• 19 مئی, 2024

آنحضورؐ پر کئے جانے والے جادو کی حقیقت

لَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی
آنحضورؐ پر کئے جانے والے جادو کی حقیقت

تمہید

نبی کی وفات کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مذہب کے لوگ دین کی تعلیم سے دور ہو تے جاتے ہیں اور مذہبی تعلیم کو بھول جاتےہیں۔ تب معاشرے میں دو گروہ بن جاتےہیں۔ ایک گروہ کے لوگ تو ویسے ہی مذہب کی حقیقت سے دور جا پڑتے ہیں۔ اور خیال کرتے ہیں کہ مذہب پر عمل صرف دوسری قسم کے گروہ کے لوگوں کا کام ہے اور مذہب کا سارے کا سارا دارو مدار انہیں کے کندھوں پر ڈال دیتے ہیں اور یہ دوسری قسم کے لوگ بھی چونکہ نبی کے زمانہ سے دور ہو چکے ہوتے ہیں تو وہ مذہب کو اپنی مرضی سے چلاتے ہیں اور اپنی ہی مرضی کے عقائد نافذ کرتے چلے جاتےہیں اور یہ لوگ جو کسی بھی مذہب کے علماء کا طبقہ ہوتا ہے وہ، عوام الناس جو کہ گروہ اول سے تعلق رکھتے ہیں، کی مذہب سے لا علمی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ لوگ عوام الناس کو ایسے عجیب و غریب معاملات میں الجھا کر اپنی روزی روٹی کمانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ اپنی چالاکیوں کو رزق کمانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور ان سب کاموں کےلئے مذہب کا سہارا لیتے ہیں اور یہ نہیں خیال کرتے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاللّٰہُ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ جبکہ وہ اپنی ایسی حرکات سے اور مذہبی تعلیمات میں اپنی مرضی کی تاویلات کر کے عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں اور ان کو اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ ان کے اس قسم کے عقائد اور تاویلات سے انبیاء، مذاہب اور بسا اوقات خدا تعالیٰ کی ذات پر زد پڑتی ہے۔

ایسا ہی آج کل پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز پر دیکھنے میں آرہا ہے۔ جہاں مختلف مکتبہ فکر کے لوگ علماء پینل کی شکل میں آتے ہیں۔ جب ان سے جادو کے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو جادو کو برحق قرار دینے کے لئے ایک روایت پیش کرتے ہیں اور اس طرح وہ اپنی دکانداری چمکاتے ہیں اور کمال بے شرمی سے بتاتے ہیں کہ ہمارے سرور کائنات حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ پر ایک یہودی نے جادو کر دیا تھا اور اس کے اثر سے آپﷺ کو اکثر نسیان رہنے لگا تھا۔ (مَعَاذَاللّٰہِ)

ان علماء کے عقائد کا ردعمل

جب نام نہاد علماء ایسے دلائل بغیر تحقیق کے عوام الناس کے سامنے پیش کرتےہیں تو عوام الناس ان کی باتوں کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بات بھی تسلیم کر لیتے ہیں کہ نعوذ باللہ من ذالک جادو برحق ہے اور حضورﷺ ایک یہودی کے جادو کے زیر اثر ہو گئے تھے۔ اور اس طریق پر ایسے نام نہاد علماء کی دکان کی چاندی ہو جاتی ہے۔

پھر تعویذ گنڈے کرنے والے جعلی پیر اور علماء کے ذریعے جادو اور عمل کے نام پر عورتوں کی عصمت لوٹنے اور جان تک لینے کے کئی واقعات سامنے آرہے ہیں۔

اس روایت پر کچھ بات کرنے سے پہلے اس وقت کے نام نہاد علماء کی حالت زار پر بات کرتےہیں جو یہ بات خود بھی تسلیم کرتے ہیں کہ نعوذباللہ من ذالک سرور کائنات، شاہ دوجہاں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ ایک یہودی کے جادو کے زیر اثر ہو گئے تھے اور عوام الناس کو بھی مجبور کرتے ہیں کہ وہ بھی ایسی بے ہودہ باتوں کو قبول کریں۔ افسوس صد افسوس ایسے لوگوں کی سوچ پر۔

