• 27 جولائی, 2025

سمندر جو صحراء بن گیا

دنیا میں اب تک ہونے والی سب سے بڑی تباہ کن ماحولیاتی تبدیلی جس نے موجیں مارتے سمندر کو ریت اڑاتے صحراء میں بدل دیا۔ کئی ملین لوگ اس سے متاثر ہوئے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے، وہاں موجود سمندری مخلوق صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ سینٹرل ایشا میں موجود ازبکستان جو کہ دہرا لینڈ لاکڈ خطہ (land locked) ہے جہاں چند عشروں قبل دنیا کی چوتھی بڑی ٹھاٹھیں مارتی جھیل موجود تھی۔ اس میں بڑی تعداد میں مچھلیاں اور دوسری آبی حیات پائی جاتی تھیں جو ماہی گیروں کا ذریعہ معاش بھی تھا۔

اس سانحے کی ابتداء تب ہوئی جب سویت یونین کے دور میں اس جھیل کو پانی پلانے والے دریا کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس پانی کو زراعت کے لیے استعمال کرنے اور بعض صنعتوں کو مہیا کرنے کا منصوبہ بنا۔ اب قدرت کے ساتھ اس انسانی چھیڑ چھاڑ کے تباہ کن نتائج کا سامنا ہے۔ اس منصوبے کے باعث جھیل میں پانی پہنچنے کا واحد ذریعہ ختم ہو گیا۔ نتیجۃً تمام پانی بخارات بن کر ہوا میں تحلیل ہونے اور زمین جذب ہونے کے باعث ختم ہوگیا۔

چھوٹی چھوٹی بندرگاہیں ویران ہوتی گئیں اور وہاں موجود کشتیاں اور جہاز زنگ کی خوراک بنتے گئے۔ 7000 کیوبک میڑ پر پھیلا پانی سمٹ کر فقط 70 میٹرکیوبک فٹ تک رہ گیا ہے۔ باقی رہ جانے والے پانی میں موجود تمام مچھلیاں و دیگر آبی حیات مر چکی ہے کیونکہ یہ باقی ماندہ پانی اب نہایت نمکین ہو چکا ہے۔ جب یہ جھیل آباد تھی تب اس میں 35 اقسام کی رنگ برنگی مچھلیاں موجود تھیں۔ نہ صرف مچھلیاں بلکہ وہ پرندے بھی نہیں رہے جن کا انحصار مچھلیوں پر تھا۔اس علاقہ میں رہنے والے کیسپیئن ٹائیگر بھی ختم ہو چکے ہیں۔

کئی ملین افراد جو یہاں ماہی گیری اور اس سے وابستہ ذرائع معاش رکھتے تھے یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ایک مقامی شخص اس بارے میں انٹرویو لینے والے کو بتاتے ہوئے رو پڑا، اس کا کہنا تھا کہ اس سمندر کو صحراء میں تبدیل ہوتے ہوئے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

اس سے صرف مقامی افراد ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ کئی سو کلومیٹر دور رہنے والوں کو بھی اس کے بھیانک نتائج کا سامنا ہے۔ پانی خشک ہونے کے بعد پیچھے بچنے والا نمک اور ریت ہوا کی مدد سے سینکڑوں کلومیٹر دور پہنچ کر فصلوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ نہ صرف فصلیں متاثر ہو رہی ہیں بلکہ لوگوں میں پیشاب سے متعلق تکالیف کی شکایات اور دیگر عوارض میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو رہا ہے۔ جھیل کے خاتمہ کے بعد اس سے ملحقہ علاقوں میں کینسر جیسے موذی مرض کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔

سویت یونین کے خاتمہ کے بعد آج کا جدید ازبکستان اس عمل کی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔

چناچہ اس واقع کو قومی سانحہ قرار دے کر عالمی سطح پر اس کے سدباب کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔یہ صرف ایک ملکی نہیں بلکہ عالمی سانحہ ہے۔ ایک چھوٹے سے علاقہ کے قدرتی ماحول میں کی گئی چھوٹی سی تبدیلی کتنی تباہ کن ہو سکتی ہے یہ اس کی بد ترین مثال ہے۔ متعلقہ عالمی ادارے اب اس بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کیونکہ اس طرح کی ماحولیاتی تبدیلی صرف آبی حیات کو ہی نہیں انسانی آبادیوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ہمیں اپنی زمین کی حفاظت کرنا ہوگی ورنہ اس کے قدرتی ماحول کو برباد کرنے کا مطلب اپنے لیے بربادی کے سامان کرنے کے مترادف ہوگا۔

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

مرے وطن ! مجھے تیرے افق سے شکوہ ہے