• 19 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب ’’اَلْھُدیٰ‘‘ میں بادشاہوں اور مختلف طبقوں کو مخاطب کر کے توجہ دلائی ہے …

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
اپنے علماء کا حال دیکھ کر اُنہیں نظر آ رہا ہوتا ہے کہ یہ لوگ جو ہیں یہ قول و فعل کا تضاد رکھتے ہیں۔ اُن کی علمی حالت ایسی نہیں کہ غیر مذاہب کے اعتراضات کا جواب دے سکیں بلکہ دفاع تو ایک طرف رہا بعض دفعہ مداہنت دکھا جاتے ہیں یا کہہ دیتے ہیں کہ اِن لوگوں سے بحث کی ضرورت نہیں اور یہ غیر اسلامی بات ہے۔ خاص طور پر عرب ممالک میں رہنے والے جو ہیں وہ تو اب اکثر جان گئے ہیں۔ جن لوگوں کا ایم۔ ٹی۔ اے سے رابطہ ہو گیا ہے، تعلق جُڑ گیا ہے چاہے اُنہوں نے احمدیت قبول کی ہے یا نہیں کی، عیسائی پادریوں کے اعتراضات کے جوابات جس طرح ٹھوس طور پر لاجواب کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کے علماء دیتے ہیں اُن کے علاوہ اور کوئی اُن کودینے والا نظر ہی نہیں آتا۔ اُن کے علماء تو اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے۔ کئی خطوط آتے ہیں کہ ہم اسلام پر اعتراضات سُن سُن کر بے چین ہوتے تھے اور دعائیں مانگتے تھے کہ خدا تعالیٰ ہماری اس بے چینی کو دور کرے اور ہمیں اسلام کی شان و شوکت دکھائے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کرتے ہوئے ہمیں ایک دن اتفاق سے ایم۔ ٹی۔ اے دکھا دیا اور احمدی علماء نے جس طرح اسلام پر اعتراض کرنے والوں کے مدلّل جواب دئیے ہیں اور اُنہیں جواب دے کر چُپ کرایا ہے ہمارے بھی سر فخر سے اونچے ہو گئے ہیں اور ہمیں بھی سکون کا سانس آیا ہے۔

بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا کسی وقت ان واقعات اور احساسات کا بھی ذکر کروں گا جو لوگوں کے آتے ہیں۔ اس وقت جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب ’’اَلْھُدیٰ‘‘ میں جو بادشاہوں اور مختلف طبقوں کو مخاطب کر کے توجہ دلائی ہے یا اُن کا حال پیش فرمایا ہے اُس میں سے کچھ حصے پیش کرتا ہوں۔ اُس زمانے میں مسلمانوں کی کیا حالت تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’مسلمانوں میں بگاڑ پیدا ہو گیا ہے اور نیک لوگ سرخ گندھک کی مانند ہو گئے ہیں (نیکی بالکل نایاب ہو گئی ہے)۔ ان میں نہ تو اخلاقِ اسلام رہے ہیں اور نہ بزرگوں کی سی ہمدردی رہ گئی ہے۔ کسی سے بُرا آنے سے باز نہیں آتے خواہ کوئی پیارا یار کیوں نہ ہو۔ لوگوں کو کھولتا ہوا پانی پلاتے ہیں (یعنی تکلیفیں ہی دیتے چلے جاتے ہیں) خواہ کوئی خالص دوست ہی ہو۔ اور دسواں حصہ بھی بدلہ میں نہیں دیتے خواہ بھائی ہو یا باپ یا کوئی اور رشتہ دار ہو اور کسی دوست اور حقیقی بھائی سے بھی سچی محبت نہیں کرتے اور ہمدردوں کی بڑی بھاری ہمدردی کو بھی حقیر سمجھتے ہیں۔ اور محسنوں سے نیکی نہیں کرتے اور لوگوں پر مہربانی نہیں کرتے خواہ کیسے ہی جان پہچان کے آدمی ہوں۔ اور اپنے رفیقوں کو بھی اپنی چیزیں دینے سے بخل کرتے ہیں بلکہ اگر تم (اپنی نظر دوڑاؤ) دوڑاؤ اپنی آنکھ کو ان میں اور بار بار ان کے منہ کو دیکھو۔ (یعنی اپنی نظر دوڑاؤ اور ان کو دیکھو) تو تم اس قوم کی ہر جماعت کو پاؤ گے فسق اور بددیانتی اور بے حیائی کا لباس پہنا ہوا ہے۔ اور ہم اس جگہ تھوڑا سا حال اپنے زمانے کے بادشاہوں اور دوسرے لوگوں کا لکھتے ہیں جو ہوا پرست لوگ ہیں …‘‘۔