پھر ایسے عقائد کی وجہ سے اعتراضات کی ایک بوچھاڑ ہے جو اسلام پر کی جاتی ہے۔ اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا کہ حضورﷺ کی ذات اقدس کو التزامات سے بچا سکیں۔

حدیث سحر

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:سُحِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتّٰى إِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا فَعَلَهُ، حَتّٰى إِذَا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ وَهُوَ عِنْدِي، دَعَا اللّٰهَ وَدَعَاهُ، ثُمَّ قَالَ:أَشَعَرْتِ يَا عَائِشَةُ أَنَّ اللّٰهَ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَااسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ قُلْتُ:وَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قَالَ:جَاءَنِي رَجُلاَنِ، فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي، وَالآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ:مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ:مَطْبُوبٌ، قَالَ:وَمَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ:لَبِيدُ بْنُ الأَعْصَمِ اليَهُودِيُّ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ، قَالَ:فِيمَا ذَا؟ قَالَ:فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ، قَالَ:فَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ:فِي بِئْرِ ذِي أَرْوَانَ قَالَ:فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ إِلَى البِئْرِ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا وَعَلَيْهَا نَخْلٌ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَ:وَاللّٰهِ لَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الحِنَّاءِ، وَلَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ قُلْتُ:يَا رَسُولَ اللّٰهِ أَفَأَخْرَجْتَهُ؟ قَالَ:‘‘لاَ، أَمَّا أَنَا فَقَدْ عَافَانِيَ اللّٰهُ وَشَفَانِي، وَخَشِيتُ أَنْ أُثَوِّرَ عَلَى النَّاسِ مِنْهُ شَرًّا’’ وَأَمَرَ بِهَا فَدُفِنَتْ

(صحیح بخاری حدیث نمبر 5766)

ترجمہ: حضرت عائشہؓ سے روایت ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ پر سحر کیا گیا (یعنی دشمنوں نے مشہور کر دیا کہ آپ کو سحر کر دیا گیا ہے) حتیٰ کہ ان ایام میں آپ بعض اوقات یہ خیال فرماتے تھے کہ آپ نے فلاں کام کیا ہے حالانکہ درحقیقت نہیں کیا ہوتا تھا۔ (ایک اور روایت میں یہ ہے کہ) آپ بعض اوقات خیال کرتے تھے کہ میں اپنی فلاں بیوی کے گھر ہو آیا ہوں حالانکہ آپ اس کے گھر نہیں گئے ہو تے تھے۔ انہی ایام میں آپ ایک دن میرے مکان میں تھے اورآپ گھبراہٹ میں بار بار خدا کے حضور دعا فرماتے تھے اس دعا کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا۔ اے عائشہ! کیا تم تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ بات بتا دی ہے جو میں نے اس سے پوچھی تھی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! وہ کیا بات ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا (خواب میں) میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کی طرف بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کی طرف بیٹھ گیا۔ پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا اس شخص کو کیا تکلیف ہے؟ (یہ انداز گفتگو بھی حکایت عن الغیر کی تائید کرتا ہے) دوسرے شخص نے (فتنہ پردازوں کے خیال کے مطابق) جواب دیا یہ وہی ہے جسے سحر کیا گیا ہے۔ اس پر پہلے شخص نے پوچھا اسے کس نے سحر کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا اسے لبید بن اعصم یہودی نے سحر کیا ہے جو بنی زریق کا حلیف ہے (اور ایک روایت میں ہے کہ وہ منافق تھا) اس پر پہلے شخص نے پھر سوال کیا کس چیز کے ذریعہ سحر کیا گیا ہے؟ دوسرے نے کہا ایک کنگھی میں سر کے بالوں کی گرہیں باندھ کر اور اسے ایک نر کھجور کی خشک شاخ میں لپیٹ کر رکھا گیا ہے۔ پوچھنے والے نے سوال کیا یہ کنگھی وغیرہ کہاں رکھی ہے؟ دوسرے نے جواب دیا وہ ذروان کے کنویں میں رکھی ہے۔ اس خواب کے بعد آپ اپنے بعض صحابہ کے ساتھ اس کنوئیں پر تشریف لے گئے اور اس کا معائنہ فرمایا۔ اس پر کھجوروں کے کچھ درخت اُگے ہوئے تھے پھر آپ ﷺ حضرت عائشہؓ کے پاس واپس تشریف لائے اور ان سے فرمایا۔ عائشہ! میں اسے دیکھ آیا ہوں۔ اس کنوئیں کا پانی مہندی کےپانی کی طرح سرخی مائل ہو رہا ہے۔ اور اس کے کھجور کے درخت تھوہر کے درختوں کی طرح مکروہ نظر آتے تھے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا آپ نے اس کنگھی وغیرہ کو باہر نکلوا کر پھینک کیوں نہ دیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا، خدا نے مجھے محفوظ رکھا اور مجھے شفا دے دی تو پھر میں اسے باہر پھینک کر لوگوں میں ایک بری بات کا چرچا کیوں کرتا (جس سے کمزور طبیعت کے لوگوں میں سحر کی طرف خوانخواہ توجہ پیدا ہونے کا اندیشہ تھا) پس اس کنوئیں کو دفن کر کے بند کروا دیا گیا‘‘

