• 25 جولائی, 2025

تمہاری زلف میں پہنچی تو ۔۔۔

ایک مشہور شعر ہے:

؎ تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی

یہ شعر اس وقت پڑھا جاتا ہے جب کوئی شخص اس بات کو اپنے لئے جائز اور مستحسن قرار دے رہا ہو جسے وہ دوسرے کے لئے ناقابل پسندیدہ اور ناجائز سمجھتا ہے۔ غیر احمدی مسلمان علماء کے بہت سے فتاویٰ اور بیانات اسی شعر کے حسب حال ٹھہرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے بانی جناب ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایک کتابچہ بنام ’’ختم نبوت‘‘ تحریر فرمایا جس میں منجملہ دیگر دلائل کے ختم نبوت کی اپنی خود ساختہ تشریح کے حق میں ’’نئی نبوّت اب امّت کے لئے رحمت نہیں بلکہ لعنت ہے‘‘ کے زیرعنوان ایک دلیل یہ بھی پیش فرمائی۔ آپ لکھتے ہیں:
’’تیسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ نبی جب بھی کسی قوم میں آئے گا فوراً اس میں کفر و ایمان کا سوال اٹھ کھڑا ہوگا۔ جو اس کو مانیں گے وہ ایک امّت قرار پائیں گے اور جو اس کو نہ مانیں گے وہ لامحالہ دوسری امّت ہوں گے۔ ان دونوں امّتوں کا اختلاف محض فروعی اختلاف نہ ہوگا بلکہ ایک نبی پر ایمان لانے اور نہ لانے کا ایسا بنیادی ا ختلاف ہوگا جو انہیں اس وقت تک جمع نہ ہونے دے گا جب تک ان میں سے کوئی اپنا ایک عقیدہ نہ چھوڑ دے۔ پھر ان کے لئے عملًا بھی ہدایت اور قانون کے مأخذ الگ الگ ہوں گے۔ کیونکہ ایک گروہ اپنے تسلیم کردہ نبی کی پیش کی ہوئی وحی اور اس کی سنّت سے قانون لے گا اور دوسرا گروہ اس کے مأخذ قانون ہونے کا سرے سے منکر ہوگا۔ اس بناء پر ان کا ایک مشترک معاشرہ بن جانا کسی طرح بھی ممکن نہ ہوگا۔ ان حقائق کو اگر کوئی شخص نگاہ میں رکھے تو اس پر یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی کہ ختم نبوّت امّت مسلمہ کے لئے اللہ کی ایک بہت بڑی رحمت ہے جس کی بدولت ہی اس امّت کا ایک دائمی اور عالمگیر برادری بننا ممکن ہوا ہے۔ اس چیز نے مسلمانوں کو ایسے ہر بنیادی اختلاف سے محفوظ کردیا ہے جو ان کے اندر مستقل تفریق کا موجب ہوسکتا ہو۔ اب جو شخص بھی محمد ﷺ کو اپنا ہادی اور رہبر مانے اور ان کی دی ہوئی تعلیم کے سوا کسی اور مأخذ ہدایت کی طرف رجوع کرنے کا قائل نہ ہو وہ اس برادری کا فرد ہے اور ہر وقت ہوسکتا ہے۔ یہ وحدت اس امّت کو کبھی نصیب نہیں ہوسکتی تھی اگر نبوّت کا دروازہ بند نہ ہوجاتا کیونکہ ہر نبی کے آنے پر یہ پارہ پارہ ہوتی رہتی۔آدمی سوچے تو اس کی عقل خود یہ کہے گی کہ جب تمام دنیا کے لئے ایک نبی بھیج دیا جائے اور جب اس نبی کے ذریعے دین کی تکمیل بھی کردی جائے اور جب اس نبی کی تعلیم کو پوری طرح محفوظ بھی کردیا جائے تو نبوّت کا دروازہ بند ہوجانا چاہئے تاکہ اس آخری نبی کی پیروی پر جمع ہوکر تمام دنیا میں ہمیشہ کے لئے اہل ایمان کی ایک ہی امّت بن سکے اور بلا ضرورت نئے نئے نبیوں کی آمد سے اس امّت میں بار بار تفرقہ نہ برپا ہوتا رہے۔ نبی خواہ ’’ظلّی‘‘ ہو یا ’’بروزی‘‘۔ ’’امّتی‘‘ ہو یا صاحب شریعت اور صاحب کتاب، بہرحال جو شخص نبی ہوگا اور خدا کی طرف سے بھیجا ہوا ہوگا اس کے آنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے ماننے والے ایک امّت بنیں اور نہ ماننے والے کافر قرار پائیں۔ یہ تفریق اس حالت میں تو ناگزیر ہے جب کہ نبی کے بھیجے جانے کی فی الواقع ضرورت ہو، مگر جب اس کے آنے کی کوئی ضرورت باقی نہ رہے تو خدا کی حکمت اور اس کی رحمت سے یہ بات قطعی بعید ہے کہ وہ خوامخواہ اپنے بندوں کو کفر و ایمان کی کشمکش میں مبتلا کرے اور انہیں کبھی ایک امّت نہ بننے دے۔ لہٰذا جو کچھ قرآن سے ثابت ہے اور جو کچھ سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ عقل بھی اس کو صحیح تسلیم کرتی ہے۔ اور اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اب نبوّت کا دروازہ بند ہی رہنا چاہئے۔‘‘

(رسالہ ختم نبوت۔ صفحہ۔35 تا37)

