تعارف صحابہؓ
حضرت منشی بقا محمد صاحب رضی اللہ عنہ۔ رہتاس ضلع جہلم
حضرت منشی بقا محمد صاحب رضی اللہ عنہ ولد میاں امام بخش صاحب قوم کھوکھر رہتاس ضلع جہلم کے رہنے والے تھے اور سکول میں مدرس تھے۔ آپ قریبًا 1886ء میں پیدا ہوئے۔ 1907ء میں آپ بوچھال کلاں ضلع چکوال میں متعین تھے جہاں سے سلسلہ احمدیہ کا تسلی بخش مطالعہ کر کے بیعت کا خط لکھ دیا، اخبار بدر میں ’’سلسلہ حقہ کے نئے ممبر‘‘ کے تحت آپ کا نام ’’بقا محمد۔ رہتاس جہلم‘‘ (بدر 18؍جولائی 1907ء صفحہ 13) آپ کی بیعت کا اندراج جب اخبار بدر میں شائع ہوا تو مولوی محمد ابراہیم سیالکوٹی ایڈیٹر رسالہ ’’الہادی‘‘ نے آپ کو بذریعہ خط لکھا:
’’محبّ من منشی بقا محمد صاحب!
بعد سلام مسنون واضح آنکہ اخبار بدر ….. میں زیر عنوان ’’سلسلہ حقہ کے نئے ممبر‘‘ آپ کا نام بھی درج شدہ دیکھا، حیران ہوا کہ …. قادیانی کی مریدی کا خیال کس طرح ہو سکتا ہے؟….. اول تو مجھے اس خبر کی صحت میں شک ہے۔ دوم اگر سچی بھی ہے تو آپ گرمیوں کی رخصتوں میں سیالکوٹ میں آکر مجھ سے ملاقات کر جاویں ….. آپ کا خیر خواہ
خاکپائے محمد ابراہیم ایڈیٹر رسالہ الہادی
6؍اگست 1907ء‘‘
جب آپ نے یہ خط پڑھا تو بڑے پُر معارف طریقے سے تفصیلی اس کا جواب دیا جو اخبار بدر میں شایع ہوا، اس کا کچھ حصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے جس سے آپ کے ایمان کا علم ہوتا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
’’مکرمی مولوی صاحب!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔ آپ کا نوازش نامہ پہنچا، کئی ایک وجوہات سے جواب سے قاصر رہا۔ آپ نے لکھا ہے کہ ….. سلسلہ حقہ کے نئے ممبر آپ کا نام بھی درج شدہ دیکھا، الحمد للہ و شکر اللہ، بندہ اس نعمت غیر مترقبہ کا شکر کس زبان سے ادا کرے، بندہ کو وہ لفظ نہیں ملتے جس سے ایسی نعمت کا شکریہ ادا کروں
بھر گیا ہے گل امید سے دامن اپنا
باغبان مبارک رہے تجھے گلشن اپنا
آگے چل کر بندہ کو سیالکوٹ میں ملاقات کے واسطے مدعو کرتے ہیں، وہ کس واسطے؟ صرف اسی واسطے کہ حضرت مرزا صاحب کی غلامی سے جس کو نیازمند ایک فخر کی نگاہ سے خیال کرتا ہے، ہٹایا جاوے۔ خداوند کریم اپنے عاجز اور کمزور انسان پر رحم کرے، آمین۔اب بندہ حضرت مرزا صاحب مسیح موعود کی تعلیم کا لب لباب آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہے اور انصاف چاہتا ہے کہ کیا وہ تعلیم حق ہے یا نہیں اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے مطابق ہے یا نہیں اور انسان کی پیروی کے لیے ذریعہ نجات ہے یا نہیں؟ پھر ان کی تعلیم کے برخلاف آپ وہ تعلیم بیان کریں جس پر انسان چل کر نجات حاصل کر سکے، پھر بندہ سیالکوٹ آپ کی خدمت میں ضرور حاضر ہوجائے گا …..
