• 19 مئی, 2024

حضرت ملک عطاء اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت ملک عطاء اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام

اللہ تعالیٰ نے اخبار الفضل کو یہ سعادت عطا کی ہے کہ صحابہؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےحالاتِ زندگی کو ہمیشہ ہمیش کے لئے محفوظ کر دیاہےجن کو پڑھنے سے ایک عام آدمی صحابہ ؓ کی شخصیت کو آسانی سےسمجھ سکتا ہے۔ خاکسار آج جس صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکرِ خیر کرنا چاہتا ہے وہ حضرت ملک عطاء اللہ صاحب ؓ آف گجرات ہیں۔ آپؓ خاکسار کے پڑدادا جان تھے۔ آپؓ کے بارے میں جو روایات خاکسار نے سن کر اکٹھی کی ہیں وہ زیادہ تر آپؓ کی بیٹی مرحومہ امۃ الحیٌٔ صاحبہ نے بیان کی ہیں۔ خاکسار کو ان کے ساتھ کافی وقت گزارنے کا موقع ملا۔ میری دلچسپی لینے اور بار بار پوچھنے پر آپ نےاپنے اباّجی حضرت ملک عطاء اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت کے مختلف واقعات میرے ساتھ شیئر کیے۔ باقی کی روایات آپؓ کی اہلیہ مرحومہ امّ سلمیٰ صاحبہ اور آپ ؓکے بڑے بیٹے ملک بشارت ربّانی صاحب مرحوم نے میرے والدِ محترم ملک عابد ربّانی صاحب سے بیان کی ہیں۔

خاندانی پسِ منظر

حضرت ملک عطاء اللہ صاحبؓ کا تعلق ایک بہت پرانے ہندو خاندان سے تھاجن کا سلسلہ نسب ایک معروف ہندو دیوی سے جا ملتا ہے۔ آپؓ کے خاندان کی تاریخ ۷۰۰ سال پرانی ہے۔ پہلا مسلمان شخص جوجدِ امجد کہلایا ٹھاکر لکھشمن سنگھ تھا جو کہ اپنے وقت کا ایک بہت بڑا پنڈت اور مغل بادشاہ جہانگیر کا ایک درباری تھا۔ بادشاہ کے بار بار اصرارپر ٹھاکر لکھشمن سنگھ مسلمان ہو گیا۔ اسی خوشی میں بادشاہ نے اس کا نام فتح محمد رکھا اور سرینگر کے قریب شوپیاں کا علاقہ جس پر بادشاہ نے قبضہ کر رکھا تھا اس خوشی میں اس کو واپس کر دیا۔ جہانگیر سے لے کر مغلیہ دور کے زوال کے ساتھ ساتھ آپ کےخاندان کی طاقت بھی زوال پذیر ہوئی۔ ملک اعظم صاحب اس خاندان کے ایک بہادر اور دانش مند چشم و چراغ تھے۔ کشمیر کے مسلمان ڈوگرا راج سے مذہبی آزادی نہ ملنے کی وجہ سے بے حد تنگ تھے چنانچہ ملک اعظم صاحب نے مہاراجہ کشمیر کی حکومت کو ہٹانے کا ارادہ باندھا۔ مہاراجہ کشمیر نے خبر ملنے پر آپ کو گرفتار کرنے کے لئے فوج بھیجی۔ آپ کو وقت پر اطلاع مل گئی۔ چونکہ مقابلہ کی تیاری نا مکمل تھی اس لئے آپ نےجلدی وہاں سے نقل مکانی کی اور سرینگر جموں کے راستے سیالکوٹ اور پھر گجرات شہر پہنچے۔ گجرات میں چونکہ آپ کی جاگیر تھی اور رشتے دار آباد تھے اس لئے آپ بھی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گجرات میں آباد ہو گئے۔

