• 9 مئی, 2024

ناروے میں احمدیت

ناروے میں احمدیت
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی مرہونِ منت

تعارف مکرم نور بولستاد

مندرجہ ذیل مضمون جماعت ناروے کے اوّلین احمدی مسلمان ہونے والے ’’مکرم نور بولستاد‘‘ کی وہ تقریر ہے جو انہوں نے 20فروری 2022ء کو مصلح موعودؓ کے جلسہ پر کی تھی، خاکسار ان کی اجازت سے اس کاترجمہ کر کے قارئین الفضل کی خدمت میں پیش کر رہی ہے۔ اللہ کرے کہ قارئین کو پسند آئے۔

مکرم نور بولستاد اسکینڈے نیویا کے پہلے نارویجین احمدی تھے جنہوں نے دو اور نوجوانوں کے ساتھ 1957ء میں بیعت کی تھی۔ آپ نے اس مضمون میں اسکینڈے نیویا کی ابتدائی تاریخ جو پہلے احمدی مشنری مکرم سیّد کمال یوسف کے ساتھ مل کر احمدی مشن چلانے کے متعلق ہے کی ساری کاوش کو حضرت مصلح موعودؓ کی بے مثال محنتوں، صلاحیتوں اور اولوالعزمی کے اعتراف میں یومِ مصلح موعودؓ کے موقعہ پر جماعت ناروے کے سامنے بیان کیا ہے۔ یاد رہے کہ مکرم نور بولستاد کو حضرت مصلح موعودؓ نے اس وقت اعزازی مبلغ بھی تعینات کیا تھا۔ مکرم نور بولستاد اور مکرم سیّد کمال یوسف اسکینڈے نیویا کی تاریخ اور یہاں کے نوجوانوں کے لئے بہترین مدرس بھی ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ مسجد بیت النصر (ناروے) کے مرکزی کردار

آج کی مجلس میں، ہمارے خیالات اور ہمارے الفاظ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ پر مرتکز ہیں جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اور مصلح موعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ ایک ایسا دن ہے جس میں واقعی حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی پر کہنے والوں کے پاس بہت سی باتیں اور بہت سے الفاظ ہوتے ہیں۔ اس معزز مجلس کے اراکین جن میں بڑی عمر کے لوگ بھی ہیں اور نوجوان بھی ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے یہ باتیں پہلے بھی بارہاسنی ہوں گی۔ لیکن سنی ہوئی باتوں کو ایک مرتبہ دوبارہ سنتے ہوئے یہ کوشش کریں کہ ان میں سے کم ازکم آدھی باتوں پرہی عمل ہو جائے۔ یہ نوجوان جو میرے سامنے بیٹھے ہیں، ہوسکتا ہے سوچ رہے ہوں کہ آج کا موضوع ہمارے لئے غیر دلچسپ ہے اورہو سکتا ہے کہ یہ بھی سوچتے ہوں کہ یہ تو سب ماضی کی باتیں ہیں۔ میں آپ بڑی عمر کے لوگوں کو بھی اور نوجوانوں کو بھی ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں کہ دیکھو! مجلس کے مقررین کی تقاریر پر اور اس شخصیت پر جو آج کا مرکزی کردار ہے اپنی توجہ مر کوز کرو۔

اس لئے کہ آج کی حقیقت یہ ہے کہ آپ یہاں ایک خوبصورت مسجد بیت النصر میں بیٹھے ہیں۔ اس مسجد کے حوالے سے میں یہ کبھی نہیں بھولا کہ اس کی تعمیر میں بہت سے لوگوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں اور اس بات پر بچوں اور نوجوانوں کو اپنے بڑوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ اب میں ایک دفعہ پھر اسی طرف آتا ہوں اور یاد کرواتا ہوں کہ آج جو ہم سب اس مسجد میں موجود ہیں، یہ سب کچھ بنیادی طور پر اس دن کے مرکزی کردار (حضرت مصلح موعودؓ) کی وجہ سے ہے۔

