• 26 اپریل, 2024

مسیح موعود عشقِ رسولؐ کی پیداوار ہے

تبرکات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ

تاریخ اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کی بعثت کے اورسب سے بڑا اور سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ دُور رس واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا واقعہ ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تکمیلِ ہدایت کا زمانہ تھا اور مسیح موعود کا زمانہ جس نے آپؐ کی شاگردی اور غلامی میں ظاہر ہونا تھا تکمیلِ اشاعت کا زمانہ ہے۔ اسی کی طرف یہ قرآنی آیت اشارہ کرتی ہے کہ :

ھُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ، بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہ، عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ

(الفتح:29)

یعنی خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے تاکہ وہ اس دین کوتمام دوسرے دینوں پر غالب کر دکھائے۔
اکثر مفسرین نے اتفاق کیا ہے کہ اس آیت کا پہلا حصہ جو ارسالِ ہدایت اور دین الحق کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود کے ذریعہ بصورتِ احسن پوراہو گیا۔ لیکن اس آیت کا دوسرا حصہ جو تمام دوسرے دینوں کے مقابلہ پر اسلام کے غلبہ سے تعلق رکھتاہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب یعنی مسیح موعود کی بعثت کے ذریعہ پورا ہونا مقدر تھا۔ جس نے دوسرے مذاہب کے زور کے وقت میں ظاہر ہو کر اسلام کوان سب پر غالب کرنا تھا۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کی بعثت کو غیر معمولی اہمیت دی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :

کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ فِیْکُمْ ابْنِ مَرْیَمَ حَکَماً عَدَلاً فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَ یَقْتُلَ الْخِنْزِیْرَ۔

(درمنثور جلد2 صفحہ242)

یعنی اے مسلمانو! تمہارے لئے وہ زمانہ کیسا ہی مبارک ہو گا جبکہ تم میں ابن مریم نازل ہو گا۔ وہ صلیب کے زور کے زمانہ میں ظاہر ہو کر صلیب کو توڑ دے گا اور اسی طرح دوسری غیر دینی ناپاکیوں کا قلع قمع کر دے گا۔

پھر فرماتے ہیں:

کَیْفَ تَھْلِکُ اُمَّتِیْ اَنَا اَوَّلُھَا وَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَریَمَ اٰخِرُھَا

(مشکوۃ جزء 2باب ثواب ھذہ الامۃ صفحہ 583)

یعنی وہ امت کس طرح ہلاک ہو سکتی ہے جس کے شروع میں مَیں ہوں اور اس کے آخر میں مسیح ابن مریم ہو گا۔

پھر ایک اور موقع پر فرماتے ہیں :

مَثَلُ اُمَّتِی کَمَثلِ الْمَطْرِ لَا یُدْریٰ اَوَّلُہ، خیرٌ اَوْ اٰخِرُہ

(جامع ترمذی)

یعنی میرے امت کا حال اس برسات کی طرح ہے جس کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا ابتدائی دور زیادہ بہتر ہے یا اس کا آخری دور زیادہ بہتر ہوگا۔

ان واضح اور زبردست حدیثوں سے ظاہر ہے کہ خدا نے ازل سے اسلام کی ترقی کے لئے دو دور مقرر کر رکھے ہیں۔ پہلا دور حضرت خاتم النبیین سرورِ کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دور ہے جو تکمیلِ ہدایت کا زمانہ تھا اور دوسرا دور آپؐ کے نائب اور شاگرد اور ظلِّ کامل مسیح موعود کا دور ہے جو تکمیلِ اشاعت کا زمانہ ہے۔ جس میں آپؐ کی لائی ہوئی ہدایت کو دلائل اور براہین اور روحانی نشانات کے ذریعہ تمام دوسرے دینوں پر اس طرح غالب کر کے دکھایا جانا تھا کہ دنیا کے دل پکار اٹھیں کہ :