ولادت

حضرت ملک عطاء اللہ صاحبؓ کے والد صاحب کا نام ملک محمد رمضان تھا جو کہ ملک اعظم صاحب کے چھوٹے بیٹے تھے۔آپؓ کے والدین کے گھر جو بھی بیٹے پیدا ہوتے تھے وہ بچپن میں ہی وفات پا جاتے تھے۔ آخری بیٹا بھی 19سال کی عمر میں سانپ کے ڈسنے سے فوت ہوا۔ والدین بوڑھے ہو چکے تھے۔ ایک روز آپؓ کے آبائی علاقے سے ایک بزرگ نے آپؓ کے والدین کے پاس قیام کیا۔رات اس بزرگ نے رونے کی آوازیں سنیں تو صبح ہونے پر رونے کی وجہ دریافت کی۔ ان کو بتایا گیا کہ ان کے سب بیٹے فوت ہو گئے ہیں اور ماں ان کو یاد کر کے روتی رہتی ہے۔ اس بزرگ نے ان کو کچھ کھانے کو دیا اور ساتھ دعا بھی کی۔ جس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت ملک عطاء اللہ صاحب ؓکی 1882ء میں گجرات میں ولادت ہوئی۔

قبولیت ِ احمدیت

آپؓ کے تایا اور چچا دینی علم رکھنے کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم بھی رکھتے تھے۔ حکومتِ وقت بھی آپ کے مشوروں سے فیض یاب ہوا کرتی تھی۔تایا حافظ ِقرآن تھے اور گجرات شہر میں ان کی اپنی مسجد تھی۔زیادہ وقت مسجد میں گذارتے اور عربی زبان میں گفتگو کرتےتھے۔ حضرت ملک عطاء اللہ صاحب ؓکے چچا زاد بھائی کی شادی حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹی صاحب ؓکی چچازاد بہن عائشہ کے ساتھ ہوئی تھی۔ جب وہ بیاہ کر آئی تولوگوں کو احمدیت کی تبلیغ کیا کرتی تھی۔ آپؓ کو بھی اکثرتحریک کرتی اور اپنے دلائل سے آپؓ کو لا جواب کر دیتی۔ آخر آ پؓ اپنے تایا جی جنہوں نے آپؓ کو والدین کی وفات کے بعد اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا کے پاس مسجد گئے۔ سلام دعا کے بعد بتایا کہ لڑکی کے دلائل نے پریشان کر دیا ہے۔پھرآپؓ نے ان سے پوچھا: کیا مرزا صاحب سچے ہیں؟ کافی دیر جواب نہ ملنے پر آپؓ جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: تایا جی پھر میرا گناہ آپ کے ذمّے۔ پیچھے سے آواز آئی: عطاء اللہ، اگر خدا کا کلام اور حدیثیں سچی ہیں تو مرزا صاحب سچے ہیں۔ آپؓ نے دوبارہ عرض کیا تو پھر آپ ایمان کیوں نہیں لاتے؟ تایا جی نے خاموشی اختیار کر لی اور اپنا سر اپنے گھٹنوں میں دے دیا۔ آپؓ اپنے چچا زاد بھائی کے گھر گئے اس کی بیوی عا ئشہ نے آپؓ کو اور اپنے شوہر کوبیعت کے لئے دو پوسٹ کارڈ دیئے۔ آپؓ نے بیعت کاخط لکھا اور پوسٹ کردیا۔ جواب میں حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹی صاحب ؓکا خط موصول ہوا فرمایا: حضور ؑآپ کی بیعت قبول کرتے ہیں اور میں بہت خوش ہوا ہوں۔ حضرت ملک عطاء اللہ صاحب ؓنے بتایا کہ اس کے بعد آپؓ کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا۔بیعت کے وقت آپؓ کی عمر تقریباً 18سال تھی۔ آپؓ کے علاوہ آپؓ کی دو بہنیں تھیں مگر احمدیت صرف آپؓ نے قبول کی تھی۔