ناروے میں جماعت کی مساجد کا مختصر خاکہ

ہم ایک فلاحی معاشرے میں رہتے ہیں، اگرچہ ناروے میں بھی اقتصادی لحاظ سے لوگوں میں فرق ہے کسی کے پاس پیسہ کم ہے کسی کے پاس زیادہ مگر یہ فرق اتنا زیادہ نہیں جتنا کہ باہر کی دنیا میں ہے۔حقیقت یہ ہےکہ ناروے کا معیارِ زندگی بہت بلند ہے۔جس کا دنیا کے دوسرے ممالک میں تصور نہیں کیا جاتا۔ اپنے بچپن اور جوانی سے لے کر اب تک میں نےاپنے ملک کے معیار زندگی کو ناقابلِ تصور حد تک بلند ہوتا دیکھا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک نے اس سے حظ اُٹھایا ہے، مجموعی طور پر ہماری جماعت نے بھی اقتصادیات کی خوشحالی کا لطف اٹھایا ہے۔

ہم احمدی مسلمان ہیں۔ ہم Muslim Faith Society Norway (احمدیہ مسلم جماعت ناروے) کے رکن ہیں۔ یہ وہ جماعت ہے جس کے پاس گزشتہ تیس برس سے محض واحد مسجد ’’نور‘‘ تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ کے کرم سے 2010ء میں ہمیں بیت النصر بنانے کی توفیق ملی۔ اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ اوسلو میں ہمار ے پاس ایک اور شاندار مسجد بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ اب ایک تیسری مسجد کرسچیان سنڈ (Kristiansand) میں بھی تیار ہوچکی ہے اور دوسرے بڑے شہروں ہمارے پاس Satavanger اور Trondheim میں بھی مشنری ہیں۔

اس مجلس میں بیٹھے زیادہ تر لوگ یہ جانتے ہیں کہ عام طور پر ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا کہ اتنی جلدی عبادت گاہوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے۔ مجھے یاد ہے کہ 66 برس قبل 1956ء میں یہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ بہت کم اسلام کا نام سنا تھا۔ لیکن کچھ ایسا ہوا کہ اس سال 1956ء میں ہمارے پڑوسی ملک سویڈن میں ایک مسلم مشنری آیا، یہ مکرم سید کمال یوسف صاحب تھے۔ اس وقت ناروے میں کسی مسلم مشنری کا آنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ مگر پھر 1978ء میں اللہ تعالیٰ نے ناروے کو ایک عمارت عطا کردی جسے مشن ہاؤس اور ‘‘مسجد نور’’کے طور پر استعمال میں لایا گیا، جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں۔

ناروے میں عیسائیت کی تعلیم کا زور

پیشتر اس کے کہ ناروے میں مسلم مشنری کی آمد کی داستان آپ لوگوں کے سامنے رکھوں، ناروے میں عیسائی مشنری کی تاریخ کا مختصر حال بھی بتانا چاہتا ہوں۔ ناروے میں 1750ءمیں Army war school کے نام پر ایک عیسائی مشنریز کے کالج کی بنیاد رکھی گئی۔ اسکی غرض ایسے لوگوں کو تعلیم دینا تھا۔ اور ایسے لوگ تیار کرنا تھے جنہوں نے دنیا میں خوشخبری پھیلانا تھی (یعنی عیسائیت کی تعلیم)۔ دوسرے نمبر پر 1811ء میں اوسلو یونیورسٹی بنائی گئی، یہاں بھی عیسائی مشنری تیار کئے جاتے تھے۔ پھر 1843ء میں ایک شہر Stavangerء میں مشنریز کا لج بنایا گیا۔ ان اداروں سے بہت سے عیسائی مشنری تیار ہو کر دنیا کے دوسرے ممالک میں عیسائیت پھیلانے جاتے تھے۔

ناروے میں مسلم مشنری کی آمد

ایک طویل عرصے تک ناروے دنیا کے ان ممالک میں سے ایک تھا جس نے آبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ عیسائی مشنری بھیجے، اس لیے مشنری اور مشنری کام 1950ء کی دہائی میں نارویجن قوم کے لیے معروف کام کیا جاتا تھا۔ مگر اچانک نئی اور انتہائی چونکا دینے والی بات یہ ہوئی کہ 1956ءمیں صرف ایک مسلمان مشنری اسکینڈے نیویا آیا، وہ عیسائی ہونے کے لیے نہیں، بلکہ اسکینڈے نیویا کے باسیوں کو محمدی (مسلمان) بنانے کے لیے آیا تھا۔ یعنی یہ ہمارے مربی سیدکمال یوسف صاحب تھے جن سے میں نے اسلام سیکھا۔ آج کے دن حضرت مصلح موعودؓ کے شاندار کارناموں، ان کی جماعتی خدمات اور ان کا نام مجھے آج کے پروگرام مصلح موعود کے موضوع کی طرف لے جاتا ہے۔ آج یہاں کے تمام مقررین نے ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بات کی ہے۔ میرے نزدیک اسکینڈے نیویا اور ناروے میں احمدیت کےقیام اور اسے پھیلانے کےلیے ان کی اہمیت کا ذکر کرنا فطری طور پر سب سے زیادہ مقدم ہے۔

