• 30 اپریل, 2024

الہام ’’میں تیری تبلیغ کو ۔۔۔‘‘ اور سرزمین امریکہ (قسط 1)

الہام ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘
اور سرزمین امریکہ (قسط 1)

اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں تین مقامات پر سورۃ التوبہ آیت 33، سورۃ الفتح آیت 29اور سورۃ الصف آیت نمبر 10میں قریباً ایک ہی قسم کا مضمون بیان فرمایا ہے۔

سورۃ الفتح آیت نمبر 29 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًا

اس کا ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے یوں بیان فرمایا ہے:
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے دین (کے ہر شعبہ) پر کلیۃً غالب کر دے اور گواہ کے طور پر اللہ بہت کافی ہے۔‘‘

اس آیت کی تشریح میں حضورؒ فرماتے ہیں کہ ’’اس آیت میں اسلام کے دنیا کے سب ادیان پر غالب آنے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ اس آیت کے نزول کے وقت اہل مکہ پر بھی ظاہری غلبہ نصیب نہیں ہوا تھا پھر اس زمانے میں یہ پیشگوئی کہ اسلام کو تمام دنیا کے ادیان پرغالب کر دیا جائے گا۔ بےمثال عظمت کی حامل ہے۔‘‘

سورۃ الصف کی آیت نمبر 10 کے ترجمہ اور تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:۔
’’اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عالمی نبی ہونے کا وضاحت سے ذکر موجود ہے۔ یعنی آپ کسی ایک دین کے ماننے والوں کی طرف مبعوث نہیں ہوئے بلکہ تمام جہانوں میں ظاہر ہونے والے ہر دین کے پیرو کاروں کی طرف مبعوث ہوئے ہیں اور ان پر غلبہ پائیں گے‘‘

حضورؒ نے اسی آیت کی تشریح میں تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا یہ حوالہ بھی درج فرمایا ہے:۔
’’یہ قرآن شریف میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی نسبت علماء محققین کا اتفاق ہے کہ یہ مسیح موعود کے ہاتھ پر پوری ہوگی‘‘

(قرآن کریم اردو ترجمہ حضرت مرزا طاہر احمد ؒ صفحہ 1026)

جماعت احمدیہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اس غلبہ کا ظہور حضرت امام مہدی علیہ السلام کے اس دور میں ہونا مقدر ہے۔ اور جماعت احمدیہ کا یہ بھی یقین ہے کہ اس زمانہ کا وہ موعود جس کی پیشگوئی موجود ہے وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ ہیں۔ اور آپ نے ہی جماعت احمدیہ کی بنیاد 1889ء میں رکھی۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک

بانیٔ جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ، امام مہدی و مسیح موعود نے جس سلسلہ کی بنیاد رکھی اسے جماعت احمدیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ کے قیام کی کیا ضرورت ہے۔ اب اس پر مختصر روشنی ڈالتا ہوں۔

سلسلہ احمدیہ کی غرض و غایت

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ فرماتے ہیں:۔
’’احمدیت بھی کسی نئے مذہب کا نام نہیں ہے اور نہ ہی بانی سلسلہ احمدیہ کا یہ دعویٰ تھا کہ آپ کوئی نئی شریعت لائے ہیں بلکہ احمدیت کی غرض و غایت تجدید اسلام اور خدمت اسلام تک محدود ہے۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ  کا یہ دعویٰ تھا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو مسلمانوں کی بگڑی ہوئی حالت کی اصلاح اور اسلام کی خدمت کے لئے مامور کیا ہے اور اسلام کی خدمت کے مفہوم میں اسلام کے چہرہ کو گردوغبار سے صاف کرنا، اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا انتظام کرنا، اسلام کو دوسرے مذاہب کے مقابل پر غالب کرنا اور اسلام میں ہو کر دنیا کے غلط عقائد و اعمال کی اصلاح کرنا شامل ہے۔‘‘

(سلسلہ احمدیہ حصہ اول صفحہ2 مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمدؓ)

حضرت بانیٔ جماعت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو 1898ء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یوں الہام ہوتا ہے:

’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘

(تذکرہ صفحہ 260)

لجۃ النور، روحانی خزائن میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:۔

’’وَ اَوْحٰٓی اِلَیَّ رَبِّیْ وَ وَعَدَنِیْ اَنَّہٗ سَیَنْصُرُنِیْ حَتّٰی یَبْلُغَ اَمْرِیْ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَھَا وَتَتَمَوَّجُ بُحُوْرُ الْحَقِّ حَتّٰی یُعْجِبَ النَّاسَ حُبَابُ غَوَارِبِھَا۔‘‘

(تذکرہ صفحہ 260)

ترجمہ: ’’میرے ربّ نے میری طرف وحی بھیجی اور وعدہ فرمایا کہ وہ مجھے مدد دے گا یہاں تک کہ میرا کلام مشرق و مغرب میں پہنچ جائے گا۔ اور راستی کے دریا موج میں آئیں گے یہاں تک کہ اس کی موجوں کے حباب لوگوں کو تعجب میں ڈالیں گے۔‘‘

پھر 1891ء کا ایک اور الہام یہ ہے:۔

’’میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دوں گا اور تیرا ذکر بلند کروں گا اور تیری محبت دلوں میں ڈال دوں گا‘‘

