• 5 مئی, 2024

مجھے نہ کسی انسان نے، نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے (خلیفہ اول ؓ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں اس آیت کی کچھ وضاحت کرتا ہوں، آپؑ فرماتے ہیں :۔
’’اللہ تعالیٰ دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھا تا ہے، دوسرے ایسے وقت جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خداتعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتے ہیں خداتعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتاہے۔ جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشیں نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے تب خداتعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو کھڑا کرکے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا۔ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا (النور:۵۶)۔ یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے۔ ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچا ویں فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں ان کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا۔ جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسیٰ ؑ کی ناگہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے۔ ایسا ہی حضرت عیسیٰؑ کے ساتھ معاملہ ہوا اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہو گئے اور ایک ان میں سے مرتد بھی ہو گیا‘‘۔

فرمایا: ’’سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خداتعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تامخالفوں کی دوجھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلادے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے۔ اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے‘‘۔ اور یہ وعدہ بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اس لئے اس وقت تک ہے جو لوگ نیک اعمال بجا لاتے رہیں گے وہ ہی خلافت سے چمٹے رہیں گے۔ ’’اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خد اوعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں۔ اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔ سو تم خد اکی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو۔ اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا وے کہ تمہارا خدا ایسا قادر ہے۔ اپنی موت کو قریب سمجھو۔ تم نہیں جانتے کہ کسی وقت وہ گھڑی آ جائے گی‘‘۔

اور فرمایا کہ: ’’چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں‘‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کئی کھڑے ہو جائیں بیعت کرنے کے لئے بلکہ مختلف اوقات میں ایسے آتے رہیں گے۔ ’’خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خداتعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو۔ مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے اور جب تک کوئی خدا سے روح القدس پا کر کھڑا نہ ہو سب میرے بعدمل کر کام کرو‘‘۔

(رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۰۴ تا ۳۰۷)

چنانچہ دیکھ لیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد آپؑ نے ہمیں خوشخبریاں بھی دے دی تھیں کہ آپ ؑ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے ان شاء اللہ خلافت دائمی رہے گی اور دشمن دو خوشیاں کبھی نہیں دیکھ سکے گا کہ ایک تو وفات کی خبر اس کو پہنچے اور اس پر خوش ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر ایسے بھی تھے جنہوں نے خوشیاں منائیں اور پھر یہ کہ وہ جماعت کے ٹوٹنے کی خوشی وہ دیکھ سکیں گے، یہ کبھی نہیں ہو گا۔ دشمن نے بڑا شور مچایا، بڑا خوش تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ تھا کہ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا کا ہمیں نظارہ بھی دکھایا۔ اور بعض لوگوں کا خیال تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اب کافی عمر رسیدہ ہو چکے ہیں، طبیعت کمزور ہو چکی ہے اور شاید اس طرح خلافت کا کنٹرول نہ رہ سکے اور شاید وہ خلافت کا بوجھ نہ اٹھا سکیں اور انجمن کے بعض عمائدین کا خیال تھا کہ اب ہم اپنی من مانی کر سکیں گے۔ کیونکہ عمر کی وجہ سے بہت سارے معاملات ایسے ہیں جو اگر ہم حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی خدمت میں نہ بھی پیش کریں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا اور ان کو پتہ نہیں چلے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دشمن کی یہ تمام اندرونی اور بیرونی جو بھی تدبیریں تھیں ان کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور اندرونی فتنے کو بھی دبا دیا اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ہر موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ نے اس فتنہ کو دبایا اور کتنے زور اور شدت سے اس کو دبایا اور کس طرح دشمن کا منہ بند کیا۔

آپ ؓ فرماتے ہیں :
’’چونکہ خلافت کا انتخاب عقل انسانی کا کام نہیں، عقل نہیں تجویز کر سکتی کہ کس کے قویٰ قوی ہیں کس میں قوت انسانیہ کامل طور پر رکھی گئی ہے۔ اس لئے جناب الٰہی نے خود فیصلہ کر دیا ہے کہ وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْامِنْکُمْ وَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ خلیفہ بنانا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے وَعَدَہُُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْامِنْکُمْ وَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ ۲۵۵)

فرمایا کہ: ’’مجھے نہ کسی انسان نے، نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی رداء کو مجھ سے چھین لے‘‘۔

(الفرقان، خلافت نمبر۔ مئی جون ۱۹۶۷ء صفحہ۲۸)

(خطبہ جمعہ 14؍ مئی 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مئی 2021