احمدیت اور خلفائے احمدیت

لیکن اس سے پہلے کہ میں اسے شروع کروں،ضروری ہے کہ حضرت امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد پر مختصر بات کی جائے۔

انیسویں صدی میں برطانیہ کی کالونیوں میں سے ایک کالونی کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں حضرت مرزا غلام احمدؑ قادیانی اللہ کےحکم سے مسیح اور مہدی بن کر آئے۔ جن لوگوں کو اللہ نے ہدایت دی وہ مسیح الزماںؑ کے ساتھی بنے۔ جب حضورعلیہ السلام مشیتِ ایزدی سے 1908ء میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تو نظام خلافت کے اندرونی اختلاف کے باوجود اللہ تعالیٰ نے قدرتِ ثانیہ میں پہلے خلیفہ حضرت الحاج حکیم نورالدینؓ کو مقرر فرمایا۔ چھ برس بعد جب حضرت خلیفہ اوّلؓ وفات پا گئے تو جماعت میں ایک مرتبہ پھرفتنہ برپا ہوا مگر اللہ تعالیٰ نے فتنے کو دبا کر حضرت مرزابشیرالدین محمود احمدؓ کو منصب خلافت پر کھڑا کر دیا اور خلافت کے نظام کی اندرونی مخالفت کے باوجود نظام خلافت اور جماعت پھلتی پھولتی رہی۔ احمدیت کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کو اپنے خلافت کے دور میں گونا گوں چیلینجز کا سامنا کرنا پڑا مثلاً اندرونی مخالفت، دو عالمگیر جنگیں، ہندوستان میں نوآبادیاتی حکومت کا خاتمہ، تقسیم ہند، ہندوستان سے ہجرت مع جماعت اور تمام نظام کی منتقلی، نئے وطن پاکستان میں اپنی جماعت کا مرکز ربوہ بسانے کا چیلنج سب سے بڑا تھا۔ کیونکہ یہ تمام مسائل نظامِ جماعت احمدیہ اور عام احمدی پر بھی برابر اثر انداز تھے، اسلئے جماعت کی راہنمائی بھی حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ صاحب کی بڑی ذمّے داریوں میں سے ایک تھی۔

پاکستان پہنچ کر جماعت کو متحد رکھنا ایک بہت بڑا کام تھا، مخالفین اور احمدیت کے دشمنوں کی ریشہ دوانیاں اور جماعت کے متعلق غلط پراپیگنڈہ، کبھی ایک جگہ شورش تو کبھی دوسری جگہ فساد، گاہے بگاہے کی شہادتیں الگ۔ یہاں تک کہ 1953ء میں ملک میں جماعت کی مخالفت اتنی بڑھی کہ ملک میں اچھا خاصا فساد برپا ہو گیا۔ پھر ایک اور افسوس ناک واقعہ پیش آیا کہ 1954ء میں حضورؓ کو کسی دُشمن نے مسجد مبارک میں چاقو سے حملہ کر کے زخمی کر دیا، مشکل پر مشکل اور مصیبت پر مصیبت مگر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے کسی جگہ بھی ہمت نہیں ہاری۔ تمام مسائل کا مقابلہ کرتے ہوئے، دنیا کے طول وعرض میں مبلغین بھیجنے اور اشاعت اسلام کے لئے اور بھی راستے اختیار کرتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جماعت کی مشنری سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اورجن علاقوں کی طرف حضورؓ کی توجہ زیادہ تھی ان میں سے ایک اسکینڈے نیویا بھی تھا۔