(تذکرہ صفحہ 149)

حضرت مسیح موعودؑ نے جس وقت جماعت کی بنیاد رکھی۔ آپ کو کوئی جانتا بھی نہ تھا نہ قادیان کے بارے میں لوگوں کو کچھ خبر تھی لیکن وہ خدا جس نے قرآن شریف میں پہلے سے ہی بیان فرما دیا تھا کہ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کیا جائے گا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے الہام کو کس شان سے پورا فرمایا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ یہ دراصل قرآن کریم کی صداقت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک کھلا اور منہ بولتا ثبوت ہے۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک

اب آئندہ ان سطور میں اس بات پر روشنی ڈالی جائے گی کہ یہ دعوت، یہ تبلیغ، یہ اسلام کا پیغام کیسے اور کس طرح ساری دنیا میں پھیلایا گیا۔ دراصل یہ الہام الٰہی میں یہاں پہلے سے موجود ہے کہ ’’میں‘‘۔ گویا سارا کام خدا تعالیٰ کی برکتوں، رحمتوں اور اس کے افضال کے ذریعہ ہی ہوگا اور ہوگیا ہے اور ہورہا ہے۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنی کتب میں یہ بیان فرمایا ہے کہ آپؑ کے زمانہ مبارک ہی میں اسلام کا پیغام امریکہ، یورپ میں پہنچ چکا تھا۔ آپؑ ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں :۔

’’ایسا ہی وہ بیس ہزار اشتہار جو انگریزی اور اردو میں چھاپے گئے اور پھر بارہ ہزار سے کچھ زیادہ مخالفین کے سرگروہوں کے نام رجسٹری کراکر بھیجے گئے اور ملک ہند میں ایک بھی ایسا پادری نہ چھوڑا جس کے نام وہ رجسٹری شدہ اشتہار نہ بھیجے گئے ہوں۔ بلکہ یورپ اور امریکہ کے ممالک میں بھی یہ اشتہار ات بذریعہ رجسٹری بھیج کر حجت کو تمام کر دیا گیا۔‘‘

(ازالہ اوہام صفحہ 29 ایڈیشن 1984ء)

پھر آپؑ اپنے ایک خواب کا یوں ذکر فرماتے ہیں:۔
’’اور میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلّل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں۔ بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کے رنگ سفید تھے۔ سو مَیں نے اِس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ مَیں نہیں مگر میری تحریریں اِن لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کا شکار ہوجائیں گے۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 377)

پس حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے اس رؤیا کی صداقت عیاں ہے کہ آپ کے دو خلفاء حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گذشتہ 38 سالوں سےمسلسل لندن اور یورپ کے تمام ممالک میں پہنچ کر اس الہام کی صداقت ظاہر کر دی کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ نیز یہ کہ ان ممالک میں سفید پرندے خواہ وہ انگلینڈ کے ہوں یا ہالینڈ کے یا جرمنی کے یا ڈنمارک اور سوئٹزرلینڈ یا سپین کے سب خدا تعالیٰ کے فضل سے مذکورہ بالا کشف اور رؤیا اور خواب کی حقیقی تعبیر ہیں۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک

اور صرف یہی نہیں کہ آپ کے خلفاء نے یورپ کے ممالک میں پہنچ کر اس الہام کی صداقت پر مہر ثبت کر دی ہے بلکہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تحریرات بھی ان ممالک سے شائع کی جارہی ہیں۔ خصوصًا اسلام آباد یوکے میں جو پریس لگایا گیا ہے اس کے ذریعہ سے آپ کی تحریرات دنیا کے سب ممالک میں پہنچائی جارہی ہیں۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک

خلافت اولیٰ میںحضرت اقدس مسیح موعودؑ کی وفات 26 مئی 1908ء کو ہوئی اور آپ کی وصیت اور خدائی بشارت کے تحت آپ کے بعد خلافت کا بابرکت نظام جماعت میں 27 مئی 1908ءسے جاری ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے زمانہ میں اس ’’بنیاد‘‘ کے مطابق جو حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اس الہام ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کنارو ں تک پہنچاؤں گا‘‘ کے مطابق کام جاری فرمایا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے زمانے میں انہی بنیادوں پر مزید کام ہوا۔

اس الہام کا یہ مطلب نہیں تھا کہ باہر کی دنیا میں ہی یہ پیغام جائے گا بلکہ اس کے اولین مخاطب خود ہندوستان کے لو گ تھے۔ چنانچہ اس ضمن میں جو کارہائے نمایاں حضرت خلیفۃ المسیح اول کے زمانہ میں ہوئے وہ بھی اسی الہام کے تحت ہیں۔

