پھر وہی بارشوں کا موسم ہے
سانولے بادلوں کا موسم ہے
پھر صبا نے ہے زلف کو چھیڑا
حشر سامانیوں کا موسم ہے
ایسے ساون میں جی مچلتا ہے
جل ترنگ گھنگھروں کا موسم ہے
پھر سے جاگی ترنگ جینے کی
جل تھلوں رم جھموں کا موسم ہے
حسن اور عشق کی کہانی میں
کوندتی بجلیوں کا موسم ہے
ہنس کے کلیاں چمن میں کھلتی ہیں
پھیلتی خوشبوؤں کا موسم ہے
رنگِ برسات میں نہائی ہوئی
رنگا رنگ تتلیوں کا موسم ہے
بھیگے موسم نے درد بانٹ لیا
کیسی برکھا رتوں کا موسم ہے
دل کا ہر زخم پھر ہرا ہو گا
بھیگی بھیگی رتوں کا موسم ہے
بھیگی پلکوں نے پی لیے آنسو
یاد کے آنسوؤں کا موسم ہے
(امجد خان – سڈنی)