سلسلہ تبلیغ بھی شروع ہوگیا۔ پھر انکے ذریعہ ان قریبی 3 جزائر مارشل آئی لینڈ،سولمن آئی لینڈ اور مائیکروشیا میں بھی احمدیت کا نفاذ ہو ا اور جماعتیں قائم ہوئیں۔

مکرم حافظ صاحب نے طوالومیں 1989ء میں جماعت احمدیہ کے صد سالہ جشن تشکر کا پروگرام بھی باقاعدہ منعقد کیا،جس میں شعبہ تعلیم کے ڈائریکٹر کو بطور مہمان خصوصی دعوت دی گئی اور اس وقت 50 سے زائد احباب نے شرکت کی۔

1993ء میں 4 ممبران کو فجی مرکز میں تعلیم تربیت کے لئے بھی بھجوایا گیا جن میں ایک 10 سال کا بچہ بھی تھا جس نے اپنے گھر سے دور 6 ماہ تک دین سیکھنے کے لئے قربانی کی۔چنانچہ حافظ صاحب کے بعد پھر 1993ء میں ہی غانا سے ایک اور مبلغ سلسلہ مکرم عبد الغفار صاحب کو طوالو بھجوایا گیا جنہوں نے کچھ عرصہ فجی میں گزار کر پھر 5 سال 1998ء تک خدمت کی توفیق پائی۔

چنانچہ 1998ء سے 2003ء تک پھر طوالو میں کوئی مستقل مبلغ نہ رہا اور فجی سے ہی بعض احباب اور مبلغین بھی ویزہ کی مشکلات سے وقتاً فوقتاً دورے پر جاتے رہے اور ٹیلیفون پر ممبران سے رابطہ رہا۔

2000ء میں برٹش حکومت کی طرف سے ہمارے پہلے صدر جماعت طوالو مکرم ولید صاحب کو معاشرے میں امن اور سلامتی کے لئے اچھا کام کرنے پر امتیازی میڈل بھی دیا گیا اور 2001ء میں اچانک وفات ہو گئی، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

بالاآخر 2003ء میں حضور پُر نور کی شفقت سے غانا سے مزید 4 معلمین فجی بھجوائے گئے جن میں سے ایک کی تقرری کریباس کے لئے ہوئی اور دوسر ے عبد الحکیم صاحب کو طوالو بھجوایا گیا۔انہوں نے بھی وہاں ماشاء اللّٰہ حسب توفیق خدمت کی توفیق پائی، اور کوشش جاری رکھی۔ 2003 دسمبر میں حضور انور نے مکرم حافظ جبرائیل سعید صاحب کو دوبارہ ان جزائر کے دورہ پر بھجوایا جس کے دوران انہوں نے طوالو کے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور حضور پُر نور کی طرف سے جلسہ یوکے میں شمولیت کی دعوت بھی دی۔

طوالو جماعت پر ابتلا کا دور

مکرم ولید صاحب کی وفات اور وہاں کوئی باقاعدہ مبلغ نہ ہونے کی وجہ سےچونکہ جماعت کا نظام بہت اچھا نہیں چل رہا تھا جسکا فائدہ اُٹھاتے ہوئے 2004ء میں مسجد والی زمین کے مالک کے بچوں نے اپنی زمین واپس لینے کا مطالبہ کر دیا اور معاملہ عدالت تک چلا گیا جب کہ معاہدے کے مطابق جب زمین 1987ء میں جماعت نے خریدی تھی اسکا لیز 99 سال تک جماعت کے نام منتقل ہو چُکا تھا۔ بد قسمتی سے جماعت کے ایک ممبر طاہر تونی صاحب کا جھکاؤ بھی رشتہ داری کی وجہ سے اُس فیملی کی طرف ہو گیا تھا اور آخریہ کیس سپریم کورٹ تک گیا لیکن اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ حق کی فتح ہوئی اور جج نے نہ صرف فیصلہ جماعت کے حق میں دیا بلکہ فریق ثانی کو جماعت احمدیہ کے خلاف غلط اپیل کرنے اور عدالت کا وقت ضائع کرنے پر 10,000 آسٹریلین ڈالرز کا جرمانہ بھی کیا کہ اب یہ رقم آپ لوگ جماعت احمدیہ کو ادا کریں۔لیکن حضور پُر نور نے عدالت کے اِس حق اور انصاف پر مبنی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے فریق ثانی کو معاف کر دیا اور جماعت نے اُن سے کسی قسم کی رقم وصول نہ کی۔انہیں حالات کی وجہ سے اس عرصہ میں جماعت کے پروگرامز میں کچھ خاص ترقی نہ ہوئی۔