مخالفت کا آغاز اور ثابت قدمی

حضرت ملک عطاء اللہ صاحبؓ کے بیعت کرنے کا علم جب خاندان اور گلی محلے کو ہوا تو آپؓ کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپؓ ان دنوں لاہور میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں زیرِ تعلیم تھے۔ چونکہ آپؓ اپنے تایا جی کے پاس رہائش پذیر تھے انھوں نے آپؓ کو احمدیت قبول کرنے کے جرم میں گھر سے نکال دیا اور تمام اخراجات بھی بند کر دیئے۔ اس وجہ سے آپؓ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ آپؓ مساجد میں سو جاتے، گلیوں میں پھرتے رہتے اورحضرت صاحبؑ کی نظمیں پڑھتے رہتے۔ روٹی مل جاتی تو کھا لیتے ورنہ بھوکے رہتے۔ حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب ؓ جب بھی آپؓ سے ملتے تو آپؓ کو یہی کہتے کہ مخالفت سے گھبرانا نہیں۔ جب تعلیم چھوٹ گئی تو آپؓ نے فوج میں ملازمت اختیار کر لی۔

ایک دفعہ آپؓ گجرات شہر کی بڑی مسجد کے پاس کھڑے تھے۔اس علاقے میں آپؓ کے کشمیری رشتے دار بھی آباد تھے۔ اتنے میں ایک بچی جس کے ہاتھ میں ایک مرغی اور چُھری تھی آپؓ کے قریب آ کر کھڑی ہوئی۔ آپؓ نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگی کہ مسجد کے مولوی صاحب سے مرغی ذبح کروانی ہے۔ آپؓ نے فرمایا وہ تو باہر گئے ہیں لاؤ میں ذبح کر دیتا ہوں۔ وہ ذبح کروا کر لے گئی اور گھر جا کر بتایا کہ مولوی صاحب نہیں ملے مگر تایا ملک محمد رمضان کے بیٹے عطاء اللہ نے مرغی ذبح کر دی ہے۔ یہ سنتے ہی اس لڑکی کے گھر سے ایک شخص نے آکر آپؓ کو مارنا شروع کر دیا اور کہا کہ تم نے ہماری مرغی حرام کر دی ہے۔ اتنے میں آپؓ کے ماموں زاد بھائی کو خبر ہوئی تو وہ بھاگے بھاگے آئے۔ حملہ آور کو خوب مارا اور پھر آپؓ سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم فکر نہ کرو، ہم تمارے ساتھ ہیں۔ بےشک ہم تم سے ناراض ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ تمہیں ماریں۔ اس واقعہ کے بعد آپ کے تعلقات اپنے کچھ رشتے داروں کے ساتھ پہلے سے بہتر ہو گئے۔

صوم و صلوٰۃ کی پابندی

حضرت ملک عطاء اللہ صاحبؓ ایک درویش صفت اور دعا گو انسان تھے۔ آپؓ پنج وقت نماز اور تہجد باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ بعض اوقات جب آپؓ گھر سے باہر ہوتے اور نماز کا وقت ہوتا تو مسجد قریب نہ ہونے پر ایک طرف ہو جاتے اور جیب میں جو بھی کاغذ یا رومال ہوتا باہر نکالتے اس سے زمین صاف کر کے نماز ادا کر لیا کرتے تھے۔ گھر میں باجماعت نماز ادا کرتے تھے۔بعض اوقات اتنی لمبی نماز ادا کرتے کہ بعد میں آپؓ کی اہلیہ آپؓ کو کہتی: خدا کے بندے، اتنی لمبی رکعت میں تو گرمیں جاؤں گی۔ تو آپؓ فرماتے: تو کیا کروں؟ دعائیں نہ کروں توکیا کروں؟ نمازِ تہجد کے بعد تلاوت قرانِ کریم کرنا آپؓ کا معمول تھا۔دورانِ ملازمت ایک بار کسی مولوی صاحب نے آپؓ کو قرانِ کریم پڑھتے سنا۔ تلاوت مکمل ہونے پرمولوی صاحب نے تعریف کرتے ہوئے کہا آپ تو ایسے تلاوت کرتے ہیں جیسےکہ قادیانیوں کے مولوی عبد الکریم سیالکوٹی کرتے تھے۔آپؓ بلند آواز سے تلاوت کیا کرتے تھے حتّٰی کہ پڑوسی بھی غور سے سنا کرتے اور بعض عورتیں دیواروں سے کان لگا کر تلاوت سنتی تھیں۔لوگ آپؓ سے مختلف دعائیں سیکھتے تھے۔ آپؓ انھیں نماز پڑھنے اور وضو کرنے کاطریقہ بھی سیکھاتے۔ آپؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا گہرا مطالعہ کیا کرتے تھے یہاں تک کہ بعض کتب کے آدھے آدھے ورق زبانی یاد ہو گئے تھے۔

