• 26 اپریل, 2024

جمائی

جمائی ایک ایسا عمل ہے جس کے تین حصے ہیں۔ پہلے حصے میں انسان آہستہ آہستہ منہ کھول کر لمبا سانس اندر لیتا ہے۔ دوسرے حصے میں وہ بڑے خوفناک حد تک منہ کھولتا ہے جس سے اندرون منہ اور دانت صاف دکھائی دیتے ہیں۔ تیسرا حصہ جب و ہ لمبا سانس باہر نکالتا ہے۔ ساتھ ساتھ ایک عجیب جانور جیسی آواز بھی نکالتا ہے۔ اکثر اسی عمل کے ساتھ گردن، بازوؤں اور جسم میں تناؤ پیدا کرتا ہے۔ یہ سارا عمل قریباً 5سیکنڈ کا ہوتا ہے۔ اگر یہی عمل جو 5سیکنڈ کے لئے ہوتا ہے Slow motion میں دیکھا جائے تو ہر دیکھنے والے کو یہ نظارہ نا پسندیدہ لگے گا اور لازماً ایک حد تک کراہت محسوس کرے گا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ ترین اخلاق کے مالک تھے انہوں نے انسانیت کونہ صرف خدا تعالیٰ سے جوڑا بلکہ معاشرتی اقدار کو نہایت احسن رنگ میں ہمارے سامنے پیش کیا اور واضح طور پر روزمرہ کے اخلاق فاضلہ کا سبق سکھایا۔ جمائی کے بارہ میں ناپسندیدگی کا اظہار اپنے اندر نفسیاتی، اخلاقی اور طبی نقصانات رکھتا ہے۔ اس زمانہ میں خصوصاً جب دنیا سمٹ کر ایک Global village کا نقشہ پیش کرتی ہے اس لئے معاشرتی اور اخلاقی خلق ہماری زندگی کا اہم حصہ بن گئی ہے۔ سکول کالج اور یونیورسٹیوں کا قیام، Meetings، سیمینارز، جلسہ اور دیگر تقریبات میں ہمارا باہمی تعلق آپس میں بہت بڑھ گیا ہے۔ یہ اس بات کا تقاضا کر تا ہے کہ social skills اور social etiquettes کا بڑھ کر پاس رکھا جائے۔ کسی بھی میٹنگ یا social gathering میں جمائی لینا معیوب سمجھا جا تاہے۔ آس پاس کے لوگوں کا رجحان تبدیل ہو جاتا ہے۔ جمائی لینے والا اپنے عمل سے عدم دلچسپی، اکتاہٹ اور لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے۔ وہ باتیں جو توجہ سے سننے والی ہوتی ہیں ان میں خلل واقع ہوتا ہے۔ نتیجۃً خود، دیگر احباب اور منتظمین و مقررین کی توجہ بٹتی ہے۔ جمائی لینا یقیناً ایک نا پسندیدہ فعل ہے اورحسن معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔

جماعت احمدیہ جو اس زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کو ساری دنیا میں پیش کرنا چاہتی ہے ان کو ان باتوں کا خصوصیت سے خیال رکھنا چاہئے،۔ ہمیں سب جماعتی تقریبات اور خصوصاً حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کے خطبات میں ان بنیادی معاشرتی اخلاق کا پاس رکھنا چاہیے۔ اور ہمارے پیار ے آقا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عمل کو ناپسندیدہ فرمایا ہے اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ یہ ایک معاشرتی خرابی ہے اسی لئے آپ ﷺ نے حدیث میں تاکید فرمائی کہ۔
’’۔۔۔۔۔۔ اور جو جمائی ہے تو وہ شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔اسے جہاں تک ہو سکے روکے۔‘‘

ان الفاظ میں بھی ایک گہرا پر حکمت راز مضمر ہے۔ یہ ایک فطرتی عمل ہے اور تحقیق کئی پہلوؤں سے yawning کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ صرف تھکاوٹ اور اکتاہٹ کا نتیجہ نہیں بلکہ موجودہ ریسرچ بتاتی ہے کہ جمائی oxygen اور carbon dioxide کے توازن کو قائم کرتی ہے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جمائی خون کو دماغ تک پہنچانے میں مدد دیتی ہے اور دماغ کو ٹھنڈا (alert) کرتی ہے۔ غور کریں کہ جمائی کا لینا کسی کے بس میں نہیں ہے اور ہر انسان باوجود کوشش کے اس کو روک نہیں سکتا۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ عادت بنائے کہ جہاں تک ممکن ہو اپنے منہ کو بند رکھے۔ ہاتھ یا بازو کو منہ کے سامنے رکھے، منحوس آواز نہ نکالے اور اپنے جسم کو جانوروں کی طرح بد نما انگڑائی نہ دے۔جمائی کا سارا منظر نہایت بد نما اور نا پسندیدہ ہے اسی لئے رسول کریم ﷺ نے صحیح فرمایا:
’’او رجب جمائی لیتا ہے تو شیطان اس پر ہنستا ہے۔‘‘

ایک اور معاشرتی خرابی بھی جمائی لینے سے جنم لیتی ہے۔ ماہر نفسیا ت کے مشاہدہ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جمائی contagious ہے۔ اور آس پاس کے احباب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اور وہ بھی جمائی لینا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح ساری محفل کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ اور مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ یہ بات ماہر نفسیات کے تجربہ میں آئی ہے کہ جن گھروں میں کتے اور بلیا ں گھر کے افراد کو جمائی لیتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ بھی جمائی لینی شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ نہایت مضحکہ خیز منظر دکھائی دیتا ہے اور لفظ بہ لفظ رسول کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ ’’تو شیطان اس پر ہنستا ہے‘‘ پورا اترتا ہے۔