بے شک طالب حق ہوکر میرے اعتراضات کا جواب از ادلّہ قرآن کریم و سنت کریم، احادیث صحیحہ نبویہ سے دیا جاوے، صرف مجھے حق کی ضرورت ہے اور اسی کو اختیار کیا ہے۔ کسی خاص فرقہ سے انس و محبت متعصبانہ نہیں صرف احکام ربّی کو سمجھنے اور اُن پر چلنے کی ضرورت ہے اور اسی کو قال اللہ و قال الرسول کہا جاتا ہے جس کا نمونہ آج کل مرزا صاحب ہیں اور بس اور اسی وجہ سے قادیانی کی مریدی کا خیال آیا ؎
مشک آن ہست کہ خود ببوید نہ آنکہ عطا گوید
جواب کا منتظر خادم
(بدر 19؍ستمبر 1907ء صفحہ 8،9)
آپ بطور مدرس مختلف جگہوں پر متعین رہے اور احمدیت کا پیغام پہنچاتے رہے۔ اخبار الفضل میں آپ کے حوالے سے ایک خبر یوں درج ہے: ’’چک عبدالخالق ضلع جہلم سے منشی بقا محمد صاحب مدرس لکھتے ہیں منشی گلاب الدین صاحب رہتاسی ہر اتوار کو احمدی، غیر احمدی مرد عورتوں میں احمدیت کا وعظ سناتے ہیں۔ الحمد للہ کہ غیر احمدی اب بہت دلچسپی سے وعظ کو سننے لگے ہیں۔ منشی صاحب موصوف احمدی احباب سے دعا کی بھی درخواست کرتے ہیں۔‘‘
(الفضل 14؍ستمبر 1915ء صفحہ 1 کالم 3)
آپ نے 1922ء میں قریبًا 36 سال کی عمر میں وفات پائی اور رہتاس میں دفن ہوئے۔ آپ بفضلہٖ تعالیٰ موصی (وصیت نمبر 1781) تھے، یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے۔ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خطبہ جمعہ 17؍نومبر 1922ء کے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:
’’آج جمعہ کی نماز کے بعد بقا محمد صاحب مدرس کا جنازہ پڑھوں گا جو ایک مخلص شخص تھے اور رہتاس میں رہتے تھے۔ وہاں اکیلے تھے اور ان کا جنازہ وہاں نہیں پڑھا گیا۔‘‘ (الفضل 4؍دسمبر 1922ء بحوالہ خطبات محمود جلد 7 صفحہ 415).آپ کے پڑنواسے مکرم فرحان احمد رچمنڈ ہل، ٹورانٹو نے آپ کے اہل و عیال کے متعلق اپنے خاندان کے بڑوں سے درج ذیل معلومات اکٹھی کر کے مہیا کی ہیں۔
حضرت منشی بقا محمد صاحبؓ نے پسماندگان میں ایک بیوہ محترمہ استانی فضل نور صاحبہ اور دو کمسن بچیاں امۃ العزیز عمر 10 سال اور رحمت الٰہی بعمر 5 سال چھوڑیں۔ آپ کی اہلیہ استانی محترمہ فضل نور صاحبہ نے وصیت کے ریکارڈ کے مطابق 1920ء میں بیعت کی۔ انہوں نے دو یا تین جماعتیں پاس کی ہوئی تھیں۔حضرت ماسٹر صاحب نے ترکہ میں صرف ایک مکان چھوڑا تھا اور کوئی صورت گذارے کی نہیں تھی۔ رشتے دار بھی سب غیر احمدی تھے۔ خاوند کی اچانک وفات کے بعد اپنی کمسن بچیوں کو لے کر آپ اپنے بھائی جو کہ غیر احمدی تھے، کے پاس راولپنڈی چلی گئیں۔ اس باہمت خاتون نے وہاں جاکر دوبارہ پڑھائی شروع کر دی اور اپنی چھوٹی بیٹی رحمت الٰہی کے ساتھ پرائمری تعلیم مکمل کی اور رہتاس واپس آکر بطور استانی نوکری کی اور قریباً 25 سال تک پڑھاتی رہیں۔ آپ نے اپنی بچیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ محترمہ استانی فضل نور صاحبہ نے مورخہ 12؍دسمبر 1969ء کو وفات پائی اور بوجہ موصیہ (وصیت نمبر 1761) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔
آپ کی بڑی بیٹی محترمہ امۃ العزیز صاحبہ(وفات: 7؍اکتوبر 1993ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) کی شادی سلسلہ احمدیہ کے دیرینہ خادم محترم قاری محمد امین صاحب ابن حضرت قاری غلام یاسین صاحبؓ کے ساتھ ہوئی۔ آگے اولاد میں 11 بچے (سات بیٹیاں اور چار بیٹے) تھے۔تین بیٹیاں نو عمری میں وفات پاگئیں باقی آٹھ بچوں نے لمبی عمریں پائیں۔ بیٹیوں میںمکرمہ امۃ الحفیظ صاحبہ اہلیہ شیخ محمد اکرم لاہور، مکرمہ امۃ النصیر صاحبہ اہلیہ محمد امین لندن، مکرمہ بشریٰ ثریا شاہدہ صاحبہ اہلیہ دین محمد شاہد ریٹائرڈ مربی سلسلہ حال کیلگری، مکرمہ خالدہ ادیب خانم صاحبہ اہلیہ پروفیسر سلیم احمد چودھری اسلام آباد شامل ہیں جبکہ بیٹوں میں مکرم محمد نصیر اطہر صاحب ٹورانٹو، مکرم خالد امیر صاحب لاہور، مکرم بشیر طارق صاحب سسکاٹون کینیڈا اور مکرم محمد سفیر صاحب ٹورانٹو کینیڈا شامل ہیں۔
دوسری بیٹی محترمہ رحمت الٰہی صاحبہ کی شادی محترم حافظ عبدالرحمٰن صاحب آف ڈیرہ غازی خان کے ساتھ ہوئی۔ دونوں میاں بیوی سکول ٹیچر ز تھے۔ مکرمہ رحمت الٰہی صاحبہ نے 31؍اگست 1950ء کو قریباً33سال کی عمر میں وفات پائی اور بوجہ موصیہ (وصیت نمبر4477) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔ ان کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ہی ان کے خاوند حافظ عبدالرحمٰن صاحب نے بھی 30؍مارچ 1953ء کو چک45/12 Lضلع ساہیوال میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ یہ بھی بفضلہ تعالیٰ موصی تھے۔ ان کی اولاد میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں تھیںجن میں مکرم بشارت الرحمان ظفرصاحب پورٹ لینڈ، امریکہ(ان کے بیٹے مکرم حارث ظفرصاحب جماعت امریکہ کے شعبہ امور خارجیہ کے ساتھ وابستہ ہیں)، مکرمہ ناصرہ رحمٰن صاحبہ زوجہ مکرم طفیل منیر خان صاحب، مکرمہ طاہرہ کلثوم صاحبہ زوجہ مکرم ریاض قدیر خان صاحب ایڈووکیٹ اورمکرمہ بشریٰ ناہید صاحبہ زوجہ مکرم عبدالرشید فوزی صاحب۔
٭…٭…٭
(مرتبہ: غلام مصباح بلوچ)