ایک عجیب واقعہ

شیطان ہمیشہ خدا تعالیٰ کے بندوں کو اس کی عبادت کرنے سے روکنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے مگر وہ اس کے نیک بندوں پر کبھی غالب نہیں آ سکتا۔ ایک دفعہ آپؓ پشاور کے کسی ویران علاقے سے گزر رہے تھے اور دور تک کوئی آبادی نہ تھی۔ نماز ِعصر کا وقت ختم ہونے کو تھا۔کچھ فاصلے پر ایک ویران مسجد نظر آئی۔آپؓ نے پاس آکر مسجد کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے آواز آئی۔کون ہے ؟ آپؓ نے فرمایا دروازہ کھولو میری نماز کا وقت نکل رہا ہے۔ پھر آواز آئی۔ نماز کا وقت نکل گیا ہے۔ آپؓ نے بلند آواز سے کہا۔ دروازہ کھولو اور دروازہ کھل گیا۔ مسجد میں داخل ہو کر جب وضو والی جگہ پہنچے تو دیکھا پانی نہیں تھا۔ آپؓ فورًا مسجد کے اندر موجود کنوئیں کے پاس گئے اور بوکے (بالٹی) میں پانی بھر کر اس جگہ ڈالا جہاں سے پانی آتا تھا۔ پھر آپؓ جلدی سے وضو والی جگہ پر آئے۔ دیکھا کہ ٹونٹیوں کے منہ سے لکڑی کے ڈاٹ اترے ہوئے تھے اور پانی سارا بہہ گیا ہوا تھا۔ آپؓ سمجھے کہ ڈاٹ پہلے سے اترے ہوئے تھےجلدی میں شائد بند کرنا بھول گیا ہوں۔ دوبارہ کنوئیں کے پاس گئے اور پھر دوبارہ پانی بھر کر ڈالا۔ واپس آئے تو دیکھا کہ لکڑی کے ڈاٹ پھر اترے ہوئے تھے۔ اس پر آپؓ نے کہا۔ یہ کون شرارت کر رہا ہے؟ میری نماز کا وقت نکل رہا ہے۔ پھر تیسری بار آپؓ نے پانی بھر کر ڈالا۔ واپس آئے تو ٹونٹیوں کے منہ بند تھے۔ آپؓ نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ جب نماز پڑھنی شروع کی تو دیکھا کہ ساتھ ایک چھوٹا بچہ کھڑا ہے۔ کبھی وہ سامنے کھٹرا ہو جاتا، کبھی کندھوں پر بیٹھ جاتا اور کبھی سجدے میں پیٹھ پر سوار ہو جاتا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کا قد بڑھنے لگا حتیٰ کہ وہ چھت کے برابر ہو گیا اور ایک دم غائب ہو گیا۔

(معلوم ہوتا ہے کہ غالباً یہ کوئی کشفی واقعہ تھا) نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپؓ نے فرمایا۔ لو شیطان میں نے اپنی نماز ادا کر لی ہے اب تم جو چاہو کرو۔ پھر آپؓ مسجد سے باہر نکل گئے۔