جمائی لینے سے انسان بیماریوں کو بھی لوگوں میں پھیلاتا ہے۔ اس لئے ایک وجہ Airborne diseases کی جمائی لینا بھی ہے۔ اور آجکل جب Covid-19 کی بیماری عروج پر ہے اس لئے جمائی کو روکنے کے لئے جو احتیاطی تدابیر کا ذکر ہے اس پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔

جمائی لینا والا ایک قبیح فعل کا اس وقت مظاہرہ کرتا ہے جب سب کے سامنے اپنا منہ کھول کر اپنا اندرون ظاہر کرتا ہے اور عفونت پھیلاتا ہے۔ یہ حرکت ساتھ بیٹھنے والوں کے لئے نفرت انگیز مناظر پیش کرتی ہے۔ Marriage counsellors نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میاں بیوی کے باہمی تعلقات میں متواتر جمائی لینا دوری پیدا کر دیتی ہے اور مغربی معاشرہ میں بعض اوقات طلاق پر نوبت آجاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ مصر کا مشہور فرعون Ramesses II جو کہ حضرت موسیٰ ؑ کے وقت فرعون تھا Excessive yawning کیا کرتا تھا۔ جس کی وجہ شدید دانتوں اور کمر کی تکلیف تھی۔ اس کی بیوی (جس نیک عورت نے حضرت موسیٰؑ کو پالا) مذہبی اختلاف کے علاوہ اس کے منہ کی شدید عفونت کی وجہ سے علیحدہ رہتی تھی۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ جس شاہی محل کے کمرے میں وہ جمائی لیتا تھا وہ کمرہ Putrid smell کیوجہ سے بیٹھنے کے قابل نہیں ہوتا تھا۔یقیناً انسان کا حسن اس کا چہرہ اور منہ ہے اس پر مسکراہٹ اور خندہ پیشانی اس حسن کو دوبالا کر دیتی ہے۔ شاید اسی لئے منہ کھول کر بلند آواز سے قہقہہ لگانے کو رسول کریم ﷺ نے ناپسند فرمایا ہے۔

مذکورہ بالا حدیث میں آپ ﷺ نے یہ فرمایا
’’او رجب جمائی لیتا ہے تو شیطان اس پر ہنستا ہے۔‘‘

اس میں بھی ایک گہرا راز پوشیدہ ہے۔ ’’شیطان‘‘ لفظ اشارہ ذہنی، معاشرتی، جسمانی، روحانی اور طبی بیماریوں کے مجموعہ کی طرف ہے۔ شیطان جس کے بارہ میں آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ ’’شیطان ہر انسان کے خون میں دوڑتا ہے‘‘ یعنی یہ بیماریوں کا مجموعہ (شیطان) یا تو انسان کے اندر سے پیدا ہوتا ہے یا باہر کے ماحول کے اثرات سے پیدا ہوتا ہے۔

طبی ماہرین نے حالیہ ریسرچ سے حتمی طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ Excessive yawning متعدد بیماریوں کا یا تو پیش خیمہ ہے یا ان کا حصہ ہے۔ ان میں بعض مندرجہ ذیل ہیں:

ذہنی بیماریاں

Sleep disorder, Depression, Anxiety, Stress, Autism, Schizophrenia

دماغی بیماریاں

Brain tumor, Stroke, Epilepsy

جسمانی بیماریاں

Heart attack, Hypoglycaemia, Liver failure, Obstructive Sleep Apnoea

نشہ آور اشیاء

Drug Abuse

یہ چند ایک ’’شیطان‘‘ ہیں جو انسان پر حملہ کرتے ہیں اور وہ بدنصیب اس کے زیر اثر آجاتے ہیں۔

اس ضمن میں اس حدیث ہر غور کرنے سے یہ بھی حکمت سمجھ میں آتی ہے کہ: ’’جب جمائی لیتا ہے تو شیطان اس پر ہنستا ہے‘‘۔ اور شیطان (یعنی بیماریاں) حاضر کے ایسے انسان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’اے بد بخت انسان تُو تو ایسا احمق ہے کہ باوجود دنیاوی ترقیات، مختلف دنیاوی علوم میں مہارت حاصل کرنے کے اور اپنی ذات پر فخر کرنے کے تیرے عمل کتنے مضحکہ خیز ہیں کہ ہنسی آتی ہے اور بظاہر چھوٹے سے چھوٹے انسانی عمل (یعنی جمائی) کو نہ سمجھنے میں میرا (یعنی شیطان کا) شکار ہو جاتا ہے۔

پس ہمارے اطباء، ریسرچ سکالرز اور مربیان کے لئے بھی ایک توجہ طلب بات ہے کہ ’’ احمدیوں اس زمانہ میں جہاں تم روحانی میدان میں اللہ تعالیٰ سے اپنا رابطہ جوڑو وہاں رسول کریم ﷺ کی اس حدیث کی روشنی میں دُنیاوی میدان کے رہبر بنو۔ لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے خود ہر چھوٹی سے چھوٹی بات ہر غور کرو اور عمل کرو اور پھر ساری دنیا کو اللہ تعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک حسین اسلامی معا شرہ کی تشکیل کرو۔

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

مرے وطن ! مجھے تیرے افق سے شکوہ ہے