2006ء میں حضور انور کے فجی دورہ کے دوران ایک وفد مکرم معلم عبد الحکیم صاحب کے ساتھ طوالو سے جلسہ میں شریک بھی ہوا جسکو خلافت کی طرف سے بہت محبت شفقت اور دعائیں ملیں اور نئے جذبے کے ساتھ کام کرنے کی ہدایات دیں۔ جس کے بعد 27 مئی 2008 کو احمدیہ مسجد طوالو میں جلسہ خلافت جوبلی بھی منعقد کیا گیا جس میں پارلیمنٹ اور دیگر مذہبی لیڈروں کو دعوت دی گئی جنکی 30 سے زائد حاضری رہی۔ اسی دوران عبدالحکیم صاحب کی اہلیہ کا غانا میں کار ایکسیڈینٹ بھی ہو گیا اور انکی اس حادثے میں وفات ہو گئی، (اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ)، اور انکو پھر 2009 میں واپس غانا جانا پڑا۔ اسی طرح محکمہ موسمیات کی ریسرچ کے مطابق جب سے ان جزائر میں سمندر کی سطح بلند ہونے کی خبریں آئیں تو اس وجہ سے بھی کافی لوگ جن میں جماعت کے ممبران بھی شامل تھے، قریبی بڑے ممالک نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی طرف ہجرت کر گئے۔اور جماعت ممبران کی تعداد بھی بہت کم رہ گئی۔

چنانچہ اکتوبر 2009 میں حضور انور کی ہدایت پر انڈونیشیا سے مکرم محمد ادریس واون صاحب ایک نو جوان مبلغ کی طوالو کے لئے تقرری ہوئی جو براستہ فجی وہا ں پہنچے، انہوں نے نوجوانوں اور وہاں کے سوشل اور حکومتی روابط پر زیادہ کام کیا جس پر ماشاءاللہ انکو کامیابی ہوئی کہ جلد ہی نئی بیعتیں موصول ہونی شروع ہوئیں اور دیگر مذاہب اور حکومتی تعلقات بحال ہونے پر جماعت کے پروگرامز میں بھی بہتری آنے لگی اور پھر حضور انور نے مکرم حافظ جبرائیل سعید صاحب کو دوبارہ مرکزی نمائندہ کے طور پر ان جزائر کا دورہ کرنے کے لئے بھجوایا جس سے ادریس صاحب کو بھی مدد ملی اور چند ریڈیو پروگرامز کرنے سے یہ سلسلہ تبلیغ کا بھی دوبارہ سے جاری ہو گیا۔

20 فروری 2010ء کو یہاں پہلا جلسہ یوم مصلح موعود ؓ بھی منعقد کیا گیا جس میں دیگر مذہبی رہنماؤں کو دعوت دی گئی اور پھر ان تعلقات کو مضبوط اور زندہ رکھتے ہوئے احمدیہ مسجد پر 7 ستمبر 2010ء کو پہلا (پیس سمپوزیم) کا پروگرام کیا گیا جس میں 50 سے زائد لوگ شامل ہوئے اور اسکی خبر اگلے دن ریڈیو پر بھی نشر ہوئی۔اسی طرح 11 اگست 2010ء کو پہلا خُدام اجتماع اور 22 نومبر 2010ء کو لجنہ کا بھی پہلا اجتماع منعقد ہوا جس میں طوالو کے پولیس کمشنر کی بیوی اور وہاں کی عورتوں کی تنظیم کی لیڈر کو دعوت دی گئی جس پر انہوں نے بھی اسلامی سکارف پہنتے ہوئے اسکو ایک عورت کی حفاظت اور خوبصورت کا ذریعہ قرار دیا اور اسکے رواج کو سراہا۔