قرآن شریف کا انگریزی ترجمہ

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے لکھتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کی اغراض میں سے ایک غرض قرآنی علوم کی اشاعت تھی۔ اس لئے جماعت احمدیہ میں قرآن شریف کو سمجھنے اور پھر اس کے علوم کو دوسروں تک پہنچانے کی طرف خاص توجہ تھی اور حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے درس قرآن نے اس شوق کو اور بھی جلا دے دی تھی چنانچہ کئی احمدیوں نے قرآن شریف کی تفسیر لکھنے کی کوشش کی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اپنے رنگ میں اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق ان کو کامیاب کیا انہی کوششوں میں سے ایک کوشش مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کی تھی۔ مولانا موصوف سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک جید عالم ہیں اور حضرت مسیح موعود ؑ کے خاص صحابہ میں شامل ہیں انہوں نے صدر انجمن احمدیہ کے انتظام کے ماتحت حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ایک تفسیر اردو میں لکھنی شروع کی اور یہ کام حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے زمانہ میں بھی جاری رہا۔ یہ تفسیر بہت مفصّل تھی مگر افسوس ہے کہ قریباً آٹھ پاروں کی تفسیر شائع ہو جانے کے بعد صدر انجمن احمدیہ اس مفید کام کو جاری نہیں رکھ سکی۔

(سلسلہ احمدیہ حصہ اول صفحہ317 مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمدؓ)

جماعت احمدیہ کا پہلا بیرونی مشن

آپؓ مزید فرماتے ہیں:
’’حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کے عہد مبارک کی ایک یادگار یہ بھی ہے کہ آپ کے زمانہ میں جماعت کا پہلا بیرونی تبلیغی مشن قائم ہوا۔ اس وقت تک براہ راست تبلیغ صرف ہندوستان تک محدود تھی اور بیرونی ممالک میں صرف خط و کتابت یا رسالہ جات وغیرہ کے ذریعہ تبلیغ ہوتی تھی۔ لیکن حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں آکر جماعت کا پہلا بیرونی مشن قائم ہوا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ 1912ء کے نصف آخر میں خواجہ کمال الدین صاحب بی۔ اے ایل ایل بی کو ایک مسلمان رئیس نے اپنے ایک مقدمہ کے تعلق میں اپنی طرف سے اخراجات دے کر ولایت بھجوانے کا انتظام کیا چنانچہ خواجہ صاحب موصوف 7؍ ستمبر1912ء کو انگلستان روانہ ہو گئے اور چونکہ ہر احمدی کو تبلیغ کا خیال غالب رہتا ہے خواجہ صاحب نے بھی اس سفر میں تبلیغ کی نیت رکھی اور ولایت کے قیام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں بعض تبلیغی لیکچر دئیے اور پھر آہستہ آہستہ وہیں ٹھہر کر اسی کام میں مصروف ہو گئے۔کچھ عرصہ کے بعد خواجہ صاحب نے حضرت خلیفہ اوّل کی خدمت میں لکھا کہ مجھے کوئی نائب بھجوایا جائے۔ حضرت خلیفہ اوّل نے چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے کو تجویز فرمایا اور چونکہ چوہدری صاحب انجمن انصار اللہ کے ممبر تھے جو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے اس زمانہ میں تبلیغی اغراض کے ماتحت قائم کر رکھی تھی اور انصار اللہ کو پہلے سے بیرون ہند کی ایک تبلیغی سکیم مدنظر تھی اس لئے چوہدری صاحب کا خرچ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے انجمن انصار اللہ کی طرف سے برداشت کیا اور کچھ اپنے پاس سے اور اپنے دوستوں کی طرف سے ڈالا اور چوہدری صاحب موصوف 28؍جون 1913ء کو تبلیغ کی غرض سے ولایت روانہ ہو گئے۔

(الفضل مورخہ 2؍جولائی 1913ء)

اس طرح گویا چوہدری فتح محمد صاحب وہ پہلے احمدی مبلغ تھے جو احمدیوں کی طرف سے بیرون ہند میں خالص تبلیغ کی غرض سے بھیجے گئے۔ چوہدری صاحب نے کچھ عرصہ تک خواجہ صاحب کی معیت میں کام کیا اور اس عرصہ میں خواجہ صاحب موصوف نے بعض ذی اثر غیر احمدیوں کی امداد سے مسجد ووکنگ کی امامت کا بھی حق حاصل کر لیا مگر چونکہ خواجہ صاحب اور چوہدری صاحب کے خیالات اور طریق تبلیغ میں بہت فرق تھا اس لئے حضرت خلیفہ اوّل کی وفات پر یہ اتحاد قائم نہ رہ سکا اور چوہدری صاحب جلد ہی خواجہ صاحب سے الگ ہو کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی ہدایات کے ماتحت مستقل حیثیت میں کام کرنے لگے اور ووکنگ کو چھوڑ کر اپنا مرکز لندن میں قائم کر لیا‘‘

(سلسلہ احمدیہ جلد اول صفحہ 319تا 321)

خلافت ثانیہ میں اس الہام کا
ایک دوسرے الہام کے ساتھ تعلق

اب خاکسار حضرت مسیح موعودؑ کے الہام میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا کی تفصیلی تشریح اور اس کے پورا ہونے کے لئے حضور کے ہی ایک اور الہام کے ساتھ ملا کر اس کی مزید تفصیل اور توضیح حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں کرنا چاہتا ہوں۔

حضرت مسیح موعودؑ نے 20 فروری 1886ء کو جو ’’پیشگوئی مصلح موعود‘‘ بیان فرمائی تھی اس کے الفاظ میں یہ بھی الہامی الفاظ ہیں کہ ’’اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی‘‘۔

(تذکرہ صفحہ 111)

یہ پیشگوئی اپنی پوری شان کے ساتھ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے وجود میں پوری ہوئی۔