پھر آگے بادشاہوں کے حالات میں فرماتے ہیں:۔ یہ عربی میں ہے ساتھ ساتھ اُس کا ترجمہ بھی آپ نے فرمایا کہ: ’’خدا تیرے پر رحم کرے کہ اکثر بادشاہ اس زمانہ کے اور امراء اس زمانہ کے جو بزرگانِ دین اور حامیانِ شرع متین سمجھے جاتے ہیں وہ سب کے سب اپنی ساری ہمت کے ساتھ زینتِ دنیا کی طرف جھک گئے ہیں۔ اور شراب اور باجے اور نفسانی خواہشوں کے سوا اُنہیں اور کوئی کام ہی نہیں۔ وہ فانی لذتوں کے حاصل کرنے کے لئے خزانے خرچ کر ڈالتے ہیں۔ اور وہ شرابیں پیتے ہیں نہروں کے کنارے اور بہتے پانیوں اور بلند درختوں اور پھلدار درختوں اور شگوفوں کے پاس اعلیٰ درجہ کے فرشوں پر بیٹھ کر اور کوئی خبر نہیں کہ رعیّت اور ملّت پر کیا بلائیں ٹوٹ رہی ہیں۔ اُنہیں امورِ سیاسی اور لوگوں کے مصالح کا کوئی علم نہیں۔ اور ضبطِ امور اور عقل اور قیاس سے انہیں کچھ بھی حصہ نہیں ملا…‘‘۔ فرمایا کہ ’’… اسی طرح حرمات ِاللہ کے نزدیک جاتے ہیں اور اُن سے بچتے نہیں‘‘۔ (جو باتیں اللہ تعالیٰ نے حرام کی ہوئی ہیں اُن کے نزدیک جاتے ہیں) ’’اور حکومت کے فرائض کو ادا نہیں کرتے اور متقی نہیں بنتے۔ یہی وجہ ہے کہ شکست پر شکست دیکھتے ہیں اور ہر روز تنزل اور کمی میں ہیں اس لئے کہ انہوں نے آسمان کے پروردگار کو ناراض کیا اور جو خدمت اُن کے سپرد ہوئی تھی اُس کا کوئی حق ادا نہیں کیا…‘‘۔ فرمایا ’’… وہ زمین کی طرف جھک گئے ہیں اور پوری تقویٰ سے انہیں کہاں حصہ ملا ہے۔ اس لئے ہر ایک سے جو اُن کی مخالفت کے لئے اُٹھ کھڑا ہو، شکست کھاتے ہیں اور باوجود کثرتِ لشکروں اور دولت اور شوکت کے بھاگ نکلتے ہیں۔ اور یہ سب اثر ہے اُس لعنت کا جو آسمان سے اُن پر برستی ہے۔ اس لئے کہ اُنہوں نے نفس کی خواہشوں کو خدا پر مقدم کر لیا اور ناچیز دنیا کی مصلحتوں کو اللہ پر اختیار کر لیا اور دنیا کی فانی لہو و لعب اور لذتوں میں سخت حریص ہو گئے اور ساتھ اس کے خود بینی اور گھمنڈ اور خودنمائی کے ناپاک عیب میں اسیر ہیں۔ دین میں سست اور ہار کھائے ہوئے اور گندی خواہشوں میں چست چالاک ہیں …‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’… اُنہوں نے خواہشوں سے اُنس پکڑ لیا اور اپنی رعیت اور دین کو فراموش کر دیا‘‘۔ (نہ عوام کا خیال ہے، نہ دین کا خیال ہے) ’’اور پوری خبر گیری نہیں کرتے۔ بیت المال کو باپ دادوں سے وراثت میں آیا ہوا مال سمجھتے ہیں اور رعایا پر اسے خرچ نہیں کرتے جیسے کہ پرہیز گاری کی شرط ہے۔ اور گمان کرتے ہیں کہ ان سے پرسش نہ ہو گی اور خدا کی طرف لوٹنا نہیں ہو گا۔ سو ان کی دولت کا وقت خواب پریشان کی طرح گزر جاتا ہے…‘‘۔ فرمایا ’’… اگر تم ان کے فعلوں پر اطلاع پاؤ تو تمہارے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور حیرت تم پر غالب آ جائے۔ سو غور کرو کیا یہ لوگ دین کو پختہ کرتے اور اس کے مددگار ہیں۔ کیا یہ لوگ گمراہوں کو راہ بتاتے اور اندھوں کا علاج کرتے ہیں‘‘۔

(الھدی والتبصرۃلمن یری۔ روحانی خزائن جلد18۔ صفحہ 284-280۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن)