علماء کو کہاں غلطی لگی؟

اصل میں غلطی علماء کو حدیث کو سمجھنے میں لگی اور انہوں نے اس پر تحقیق کرنے کی بجائے ظاہر پر ہی اکتفا کر لیا یا صرف ظاہر پر ہی اکتفا ء کرنا چاہا۔ پس یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ حکایت عن الغیر کا طریق کلام عربوں میں عام رائج تھا بلکہ خود قرآن مجید نے بھی بعض جگہ اس طرز کلام کو اختیار کیا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ دوزخیوں کو مخاطب کر کے خدا تعالیٰ فرماتا ہے:

ذُقۡ ۚۙ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡکَرِیۡمُ

(الدخان: 50)

یعنی اے جہنم میں ڈالے جانے والے شخص! تو خدا کے عذاب کو چکھ بے شک تو بہت عزت والا بڑا شریف انسان ہے۔

اب اس سے ہر گز یہ مراد نہیں لینا چاہئے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جہنم واصلین کو معزز کہا جا رہا ہے۔ بلکہ یہ انداز گفتگو ہے کہ اے وہ شخص جس کو اس کے ساتھی اور وہ خود بھی اپنے آپ کو معزز خیال کرتےتھے اب تو خدا کے عذاب کو چکھ لے۔ تو خود کو معزز اور دوسروں کو حقیر خیال کرتا تھا اب اس عذاب کا مزہ چکھ لو۔ بالکل ایسے ہی خواب میں ان دوآدمیوں یا دو فرشتوں نے اختیار کیا جو آنحضرتﷺ کو اس خواب میں نظر آئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے جو کہا کہ اسے جادو ہو ا ہے اس سے مراد بھی وہی تھی کہ لوگوں کے خیال کے مطابق اسے سحر ہو گیا ہے اور لوگوں کے خیال کا انہوں نے وہاں ذکر کیا ہے۔

قرآنی دلیل

ایسے نام نہاد علماء کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ

لَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی

(طٰہٰ: 70)

یعنی ایک ساحر خواہ کوئی سا طریق اختیار کرے وہ خدا کے ایک نبی کے مقابل پر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔

اب کیا خدا تعالیٰ نعوذباللہ کمزور پڑ گیا تھا کہ اپنے اس وعدے کو پورا نہ کرتا۔ یا ان کے جادو کی طاقت خدا تعالیٰ کی طاقت سے زیادہ ہو گئی تھی۔ جو خدا تعالیٰ اپنا وعدہ پورا نہ کر سکا (مَعَاذَاللّٰہِ)

رؤیا کا اصل مقصد

خواب کی اصل غرض یہ تھی کہ جو چیز ان خبیثوں نے چھپا کر ایک کنوئیں میں رکھی ہوئی تھی اور ا س کے ذریعہ وہ اپنے ہم مشرب لوگوں کو دھوکا دیتے تھے اسے خدا اپنے رسول پر ظاہر کر دے تا ان کے اس مزعومہ سحر کو ملیا میٹ کر دیا جائے۔ اور درحقیقت ایسا ہی ہوا کہ ان کے آلہ سحر کو سپرد خاک کر دیا گیا اور بالواسطہ طور پر اس کے نتیجہ میں آنحضرتﷺ کی طبیعت کا یہ فکر بھی کہ یہ لوگ اس قسم کی شرارتیں کر کے سادہ مزاج لوگوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں زائل ہو گیا اور یہ خدائی وعدہ بڑی آب و تاب کے ساتھ پورا ہوا کہ:

لَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی

(طٰہٰ: 70)

اب اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ:
صلح حدیبیہ کے واقعہ کے بعد جس کی وجہ سے حضورﷺدوسروں کی لغزش کے خیال سے کافی فکر میں رہتے تھے اور انہی ایام میں آپ نے دردوں کے علاج کی غرض سے اپنے سر مبارک پر سینگیاں بھی لگوائی تھیں۔ آپ کچھ عرصہ کے لئے نسیان کے مرض میں مبتلا ہو گئے تھے اور آپ کوئی دنیوی باتیں جو گھریلو معاملات سے تعلق رکھتی تھیں بھول جاتے تھے۔

آپ کی اس حالت کو دیکھ کر یہودیوں اور منافقوں نے جو ہمیشہ ایسی باتوں کی آڑ لے کر اسلام اور مقدس بانی اسلام کو بدنام کرنا چاہتے تھے یہ مخفی چرچا شروع کر دیا کہ ہم نے نعوذ باللہ مسلمانوں کے نبی پر جادو کر دیا ہے۔ ان کا یہ چرچا ایسا ہی تھا جیسا کہ انہوں نے غزوہ ٔبنی مصطلق میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو بدنام کرنا شروع کر دیا تھا اوراس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تلخ کرنے کی ناپاک کو شش کی تھی۔

اس مزعومہ سحر کی ظاہری علامت کے طور پر تا کہ سادہ طبع لوگوں کو زیادہ آسانی سے دھوکا دیا جا سکے ان خبیث فطرت لوگوں نے یہودی النسل منافق لبید بن اعصم کے ذریعہ پرانے طریق کے مطابق ایک کنگھی میں کچھ بالوں کی گرہیں باندھ کر اسے ایک کنوئیں میں دبا دیا اور مخفی گپ بازی شروع ہو گئی جو حضورﷺ کی مزید پریشانی کا موجب ہوئی۔

حضورﷺ نے خدا تعالیٰ سے گھبراہٹ اور اضطراب سے دعائیں کیں کہ اے خدا! تو ہی اپنے فضل سے اس فتنہ کو روک اور لوگوں کو ٹھوکر کھانے سے بچا لے۔

خدا تعالیٰ نے حضورﷺ کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور لوگوں کے سامنے لبید بن اعصم کی شرارت کا پول کھول دیا۔ اس پر آپﷺ صحابہؓ کے ہمراہ اس کنوئیں تک گئے اور (مزعومہ) سحر زدہ کنگھی کو سپرد خاک کر دیااور ساتھ ہی کنواں بھی بند کروادیا۔

انبیاء کرام پر جادو اثر نہیں کرتا

آنحضرتﷺ کو خدا تعالیٰ نے ایسی قوت قدسیہ عطا کی تھی کہ آپﷺ پر کسی کے سحر کا اثر نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ قرآن کریم نازل کرنے والا خدا کہہ رہا ہے۔ قرآن کریم کی روشن اور واضح آیات سے آنحضرتﷺ کے وجود باجود کی عظمت سے ثابت ہے کہ آپﷺ سید ولد آدم اور تمام نبیوں کے سردار ہیں۔ رسولوں اور انبیاء علیہم السلام کی یہ شان نہیں ہوتی کہ ان پر جادو کا کچھ اثر ہو سکے۔

سحر تو حضرت سلیمانؑ پر نہ چل سکا نہ حضرت موسیٰؑ پر چل سکا نہ حضرت عیسیٰؑ اور نہ ہی کسی اور نبی پر جادو کا اثر ہوا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے سرور کائنات، شاہ دو جہاں، جس وجود کے لئے ہی تمام کائنات کی تخلیق ہوئی یعنی ہمارے سیدومولا، سید الانبیاء حضرت اقدس محمد مصطفٰی ﷺ پر جادو اثر کرتا۔

