• 18 مئی, 2024

عفو و درگزر ایک خلق عظیم

انسانی فطرت کے اندر خدا تعالیٰ نے یہ خا صیت رکھی ہے کہ وہ مِل جُل کر رہے اور رشتوں کی پہچان کے ساتھ دنیا میں زندگی بسر کرے۔ ماں باپ، بھائی بہن، عزیز رشتہ دار اور دوست و احباب یہ سب انسانی زندگی کے لازمی جزو ہیں اور انہی رشتوں کے دم سے انسان کی بقا ہے۔ ان دنیاوی رشتوں کے ساتھ جب انسان عفوو درگزر سے کام لیتے ہوئے انہیں مضبوط کرنے کی کوشش میں محو رہتا ہے اور محض للہ ان تعلقات کو جوڑتا ہے تو یہ اس کی روحانی بقا کا ضامن بن جاتا ہے۔ اسے صبر و حوصلہ عطا کرتا ہے۔ اسی سے انسان کو کسی نبی، رَسول یا اُس کے خلیفہ کی پیروی کر کے روحانی رشتہ کو مضبوط ترین کرنے کی صلاحیت میسر آتی ہے۔

ان تمام رشتوں کو بہترین طریق پر نبھانے کے لئے ہمیں ان بنیادی اخلاق فاضلہ یعنی وسعتِ حوصلہ، عفو و درگزر، پردہ پوشی اور اعلیٰ ظرفی کے معانی پر غور کرنے، اسے سمجھنے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور دعا کے ذریعہ ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔

دینِ حق نے ان اخلاق کو اپنانے اور ان پر قائم رہنے کے لئے بے شمار وسیع تعلیمات دی ہیں اور انتہائی بلند منصوبے پیش کئے ہیں۔ لیکن ان پر عمل تبھی ممکن ہے جب ان کے ابتدائی حصّو ں پر خصوصیت کے ساتھ توجہ دی جائے۔ اور صبر اور تحمل کے ساتھ بنیادیں تعمیر کی جائیں۔ پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے توقع رکھی جائے کہ ان بنیادوں پر عظیم الشان عمارتیں تعمیر ہوں۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۴﴾

(البقرہ: 154)

ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! ( اللہ سے) صبر اور صَلوٰة کے ساتھ مدد مانگو۔ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

پھر چاہے کتنی ہی تلخیاں اور سختیاں زندگی میں آ ئیں، صبر سے، دُعا سے، وسعت حوصلہ سے اور اعلیٰ ظرفی سے کام لینا چاہئے۔ وسعت حوصلہ اور اعلیٰ ظرفی کیا چیز ہے اسے آسان الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی نا کہ کسی نے کوئی ایسی بات کہہ دی ہے جو آپ کو پسند نہ آئی یا آپ کے أصول کے خلاف ہے۔ یا پھر آپ کا کچھ نقصان ہو گیا ہے۔ یا کسی نے آپ سے بد تمیزی کی ہے یا گالی دی ہے۔ یا آپ کی اَنا کو للکارا ہے۔ تو اس کے ردِ عمل میں گھبرا کر بد اخلاقی کا مظاہرہ نہ کرنا بلکہ یہ سب کچھ اپنے عمل سے بھی کرکے دکھانا، وسعتِ حوصلہ، اعلیٰ ظرفی، عفوو درگزر اور پردہ پوشی کہلاتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فر ماتے ہیں۔

اے میرے پیارو شکیب و صبر کی عادت کرو
وہ اگر پھیلائیں بد بو تم بنو مشکِ تتار
نفس کو مارو کہ اس جیسا کوئی دشمن نہیں
چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامانِ دمار