جرأت اور بہادری کا واقعہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں میں بھی ایسی جرأت اور ہمت پیدا ہوئی کہ بڑے بڑے عالم بھی ان کاسامنا کرنے سے گھبراتے تھے۔ سیدعطاء اللہ شاہ بخاری احراری جماعت کے بانیوں میں سے ایک تھا اور جماعت ِاحمدیہ کے سخت مخالفین میں سے تھا۔ایک زمانے میں وہ گجرات شہر میں اسی محلہ میں رہتا تھا جس میں آپؓ رہائش پذیر تھے۔ایک روزآپؓ کےبڑےبیٹے جو ابھی چھوٹے تھے گھر سے باہر نکلے تو سامنے سے عطاء اللہ شاہ بخاری آ رہا تھا، دیکھتے ہی مخا لفت کی بنا پر آپ کو مارنے لگ گیا۔ آپ کی بہن نے گھر کی چھت سے اسےمارتے دیکھا تو شور مچا دیاجس پر وہ بھاگ گیا۔شام کو جب آپؓ گھر آئے تو اہلیہ نے سارا ماجرا سنایا۔ آپؓ نے اپنا کوٹ اتارا اور گھر سے باہر نکل گئے۔ عطاء اللہ شاہ بخاری کے گھر کے سامنے جا کر بلند آواز سے پکارا۔ نیچے اترو۔بچوں کو مارتے ہو آ ؤتمہیں بتاؤں بچوں کو کیسے مارتے ہیں۔تمہارا نام بھی عطاء اللہ ہے اور میرا نام بھی عطاء اللہ ہے۔تم کیا سمجھتے ہو؟ میں کشمیری ہوں تمہاری طرح بناوٹی سید نہیں ہوں۔ شور مچ گیا اور لوگ اکٹھے ہو گئے۔اس نے گھر کے اندر سے کنڈی لگا لی تھی اور ڈر کر گھر سے باہر نہ نکلا۔

جماعتی خدمات اور تبلیغ

آپؓ کوجماعت ِ احمدیہ گجرات میں مختلف شعبہ جات میں خدمات بجا لانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپؓ ضلع گجرات کے نائب و قائمقام امیر جماعت احمدیہ بھی مقرر ہوئے۔پشاور میں دورانِ ملازمت آپؓ نے بطور سیکرٹری تبلیغ و نشر و اشاعت کے کام کرنے کی توفیق پائی۔ رسالہ وفاتِ مسیح ناصری اور رسالہ ’’راہِ نجات‘‘ تصنیف کیا۔ آپؓ میدانِ تبلیغ میں بھی سرگرم رہتے تھے۔ جہاں جہاں موقع ملتا لوگوں کو بڑے جوش اور واضح دلائل کے ساتھ احمدیت کی تبلیغ کرتے۔ آپؓ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک مشہور شاعر تھے۔پنجابی، اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے۔ تبلیغ کے بارے میں آپؓ کے جوش و جذبہ کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے جس کا اظہار آپؓ نے اپنی ایک نظم جس کا عنوان ’’احمدی بچوں کاگیت‘‘ میں کیا ہے۔اس نظم کا پہلا مصرع ’’میں چھوٹا سا بچہ ہوں گو دیکھنے میں‘‘ ہے اور باقی چند اشعار کچھ اس طرح ہیں:

میری زندگی وقف راہ میں خدا کی
شمع لے کر ہاتھوں میں راہِ ہدی کی
جلائی ہوئی ہے جوکہ ہے مصطفٰے کی
میں دنیا اندھیری کو روشن کروں گا
میں دن رات تبلیغ دیں کی کروں گا
کہیں خط لکھوں گا کہیں دوں گا لکچر
کہیں پر نمائش کروں گا میں پکچر
دلائل مسیحؑ کی صداقت کے دے کر
میں اسطرح خاموش سب کو کروں گا
میں دن رات تبلیغ دیں کی کروں گا