اسکینڈے نیویا میں
احمدیہ مشن چلانے کی مختصر داستان

جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اسلام کی اشاعت کے لئے اسکینڈے نیویا کو حضرت مصلح موعودؓ نے ایک منزل کے طور پر منتخب کیا تھا 1956ء میں انہوں نے ضرورت محسوس کی اور کمال یوسف صاحب کو اسکینڈے نیویا میں مشنری بنا کر بھیج دیا گیا۔ یوں مکرم سیّد کمال یوسف صاحب اسکینڈے نیویا کے شہر سویڈن میں اترے۔ جو محمدؐ کا مذہب ’’اسلام‘‘ سکھانے آئے تھے۔ کمال صاحب، اسکینڈے نیویا کے تینوں ممالک، ناروے، سویڈن اور ڈنمارک کے مشنری رہے، تینوں ممالک کے شہروں میں سفر کرتے رہے اور اسلام کا پیغام دیتے رہے۔ مجھےسب یاد ہے کہ مکرم کمال صاحب نے کیسے ابتدائی سال گزارے۔ میں یاد کروں تو ہمارے مبلغ کا وقت ایسے گزرا کہ بہت دیر وہ کرائے کے ایسے کمرے میں رہے جہاں کچن ہی نہیں ہوتا تھا اور ان کے پاس اتنا محدود پیسہ ہوتا تھا کہ یقیناً وہ بازار سے کھانا لے کر نہیں کھا سکتے تھے۔ میرے لئے یہ سوچ اور بات ہمیشہ ہی ایک معمہ رہی ہے کہ کمال صاحب کیسے گزارہ کر گئے ؟ اور کیسے وہ مشن چلانے میں کامیاب ہوئے ؟ شائد !یہاں بیٹھے نوجوان اس بات کو تسلیم نہ کریں لیکن میں اس بات کا شاہد ہوں کہ تھوڑے وسائل میں تینوں ممالک کے مشنز چلانا کتنا مشکل تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب جماعت کے پاس وسائل بہت کم تھے اور مشنری یہاں کیسے رہتے اور گزارہ کرتے تھے۔ ان کے سب حالات میں نے خود دیکھے ہوئے ہیں۔ میرے مشاہدے سے بہت کچھ گزرا ہوا ہے۔

اسکینڈے نیویا کے پہلے تین سفید پرندوں
کی نہایت دلچسپ کہانی

اب میں اہلِ مجلس کے سامنے اسکینڈے نیویا کے تین نوجوانوں کی کہانی رکھتا ہوں۔ کوشش ہوگی کہ مختصر اور جامع الفاظ میں آپ تک میرا سارا مدعا بیان ہو جائے۔

1956ء موسم خزاں کی بات ہے کہ ملکِ ناروے کے دارالخلافہ اوسلو میں کچھ نوجوان لڑکے جن کو مذہب میں بہت دلچسپی تھی جن میں سے ایک خاکسار (نور بولستاد) بھی تھا۔ہم عیسائیت کے علاوہ دوسرے مذاہب یعنی، بدھ ازم، ہندو ازم اور بہائیت کے متعلق بھی کتب سے معلومات اکھٹا کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ ہمیں Muhammadism کے متعلق بھی جاننے کا شوق ہوا۔

اس مذہب یعنی ’’اسلام‘‘ کے متعلق سب سے آخر میں ہم نے پڑھنا شروع کیا، کیوں؟؟ وہ اس لئے کہ یہ ایک ایسا مذہب تھا جس کے بارے میں ہمارا تاثر بہت منفی تھا اور نارویجن زبان میں اس مذہب کے بارے میں لٹریچر تلاش کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ کم از کم غیر جانبدارانہ وضاحتیں یا تفصیلات ملنا تو بہت مشکل تھیں۔ اب ہم تینوں دوست اسلام کے متعلق درست اور صحیح علم کی تلاش میں لگ گئے۔ کھوج کے اس سفر میں ایک دن ایسا ہوا کہ ہم میں سے ایک لڑکے کو ایک سراغ ہاتھ آیا۔ وہ کیا تھا؟ یہ سویڈن میں سیّد کمال یوسف صاحب کا ایڈریس تھا۔ ہم نے انہیں خط لکھنے کا سوچا۔ پہلا خط لکھا جس کا جواب آ گیا۔ اب ہمارے اور سویڈن کے محمدی ازم کے مشنری کے درمیان خطوط کا سلسلہ چل نکلا۔ ہم محمدی مشنری کو سوالات پوچھتے وہ جواب دیتے۔ اس جواب سے مزید سوالات جنم لیتے ہم پھر لکھتے۔ کبھی ایک سوال تو کبھی دوسرا، ایک مسئلہ سمجھ آتا تو دوسرا سامنے آجاتا۔ بہر حال دونوں طرف سے زبردست خط وکتابت ہو تی رہی۔ اس خط وکتابت کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ اس مذہب کا نام ’’اسلام‘‘ ہے اور لفظ محمڈن کے بجائے مسلم کہنا زیادہ درست ہے۔