یہ تو ان بادشاہوں کا حال ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ افریقن ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو ناکام کرنے کے لئے یہ اپنی طرف سے کوشش کرتے ہیں۔ گو اپنی دولت کا تو یہ شاید ہزارواں حصہ بھی خرچ نہیں کرتے۔ معمولی سی رقم دے کر (کیونکہ دولت ان کے پاس بے انتہا ہے، تیل کی دولت ہے۔) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کی مخالفت کے لئے اپنے مشنری بھیجے ہیں۔ پہلے ان کو خیال نہیں آیا لیکن اب اس کام کے لئے بھیج رہے ہیں۔ بہر حال پھر آگے آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’… انہیں شریعت کے احکام سے نسبت ہی کیا۔ بلکہ وہ تو چاہتے ہیں کہ اس کی قید سے نکل کر پوری بے قیدی سے زندگی بسر کریں۔ اور خلفائے صادقین کی سی قوت عزیمت ان میں کہاں اور صالح پرہیز گاروں کا سا دل کہاں جس کا شیوہ حق اور عدالت ہو۔ بلکہ آج خلافت کے تخت ان صفات سے خالی ہیں …‘‘۔ (لیکن کہتے ہیں کہ ہم میں خلافت قائم ہو گی۔ اُس کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں۔ علماء کی طرف سے کبھی کسی کا نام پیش کیا جاتا ہے کبھی کسی کا۔ فرمایا لیکن بہر حال ان کے دل ان صفات سے خالی ہیں اس لئے خلافت ان میں ہو نہیں سکتی۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’… دھیان نہیں کرتے کہ ملت کی ہوا ٹھہر گئی ہے اور اس کے چراغ بجھ گئے ہیں اور اس کے رسول کی تکذیب ہو رہی ہے اور اس کے صحیح کو غلط کہا جا رہا ہے بلکہ ان میں سے بہتیرے خدا کی منع کی ہوئی چیزوں پر اَڑ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور سخت دلیری سے خواہشوں کو محرمات کے بازاروں میں لے جاتے ہیں …‘‘۔ (یعنی کھلے عام ایسی بے حیائیاں کر رہے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہوا ہے۔) فرمایا کہ ’’… صبح اور شام ان کی خوش زندگی ہر طرح کی لذات میں بسر ہوتی ہے۔ سو ایسے لوگوں کو خدا سے کیونکر مدد ملے جبکہ ان کے ایسے پُر معصیت اور بُرے اعمال ہوں۔ بلکہ ان عیش پسند غافل بادشاہوں کا وجود مسلمانوں پر خدا تعالیٰ کا بڑا بھاری غضب ہے۔‘‘ (ان کا وجود ہی مسلمانوں کی سزا بھی ہے) ’’جو ناپاک کیڑوں کی طرح زمین سے لگ گئے ہیں اور خدا کے بندوں کے لئے پوری طاقت خرچ نہیں کرتے اور لنگڑے اونٹ کی طرح ہو گئے ہیں اور چست چالاک گھوڑے کی طرح نہیں دوڑتے۔ اسی سبب سے آسمان کی نصرت ان کا ساتھ نہیں دیتی اور نہ ہی کافروں کی آنکھ میں ان کا ڈر خوف رہا ہے جیسے کہ پرہیز گار بادشاہوں کی خاصیت ہے۔ بلکہ یہ کافروں سے یوں بھاگتے ہیں جیسے شیر سے گدھے۔ اور لڑائی کے میدان میں ان کے دو ہزار کے لئے دو کافر کافی ہیں …‘‘۔

فرمایا ’’… ایسی خیانت اور گمراہی کے ہوتے انہیں کیونکر خدا سے مدد ملے۔ اس لئے کہ خدا اپنی دائمی سنت کو تبدیل نہیں کرتا اور اس کی سنت ہے کہ کافر کو تو مدد دیتا ہے پر فاجر کو ہرگز نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ نصرانی بادشاہوں کو مدد مل رہی ہے اور وہ ان کی حدوں اور مملکتوں پر قابض ہو رہے ہیں اور ہر ایک ریاست کو دباتے چلے جاتے ہیں۔‘‘ (آج بھی دیکھ لیں ظاہری طور پر اگر نہیں بھی تو عملی طور پر غیروں کے ہاتھوں میں مسلمان بادشاہوں کی اور ملکوں کی لگامیں ہیں۔ اِن کی معیشت اُن کے ہاتھ میں ہے۔)

فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو اس لئے نصرت نہیں دی کہ وہ ان پر رحیم ہے‘‘ (یعنی غیروں کو جو مدد مل رہی ہے اور مسلمانوں کی جو بری حالت ہے، غیروں کی یہ مدد اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن پر بڑا مہربان ہے) ’’بلکہ اس لئے کہ اس کا غضب مسلمانوں پر بھڑکا ہوا ہے۔ کاش مسلمان جانتے۔‘‘

(الھدی والتبصرۃلمن یری۔ روحانی خزائن جلد18۔ صفحہ 284 تا287۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن)

یہ آپ کا درد ہے۔ اور آج یہ بات بڑی حقیقت ہے اور اخباروں میں جو حقیقت پسند کالم لکھنے والے ہیں، تبصرہ نگار ہیں، وہ بھی یہی لکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مَیں نے ’’دی نیشن‘‘ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک مضمون دیکھا جنہیں پاکستان کا سائنٹسٹ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بھی قرآنی آیات کی روشنی میں یہ سارا کچھ لکھا ہوا تھا کہ یہ یہ باتیں ہم کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا عذاب ہم پر نازل ہو رہا ہے۔ تو بہر حال یہ تو ان کی حالت ہے۔

(خطبہ جمعہ 15؍ اپریل 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 اپریل 2021