شادی اور سسرال سے حُسنِ سلوک

چونکہ آپؓ کے والدین بوڑھے ہو چکے تھے اور ان کےتمام بیٹےبچپن میں ہی وفا ت پا گئے تھے وہ آپؓ کی شادی کی خوشی اپنی زندگی میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے آپ کے والدین نے آپ کی شادی بچپن میں ہی کردی۔ جس لڑکی کے ساتھ شادی ہوئی اس کی عمر ۱۹،۱۸ سال تھی۔ جب آپؓ بڑے ہوئے تو لڑکی کی درخواست پر آپؓ نے اسے طلاق دے دی۔ آپؓ کی دوسری شادی محترمہ امّ سلمٰی صاحبہ بنت حضرت مرزا امیرالدین صاحبؓ آف گجرات سے ہوئی۔ ایک روز محترمہ امّ سلمٰی صاحبہ کی والدہ ریشم بی بی نے اپنے شوہر حضرت مرزا امیرالدین صاحبؓ سے پوچھا کہ میری بیٹی امّ سلمٰی تو اتنی خوبصورت ہے۔ آپ نے اس کا رشتہ عطاء اللہ سے طے کرتے وقت کیا دیکھا؟ انھوں نے جواب دیا۔ میں نے دیکھا کہ عطاء اللہ جب چلتا ہے تو اپنی آنکھیں نیچے رکھتا ہے یعنی میں نے اس کی شرافت دیکھی ہے۔ ایک بار آپؓ کے سسُر حضرت مرزا امیرالدین صاحبؓ کو اپنڈکس کی تکلیف شروع ہو گئی۔ اس سلسلے میں آپؓ نے اپنے بیٹے کو خط لکھا مگر ان کے آنے میں کچھ تاخیر تھی۔اس دوران درد نے شدت اختیار کر لی۔ آپؓ کی بیٹی امّ سلمٰی صاحبہ کو اپنے والد کی طبیعت کے بارے میں علم ہوا تو انھوں نے فورًا اپنے شوہر حضرت ملک عطاء اللہ صاحبؓ سے پوچھا کہ اگر آپؓ اجازت دیں تو میں آپریشن کے پیسے دے دوں۔ آپؓ نے کہا۔ مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہو؟ فوراً اپریشن کرواؤ۔ میں نے تو اپنے ماں باپ کو دیکھا ہی نہیں۔ یہ ہی میرے باپ ہیں اور ریشم بی بی میری ماں ہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپریشن کامیاب رہا۔

ایمانداری اور خدمتِ خلق

حضرت ملک عطاء اللہ صاحبؓ اپنے آباؤاجداد کی طرح بہت سخی تھے۔ اپنے پرائے سب ہی آپؓ کی شفقت سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ ایک بار خاندان کی ایک عورت کو پیسوں کی سخت ضرورت تھی۔ وہ آپؓ کے پاس آئی اور مدد کی درخواست کی۔ آپؓ نے ایک زمین کا ٹکڑا اسے دے دیا اور کہا کہ جاؤ جا کر بیچ دو۔ اس عورت نے ایسا ہی کیا اور رقم لے کر خوشی خوشی چلی گئی۔ آپؓ کی اہلیہ آپؓ سے کہا کرتی تھیں کہ لوگوں کو اتنا پیسہ نہ دیا کریں آ پؓ کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان کا بھی خیال کیا کریں۔ آپؓ فرماتے۔ سلمٰی! اس کام سے مجھے نہ ٹوکا کرو۔ محلے کی عورتیں بعض اوقات سودا سلف لانے کے لئے آپؓ کے پاس آتیں تو آپؓ اپنے بچوں کو ان کی مدد کرنے کے لئے بازار بھیجتےاور ان کی ضرورت پوری کرتے۔ جب آپؓ فوج میں ملازم تھے تو آپؓ کا انگریز افسر کلنٹن آپؓ کی ایمانداری اور قابلیت کی وجہ سے آپؓ کی بہت عزّت کرتا تھا۔ فوج میں راشن کی تقسیم مفت ہوتی تھی۔