حضرت مصلح موعودؓ نے جب 1944ء میں اپنے ’’مصلح موعود‘‘ ہونے کا اعلان فرمایا تو اس سے قبل آپؓ نے جماعت کے نام ایک پیغام دیا جس میں دیگر امور کے علاوہ یہ بھی آپؓ نے لکھا کہ:۔ ’’حضرت مسیح موعودؑ نے ایک رحمت کے نشان کی خبر دی تھی۔ جس کے ذریعہ حضرت مسیح موعودؑ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اسی جگہ آج یہ اعلان کیا جائے گا کہ وہ پیشگوئی نہایت شان کے ساتھ پوری ہوگئی ہے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 579 ایڈیشن 2007ء قادیان)

حضرت مصلح موعودؓ نے اس غرض کے لئے پہلا جلسہ ہوشیار پور میں کیا جو 20 فروری 1944ء کو ہوا۔ جلسہ گاہ میں یہ الہامی فقرے موٹے حروف میں لکھ کر نمایاں جگہ پر آویزاں کئے گئے تھے۔

’’خدا تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا‘‘

’’وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی‘‘

(تاریخ احمدیت جلد8 صفحہ583 ایڈیشن 2007ء)

حضرت مصلح موعودؓ نے شرح و بسط کے ساتھ پیشگوئی مصلح موعود پر روشنی ڈالی اور اس میں یہ بھی فرمایا کہ ’’میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میں نے کشفی حالت میں کہا اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَخَلِیْفَتُہٗ…… پس میں خدا کے حکم کے ماتحت قسم کھا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق آپ کا وہ موعود بیٹا قرار دیا ہے جس نے زمین کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام پہنچانا ہے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد8 صفحہ585-586)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کی اس پہلی پُرمعارف تقریر کے بعد مبلغین سلسلہ کی بھی باری باری مختصر تقریریں ہوئیں (حاشیہ: یہ تقریریں ’’الفضل‘‘ 25تبلیغ /فروری تا 2 امان /مارچ 1322 ہش/ 1944ء میں چھپ گئی تھیں) جن میں اس امر پر روشنی ڈالی گئی کہ 20 فروری 1886ء کی پیشگوئی میں جو یہ بشارت دی گئی تھی کہ ’’خدا تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا‘‘۔ سیدنا امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کے ذریعہ وہ بڑی شان و عظمت کے ساتھ پوری ہوچکی ہے۔

اس تقریب پر جن اصحاب نے تقریریں کیں ان کے نام یہ ہیں:

  1. حضرت چودھری فتح محمد صاحبؓ سیال ایم۔ اے (انگلستان)
  2. حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ ایم۔ اے (جرمنی)
  3. جناب محمد ابراہیم صاحب ناصر بی۔ اے۔ بی۔ ٹی (ہنگری)
  4. حضرت مولوی محمد دین صاحب (شمالی امریکہ)
  5. مولوی عبدالرحمٰن صاحب انور (انچارج تحریک جدید)(برائے مولوی رمضان علی صاحب ارجنٹائن جنوبی امریکہ، ملک عزیز احمد صاحب سروبایا، سید شاہ محمد صاحب جاوا،مولوی غلام حسین صاحب ایاز۔ملایا)
  6. حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیرؓ (سیرالیون گولڈ کوسٹ۔ نائیجیریا)
  7. مولوی محمد سلیم صاحب مولوی فاضل (مصر)
  8. حضرت مولوی عبدالمغنی صاحبؓ (برائے شیخ مبارک احمد صاحب مولوی فاضل مشرقی افریقہ، مولوی رحمت علی صاحب، مولوی محمد صادق صاحب، مولوی عبدالواحد صاحب مبلغین جاوا سماٹرا)
  9. حضرت صوفی حافظ غلام محمد صاحبؓ بی۔ اے (ماریشس)
  10. مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری(فلسطین)
  11. حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ (شام)
  12. مولوی ظہور حسین صاحب (روس)
  13. حکیم مولوی عبدالطیف صاحب (برائے محمد رفیق صاحب مرحوم مجاہد تحریک جدید کاشغر)
  14. حضرت بابو فقیر علی صاحبؓ (برائے حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحبؓ شہید۔ایران)
  15. جناب عبدالاحد خاں صاحب افغان (کابل)
  16. جناب محمد زہدی صاحب (سٹریٹ سٹلمنٹ)
  17. مولوی عبدالواحد صاحب (چین)
  18. صوفی عبدالقدیر صاحب (جاپان)

ان تقریروں کے دوران جب کسی ملک میں تبلیغ اسلام اور اشاعت احمدیت کے واقعات بیان کئے جاتے تو ساتھ ہی اس ملک کا نام بھی جلی حروف میں احباب کے سامنے لٹکا دیا جاتا۔