چنانچہ اس جزیرہ میں مخالفت نے پھر زور پکڑا کہ وہاں کی مذہبی کمیٹی نے2010 میں ایک قانون پاس کیا گیا جسکی کی وجہ سے آپ کھلے عام آپ کسی کو اپنے مذہب کے بارے میں کچھ بتا نہیں سکتے اور یہ صرف اسلام کے لئے تھا کہ اگر کوئی سوال کرنا بھی چاہے تو اسکو اپنے گھر یا سینٹر پر بتا سکتے ہیں جس سے یہ تاثر ملے گا کہ یہ شخص خود اپنی دلچسپی کے ساتھ مذہب اسلام کے بارے میں کچھ سیکھنے آیا ہے اور ان حالات میں جماعت کی رجسٹریشن بھی معطل ہو گئی لیکن جماعت ممبران نے ہمت نہ ہاری اور ہر پلیٹ فارم پر آواز اُٹھائی اور ہر قانون کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا بالآخر 2014ء میں کورٹ میں ایک بڑی ڈبیٹ کے بعد کامیابی ہوئی اور ٹاوٴن کونسل کو دوبارہ جماعت کی رجسٹریشن بحال کرنی پڑی۔اس ڈبیٹ میں جماعت کے ممبران نے مذہبی لیڈروں کے سامنے انکی طرف سے کئے جانے والے سوالات پر دوسرے مسلمانوں سے مختلف عقیدہ اور جہاد کے بارے میں اپنا مؤقف واضح کیا اور یہ جوابات مکرم ادریس صاحب کی موجودگی میں جماعت کی سینئر لجنہ جو وہاں کی صدر لجنہ بھی ہیں مکرمہ حیلیا صاحبہ نے دئیے جو پارلیمنٹ میں گزشتہ 33 سال سے سروس کر رہی ہیں اسی طرح جماعت کی ایک اور سینئر لجنہ بھی موجود تھیں جو 1988 سے شعبہ سپورٹس میں معذور لوگوں کی ٹیچر مقرر ہیں اور ماشاءاللّٰہ اچھا کام کر رہی ہیں۔

چنانچہ 23 مارچ 2015 کو یہاں پہلی مرتبہ جلسہ یوم مسیح موعود ؑ بھی منعقد کیا گیا اور جس میں دیگر مذاہب کے نمائندگان اور کیتھولک چرچ کے پادری کو بھی دعوت دی گئی یوں 25 غیر از جماعت مہمان شامل ہوئے اور پھر اپریل 2015 میں ایک طوفان کے باعث اس ملک میں ہونے والی تباہی کے وقت مکرم ادریس صاحب نے خُدا م کے ساتھ جاکر جماعت کی طرف سے خدمت خلق کے جذبے کے تحت دور دراز دوسرے جزائر پر بھی 70 کے قریب خاندانوں کو راشن پہنچایا جس کا ان لوگوں پر بہت گہرا اثر ہوا۔

تربیت کے اس ماحول کے پروان چڑھنے کے نتیجہ میں ستمبر 2015 میں طوالو خُدام کا ایک وفد فجی کے نیشنل اجتماع میں بھی شامل ہوا۔ جس کے بعد 10 ستمبر 2015 کو فجی سے محترم احمد محمود صاحب امیر و مشنری انچارج اور مربی نعیم احمد اقبال صاحب طوالومیں پہلا جلسہ سالانہ منعقد کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔ اس موقع پر جلسہ سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے ایک ایمان افروز معجزہ بھی دکھایا جس کا ذکر یہاں ضروری ہے کہ طوالو چونکہ سمندر کے درمیان ایک باریک لائن کی طرح ایک جزیرہ ہے جسکی وجہ سے زمین کا پانی تو استعمال کے قابل نہیں اسلئے بارش کے پانی سے ہی گزر بسر ہوتا ہے،چونکہ اس وقت طوالو میں سوکھا کا موسم تھا اور لوگوں کے ٹینک بالکل خالی ہو چکے تھے امیر صاحب کے جانے پر وہاں کے مبلغ ادریس صاحب نے اس پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے خصوصی دعا کی درخواست کی۔چنانچہ دعا کے بعد تھوڑی دیر میں ہی موسلادھار بارش ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اس قدر فضل فرمایاکہ پانی کے ٹینک بھی بھر گئے اور ساری کمی اور پریشانی بھی دور ہو گئی،اسکا وہاں کے عیسائی معزز مہمانوں پر بھی بڑا اثر ہوا اور یہ خبر سب لوگوں میں پھیل گئی کہ مسلمانوں کے مشنری نے دعا کروائی اور یہ رحمت برسی ہے۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ علیٰ ذٰلک۔اس کے بعد محترم امیر صاحب جلسہ کے انعقاد کے ساتھ وہاں حکومتی افسران اور مذہبی لیڈروں سے بھی ملاقات کی،ذیلی تنظیموں کے تربیتی مقابلہ جات بھی ہوئے اور یوں یہ سلسلہ تربیت اور رابطے جاری ہیں۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اس کے بعد سے یہ جلسہ کا سلسلہ جاری ہے اور 2018 تک ہر اس جلسہ میں شمولیت کے لئے فجی سے محترم امیر صاحب تشریف لے جاتے رہے۔اسکے بعد کرونا کی وبا سے وہاں کے حالات سے بہت معلومات نہیں ملی ہیں۔

قارئین الفضل سے درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق اس الٰہی سلسلہ کو دنیا کے کناروں پر اپنی خاص تائید ونصرت سے نوازتا چلا جائے کہ اسکی حفاظت فرمائے۔ آمین۔

(طارق احمد رشید۔ مربی سلسلہ جزائر فجی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