مودودی صاحب کی مندرجہ بالا عبارت کا لب لباب یہ ہے کہ ہر نبی کی آمد سے لازمی طور پر انسانوں میں دو ایسے گروہ پیدا ہوجاتے ہیں جن میں سے ایک ایمان لانے والا اور دوسرا انکار کرنے والا ہوتا ہے اور اب اگر امت مسلمہ میں، جو مودودی صاحب کے بقول ایک متحد امت ہے (یا للعجب!) کسی نبی کی آمد کا اقرار کیا جائے تو امت کے اتحاد کے پارہ پارہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ مودودی صاحب اپنی قائم کردہ دعوت یعنی تحریک جماعت اسلامی کے بعینہٖ یہی نتائج و عواقب بیان فرماتے ہیں۔ 26 مارچ 1944ءکو پٹھانکوٹ میں تقریر کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا:
’’اس موقع پر میں ایک بات نہایت صفائی کے ساتھ کہہ دینا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس قسم کی ایک دعوت کا، جیسی کہ ہماری یہ دعوت ہے، کسی مسلمان قوم کے اندر اٹھنا اس کو ایک بڑی سخت آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ جب تک حق کے بعض منتشر اجزاء باطل کی آمیزش کے ساتھ سامنے آتے رہیں، ایک مسلمان قوم کے لئے ان کو قبول نہ کرنے اور ان کا ساتھ نہ دینے کا ایک معقول سبب موجود رہتا ہے اور اس کا عذر مقبول ہوتا رہتا ہے۔ مگر جب پورا حق بالکل بے نقاب ہوکر اپنی خالص صورت میں سامنے رکھ دیا جائے اور اس کی طرف اسلام کا دعویٰ رکھنے والی قوم کو دعوت دی جائے تو اس کے لئے ناگزیر ہوجاتا ہے کہ یا تو اس کا ساتھ دے اور اس خدمت کو انجام دینے کے لئے اٹھ کھڑی ہو جو امت مسلمہ کی پیدائش کی ایک ہی غرض ہے یا نہیں تو اسے رد کرکے وہی پوزیشن اختیار کرلے جو اس سے پہلے یہودی قوم اختیار کرچکی ہے۔ ایسی صورت میں ان دو راہوں کے سوا کسی تیسری راہ کی گنجائش اس قوم کے لئے باقی نہیں رہتی۔ یہ عین ممکن ہے کہ اس دوٹوک فیصلہ میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کو ڈھیل دے اور اس نوعیت کی یکے بعد دیگرے کئی دعوتوں کے اٹھنے تک دیکھتا رہے کہ وہ ان کے ساتھ کیا روش اختیار کرتے ہیں۔ لیکن بہرحال اس دعوت کی طرف سے منہ موڑنے کا انجام آخر کار وہی ہے جو میں نے آپ سے عرض کردیا۔ غیر مسلم اقوام کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ لیکن مسلمان اگر حق سے منہ موڑیں اور اپنے مقصد وجود کی طرف صریح دعوت سن کر الٹے پاؤں پھر جائیں تو یہ وہ جرم ہے جس پر خدا نے کسی نبی کی امت کو معاف نہیں کیا ہے۔ اب چونکہ یہ دعوت ہندوستان میں اٹھ چکی ہے۔ اس لئے کم از کم ہندی مسلمانوں کے لئے آزمائش کا وہ خوفناک لمحہ آ ہی گیا ہے۔ رہے دوسرے ممالک کے مسلمان تو ہم ان تک اپنی دعوت پہنچانے کی تیاری کررہے ہیں۔ اگر ہمیں اس کوشش میں کامیابی ہوگئی تو جہاں جہاں یہ پہنچے گی وہاں کے مسلمان بھی اسی آزمائش میں پڑ جائیں گے۔ میں یہ دعویٰ کرنے کے لئے تو کوئی بنیاد نہیں رکھتا کہ یہ آخری موقع ہے جو مسلمانوں کو مل رہا ہے اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ ممکن ہے ابھی کچھ اور مواقع مسلمانوں کے لئے مقدر ہوں۔ لیکن قرآن کی بنیاد پر میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانوں کے لئے یہ وقت ہے ایک نازک وقت۔‘‘

(روداد جماعت اسلامی: روداد اجتماع دارالاسلام: حصہ دوم صفحہ۔17 تا 20)

نبی کے آنے سے مومنین اور منکرین کے جن دو گروہوں کے قیام سے مودودی صاحب امت مسلمہ کو ڈرارہے ہیں اور نبوت کا دروازہ بند کرکے کفر و اسلام کی جس کشمکش سے وہ مسلمانوں کو بچانا چاہتے ہیں، جماعت اسلامی کے قیام سے مسلمانوں کو ، جنہیں وہ مسلمان کی بجائے ’’مسلمان کہلانے والی قوم‘‘ کہہ رہے ہیں،انہی دو ناگزیر راہوں کے پیدا ہونے کی خبردے رہے ہیں اور انہیں اسی آزمائش میں ڈال رہے ہیں جو ان کے بقول ایک نبی کی آمد سے پیدا ہوتی ہے۔ حیرت ہے کہ بانی جماعت احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نبوت کا دعویٰ کریں تو آپ کو پہلے سے پارہ پارہ امت کا اتحاد خطرہ میں دکھائی دے اور جب آپ خود دعویٰ مسیحیت و نبوت کئے بغیر مسلمانوں کو اپنی دعوت پیش کریں تو انہیں انکار کی صورت میں یہودی بننے کا ڈراوا دیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مودودی صاحب نے یہ تقریر 1944ء میں کی جبکہ ختم نبوت کا کتابچہ 1962ء میں تحریر فرمایا۔ گویا 1944ء کی بات چند سال بعد یعنی 1962ء میں ہی بھول گئے یا پھر وہی بات ہے کہ تمہاری زلف میں پہنچی تو…

(انصر رضا، واقفِ زندگی، کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 ستمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