• 19 مئی, 2024

آؤ اُردو سیکھیں (سبق نمبر 6)

آؤ اُردو سیکھیں
سبق نمبر 6

ہمارا آج کا سبق اردو زبان کے اعراب کے متعلق ہے۔ اعراب وہ مخصوص اشارے اور علامتیں ہیں جو حروف کی آوازوں کا تعین کرتی ہیں۔ یہ علامتیں بتاتی ہیں کہ کس حرف کی آواز کو گول کرنا ہے کسے نیچے کی جانب کھینچنا ہے اور کس حرف کو کس حرف سے جوڑنا ہے۔ پھر وہ یہ تعین بھی کرتی ہیں کہ کیا حرف متحرک ہے یا ساکن ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے یہ ایک مشکل معاملہ ہے تاہم عملی طور پر اسے سمجھنا سادہ اور سہل ہے۔ دورِ جدید میں اردو لکھتے وقت اعراب کا استعمال کم ہی ہوتا ہے جیسا کے آپ اس تحریر کو دیکھ سکتے ہیں جو آپ اس وقت پڑھ رہے ہیں ۔ مگر ان علامتوں کا سمجھنا اردو سیکھنے والوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اعراب کا درست استعمال اردو کا صحیح تلفظ سیکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح ضمیروں کے درست استعمال اور رموزو اوقاف سمجھنے کے لیے بھی اعراب کا علم بہت ضروری ہے۔

زبر ۔َ

اسے عربی میں فتح کہتے ہیں یعنی کھولنا اور اردو میں اسے زبر کہتے ہیں جس کے معنی ہیں اوپر۔ یہ علامت حروف کے اوپر آتی ہے اور اس آواز کو لمبا کرنے سے الف کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ زبر کا استعمال اردو میں کثرت سے ہوتا ہے جیسے اَن کہی (جو بات پہلے کہی نہ گئی ہو)، اَن دیکھی (جو چیز پہلے دیکھی نہ ہو، عجیب و غریب، اور بعض اوقات اس کا مطلب ہوتا ہے نظر انداز کردینا یعنی دیکھ بھی لینا مگر ان دیکھا کر دینا گویا دیکھا ہی نہیں)، اَنہونی (غیر معمولی بات، حادثہ ، غیر متوقع بات)، اَن سنی (جو پہلے نہ سنی ہو، یا سن کر نظر انداز کردینا) ، اَنمول (بیش قیمت، قیمتی نایاب) ایسے الفاظ ہیں جن کو اگر زبر کی بجائے زیر یا پیش کے ساتھ استعمال کیا جائے تو یہ الفاظ بے معنی ہوجائیں گے۔

زیر۔ِ

اس علامت کو عربی میں کسرہ کہتے ہیں جبکہ اردو میں اسے زیر کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں نیچے۔ اس کو زیر اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی آواز ی کی سی ہوتی ہے مگرزیر جب اکیلا ہو تو اس کی آواز ہلکے درجے کی ہوگی۔ زیر جب ی کے ساتھ آئے تو دو طرح کی آواز پیدا کرتی ہے ایک کم دورانیے کی اور دوسری طویل۔ جیسے شیر(جانور) اور شیر (دودھ) اسی طرح بیر (پھل) اور کھیر (دودھ چاول کا میٹھا)

ایک بات قابل غور ہے فارسی زبان کے بعض الفاظ جو فارسی میں ایک جیسا تلفظ رکھتے ہیں مگر اردو دان ان کا تلفظ مختلف طور پر کرتے ہیں اور یہ زبانوں کا اپنا اسلوب ہے۔ جیسے جاوید، جمشید، کو زیادہ نیچے کھینچ کر نہیں بولا جاتا مگر دید، نوید، خورشید کو ی اور زیر کے ایک ساتھ استعمال کی طرح باریک آواز کے ساتھ نیچے کھینچا جاتا ہے۔ گو تحریر میں اعراب کا زیادہ استعمال نہیں کیا جاتا تاہم گفتگو میں اعراب کے مطابق تلفظ ادا کرنا بہت ضروری ہے۔ جیسے بارِش کو بارَش، عابِد کو عابَد وغیرہ کہنے سے انسان سننے والوں کی نگاہ میں غیر تعلیم یافتہ تصور کیا جائے گا۔