’’جا ایں جا است‘‘

چنانچہ خدا کے فضل سے میں اپنی کتاب ’’تبلیغِ ہدایت‘‘ میں ثابت کر چکا ہوں اور اسی طرح اس پر بہت سا دوسرا لٹریچر بھی موجود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ اور آپ کے خلفاء کے ذریعہ یہ غلبہ سرعت کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے۔ اور اللہ کے فضل سے یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا جلد جلد ایک وسیع اور مضبوط درخت کی صورت اختیار کر کے دنیا کی قوموں کو اپنے ٹھنڈے سایہ کے نیچے جمع کرتا چلا جاتا ہے۔ اور اشتراکی ملکوں کو چھوڑ کر جنہوں نے فی الحال اپنی لادینیت کی وجہ سے ہمارے مبلّغوں کا داخلہ بند کر رکھا ہے باقی اکثر آزاد ممالک میں جماعت احمدیہ کے مبلّغ دن رات اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہیں۔ اور مسیحی مشنری ہماری جماعت کی کوششوں کی وجہ سے مرعوب اور خائف ہو رہے ہیں۔ اور خدا کے فضل سے وہ وقت دور نہیں کہ صداقت کا آفتاب مغرب سے طلوع کرے گا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام نہایت شاندار رنگ میں پورا ہو گا کہ :

’’بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنارِ بلند تر محکم افتاد‘‘

(تذکرہ)

مگر میں اپنے مضمون کے مرکزی نقطہ سے ہٹ گیا۔ میں یہ بیان کرنا چاہتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ رتبہ کہ آپ، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اور اسلام کے آخری دور کے لیڈر یعنی مسیح ابن مریم قرار پائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پناہ محبت اور لاثانی عشق کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ چنانچہ جو شعر اس مضمون کے عنوان کی زینت ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک فارسی نظم سے لیا گیا ہے۔ جس کے چند چیدہ اشعار ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔

آپؑ فرماتے ہیں اور کس طرح والہانہ جذبہ سے فرماتے ہیں کہ :

اے محبت عجب آثار نمایاں کردی
زخم و مرہم بَرہِ یار تو یکساں کردی
ذرّہ را تو بیک جلوہ کنی چوں خورشید
اے بسا خاک کہ تُوچُوں مہِ تاباں کردی
جانِ خود کس ندہد بہرِ کس از صدق و صفا
راست ایں است کہ ایں جنس تو ارزاں کردی
تانہ دیوانہ شدم ہوش نیامد بسرم
اے جنوں گِرِد تو گردم کہ چہ احساں کردی
آں مسیحا کہ بر افلاک مقامش گویند
لطف کردی کہ ازیں خاک نمایاں کردی

(درثمین فارسی مترجم صفحہ378-379)

یعنی اے محبت تیرے آثار و نشانات کتنے عجیب و غریب ہیں تو نے محبوب کے رستہ میں زخم و مرہم (یعنی بیماری اور علاج) کو ایک جیسا بنا رکھا ہے۔ تو ایک ذرّۂ بے مقدار کو اپنے ایک جلوہ سے سورج بنا دیتی ہے اور بسا اوقات تیری وجہ سے خاک کی ایک چٹکی میری طرح چمکتا ہوا چاند بن جاتی ہے۔ کوئی شخص کسی دوسرے کی خاطر اخلاص و وفا کے ساتھ اپنی جان نہیں دیتا مگر حق یہ ہے کہ تو ہی وہ چیز ہے جس نے اس نایاب جنس کو ارزاں کر دیا ہے۔ میں تو جب تک خدا اور اس کے رسول کے عشق میں دیوانہ نہیں ہو گیا میرے سر میں ہوش نہیں آیا۔ پس اپنے جنون عشق میں تیرے قربان جاؤں کہ تو نے مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔وہ مسیح کہ جسے لوگ آسمان پر بیٹھا ہوا خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہی آسمان سے اترے گا تو نے اے عشق و محبت اُسے اپنی کرشمہ سازی سے زمین میں ہی پیدا کر کے دکھا دیا ہے۔

ایک دوسرے مقام پر اپنے عشق و محبت کا اس طرح اظہار فرماتے ہیں :

یا نبی اللہ نثارِ روئے محبوب توام
وقف راہت کردہ ام ایں سر کہ بَر دوش ست بار
تا بمن نورِ رسولِ پاک را بنمودہ اند
عشقِ او دردل ہمے جوشد چو آب از آبشار
آتشِ عشق از دمِ من ہمچو برقے مے جہد
یک طرف اے ہمدمانِ خام از گرد و جوار
یا رسول اللہ برؤیت عہد دارم استوار
عشق تو دارم ازاں روزے کہ بودم شیرخوار
یاد کن وقتے کہ در کشفم نمودی شکلِ خویش
یاد کن ہم وقتِ دیگر کآمدی مشتاقِ وار
یاد کن آں لطفِ ورحمتہا کہ بامن داشتی
وآں بشارت ہا کہ میدادی مرا از کردگار
یاد کن وقتے چو بنمودی بہ بیداری مرا
آں جمالے، آں رخِ، آں صورتِ رشکِ بہار