آخر کا روہ دن بھی آگیا جب ہم تینوں کی تسلی ہوگی اور ہم نے مذہب تبدیل کر لیا یعنی اسلام قبول کر لیا۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ فیصلہ جو حضرت مصلح موعودؓ نے 1956ء میں اسکینڈے نیویا میں مشنری بھیجنے کا کیا تھا، اسکے نتیجے میں ہم تین لڑکے مشنری کمال یوسف صاحب کو دیکھے بغیر جنوری اور فروری 1957ء میں احمدی مسلمان ہو گئے۔

قبولیتِ اسلام کے بعد سب سے بڑا مسئلہ ہمیں یہ تھا کہ ہم نماز کیسے ادا کریں اب ہم مسلمان تھے، نماز پڑھنا تھی۔ ہمیں کیا معلوم کہ کیسے نماز ادا کرتے ہیں۔ ہمیں سویڈش زبان میں ایک کتابچہ بھیجا گیا۔ اگرچہ ہم نارویجن تھےلیکن سویڈش سمجھتے تھے، لہٰذا سویڈش کو پڑھنا اور سمجھنا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ ایک کاغذپر لکھے ہوئے الفاظ پڑھنا اور بات تھی مگر اسے پڑھ کر یہ جان لینا کہ نماز کو کیسے ادا کرنی ہے بالکل اور بات ہے، ہاتھ کیسے اٹھانے ہیں؟ کیسے کھڑا ہونا ہے؟ پھر کیا کرنا ہے؟ نماز شروع کیسے کرنی ہے؟ ختم کیسے کرنی ہے؟ ہم نے کوشش کی مگر ہم اسے نہیں سمجھ سکے۔ اب سوال یہ تھا کہ یہ بات کسی مسلمان سے پوچھنا چاہئے تھی۔ مگر ہم کس سے پوچھتے کہ نماز کیسے ادا کرنی ہے؟ ہم نے تو خط و کتابت پر ایک مسلم مشنری کے ذریعے بالکل ایک نیا مذہب قبول کیا ہے۔ ہم تو کسی اور مسلمان سے واقف نہیں تھے۔ ہم تین ہی تو تھے جو ناروے میں مسلمان تھے، ہم تین لوگوں نے ہی تو ناروے میں پہلی مسلم جماعت بنائی تھی، ہم ہی سب کچھ تھے۔

اب آپ لوگ سوچتے ہوں گے کہ ٹی۔ وی کھول کر دیکھ لینا تھا۔ مگر اےنوجوانو! اس وقت ہمارے پاس کوئی ٹی وی نہیں تھا۔ ٹی وی تو ناروے میں 1960ء میں آیا تھا۔ اب آپ سوچتے ہوں گے کہ کوئی ویڈیو دیکھ لیتے ؟ کئی سالوں کے بعد تک یہ سب کچھ موجود نہیں تھا۔ آپ نوجوانوں کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جماعت کن کن مسائل سے گزر کریہاں تک پہنچی ہے۔ اقتصادی حالت ایک طرف، اس زمانہ میں آمدو رفت اور رابطے کے ذرائع انتہائی محدود تھے، کمپیوٹر نہ ہی آن لائن ملاقاتیں، اور نہ ہی text messeges کا سلسلہ تھا۔ ستّر کی دہائی تک ناروے میں کہیں کہیں ٹیلی فون تھا۔ ہم تینوں لڑکوں کے گھروں میں کسی ایک کے پاس بھی ٹیلی فون نہیں تھا اور جس گھر کے کرائے دار کمال صاحب تھے وہاں بھی ٹیلی فون کی سہولت نہیں تھی کہ کبھی ان سے براہِ راست بات ہی ہو سکتی۔ جبھی تو ہم اتنی مشکل میں تھے۔ کم از کم ہم تینوں جو مذہب بدل کر مسلم ہو چکےتھے ان کے پاس نئے مذ ہب کے طور طریقے سیکھنے کے لئے صرف ایک درس گاہ تھی اور وہ تھے سویڈن میں رہنے والے سیّد کمال یوسف صاحب۔ ہم انہیں خط وکتابت والا مشنری بھی کہہ سکتے ہیں۔ پھر ہم نےسوچا کہ نماز سیکھنے کے لئے تو اپنے مشنری کمال یوسف صاحب سے مدد لینا چاہئے۔ چنانچہ حسبِ معمول ہم نے کمال یوسف کو خط لکھ کر مدد مانگی۔

لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہمیں یہ بتانے کے لئے کہ نماز کیسے ادا کرنا ہے۔ مشنری کمال صاحب جن کوسویڈن سے ناروےہمارے پاس آنا تھا، ان کو وہ کرایہ جو سب سے سستا بس کا سفر تھا، جمع کرنے میں کتنے ماہ لگے، میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت جماعت کی اقتصادی حالت کتنی کمزور تھی کہ پڑوسی ملک سویڈن سے ایک مشنری کو ناروے میں پہلی مسلم جماعت کو نماز پڑھنے کا طریقہ سکھانے کے لیے بھیجنے میں کئی ماہ لگ گئے۔

یہ ہماری جماعت کی اس زمانہ کی اقصادیات کی اب تک ایک لمبی چھلانگ ہے کہ آج ہم بیت النصر کی شاندار عمارت میں بیٹھے ہیں۔ الحمد للّٰہ

کمال صاحب کے آنے پر یہاں ناروے میں ایک جماعت بنی تھی، جماعت احمدیہ مسلمہ۔جس کا پہلا سیکرٹری خاکسار (نور بوستاد) منتخب ہوا اور کمال یوسف صاحب کو خطوط اور رپورٹس بھیجی تاکہ انہیں آگاہ کیا جا سکے۔ ہم تینوں اسکول کے بچے تھے۔ ہمارے پاس پیسے کم تھے۔ میں نے ایک بار کمال صاحب کو لکھا کہ کیا ہمیں اخراجات پورے کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ فیڈ بیک تیار تھا۔ ان کے پاس کچھ نہیں تھا۔ ہم کچھ حاصل نہیں کر سکے۔ ہمیں کم خرچ کرنا پڑا۔ ’’مجھے کم خط بھیجیں‘‘ ان کی تجاویز میں سے ایک تھی۔ ہمارے لیے، ان کے لیے، اسلام احمدیہ تحریک کی معاشی صورت حال اس وقت ایسی تھی۔

سیّد کمال یوسف صاحب کو پورے اسکینڈے نیویا کی ذ مّے داری دے کر سویڈن بھیجا گیا تھا۔ 1958ء میں مکرم سیّد کمال یوسف صاحب کو اوسلو منتقل ہونے کا حکم ہوا۔ چند سال بعد ایک مرتبہ پھر ان کی تبدیلی گوٹن برگ (سویڈن) میں ہو گئی۔ ابتدا میں پورے اسکینڈ ے نیویا کی ذمہ داری کے وقت میں جو کہ بہت برسوں پر محیط تھا۔ وہ باورچی خانے کے بغیر اور کمرے میں گرم کھانا کھائے بغیر ایک کرائے کے کمرے میں رہتے رہے۔ کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں رہائش کے دوران بھی ایسا ہی ہوا کہ ان کے پاس کچن نہیں تھا اور ہر روز کیفے میں کھانے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کمال صاحب نے کیسے گزارہ کیا ہوگا؟ آج وہ اس مجلس میں موجود نہیں ہیں مگر کل وہ مسجد میں تھے۔ میں نے کل ان سے کچن کے بغیر رہنا اور تنگ دستی والی بات پوچھی تو انہوں نے مجھے میرے سوال کا جواب نہیں دیا اور بات بدل دی۔ ان کے متعلق میں یہ بھی کہوں گا کہ کمال صاحب یہاں اسکینڈے نیویا میں اسلام احمدیہ تحریک کے سرخیل دور میں سویڈن، ناروے اور ڈنمارک میں مشنری کا کام انجام دینے میں کامیاب رہے۔ میں آج تک نہیں سمجھ سکا، کہ یہ سب کچھ انہوں نے کیسے کیا؟ اب وہ ریٹائرڈ ہیں ہم اکثر یہاں مسجد میں ان سے مل سکتے ہیں۔ یہ بھی ہمارے لئے ایک نعمت ہے۔ آج ان کے متعلق میری خصوصی طور پر سوچنے اور بات کرنے کی وجہ بھی یہی ہے، کیونکہ وہ ہماری کڑی ہیں، اس تعلق کی جو براہ راست حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح ثانی رضی اللہ عنہ سے ہے۔ مصلح موعود رضی اللہ کون تھے؟ یہ وہ عظیم شخصیت تھی جنہوں نے بہت عرصہ قبل اسکینڈے نیویا کو تبلیغی مشن کے میدان کے طور پر اشارہ کیا تھا۔

(اردو ترجمہ: نبیلہ رفیق فوزی۔ ناروے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