حضرت سیدنا المصلح الموعود ؓ کی تقریر کا تتمہ

ان تقریروں کے بعد حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے آخری خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اس وقت مختلف ممالک کے مبلغین نے آپ لوگوں کو بتایا ہے کہ کس طرح دنیا کے کناروں تک میرے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کا نام پہنچایا۔ مغرب کے انتہائی کناروں یعنی شمالی امریکہ وغیرہ سے لے کر مشرق کے انتہائی کناروں یعنی چین اور جاپان وغیرہ تک اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کا نام اور اس کی تعلیم پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی۔ اسی طرح ایشیاء اور یورپ کے مختلف علاقوں میں اللہ تعالیٰ نے میرے بھیجے ہوئے مبلغین کے ذریعہ لوگوں کو اسلام اور احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ اور ساتھ ہی آپ کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ میرا ایک لڑکا ہوگا جو زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا جس کے معنے یہ تھے کہ وہ پہلی پیشگوئی جو زمین کے کناروں تک تبلیغ پہنچنے کے ساتھ تعلق رکھتی ہے وہ میرے اس لڑکے کے ذریعہ پوری ہوگی جس نے زمین کے کناروں تک شہرت حاصل کرنی ہے …… اور پھر وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے میرے مبلغوں کے ذریعہ جاپان سے لے کر شمالی امریکہ تک تمام دنیا میں اس سلسلہ کو پھیلانا شروع کردیا بلکہ ہر ملک کے افراد کو اس میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ ان میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتے تھے مگر اب وہ آپؐ پر درود اور سلام بھیجتے ہیں اور صبح شام آپ ﷺ کے مدارج کی بلندی کے لئے دعائیں کرتے ہیں ہزاروں ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کے نام تک سے ناآشنا تھے مگر خدا تعالیٰ میرے ذریعہ سے ان لوگوں کو اپنے آستانہ پر لے آیا۔ صرف خدا کا ہی ہاتھ تھا جس نے تمام روکوں کو دور کیا اور صرف خدا کا ہی ہاتھ تھا جس نے اپنے کلام کو پورا کرنے کے لئے زمین کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کا نام میرے ذریعہ سے پہنچا۔ پس یہ پیشگوئی جس مقام سے کی گئی تھی اسی مقام کے سامنے کھڑے ہوکر یہ اعلان آپ لوگوں کے سامنے کر دیا گیا ہے تاکہ آپ لوگ گواہ رہیں کہ خدا کی یہ پیشگوئی پوری ہوگئی‘‘۔

(تاریخ احمدیت جلد8 صفحہ586تا 588)

جلسہ لاہور

جلسہ ہوشیار پور کے بعد 12 مارچ 1944ء کو لاہور میں پیشگوئی مصلح موعود سے متعلق دوسرا جلسہ منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود کی پہلی تقریر کے بعدمبلغین سلسلہ نے اختصار کے ساتھ وہ تبلیغی کارنامے پیش کئے جو المصلح الموعود کے زمانہ میں حضورؓ کی زیر ہدایت انہوں نے انجام دیئے اور جن کی وجہ سے نہ صرف المصلح الموعودنے زمین کے کناروں تک شہرت پائی بلکہ حضرت مسیح موعودؑ کا نام بھی دنیا کے کناروں تک پہنچا۔ چنانچہ انگلستان کے متعلق حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے ناظر اعلیٰ نے، سپین، اٹلی، ہنگری، البانیہ، یوگوسلاویہ، پولینڈ، زیکوسلویکیہ اور جنوبی امریکہ کے متعلق مولوی عبدالرحمٰن صاحب انچارج تحریک جدید نے، جرمنی کے متعلق ملک غلام فرید صاحب ایم نے،شمالی امریکہ کے متعلق حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے، البانیہ کے متعلق جناب مولوی محمد دین صاحب (شہید) کی بجائے جناب ملک عبدالرحمٰن صاحب خادم نے، سیرالیون، گولڈ کوسٹ، نائیجیریا کے متعلق حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیرؓ نے، مصر کے متعلق مولوی محمد سلیم صاحب نے، کینیا کالونی، یوگنڈا اور ٹنگا نیکا کے متعلق حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب ؓ ناظر دعوۃ و تبلیغ نے، سیلون اور ماریشس کے متعلق حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب ؓنیر نے، فلسطین کے متعلق مولوی ابوالعطاء صاحب نے، شام کے متعلق حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ؓ نے،روس کے متعلق مولوی ظہور حسین صاحب بخارا و روس نے مختصر تقاریر کیں۔

آخر میں حضرت مصلح موعودؓ دوبارہ کھڑے ہوئے اور آپ نے بڑے جلال کے ساتھ فرمایا: ’’میں ہی پیشگوئی مصلح موعود کا مصداق ہوں اور میں ہی وہ مصلح موعود ؓ ہوں جس کے ذریعہ اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا۔ اور توحید دنیا میں قائم ہوگی۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 595-596 مطبوعہ 2007ء)

حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کی شہادت

خاکسار نے بتایا ہے کہ اس الہام کی صداقت کے لئے جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا تو جلسہ ہوشیار پور اور جلسہ لاہور کے بعد جلسہ لدھیانہ میں بھی ہوا۔ اس موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تقریر کے بعد آنریبل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بھی برعایت وقت تقریر فرمائی اور اس الہام ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ کے بارے میں اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کا ذکر فرمایا۔ قارئین کے استفادہ کے لئے یہ حصہ بھی درج کیا جاتا ہے۔ آپ نے اپنی تقریر میں فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے یہ توفیق بخشی اور اس کے لئے مواقع بہم پہنچائے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام پہنچا ہوا اور آپ کی تعلیم کو (کہ وہ حقیقی اسلام ہے اور اسی کو پھیلانے کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا تھا) پھیلے ہوئے دیکھا۔ چین کے مغربی علاقہ میں جہاں آج کل چینیوں کی حکومت ہے،احمدیت کی اشاعت کو دیکھنے کا مجھے اتفاق ہوا۔ گو خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں احمدیت پھیلانے والا میں ہی تھا۔ وہاں ایک واقعہ پیش آیا۔ جب مجھے پہلی دفعہ اسلام پر تقریر کرنے کا موقعہ ملا تو ایک صاحب جو ہمارے ہی عملہ میں سے تھے اور احمدیت کے سخت مخالف تھے انہوں نے کہا کہ اگر اسلام یہ ہے اور یہی احمدیت ہے تو میں احمدیت میں داخل ہوتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے احمدیت قبول کرلی۔

دوسرا ملک جہاں میں اپنے احمدی دوستوں سے ملا وہ عراق ہے۔ وہاں مجھے احمدی مبلغین کا کام دیکھنے کا موقع تو نہیں ملا مگر وہاں کے احمدی دوستوں سے ملا اور حالات سنے۔ پھر مصر میں قاہرہ کے مقام پر دو دفعہ مصری اور شامی احمدی دوستوں سے ملا۔ اپنے احساسات پیش کئے اور ان سے حالات سنے۔

مغربی افریقہ کے ملک نائیجیریا میں دوبار گیا۔ وہاں کے احمدی مبلغ سے حالات سنے۔ مشورہ بھی دیا۔ دوسری دفعہ جب میں گیا تو وہاں کے مرکزی شہر لیگوس میں مسجد احمدیہ کی تعمیر کے لئے سنگ بنیاد رکھنے کا شرف مجھے دیا گیا۔ گولڈ کوسٹ میں احمدی مبلغ سے ملنے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا۔ میں گورنر کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا اور ہمارے مبلغ علاقہ میں تھے۔ البتہ ٹیلیفون پر ان سے گفتگو کی اور اس میں تبلیغ احمدیت کا ذکر آیا۔ جنوبی امریکہ میں برازیل اور گی آنا میں جہاں مَیں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود بھیجنے والے لوگ دیکھے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود بھیجنے والے بھی موجود تھے۔

1933ء اور پھر 1942ء میں مجھے شمالی امریکہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ شکاگو میں میں نے احمدی مبلغ کا کام بھی دیکھا۔ خود بھی تقریریں کیں۔ شکاگو اور دوسرے مقامات پر وہاں کے احمدی دوستوں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ شکاگو میں احمدیہ مسجد ہے۔ وہاں امریکنوں کو تبلیغ بھی کی۔

انگلستان میں کئی بار خدا تعالیٰ نے احمدیت کی اشاعت کے دیکھنے کا موقعہ دیا۔ وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کا کامیاب مشن ہے۔ مشن ہاؤس ہے۔ مسجد ہے۔ مجھے بھی جب میں وہاں جاتا ہوں کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ پولینڈ میں1937ء میں احمدی مبلغ سے ملاقات کی۔ وہاں کے حالات کا مشاہدہ کیا اور تقریر کی۔ ہنگری کے بوڈاپَسٹ شہر میں اور اٹلی میں بھی اپنے مبلغوں سے ملنے اور جن لوگوں کو وہ اپنے ساتھ لائے ان کو تبلیغ کرنے کا موقع ملا۔

اس لحاظ سے میں کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے چاروں براعظموں میں مَیں نے اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام اور آپ کی تعلیم کو پھیلتے ہوئے دیکھا اور ان ممالک کے لوگوں کو اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے پایا۔ جس کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ الحمدللّٰہ علی ذالک

(الفضل 28 مارچ 1944ء)

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد8 صفحہ605-606)

حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی یہ شہادت کہ آپ نے 1944ء تک دنیا کے 4 براعظموں میں حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا یہ نشان دیکھ لیا کہ آپ کی تعلیم پر لوگوں کو عمل کرتے دیکھا۔ اورآپ کے نام اور پیغام کو ان چاروں براعظموں سے پھیلتے دیکھا ایک عظیم الشان گواہی ہے۔

1944ء کے بعد میں اب ان واقعات کا ذکر کرتا ہوں جب جماعت احمدیہ نے اپنی صدسالہ جوبلی منائی۔ اس وقت تک کے اعداد و شمار بھی آپ کی خدمت میں رکھنا چاہوں گا۔ اور یہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے زمانہ خلافت کی بات ہے اور آخر میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے زرّیں عہد میں جو فتوحات، ترقیات اور ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ جو آسمانی نظارہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس کی کچھ تفصیلات عرض ہوں گی۔ لیکن اس سے قبل ایک بڑی دلچسپ بات جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے ایک خطاب میں بیان فرمائی ہے۔ عرض کرنے لگا ہوں۔