(درثمین فارسی مترجم از ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب صفحہ223-222،225-224)

یعنی اے نبی اللہ! تیرے پیارے چہرے پر میں قربان جاؤں۔ میں نے تو تیرے رستہ میں اپنا سر وقف کر رکھا ہے۔ ہاں وہی سر جو میرے کندھوں پر ایک بوجھ ہے جب سے مجھے رسولِ پاک کا نوروجمال دکھایا گیا ہے۔ آپؐ کا عشق میرے دل میں اس طرح جوش مار رہا ہے جس طرح ایک آبشار سے پانی ابلا کرتا ہے۔ عشق کی آگ میرے ہر سانس سے بجلی کی طرح نکلتی ہے۔ پس اے خام طبیعت کے ساتھیو! میرے پاس سے ایک طرف ہو جاؤ کہ کہیں یہ بجلی تمہیں بھسم نہ کردے کیونکہ تم اس کی برداشت کی طاقت نہیں رکھتے۔ اے رسول اللہ میں آپؐ کے مبارک چہرے کے ساتھ ازلی پیوند رکھتا ہوں۔ میرے دل میں آپؐ کا عشق اس زمانہ سے ہے کہ میں ابھی ایک شیر خوار بچہ تھا۔ وہ وقت یاد کریں کہ جب آپ نے مجھے کشف میں اپنا مبارک چہرہ دکھایا تھا اور وہ وقت بھی یاد کریں جب آپ میری طرف عالمِ رؤیا میں مشتاقانہ رنگ میں بڑھے تھے۔ ہاں وہ وقت بھی یاد کریں کہ جب آپ نے مجھ پر لطف ورحمت کی بارش برسائی تھی اور پھر وہ بشارتیں بھی یاد کریں جو آپ نے خدا کی طرف سے مجھے دی تھیں۔

ہاں ہاں وہ وقت بھی یاد فرمائیں کہ جب آپ نے عین بیداری میں مجھے اپنا جلوہ دکھایا تھا۔ وہ بے نظیر حسن و جمال وہ درخشندہ چہرہ اور وہ دلکش صورت جو دنیا کی تمام بہاروں کے لئے مقامِ رشک ہے۔

ایک اور جگہ اپنی محبت کا یوں ذکر فرماتے ہیں :

سرے دارم فدائے خاکِ احمدؐ
دلم ہر وقت قربانِ محمدؐ
بگیسوئے رسول اللہ کہ ہستم
نثارِ روئے تابانِ محمدؐ
دریں رہ گر کشندم ور بسوزند
نتابم رُو زِایوانِ محمدؐ
بدیگر دلبرے کارے ندارم
کہ ہستم کشتۂ آنِ محمدؐ
تو جانِ ما منور کردی از عشق
فدایت جانم اے جانِ محمدؐ

(درثمین فارسی صفحہ 244-243)

یعنی میرا سر رسولِ پاک کی خاک پر نثار ہے اور میرا دل ہر وقت محمد پر قربان ہو رہا ہے۔ مجھے رسول اللہ کے پیارے گیسوؤں کی قسم ہے کہ میں محمدؐ کے نورانی چہرہ پر نثار ہو چکا ہوں۔ اگر آپ کے رستہ میں مجھے قتل کر دیا جائے بلکہ جلا کر خاک کر دیا جائے تو پھر بھی میں محمدؐکی بارگاہ سے کبھی منہ نہیں پھیروں گا۔ مجھے کسی اور محبوب سے کچھ واسطہ نہیں میں تو صرف محمدؐ کے حسن و جمال کا کشتہ ہوں۔ تو نے عشق و محبت کی وجہ سے میری جان کو منور کر دیا ہے۔ سو اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان! تجھ پرمیری جان قربان ہو۔

پھر اپنے ایک مشہور عربی قصیدہ میں فرماتے ہیں :

