ناداں! ناحق کیوں گھبراتا ہے
یہ رستہ منزل کو جاتا ہے
بات بنائے سے نہیں بنتی ہے
دل جب آتا ہے آ جاتا ہے
مت مایوس ہو اس کی رحمت سے
وہ داتا تو سب کا داتا ہے
عہد نے جو تصویر بنائی ہے
اس کا ہم دونوں سے ناتا ہے
ہم سب اس کی کوکھ سے نکلے ہیں
یہ دھرتی تو دھرتی ماتا ہے
تُو گھبراتا ہے آئینے سے
آئینہ تجھ سے گھبراتا ہے
سب لمحے زندہ ہو جاتے ہیں
وہ لمحہ جب ملنے آتا ہے
ہم اس عہد کے اندر رہتے ہیں
تُو جس کی تفصیل بتاتا ہے
وہ مالک ہے اپنی مرضی کا
جب چاہے چہرہ دکھلاتا ہے
غربت میں اس گل کے تصور سے
خوشبو سے کمرہ بھر جاتا ہے
مضطرؔ بھی کتنا خوش قسمت ہے
غصّہ پیتا ہے، غم کھاتا ہے
(چوہدری محمد علی مضطرؔ عارفی
اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011ءصفحہ359)