ایک دلچسپ حقیقت

یہ تو الٰہی سلسلہ کے مقدرمیں ہے کہ کامیابی بالآخر ان کے قدم چومتی ہے۔ لیکن کامیابی یوں ہی نہیں مل جایا کرتی۔ اس کے لئے جگر کا خون بہانا پڑتا ہے۔ ہر قسم کی تکالیف اور مصائب اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو یہ الہام ہوا کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ اس وقت جماعت کی کیا حالت تھی گنتی کے چند لوگ تھے۔ اور بس جو لوگ حضرت مسیح موعودؑ کو ملنے قادیان آتے۔ بٹالہ کے سٹیشن پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو آپ کے اشدّ ترین مخالف تھے وہ قادیان آنے والوں کو روکتے تھے۔ یہی واقعہ حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں:
’’ہمارے ہاں ایک ملازم ہوا کرتا تھا پیرا اُس کا نام تھا وہ بالکل اَنْ پڑھ اور جاہل تھا۔ نمازتک اُسے یاد نہیں ہوتی تھی بیسیوں دفعہ اَسے یاد کرائی گئی مگر دہ ہمیشہ بھول جاتا۔ اُسے کبھی تاریں دے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بٹالہ بھجوادیا کرتے تھے یا کوئی بلٹی آتی تو اُسے چھڑوانے کے لئے اُسے بٹالہ بھجوا دیا جاتا۔ایک دفعہ اِسی طرح وہ کسی کام کے سلسلہ میں بٹالہ گیا ہوا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب اُسے مل گئے۔ مولوی صاحب کی عادت تھی کہ وہ اسٹیشن پر جاتے اور لوگوں کو قادیان جانے سے روکا کرتے ایک دن انہیں اور کوئی آدمی نہ ملا تو پیرے کو ہی انہوں نے پکڑ لیا اور کہنے لگے۔ پیرے تم مرزا صاحب کے پاس کیوں رہتے ہو وہ تو کافر اور بے دین ہیں۔ وہ کہنے لگا مولوی صاحب میں تو پڑھا لکھا آدمی نہیں نماز تک مجھے نہیں آتی کئی دفعہ لوگوں نے مجھے سکھائی ہے مگر مجھے یاد نہیں ہوتی پس مجھے مسائل تو آتے ہی نہیں لیکن ایک بات ضرور ہے جو میں نے دیکھی ہے۔مولوی صاحب کہنے لگے وہ کیا؟ پیرے نے کہا میں ہمیشہ تاریں دینے یا بلٹیاں لینے کے لئے بٹالے آتا رہتا ہوں اور جب بھی یہاں آتا ہوں آپ کو یہاں پھرتے اور لوگوں کو ورغلاتے دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص قادیان نہ جائے۔مولوی صاحب! اب تک آپ کی اس کوشش میں شائد کئی جوتیاں بھی گھس گئی ہوں گی مگر کوئی شخص آپ کی بات نہیں سنتا۔ دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ مرزا صاحب اپنے حجرے میں بیٹھے رہتے ہیں اور پھر بھی ساری دنیا اُن کی طرف کھنچی چلی جاتی ہے۔ آخر اُن کے پاس کوئی سچائی ہے تبھی تو ایسا ہو رہا ہے ورنہ لوگ آپ کی بات کیوں نہ سنتے۔‘‘

(انوار العلوم جلد17 صفحہ211-212)

دراصل یہ وہی صداقت ہے جس کا ذکر اس الہام میں ہے کہ ’’میں‘‘ گویا خود خدا تعالیٰ یہ کام کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت شامل ہوگی اور کسی کی کوئی مخالفت اس پیغام کو دنیا تک پہنچانے میں رکاوٹ نہ بنے گی۔ ان شاء اللّٰہ

سو سال میں دنیا کے کناروں تک

آئیے! اب ہم دیکھتے ہیں کہ جب جماعت کی ابتدائی حالت تھی اس وقت کس طرح یہ پیغام پہنچا اور آج سو سال گذرنے پر خدا تعالیٰ نے کس طرح جماعت کو ترقیات پر ترقیات عنایت فرمائی ہیں۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ واقعةً خداتعالیٰ کا غیبی ہاتھ ہے جس نے یہ پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچایا۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک

جماعت احمدیہ کے قیام پر ایک صدی گذر چکی ہے اس عرصہ میں جماعت نے محض اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے انتہائی نامساعد حالات اور ہر قسم کی مخالفت کے باوجود دنیا کے ہر خطے میں حیران کن ترقی کی ہے۔ جس کی ایک جھلک پیش ہے۔

اس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ایک سو بیس ممالک میں قائم ہوچکی ہے۔

دنیا کے 45 ممالک میں جماعت کے مرکزی واقفین زندگی مبلغین کام کر رہے ہیں۔

وہ ممالک جن میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ قائم ہے۔ ان ممالک میں سے کچھ ممالک کے نام یہ ہیں:۔

برِّاعظم افریقہ

غانا، نائیجیریا، سیرالیون، گیمبیا، آئیوری کوسٹ، لائبیریا، بینن، کینیا، تنزانیہ، یوگنڈا، زیمبیا، زمبابوے، زائر، ماریشس، ساؤتھ افریقہ، سینگال، بورکینا فاسو، ملاوی، کموروز، مالی، گِنی بساؤ، موریطانیہ، ٹوگولنڈ، روانڈا، برونڈی، انگولا، تیونس، نائیجر، گنی، مڈغاسکر، صومالیہ، کیمرون، مراکش، الجزائر،سوڈانم ایتھوپیا، کانگو، موزمبیق، گیبون،