انبیاء کے مخالف بھی توانبیاء کے پیروکاروں پر یہی الزام لگاتے آئے ہیں کہ

یَقُوۡلُ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا

(بنی اسرائیل: 48)

ترجمہ: ظالم لوگ کہتے ہیں کہ تم ایک محض ایسے شخص کی پیروی کرتے ہو جو سحر زدہ ہے۔

اب دیکھا جائے تو یہ قول تو انبیاء کے مخالفین کا ہوا کرتا ہے اور یہ آج کل کے علماء کس طرح خود تسلیم کرتے ہیں کہ نعوذباللّٰہ من ذالک حضورﷺ پر جادو کا اثر ہو گیا تھا۔ ایک دوسرے مقام پر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
جادو بھی شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ رسولوں اور نبیوں کی یہ شان نہیں ہوتی کہ ان پر جادو کا کچھ اثر ہو سکے۔ بلکہ ان کو دیکھ کر جادو بھاگ جاتا ہے جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے: لَایُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی (طٰہٰ: 70) دیکھو حضرت موسیٰؑ کے مقابل پر جادو تھا۔ آخر موسیٰ غالب ہوا کہ نہیں؟ یہ بات بالکل غلط ہے کہ آنحضرتﷺ کے مقابلہ پر جادو غالب آگیا۔ ہم اس کو کبھی نہیں مان سکتے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ471)

یعنی

جادو بھی شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔

رسولوں اور نبیوں پر جادو کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کو دیکھ کر جادو بھاگ جاتا ہے۔

کسی خبیث نے اس واقعہ میں بعض باتیں ملا دی ہیں۔ ایسی باتیں کہنے والے تو ظالم ہیں نہ مسلمان۔ یہ تو بے ایمانوں اور ظالموں کا قول ہے۔

کیا نبی کو نسیان ہو سکتا ہے؟

یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ انبیاء کی دو حیثیتیں ہوتی ہیں۔ 1: وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مصفیٰ وحی پا کر خدا تعالیٰ کا پیغام دنیا تک پہنچانے کے لئے اس کا نبی اور رسول ہوتا ہے۔ 2: وہ انسانوں میں سے ایک انسان ہوتا ہے۔ اور اس کے ساتھ تمام انسانی قوانین لگے ہوتے ہیں اور وہ ان قوانین کا بطور انسان ماتحت ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ

(الکہف: 111)

یعنی اے رسول! تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں (اور تمام ان قوانین کے تابع ہوں جو دوسرے انسانوں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں) ہاں میں یقیناً خدا کا ایک رسول بھی ہوں اور خدا کی طرف سے مخلوق خدا کی ہدایت کے لئے وحی و الہام سے نوازا گیا ہوں۔

اس آیت میں نبیوں اور رسولوں کی دوہری حیثیت کو کمال عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔ یعنی انہیں ایک جہت سے دوسرے انسانوں سے ممتاز کیا اور دوسری طرف سے ان کو دوسرے انسانوں سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ پس اگر کوئی یہ کہے کہ نبی بشری لوازمات اور انسان کے طبعی خطرات سے بالا ہوتے ہیں وہ جھوٹا ہے۔ یقیناً نبی بھی دوسرے انسانوں کی طرح بیمار ہوتے ہیں اور ان کو بھی مختلف بیماریاں لاحق ہو تی ہیں جیسے کہ دوسرے انسانوں کو لاحق ہوتی ہیں۔ ہاں سوائے اس کے کہ کسی ایک نبی کو خدا کی طرف سے کسی خاص بیماری سے استثناء دیا گیا ہو۔

ایک اعتراض اور اس کا ازالہ

اگر کوئی شخص یہ بات کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تو کہا ہے کہ سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰی (الاعلیٰ: 7) یعنی ہم تجھے پڑھائیں گے تو کبھی نہیں بھولے گا۔ تو آپﷺ کو نسیان کیوں کر ہو گیا؟

یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ وعدہ صرف قرآنی وحی کے متعلق ہے نہ کہ عام اور اس جگہ مراد یہ ہے کہ اے نبی! ہم جو وحی تجھ پر امت کی ہدایت کے لئے نازل کریں گے اسے تو نہیں بھولے گا اور ہم قیامت تک اس کی حفاظت کریں گے۔ عام معمولات زندگی اور دنیوی باتوں کے متعلق یہ وعدہ ہر گز نہیں ہے۔

حضورﷺ نے خود ایک جگہ پر بیان فرمایا کہ

اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ اَنْسٰی کَمَا تَنْسَوْنَ فَاِذَا نَسِیْتُ فَاذْکُرُوْنِیْ

(ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب اذا صلیٰ خمسا)

یعنی میں بھی تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں اور جس طرح تم کبھی بھول جاتے ہو میں بھی بھول سکتا ہوں۔ پس اگر میں کسی معاملہ میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دلا دیا کرو۔

علماء گزشتہ کا کیا عقیدہ تھا؟

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں:
’’پس جس طرح آنحضرتﷺ کو کبھی کبھی عام او روقتی نسیان ہو جاتا تھا اسی طرح صلح حدیبیہ کے بعد کچھ عرصہ کے لئے بیماری کے رنگ میں نسیان ہو گیا۔ چنانچہ یہی وہ تشریح ہے جو سحر والی روایت کے تعلق میں بعض گزشتہ علماء نے کی ہے۔ مثلاً علامہ ماذری فرماتے ہیں:

قَدْ قَامَ الدَّلِیْلُ عَلیٰ صِدْق النَّبِیّﷺ وَلَا مُعْجزَاتُ شَاھِدَات بِتَصْدِیْقِہ وَاِمَّا مَا یَتَعَلَّق بِاُمُوْرِ الدُّنْیَا الَّتِیْ لَمْ یُبْعَثُ لِاَجلِھَا فَھُوَ فِی ذَالِک عُرْضَۃَ لِّمَا یُعْرَضُ مِنَ الْبَشَرِ کَا لاَمْرَاض

(فتح الباری شرح بخاری جلد نمبر10 صفحہ177)

یعنی آنحضرتﷺ کی صداقت پر بے شمار پختہ دلائل موجود ہیں اور آپﷺ کے معجزات بھی آپ کی سچائی پر گواہ ہیں۔ باقی عام دنیا کے امور جن کے لئے آپﷺ مبعوث نہیں کئے گئے تھے سو اس تعلق میں یہ ایک بیماری کا عارضہ سمجھا جائے گا جیسا کہ انسان کو دوسری بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔

اور علامہ ابن القصار فرماتے ہیں:

الَّذِیْ اَصَابَہٗ کَانَ مِنْ جِنْسِ الْمَرَ ض، بقولہ فی اٰخِرِ الحَدِیْثِ اِمَّا اَنَّہٗ فَقَدْ شفانی

(فتح الباری شرح بخاری جلد نمبر10 صفحہ177)

یعنی آنحضرت کو جو یہ عارضہ نسیان کا پیش آیا تو یہ بیماریوں میں سے ایک بیماری تھی جیسا کہ حدیث کے ان آخری الفاظ سے ظاہر ہے کہ اللہ نے مجھے شفا دے دی ہے۔

(مضامین بشیر جلد سوم صفحہ652-653)

نتیجہ

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں:
’’خلاصہ کلام یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرتﷺ کی مذکورہ حالت جسے دشمنوں کے سحر کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے وہ ہر گز کسی سحر وغیرہ کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ پیش آمدہ حالات کے ماتحت محض نسیان کی بیماری تھی جسے بعض فتنہ پرداز لوگوں نے رسول پاک کی ذات والا صفات کے خلاف پراپیگنڈے کا ذریعہ بنا لیا۔ قرآن مجید نبیوں پر سحر کے قصہ کو دور سے ہی دھکے دیتا ہے۔ عقل انسانی اسے قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔ حدیث کے الفاظ اس تشریح کو جھٹلاتے ہیں جو اس پر مڑھی جا رہی ہے۔ اورخود سرورکائنات افضل الرسل کا ارفع مقام سحر والے قصے کے تارپود بکھیر رہا ہے۔‘‘

(مضامین بشیر جلد سوم صفحہ653)

(محمد افضل بٹ۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