اُنْظُرْ اِلَیَّ بِرَحْمَۃٍ وَ تَحَنُّنٍ
یَا سَیِّدِیْ اَنَا اَحْقَرُ الْغِلْمَانِ
یَا حُبِّ اِنَّکَ قَدْ دَخَلْتَ مَحَبَّۃً
فِیْ مُھْجَتِیْ وَ مَدَارِکِیْ وَجَنَانِی
مِنْ ذِکْرِ وَجْھِکَ یَا حَدِیْقَۃَ بَھْجَتِیْ
لَمْ اَخْلُ فِیْ لَحْظٍ وَّلَا فِیِ آنٍ
جِسْمِیْ یَطِیْرُ اِلَیْکَ مِنْ شَوْقٍ عَلاَ
یَا لَیْتَ کَانَتْ قُوَّۃُ الطَّیْرَانِ

یعنی اے میرے آقا! مجھ پر رحمت اور شفقت کی نظر رکھنا میں آپ کا ایک ادنیٰ غلام ہوں۔ اے میرے محبوب آپ کی محبت میرے خونِ دل میں اور میرے حواس میں اور میری روح میں رچ چکی ہے۔ اے میری خوشیوں کے باغیچے! میں تیرے پیارے منہ کی یاد سے ایک لحظہ اور ایک آن بھی خالی نہیں رہتا۔ میرا جسم تک عشق و شوق کے غلبہ میں تیری طرف اڑنا چاہتا ہے۔ اے کاش! مجھے پرواز کی طاقت ہوتی۔

یہ اس بے پناہ اور عدیم المثال عشق ومحبت کا نمونہ مشتے از خروارے ہے جو حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کے قلبِ صافی میں رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے موجزن تھی۔ بلکہ حق یہ ہے کہ یہ ’’مشتے از خروارے‘‘ بھی نہیں بلکہ دانہ از خروارے ہے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال اور تحریرات رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت سے اس طرح معمور ہیں جس طرح ایک عمدہ اسفنج کا ٹکڑا پانی میں ڈبونے کے بعد پانی سے بھر جاتا ہے اور گویا پانی ہی پانی بن گیا ہے۔ پس لاریب جیسا کہ خود حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے۔ آپ کا وجود باجود خالصۃً محبتِ رسولؐ کی مقدس پیداوار ہے۔ اور اس میں ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ :

آں مسیحا کہ بر افلاک مقامش گویند
لطف کردی کہ ازیں خاک نمایاں کردی

(درثمین فارسی صفحہ 379)

یعنی وہ مسیح کہ جسے لوگ آسمان پر چڑھ کر بیٹھا ہوا خیال کرتے ہیں اسے میرے عشقِ رسولؐ نے زمین سے پید اکر کے دکھا دیا ہے۔

پس اے میرے دوستو اور عزیزو اور پیارو! بے شک عمل بہت بڑا درجہ رکھتا ہے مگر محض خشک عمل جو محبت سے خالی ہے اور جس میں عشقِ خدا اور عشقِ رسولؐ اور عشقِ مسیح کی چاشنی مفقود ہے وہ ایک بوسیدہ ٹہنی سے زیادہ نہیں۔ جو کسی وقت ٹوٹ کر گِر سکتی ہے۔ پس اپنے دلوں میں محبت کی چنگاری پیدا کرو۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحابی نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے جواب دیا تم قیامت کے متعلق پوچھتے ہو کیا تم نے اس کے لئے کوئی تیاری بھی کی ہے؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! نماز، روزہ وغیرہ کی تو چنداں تیاری نہیں مگر میرے دل میں خدا اور اس کے رسول کی سچی محبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا:

الْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ

(صحیح البخاری کتاب الادب باب عَلَامۃ الحب فی اللہ)

یعنی پھر تسلی رکھو کہ انسان کو اپنی محبوب ہستیوں سے جدا نہیں کیا جائے گا۔

یہ حدیث بچپن سے لے کر میرے سامنے قطب ستارے کی طرح رہی ہے جس سے میں اپنے لئے رات کی تاریکیوں اور دن کی پریشانیوں میں رستہ پاتا رہا ہوں۔ اور جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر پڑھا جو عنوان میں درج ہے یعنی :

آں مسیحا کہ بر افلاک مقامش گویند
لطف کردی کہ ازیں خاک مراآں کر دی

(درثمین فارسی صفحہ 379)

تو اس پر میں نے یوں محسوس کیا کہ یہ آواز تو میرے اپنے دل کی ہے۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ عَبْدِکَ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُودِ وَ بَارِکْ وَسَلَّمَ وَابْعَثْنِیْ تَحْتَ اَقْدَامِھُمَا یَااَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔

(محررہ 16فروری 1959ء)

(روزنامہ الفضل ربوہ 20مارچ 1959ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 نومبر 2020