برِّاعظم امریکہ

امریکہ، کینیڈا، گیانا، ٹرینیڈارڈ، سرینام، برازیل، ڈومینیکن آف ریپبلک، گوئٹے مالا، ارجنٹائن۔

یورپ

بلجیئم، ڈنمارک، فرانس، مغربی جرمنی، ہالینڈ، ناروے، سوئٹزرلینڈ، سویڈن،سپین، برطانیہ، آئرلینڈ، یوگوسلاویہ، آسٹریا، پولینڈ، پرتگال، یونان، اٹلی، روس، فن لینڈ، لکسمبرگ۔

ایشیاء

پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا، بھارت، بنگلہ دیش، باپوانیوگنی، سنگاپور، تھائی لینڈ، جاپان، برما، سری لنکا، نیپال، بھوٹان، فلپائن، ایران، ترکی، افغانستان، چین، جنوبی کوریا، مالدیپ، برونائی، ہانگ کانگ، اور مشرق وسطیٰ کے ممالک۔

جزائر بحر الکاہل بشمول برّاعظم آسٹریلیا

آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فجی، ویسٹ سمووا، طوالو، ٹونگا، کیری باس، نورو، سالمن جزائر، وانوتلی۔

  • بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان کے علاوہ دنیا میں کل 1864 مقامات پر جماعت احمدیہ قائم ہوچکی ہے۔
  • بیرون پاکستان کل مشن ہاؤسز کی تعداد 301 ہے۔
  • بیرون پاکستان جماعت احمدیہ کی بیوت الذکر کی تعداد 1245 ہے۔

نوٹ:۔اس تعداد میں پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش کے مشن ہاؤسز اور بیوت الذکر شامل نہیں جن کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔

  • برّاعظم افریقہ کے مختلف ممالک میں جماعت احمدیہ کے 28 ہسپتال خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
  • برّاعظم افریقہ میں 40 سیکنڈری سکول خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
  • دنیا کے مختلف ممالک میں 205 پرائمری سکول خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
  • جماعت احمدیہ نے خدا تعالیٰ کے فضل سے صد سالہ جوبلی کے موقع پر دنیا کی پچاس مختلف زبانوں میں سارے قرآن کریم کا ترجمہ شائع کرنے کی سعادت پائی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

کچھ کے نام یہ ہیں:۔
انگریزی، سواحیلی، فرانسیسی، اسپرانٹو، جرمن، اٹالین،لوگنڈا، فجین، ڈچ، ہندی، گورمکھی، رشین، یوروبا، سپینش، ڈینش، سویڈش، انڈونیشین،کورین۔

1989ء میں جماعت احمدیہ کے صد سالہ جشن تشکر کی مبارک تقریب کی مناسبت سے عالمی سطح پر جو پروگرام ترتیب دیا گیا تھا اس کا ایک اہم اور قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ جماعت احمدیہ اس موقع پر خدا تعالیٰ کے حضور سپاس گذاری اور اپنے جذبات تشکر کے اظہار کے طور پر ایک سو سے زائد زبانوں میں قرآن کریم کی منتخب آیات، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی منتخب احادیث اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تحریرات کے منتخب اقتباسات کے تراجم شائع کرنے کی سعادت پائی۔

منتخب آیات، احادیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباسات کے تراجم ایک سو سے زائد زبانوں میں شائع ہوئے جن میں سے صرف چند ایک کے نام یہ ہیں:۔
سموین (سمویا)، بالی (انڈونیشیا)، کانا ڈا (انڈیا)، اشانٹی (غانا)، ایوی (غانا)، والی (غانا)، ٹونگا (ٹونگا جزائرز)، کیریباسی (کیریباسی جزائر)، بٹکی (انڈونیشیا)، جاوانیز (انڈونیشیا)، کیکنبا (کینیا)، وولف (گیمبیا)، ایبو (نائیجیریا)، ٹمنی (سیرالیون)، ہنگرین (ہنگری)، رومانین (رومانیہ)، اکرانین (روس)، لوٹین (روس)، جارجین (روس)، ماؤری (نیوزی لینڈ)، ماڈنگو (گیمبیا)، آئ رش (آئرلینڈ)، وائی (لائیبیریا)، کریول (ماریشس)، چیلویا (زائر)، کزخ (روس)، منگولین (روس)، آرمینین (روس)، سربوکروٹیشین (یوگوسلاویہ)۔

جماعت احمدیہ کی وسعت اور اشاعت اسلام و قرآن کریم کے اس جائزہ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے آج سے تقریباً سو سال قبل بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوٰة والسلام کو جو خبر دی تھی وہ پوری ہوچکی ہے۔ اور یہ جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کناروں تک پہنچ چکی ہے۔ اور اشاعت قرآن کریم اور اشاعت اسلام کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی مساعی بے نظیر اور بے مثال ہیں اور حضرت بانیٔ سلسلہ کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور آج دنیا یہ نظارہ دیکھ رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کی مختلف قومیں ایک مذہب یعنی اسلام کے تابع ہوتی جارہی ہیں اور ایک ہی پیشوا یعنی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنا پیشوا تسلیم کر رہی ہیں۔

(باقی کل ان شاءاللّٰہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