پیش۔ُ

اسے عربی میں ضمہ کہتے ہیں جس کے معنی ہیں ملانا۔ اردو میں اسے پیش یعنی سامنے یا آگے کہا جاتا ہے۔ یہ جب حرف کے اوپراکیلا آتا ہے تو ہلکی واؤ کی آواز دیتا ہے جیسے مُڑنا مگر جب واؤ کے ساتھ آئے تو یہ آواز کو بڑھاتا ہے اور واضح کرتا ہے جیسے موڑنا۔ مگر جب یہ واؤ کے ساتھ بھی آتا ہے تو دو قسم کی آوازیں دیتا ہے جسے نُور، دُور، چُور (زخموں سے چُور، تھکن سے چُور) عربی زبان جیسی آوازیں ہیں

Noor, door, choor

مگر شور(شور کرنا)، چور (چوری کرنے والا) قدرے پھیلی ہوئی خالص اردو آوازیں ہیں۔

باآواز بلند تقریر، یا خطاب کرتے ہوئے اگر اعراب کا خیال نہ رکھا جائے تو بات کا مفہوم ہی مبہم ہوسکتا ہے جیسے اگر کہنا ہو کہ اُس نے یہ تجویز دی اور کہدیا جائے کہ اِس نے یہ تجویز دی تو تجویز دینے والا ہی تبدیل ہوسکتا ہے یا کم از کم سننے والوں کے لیے یہ بہت الجھن پیدا کر سکتا ہے کہ تجویز کس نے دی۔

جزم یا سکون

اگر کسی حرف پر زیر ، زبر ، پیش میں سے کوئی حرکت نہ ہو تو وہ ساکن ہوتا ہے جسے جزم بھی کہتے ہیں جیسے جسم ، کی س اور میم ساکن ہیں یعنی یہ جِسَمْ نہیں ہے بلکہ جِسْمْ ہے گوشْتْ کی ش اور ت ساکن ہیں۔ مَوسِمْ کی میم ساکن ہے۔

مد

قرآن کریم ناظرہ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ مد الف کی آواز کو طوالت دینے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ جیسے ’اَب‘ جس کا مطلب ابھی ہے کے الف پر مد ڈال دیں تو یہ ’آب‘ بن جائے گا اور اس کا مطلب ہوگا پانی۔ اسی طرح آم، آس ، آگ وغیرہ مد کی مثالیں ہیں۔

ہمزہ

ء (ہمزہ) ’’ی‘‘ کے ساتھ مل کر وہی کام دیتا ہے جو مد الف کے ساتھ دیتی ہے۔ جب مقصد ’’ی‘‘ کی آواز کو دگنا کرنا ہو تو ہمزہ چھوٹی ’’ی‘‘ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جیسے کئی، تئیں وغیرہ یہ تئیں لفظ حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات میں کثرت سے ملتا ہے جیسے اپنے تئیں یعنی اپنے طور پہ یا اپنے آپ کو۔ پھر ہمزہ ’’و‘‘ کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے جیسے پاؤں، گاؤں، ملاؤ، دکھاؤ وغیرہ

اعراب کی مزید وضاحت اگلے سبق میں جاری رہے گی

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:۔
’’ہزاروں خطوط (خط کی جمع) میرے پاس آتے ہیں جن میں ظاہری بیماریوں (جسمانی بیماریوں) کے ہاتھ سے نالاں (پریشان) لوگوں نے جو جو اضطراب (گھبراہٹ، مایوسی، اداسی) ظاہر کیا ہے میں اسے دیکھتا ہوں لیکن مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ وہ ظاہری بیماریوں کے لئے تو اس قدر گھبراہٹ ظاہر کرتے ہیں مگر باطنی (روحانی، اخلاقی) اور اندرونی بیماریوں (بد عادات، برے اخلاق جو فطرتِ ثانیہ بن گئے ہوں) کے لئے انہیں کوئی تڑپ (فکرِ علاج) نہیں۔ باطنی بیماریاں کیا ہوتی ہیں؟ یہی بد ظنی (خود سے اندازہ لگانا کہ دوسرے میں یہ برائی ہوگی جبکہ ایسا اکثر نہیں ہوتا)، منصوبہ بازی (سازش کرنا، منفی سیاست کرنا)، تکبر، دوسرے کی تحقیر (کمتر سمجھنا)، غیبت (کسی کی غیر موجودگی میں اس کے لیے منفی گفتگو کرنا) اور اس قسم کی بدذاتیاں (بری حرکتیں) اور شرارتیں، شرک، ماموروں کا انکار وغیرہ۔ ان امراض کا وہ کچھ بھی فکر نہیں کرتے اور معالج (طبیب، ہادی، استاد، امام) کی تلاش انہیں نہیں ہوتی۔ میں جب ان بیماریوں کے خطوط پڑھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیوں یہ اپنے روحانی امراض کا فکر نہیں کرتے۔‘‘

(خطبات نور جلد1 خطبہ نمبر20 صفحہ231)

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جون 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