• 19 مئی, 2024

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک حسین پہلو

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک حسین پہلو سادگی، مسکینی اور قناعت بھی تھا۔ جس کی آپؐ نے ہمیں تعلیم بھی دی اور اپنے عمل سے مثالیں بھی قائم فرمائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:آنحضرتﷺ کی یہ شان ہے وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُتَکَلِّفِیۡنَ (صٓ:87) یعنی میں تکلف کرنے کا عادی نہیں ہوں۔ آپؐ کے قول کے ساتھ ساتھ آپؐ کا ہر فعل بھی تصنع اور بناوٹ سے پاک تھا، تکلف سے پاک تھا۔ ہر عمل میں سادگی بھری ہوئی تھی۔ اور تصنع اور تکلّف سے پاک زندگی کا اتنا اونچا معیار تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ سے یہ اعلا ن کروایا۔ اللہ تعالیٰ نے جو دلوں کو جانتا ہے، جس نے آپؐ کو مبعوث فرمایا، آپؐ پر شریعت اتاری، آپؐ سے یہ اعلان کروایا کہ دنیا کو بتا دو کہ میں تمام تر تکلّفات سے پاک ہوں۔ میری زندگی میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو دنیا کی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان کو کبھی استعمال کرنے کی ضرورت ہو تو استعمال تو کرتا ہوں لیکن وہی زندگی کا مقصود و مطلوب نہیں ہیں بلکہ ان کا استعمال بھی اللہ تعالیٰ کے حکم تحدیث نعمت کی وجہ سے ہی ہے۔ اور اگر مجھے کوئی چیز پسندہے، اگر کوئی میری مرغوب چیز ہے، اگر میرا کوئی مطلوب و مقصود ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اللہ تعالیٰ کا پیار ہے۔ یہ دنیا کی چیزیں تو عارضی ٹھکانہ ہیں اور جہاں اپنے عمل سے ہمیں یہ دکھایا کہ یہ دنیاوی چیزیں میرا مقصد حیات نہیں ہیں وہاں یہ تعلیم بھی دی کہ دنیا کی آسائشیں اور نعمتیں تمہارے فائدہ کے لئے تو ہیں، ان سے فائدہ اٹھاؤ لیکن ان دنیاوی چیزوں کو ہی سب کچھ سمجھ نہ بیٹھو۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی چاہئے اور اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو سادگی اور قناعت ہی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بنتاہے۔ یہی چیزیں ہیں جو تمہیں خدا کا قرب دلانے کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن اگر تم دنیا کے آرام و آسائش کی تلاش میں پڑ گئے اور اس قدرپڑ گئے کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا بھی بھول گئے تو پھر آہستہ آہستہ یہی چیزیں تمہارا مطلوب و مقصود ہو جائیں گی اور مستقل طور پر اللہ تعالیٰ کی یاد آہستہ آہستہ دل سے نکل جائے گی۔ اس بارے میں قرآن کریم نے ہمیں متعدد جگہ پر نصیحت فرمائی۔ حکم دیا ہے کہ دنیاکی چیزوں کوہی مقصود نہ سمجھو۔ جیسا کہ فرماتا ہے وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ زَہۡرَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۬ۙ لِنَفۡتِنَہُمۡ فِیۡہِ ؕ وَ رِزۡقُ رَبِّکَ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی (طٰہٰ: 132) اور اپنی آنکھیں اس عارضی متاع کی طرف نہ پسار جو ہم نے ان میں سے بعض گروہوں کو دنیاوی زندگی کی زینت کے طور پر عطا کی ہے تاکہ ہم اس میں ان کی آزمائش کریں۔ اور تیرے رب کا رزق بہت اچھا اور باقی رہنے والا ہے۔

پس فرمایا کہ اس دنیاوی رزق اور اس کے سامانوں کو سب کچھ نہ سمجھ لو۔ اور اس کو اتنی حسرت سے نہ دیکھو کہ پتہ نہیں یہ کتنی بڑی نعمت ہے۔ دنیا کی چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں یقینا نعمت ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا اول طور پر پیش نظر رہے۔ ورنہ یہی نعمتیں اگراللہ سے دور لے جانے والی چیزیں بن جائیں تو وہ نعمت نہیں رہتیں بلکہ لعنت بن جاتی ہیں۔

(خطبہ جمعہ 12 اگست 2005ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جولائی 2021