• 19 اپریل, 2024

دین کی خاطر ہجرت

حی قیوم خدا نے دین کو پھیلانے اور اس کے پیغام کو دنیاکے سامنے رکھنے کے واسطے انبیاء اور مرسلین کو حکم دیا کہ اس کا پیغام پہنچایا جاوے اور اس کے دین کو قائم کیا جاوے ۔ جہاں انبیاء کو یہ حکم ہوا دوسری طرف یہ بھی ارشاد فرما د یاکہ نبی کا کام پیغام پہنچانا اور اس کو احسن رنگ میں دنیا کے سامنے رکھنا اور اس دین کے ذریعہ لوگوں کی اصلاح کرنا ہے۔

گزشتہ انبیاء کی تاریخ کو دیکھا جاوے تو ہر ایک نے اس پیغام کو پہنچایا اور احسن رنگ میں اس کی تفصیل سمجھا ئی۔ کبھی کسی نبی کی تاریخ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کسی نے دین کو منوانے کی خاطر اس خدا کے پیغام کو زبردستی منوایا ہو۔

جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَ قُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ ۙ

اور کہہ دے کہ حق وہی ہے جو تمہارے ربّ کی طرف سے ہو۔ پس جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کر دے۔ (الکہف:30)

جہاں یہ حکم انبیاء کو دیا گیا کہ دین کا پیغام پہنچانا فرض ہے منوانا انکا کام نہیں تو کس طرح کسی نبی کے مخالف کو یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ اس پیغام رسانی کو روکے یا کسی بھی قسم کی رکاوٹ اس میں پیدا کرے۔

تاہم انبیاء کی تاریخ اس بات کی طرف راہنمائی کرتی ہے کہ دین کو نہ ہی کبھی زبردستی منوانے کی کوشش کی گئی اور نہ اس بات کو سراہا جاتا ہے کہ کوئی معاند یا مخالف اس دین کے پیغام میں کسی قسم کی روک یا مشکل پیدا کرے۔ ایسے اقدام کا سد باب خدا خود کیا کرتا ہے اور اپنے بندوں کو ان مشکلات سے بچایا کرتا ہے ۔

قرآن کریم میں فرمایا:

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحَآدُّوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ اُولٰٓئِکَ فِی الۡاَذَلِّیۡنَ

یقیناً وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں یہی انتہائی ذلیل لوگوں میں سے ہیں۔ (المجادلہ: 21)

ایسے مخالفین مغلوب ہوا کرتے ہیں اور کسی صورت انکو خدا تعالیٰ کے انبیاء کے مشن پر غلبہ حاصل نہیں ہوتا۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ صرف پیغام رسانی تک ہی نہیں، بلکہ نبی کو خدا کے سچے دین کی پیروی اور اس کےمتعبین کو اپنے دین کی پیروی کرنے اور اس پر عمل کرنے پر بھی کسی قسم کی روک نہ ہو اور جس طرح انبیاء کے مخاطبین کو انکار کرنے یا اقرا کرنے کی ، اور اپنے ہی دین کی پیروی کی آزادی ہے اس طرح انبیاء اور ان کے متبعین کو بھی آزادی حاصل ہےکہ وہ خدا کے بھیجے ہوئے دین پر قائم رہیں اور عمل کریں۔

مگر اس سے برعکس، انبیاء اور ان کے متبعین کو بے تہاشہ مشکلات کا سامنا رہا جس کی گواہی خدا تعالیٰ خود دیتا ہے ۔ فرمایا:

یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ

وائے حسرت بندوں پر! ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا مگر وہ اس سے ٹھٹھا کرنے لگتے ہیں۔ (یٰسین:31)

سید الانبیاء حضرت محمدﷺ کی زندگی کی ہمارے سامنے روشن ہے کہ کس طرح رکاوٹوں کے باوجود دین کا پرچار فرماتے رہے، آپﷺ اور صحابہ کو بہت تکالیف دی گئیں ، آپﷺ کا طائف کا سفر، شعب ابی طالب کا محاصرہ، خانہ کعبہ میں معاندین کا نماز پڑھنے سے روکنا، اور آپﷺ کے خلاف قتل کی سازشیں اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ دین کے لئے آپ پر مشکلات کا ایک آسمان ٹوٹ پڑا ۔ چنانچہ ایک صحابی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عر ض کیا کہ یا رسول اللہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم ان کو جواب دیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
انی امرت بالعفو فلا تقاتلوا (بخاری)

کہ مجھے حکم عفو کا ہے پس لڑائی کی اجازت نہیں۔

تاہم ایک حد کے بعد حضرت محمدﷺ کو خدا تعالیٰ نے ہجرت کا حکم فرمایا۔ گو ہجرت دیگر انبیاء نے بھی فرمائی مگر یہاں غرض سنت محمدﷺ بیان کرنا ہے۔ ہجرت مدینہ دنیا کی تاریخ کا و ہ باب ہے جس نے دنیا کے مذاہب کو ایک نیا رخ دیا ۔ گو اس سے قبل مسلمانوں نے حبشہ کی طرف بھی ہجرت کی اور ایک عیسائی بادشاہ نجاشی سے پناہ لی مگر آنحضرتﷺ نے خودحبشہ کی طرف ہجرت نہیں فرمائی ۔