وہ سارے جھگڑے جو محلوں، شہروں، معا شرے، مُلکوں اور پھر جماعت کے اندر بھی نجی طور پر پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں جھوٹ کے بعد سب سے بڑا دخل اس بات کا ہے کہ بعض لوگوں میں وسعتِ حوصلہ بہت کم ہوتا ہے۔ ان کی باتوں اور طرز میں تکلیف دینے کا ایک رحجان پایا جاتا ہے۔ جس سے بسا اوقات وہ خود بھی باخبر نہیں ہوتے۔ نرم گفتاری کا بھی وسعت حوصلہ سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ بلند حوصلے سے زبان میں بھی تحمل پیدا ہوتا ہے۔ اور زبان کا معیار بھی بلند ہوتا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ جب ابھی بچے تھے۔ یہ تب کا واقعہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک بہت ہی قیمتی مقالہ جلا دیا۔ سارا گھر اب ڈرا بیٹھا تھا کہ اب پتہ نہیں کیا ہوگا اور کیسی سزا ملے گھی؟ لیکن جب حضرت مسیح موعود ؑ کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا ’’کوئی بات نہیں خدا اور توفیق دے دیگا‘‘۔ وسعت، حوصلہ کی ایسی بیسیوں مثالیں ہمیں آپ کی زندگی میں ملیں گی۔

حضرت مسیح موعود ؑ ایک واقعہ وسعتِ حوصلہ کا خود بیان کرتے ہوئے فر ماتے ہیں۔
’’میں نے ایک چھوٹی سی کتاب میں لکھا دیکھا ہے کہ ایک بادشاہ قرآن کریم لکھا کرتا تھا۔ ایک مُلّٰا نے انہیں ایک آیت کے متعلق کہا کہ یہ غلط لکھی گئی ہے۔ بادشاہ نے اسی وقت اس آیت پر دائرہ کھینچ دیا کہ کاٹ دی جائے گی۔ جب ملّٰا چلا گیا تو بادشاہ نے اس دائر ہ کو کاٹ دیا۔ جب بادشاہ سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں کیا تو اس نے کہا کہ دراصل مُلّا غلطی پر تھا مگر میں نے اس کی دلجوئی کی خاطر حوصلے سے کام لیا اور اس کے سامنے آیت پر دائرہ کھینچ دیا‘‘

(ملفوظات جلد ششم صفحہ 342)

اب ہم عفوو درگزر کی طرف آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وسعت حوصلہ کا ان اخلاق سے کسقدر گہرا تعلق ہے۔ عفوو درگزر گو دو چھوٹے چھوٹے الفاظ ہیں لیکن اِن کے فوائد لا محدود ہیں۔ عفو کا مطلب ڈھا نپنا بھی ہے اور غصے کو دبانا بھی۔

اللہ تعالی ٰقرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَالۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَالۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ

(اٰل عمران: 135)

ترجمہ: وہ لوگ جو غصّہ کو دبانے والے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں اور اللہ محسنوں سے محبت کرتا ہے۔

غصّہ کی حالت میں انسان پر ایک جنون سوار ہو جاتا ہے اور اسے سمجھ نہیں آتا کہ کیا بات صحیح ہے اور کیا غلط۔ انسان کا دماغ ماؤف ہو جاتا ہے اور سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بر عکس وسعت حوصلہ اور اعلیٰ ظرفی سے کام لینے سے ہم کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ اگر اللہ تعا لیٰ کی خاطر صبر کریں اور وسعت حوصلہ سے کام لیں اور عفو و درگزر کو اپنا شعار بنائیں تو بڑے بڑے مسائل خود بخود دب کے رہ جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت فرمائی ہے کہ اس کا دین اختیار کریں۔ اس پر عمل کریں۔ اس کے پیشِ نطر اگر دیکھا جائے کہ ہم اللہ تعا لیٰ کی کتنی باتوں میں اطاعت کرتے ہیں؟ ہم روز مرہ زندگی میں اللہ تعا لیٰ کے بہت سے احکامات کو نظر انداز کر دیتے ہیں یا ان سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ اب اگر اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں پر غصّہ کرنا شروع کر دے اور ہمیں ہر بات پر سزا دینے کا ارادہ کرے تو ہم کہاں بچ سکتے ہیں؟ ہماری حیثیت ہی کیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی عفوو درگزر سے کام لیتا ہے اور ہماری پردہ پوشی فرماتا رہتا ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ ہمیں بھی دوسروں کی لغزشوں پہ عفوو درگزر سے کام لینے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر جذب کر کے اس کی اطاعت اس رنگ میں کرنی چاہئے کہ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی باتیں اور اگر ہم نہایت ہی اعلیٰ ظرفی سے کام لیں تو بڑی بڑی باتیں بھی نظر انداز کر کے عفوو درگزر سے کام لینا چاہیئے۔ جو آپ سے قطع تعلق کرے اسے محبت کا پیغام دیں۔ دشمن کے ساتھ بھی مصائب و تکالیف کے وقت برائی کے مقابلہ میں نیکی کریں اور اپنے اعلیٰ ظرفی و وسعت حوصلہ اور عفوو درگزر کا مظاہرہ کریں۔