آپؓ اپنے حصہ کا اتنا ہی راشن تول کرلیتے جتنا بنتا تھا۔ آپؓ کا افسر حیرانگی سے تولتے ہوئےدیکھ رہا ہوتا اور کہتا ۔عطاء اللہ ،یہ کیا کر رہے ہو؟ سب کچھ اپنے بچوں کے لئے لے جاؤ۔ آپؓ اسے کہتے : میں نے اپنی کمائی سے کھانا ہے۔ اور جو راشن آپؓ کے حصہ کے علاوہ ہوتا وہ غریبوں میں تقسیم کر دیتے۔ انگریز افسر کلنٹن پر آپؓ کی ایمانداری کا اتنا اثر تھا کہ بعض اوقات آپؓ کو اپنی خوشی سے اپنی جیپ استعمال کے لئے دے دیتا۔

آپ کے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر ملک محبوب ربّانی صاحب اخبار الفضل میں تحریر کرتے ہیں کہ انگریز افسر نے آپؓ کے بارے میں اپنی رپورٹ میں تحریر کیا کہ میرے سارے عملے میں عطاء اللہ جیسا قابل شخص کوئی نہیں اور آپ کا نام خان بہادر کے خطاب کے لئے بھیج چکا ہوں۔ بعد ازاں آپؓ کو قلّات میں وزارت اور ایران میں نائب سفیر کی پیش کش بھی ہوئی مگر آپؓ نے قبول نہ کی۔

(الفضل 5فروری 1958ء ص5)

جائیداد سے دست برداری
اور مقدمات میں کامیابی

گجرات شہر میں آپؓ کی وسیع خاندانی جا گیر موجود تھی جس میں اراضی، مکانات ، دوکانیں ،مسجد اور قلعہ کا ایک حصّہ بھی شامل تھا۔ آپؓ کی عمر چھوٹی ہونے کی وجہ سے آپؓ کے حصّہ کی جائیداد اور خاندانی خزانہ کی حفاظت آپؓ کی بڑی بہن فاطمہ بی بی کرتی تھیں لیکن آپ کے کچھ رشتے دار آپؓ کی جائیداد پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ اس غرض سے انھوں نے آپؓ کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس منصوبے کا علم آپؓ کی ایک پھوپھی کو ہوگیا اور ا نھوں نے آپؓ کو اُن کے ناپاک ارادوں سے وقت پر بچا لیا۔ دنیا سے بے رغبت ہونے کی وجہ سے اور فساد سے بچنے کے لئے آپؓ نے اپنی تقریبًا تمام جائیداد رشتے داروں کے نام کر دی۔ فاطمہ بی بی کی وفات پر آپؓ کی غیر موجودگی میں آپؓ کی چھوٹی بہن بیگم بی بی اور بہنوئی نے آپؓ کے جعلی انگوٹھوں کے نشان لگا کر باقی کی جائیداد اور دفن شدہ خزانہ پر قبضہ کر لیا۔ پھر مقدموں کا سلسلہ شروع ہوا جس پر ذاتی جمع کردہ سرمایہ بھی خرچ ہو گیا۔ اس مقدے بازی میں دس بارہ سال کا عرصہ بیت گیا۔ اسی دوران آپؓ کو بیماری کی بنا پر فوج کی نوکری چھوڑنی پڑی اور پنشن بھی نہ لگ سکی جس کی وجہ سے مالی حالات مزید خراب ہو گئے۔ چونکہ شروع سے ہی آپؓ کا رجحان روحانیت کی طرف تھا ان حالات نےآپؓ کی طبیعت کو زیادہ دعاؤں کی طرف مائل کر دیا۔ آخر کار انگوٹھے جعلی ثابت ہونے پر آپؓ مقدمہ تو جیت گئے مگر جائیداد واپس آپؓ کو نہ مل سکی۔