احمدیوں پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ دین کا نام لے کر یورپ یا دیگر ممالک میں اسائلم لیتے ہیں۔ آجکل خاص طور پر سوشل میڈیا پر یہ اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ احمدی عیسائی یا یہودیوں کے ملک میں پناہ لیتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہجرت تو سنت ہے، جب آنحضرتﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو یہودیوں کی وہاں اکثریت تھی اور اثر و رسوخ تھا۔ مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو حکمران عیسائی تھا۔ اگر پاکستان کے حالات دیکھے جائیں کہ کس طرح خدا کے نبی، مسیح موعود ؑپر تمسخر کیا جاتا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ تاریخ میں انبیاء کے ساتھ بھی ہوتا رہا۔ پھر اس مسیح کے متبعین کو ایذا ءپہنچانا، کفر کے فتوے، قانونی کارروائیاں، اپنی مساجد کو مسجد نہیں کہہ سکتے، اذان پر پابندی وغیرہ، تو یہ سب حالات وہی ہیں جو کم و بیش محمد مصطفیٰﷺ اور آپکے متبعین کے ساتھ گزرے۔ اگر آپﷺ کی پیروی میں اور آپﷺ کے اصحاب کی پیروی میں احمدی ہجرت کریں تو بھی اعتراضات کا نشانہ بنتے ہیں۔

قرآن کریم میں جہاں تک تعلیم ہے تو حکم ایسے حالات میں ہجرت ہی ہے۔

یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ اَرۡضِیۡ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعۡبُدُوۡنِ

اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو! میری زمین یقیناً وسیع ہے۔ پس صرف میری ہی عبادت کرو۔ (العنکبوت:58)

اس آیت میں واضح ارشاد فرما دیا کہ خدا کی زمین میں کہیں بھی جا کر اسکی عبادت کی جا سکتی ہے۔ اگر ایک جگہ کسی بھی وجہ سے رکاوٹ ہے تو ایسی جگہ تلاش کی جاوے جہاں سکون اور امن کے ساتھ اسکی عبادت کا حق بجایا جائے۔

بلکہ ایسے لوگ جو ہجرت کرنے کی توفیق پاتے ہیں اور ہجرت نہ کریں تو سختی کے ساتھ انکو ہجرت کاحکم ہے ورنہ خدا تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے ہوں گے۔

فرمایا:

اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَفّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَالُوۡا فِیۡمَ کُنۡتُمۡ قَالُوۡا کُنَّا مُسۡتَضۡعَفِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ قَالُوۡۤا اَلَمۡ تَکُنۡ اَرۡضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوۡا فِیۡہَا ؕ فَاُولٰٓئِکَ مَاۡوٰٮہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا

یقیناً وہ لوگ جن کو فرشتے اس حال میں وفات دیتے ہیں کہ وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں وہ (اُن سے) کہتے ہیں تم کس حال میں رہے؟ وہ (جواباً) کہتے ہیں ہم تو وطن میں بہت کمزور بنا دیئے گئے تھے۔ وہ (فرشتے) کہیں گے کہ کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟۔ پس یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنّم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔ (النساء:98)

موت کے بعد اگر کمزوری کا بہانہ پیش کیا جاوے گا کہ ہمیں عبادت اور خدا کے سچے دین کو قبول کرنے سے روکا گیا ہے تو فرشتے کہیں گے کہ ہجرت کیوں نہ کی، جیسا پہلے آیت میں بیان ہوا یہاں بھی وہی بیان ہوا ہے کہ خدا کی زمین وسیع ہے۔ ہاں ایسے لوگ جو معذور ہوں اور ہجرت کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہیں وہ مستثنیٰ ہیں ، اگلی ہی آیت میں فرمایا:

اِلَّا الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ حِیۡلَۃً وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ سَبِیۡلًا

سوائے اُن مَردوں اور عورتوں اور بچوں کے جنہیں کمزور بنا دیا گیا تھا۔ جن کوکوئی حیلہ میسر نہیں تھا اور نہ ہی وہ (نکلنے کی) کوئی راہ پاتے تھے۔ (النساء:99)

پس احمدیوں کی ہجرت اسی تعلیم کے مطابق ہے جو قرآن کریم اور محمد مصطفیٰﷺ کی زندگی سے ملتی ہے۔

لمحہ فکریہ تو ایسے مخالفین کے لئے ہے کہ آیا وہ مسلمان کہلا کر محمد مصطفیٰﷺ کی تعلیم پر عمل کر رہے ہیں یا ایسے لوگوں کی پیروی کر رہے ہیں جنہوں نے ہمارے پیارے نبی محمد مصطفیٰﷺ کو دکھ دئیے اور آپ کے اصحاب کو تکالیف پہنچائیں۔

٭…٭…٭

(مرسلہ: اسفند سلیمان احمد مبلغ سلسلہ الحال ملٹن کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 اکتوبر 2020