• 27 اپریل, 2024

سورتوں کا تعارف

سورۃالانفطار (82 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 20 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن2003ء)

تعارفی کلمات

یہ سورۃ اپنی سابقہ سورۃ (التکویر) سے ساخت اور مضامین میں اس قدر مشابہ ہے کہ گویا اس کاحصہ ہی ہے، مگر نام الگ ہے۔ یہ قرآن کریم کی خصوصیت ہے کہ کسی خاص حصہ کی اہمیت کے پیش نظر یہ کسی سورۃ کے خاص حصہ کو لیتا ہے اور ان میں مذکور مضمون کی اہمیت کے باعث اس کو الگ الگ سورتوں کی شکل میں بیان کرتا ہے۔ کیونکہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں ان کا حافظہ میں رہنا آسان ہے اور یوں ان حصوں کو الگ نام اور شناخت عطا کر دیتاہے۔ یہ سورۃ خاص طور پر ان حالات کا بیان کرتی ہے جو آئندہ زمانہ میں پیش آنے والے تھے خاص طور پر جب عیسائی عقائد اور طرز حیات نے غیر عیسائی دنیا کے ضابطہ حیات اور خیالات کو بری طرح متاثر کرنا تھا، خاص طور پر مسلمانوں کو۔ اس سورۃ میں مذکور جملہ پیشگوئیاں ظاہری طور پر پوری ہوئیں۔ یہ سورۃ مکہ کے ابتدائی سالوں میں، اپنی سابقہ سورۃ (التکویر) کے ساتھ ہی نازل ہوئی۔

سورۃالمطففین (83 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 37 آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

اس سورۃ کا آغاز لوگوں کو کم تول دینے اور دھوکہ دہی کی سخت مذمت کے ساتھ ہوا ہے۔ علماء کی رائے کے مطابق یہ ابتدائی مکی دور کی ہے۔ نوڈلکے اور میور نے اس سورۃ کا وقت نزول نبوت کے چوتھے سال میں بیان کیا ہے۔ سابقہ سورۃ (الانفطار) کے اختتام پر کفار کو یہ تنبیہ کی گئی تھی کہ انہیں اپنے اعمال پر جواب دہ ہونا پڑے گا اور اپنے روحانی نقصان کی خود تلافی کرنی ہوگی اور کسی دوسرے کی قربانی یا شفاعت قیامت کے دن ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔ سابقہ سورۃ (الانفطار) میں انسان کے خدا سے تعلق کو بیان کیا گیا ہے موجودہ سورۃمیں انسان کی حقوق العباد کی ادائیگی پر زور دیا گیاہے۔ خاص طور پر ایسی طاقتور قوموں کا ذکر ہے جو کمزور اور ترقی پذیر قوموں سے ظالمانہ سلوک روا رکھتی ہیں یہاں تک کہ ان سے آزادئ عمل بھی چھین لیتی ہیں۔ اس سورۃ کا اختتام ظالم اور نا انصاف لوگوں کو ایسی پر زور تنبیہ پر ہواہے کہ وہ ہرگز سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔ حساب کتاب کا دن اپنی ہیئت اور شدت کے ساتھ ان کے انتظار میں ہے۔

سورۃالانشقاق (84 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 26 آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

سابقہ تین سورتوں (التکویر، الانفطار اور المطففین) کی طرح موجودہ سورۃ بھی ابتدائی مکی دور کی ہے۔ یہ چاروں سورتیں اپنی ساخت، ترنم اور مضامین میں ایک دوسرے سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہیں۔ نوڈلکے اور میور نے اس سورۃ کے ابتدائی مکی دور کے ہونے کے حوالہ سے مسلمان محققین سے اتفاق کیا ہے۔ دراصل یہ سورۃ گزشتہ تین سورتوں کے مضامین کے تسلسل کو مکمل کرتی ہے۔

سابقہ سورۃ (المطففین) کے اختتام پر کفار کو پر زور تنبیہ کی گئی تھی کہ ان کی طاقت زائل ہوجائے گی اور شان و شوکت جاتی رہے گی۔ موجودہ سورۃ میں بتایا گیاہےکہ کفر کی جگہ ایمان لے لے گا اور زوال اور شکستہ حال نظام کی باقیات سے ایک نیا، قوی اور تند و تیز نظام ابھرے گا۔ اس سورۃ میں سورۃ الانفطار کے مضمون کو جاری رکھا گیاہے جبکہ درمیانی سورۃ المطففین بھی اسی کی مزید تفصیل ہے۔ سورۃ الانفطار اس مضمون سے شروع ہوئی تھی کہ جب آسمان کی کھال اتار دی جائے گی اور موجودہ سورۃ بھی اس سے ملتے جلتے محاورہ سے شروع ہوتی ہے یعنی جب آسمان پھٹ جائے گا۔ سورۃ الانفطار میں آسمان کی کھال اتارے جانے سے مراد عیسائیت کے (باطل)عقائد کا عیاں ہونا مراد ہے جبکہ موجودہ سورۃ میں آسمان کے پھٹ جانے سے مراد آسمانی وحی کا نزول ہے اور روحانی علوم کا ظاہر ہونا اور پھیلنا ہے۔ یوں سابقہ تین سورتوں کے ساتھ موجودہ سورۃ ایک ایسا تسلسل پیدا کرتی ہے جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے مضمون کو بیان کرتا ہے، آئندہ آنے والے زمانے میں اور گزشتہ دور کے گناہ اور زیادتیوں کا بھی ذکر ہے۔ یہ سورۃ خاص طور پر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے مضمون کو بیان کرتی ہے جبکہ سابقہ سورتیں خاص طور پر عیسائیت کی خرابیوں اور بد اخلاقیوں کا ذکر کرتی ہیں۔

سورۃ البروج (85 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 23 آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

یہ سورۃ مکہ میں نبوت کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی۔ اس سورۃ کا اپنی سابقہ سورۃ (الانشقاق) سے تعلق کا اظہاریوں کیا گیا ہے کہ وہاں پورے چاند کو بطور گواہ کے پکارا گیا ہے اور موجودہ سورۃ میں ستاروں کے جھرمٹ اور موعود دن کو بطور گواہ کے پکارا گیاہےاور موجودہ سورۃ میں ستاروں کے جھرمٹ اور موعود دن کو بطور گواہ پکارا گیاہے۔ بروج یا ستاروں کے جھرمٹ ممکنہ طور پر بارہ مجددین کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن میں ہر ایک ہجری صدی کے سر پر ظاہر ہوا جبکہ موعود دن چودھویں صدی ہجری کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سورۃ میں مسیح موعود کو ماننے والوں پر روا رکھی جانے والے ظلم و تعدی کی طرف اشارہ کیا گیا ہےاور یہ سورۃ اس بیان پر ختم ہوتی ہے کہ اس (مسیح موعود) کے زمانہ میں قرآن کریم کی سالمیت کو بطور الٰہی صحیفہ، خاص طور پر عیسائی مصنفین کے ہاتھوں نشانہ بنایا جائے گا، اس لئے مسیح موعود اپنی جملہ طاقتیں اور قوتیں ان حملوں کو رفع کرنے میں صَرف کرے گا تاکہ قرآن کریم کی عصمت کی حفاظت کرے اور اس الٰہی صحیفہ کا ناقابلِ تسخیر ہونا ثابت کرے۔

پچھلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جون 2021