یہ خلق عظیم جس کا نام عفو و درگزر ہے اسی کا مطلب پردہ پوشی بھی ہے۔ گویا اس خلق عظیم پر عمل کرنے سے وسعتِ حوصلہ اور اعلیٰ ظرفی سے بھی ہم آ ہنگ ہوتے ہیں۔

ہر عقلمند اور با شعور شخص اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ معاشرہ کی خوبصورتی کئی لوازمات کا تقاضا کرتی ہے۔ جو معاشرہ ان اخلاق حَسَنہ کو اپنا لے وہ معاشرہ ایک مستقل حیثیت اختیار کر جاتا ہے ورنہ اسے گمنامی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ ہم سب مل کر گھر کی تعمیر سے لے کر محلے، شہر، ملک، معاشرے اور پھر کائنات کے سنوارنے میں حصّہ لیتے ہیں۔ باتیں اور واقعات تو چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں مگر ہماری زندگیوں کو خوشگوار یا تلخ بنا دیتے ہیں۔ بات گھر سے شروع ہوتی ہے۔ آپ کی حیثیت گھر میں کچھ بھی ہو، گھر کے ماحول کو بہتر بنانے میں پردہ پوشی سے کام لینا مسلمہ ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی نوعیت ہی وسعت حوصلہ، عفوو درگزر پر منحصر ہے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ برتاؤ کا تعین بھی کرتی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ دوسروں کے عیب نکالنے کے بجائے اُن کی پردہ پوشی کریں اور مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے اور درگزر کرنے سے ہی معاشرے کا ماحول خوشگوار بنایا جا سکتا ہے۔

انسان اپنی زندگی کو کئی خانوں میں بانٹ کر چلتا ہے۔ کسی خانے میں رشتہ دار تو کسی میں دوست احباب براجمان ہوتے ہیں۔ گھر سے نکل کر انسان کا واسطہ بہت سے لوگوں سے پڑتا ہے، جن میں کم عقل اور کم علم بھی ہوتے ہیں اور بہت زیرک اور عالم فاضل بھی، امیر بھی غریب بھی، اچھے بھی بُرے بھیِ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بارے میں لوگ وسعت حوصلہ اور عفوو در گزر سے کام لیں تو پھر سمجھ لیں کہ دوسروں کے ساتھ بھی آپ کا ہر فرد آپ کی توجہ کا طلبگار ہے۔ آپ کیا ہیں، آپ کا درجہ گھر میں معاشرے میں، جماعت میں کیا ہے اسے بھول جائیں۔ صرف یہ یاد رکھیں کہ ہر فرد آپ کی طرف سے وسعت حوصلہ اور در گزر کا حق دار ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَلۡیَعۡفُوۡا وَلۡیَصۡفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ

(النور: 23)

ترجمہ: اور چاہیئے کہ وہ عفو سے کام لیں اور در گزر کریں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف کرے۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

پھر اسی طرح ایک حدیث جو حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو شخص دنیا میں کسی کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اُس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ تب تک اس شخص کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کے لئے کوشاں رہتا ہے۔

(بخاری کتاب الادب باب 70)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’تم کو چاہیئے کہ دوسروں کے عیب مت نکالو۔ بلکہ عفوو پردہ پوشی سے کام لو۔ اگر عیب ہی نکالنے ہیں تو اپنے عیب نکا لو تا کہ ان کے دور کرنے کی کوشش کرسکو۔ پس اپنے اخلاق اور عادات درست کرو۔ جس مجلس میں جاؤ ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور الفت سے ملو۔ نرمی اور پیار سے بات کرو۔ اگر کوئی سختی بھی کر بیٹھے تو صبر و تحمل اور وسعتِ حوصلہ سے کام لو اور خوش اخلاقی سے پیش آؤ‘‘

(الاز ھارلز وات الخمار صفحہ 44)

پھر ایک نظم میں فرماتے ہیں۔

گالیاں سن کر دُعا دو پا کے دُکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد2 صفحہ144)

(سیّدہ ثریا صادق۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