ایک روز آپؓ کو اطلاع ملی کہ آپؓ کا فوجی افسر کلنٹن گجرات آیا ہوا ہے۔ آپؓ اس سے ملنے اس کے دفتر گئے۔ دفتر کے باہر گارڈ نے آپؓ کو روکا۔آپؓ نے اسے کہا مجھے اپنے افسر سے ملنا ہے۔ وہ انکار کرتا رہا۔ انگریز افسر نے آپؓ کی آواز سُنی تو وہ فورًا باہر آیا اور گارڈ کو غصّے ہوا اور کہا۔ عطاءاللہ! اندر آجاؤ۔ تمہارا کیا حال ہے؟ بچے کیسے ہیں؟ کیا کرتے ہو ؟ آپؓ نے بتایا۔ نوکری جہاں بھی ملتی ہے کر لیتا ہوں مگر ایک دو ماہ میں لوگوں کو پتہ چل جاتاہے کہ میں احمدی ہوں تو مجھے نکال دیتے ہیں۔ اس نے آپؓ کو کہا: فکر نہ کروں میں تمہاری پنشن لگا تا ہوں۔ 65 روپے کی پنشن لگا دی جو اس زمانے کے لحاظ سے بہت بڑی رقم تھی۔ آپؓ بڑے خوش گھر آئےاور اپنی اہلیہ کو کہا۔سلمٰی! خدا کا فضل آگیا ہے۔پھر اتنے پیسے آتے تھے کہ آپؓ کی اہلیہ سودا لینے جاتی اور پھر بھی پیسے بچ جاتےتھے۔

صِلہ رحمی

فوج کی ملازمت کے دوران آپؓ بیمار ہو گئے اور آپؓ کی بیماری میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ آخر آپؓ کی طبیعت بہت خراب ہو گئی۔ ایک روز آپؓ نے اپنی اہلیہ سے فرمایا: سلمٰی، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک سفید کپڑوں والا فرشتہ مجھے لینے آیا ہے۔ آپؓ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وفات کاوقت قریب ہے۔ آپؓ نے اپنی بہن اوربہنو ئی جنہوں نے دھوکے سے آپؓ کی جائیداد پر قبضہ کر لیا تھا ان کو اپنی زندگی میں ہی معاف کرنا چاہا۔ آپؓ نے اس خیال کا اظہار اپنی اہلیہ سے کیا اور کہا کہ۔ سلمٰی! تم مجھے سے ناراض نہ ہونا میں نے اپنی بہن کو ایک چٹھی لکھنی ہے کہ آکر مجھے ملو تا کہ میں اپنی زندگی میں ہی تمہیں معاف کر دوں اور خدا تعالیٰ مجھ سے تمہارے بارے میں نہ پوچھے۔ بہن نے جوابًا آپؓ کو دعائیں لکھیں اور کہا ۔ تمہاری مہربانی کہ تم نے مجھے معاف کر دیا۔اور آکر ملاقات کی۔

وفات

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ صحابی 26نومبر 1957ء بروز منگل صبح کے ساڑھے سات بجے اپنے مالکِ حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔

خالدِ احمدیت حضرت ملک عبدالرحمان خادم صاحب (امیر جماعت گجرات) نے آپؓ کی وفات پر آپؓ کے بڑے بیٹے ملک بشارت رباّنی صاحب کو خط میں تحریر کیا۔

ملک عطاء اللہ صاحب کی وفات کا سن کر سخت صدمہ ہوا۔ وہ آپ کے ہی والد نہیں تھے، میرے بھی تھے۔ مجھے افسوس ہے کہ اگر میں ہسپتال میں نہ ہوتا تو خود آتا اور نمازِ جنازہ پڑھاتا۔ آج ایک بہت دینی اور دنیوی علم رکھنے والی ہستی وفات پا گئی ہے‘‘۔ نیز فرمایا ’’ملک عطاء اللہ صاحب احمدیت کی ننگی تلوار تھے‘‘۔ آپؓ خدا تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ آپؓ کا جسدِ خاکی ربوہ لے جایا گیا جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپؓ کا نمازِ جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپؓ کی تدفین ہوئی۔ اللہ تعالیٰ آپؓ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرماۓ اور آپؓ کی نیکیاں آپؓ کی نسلوں میں ہمیشہ جاری فرمائے۔ آمین۔

(مبارز احمد ربّانی۔یوکے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جون 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