• 27 اپریل, 2024

بلادِ عرب پر آنحضرتﷺ کے احسانات کا تذکرہ

بلادِ عرب پر آنحضرتﷺ کے احسانات کا تذکرہ
(از عربی منظوم کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر وتحریر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن واحسان کا تذکرہ ہمیشہ جاری رہا۔ کبھی نظم میں اور کبھی نثر میں، کبھی اردو میں، کبھی فارسی اور کبھی عربی زبان میں۔

عربی زبان سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ کسی بھی مضمون کو بیان کرنے کے لئے عربی زبان اپنے اندر خاص صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے عرب قوم کی شاعری کا دنیا بھر کی زبانوں میں ایک خاص مقام ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مادری زبان گوعربی نہ تھی مگر آپؑ نے اس کا خداداد علم پانے کے بعد اپنے آقا و مطاع حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اپنے عربی کلام میں اس اندازسے کیاہے کہ عرب لوگ بھی اس کو پڑھ کرروحانی حظ محسوس کرتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپؑ کاقلم اور آپؑ کی زبان اپنے محبوب کے حسن واحسان کے تذکرہ سے کبھی بھی نہ تھکتی تھی۔ آپؑ نے اپنے معشوق ﷺ کے حسن واحسان کا کبھی کسی پہلو سے مشاہدہ کیا اور کبھی کسی پہلوسے اورپھر ہمیشہ اپنی تقریروتحریر کو اس کے تذکرہ سے مزین کرتے چلے گئے۔ اگریہ کہا جائے توبے جانہ ہو گا کہ اس نو ر علیٰ نو روجود ﷺ کی روشنی آپؑ کی نظم ونثر کی وساطت سے دنیا کےکونے کونے تک پہنچ کر اور دنیا کی تاریکیوں کو روشنیوں میں بدل رہی ہے۔

یہ مضمون اپنی ذات میں بہت وسیع ہے مگر آج کے مضمون میں آپؑ کے عربی منظوم کلام میں صرف اس حصہ کوجمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں حضورﷺ کے عرب قوم پر احسانات کا دلگداز تذکرہ ہے۔

حضورﷺ عرب کی ایک بستی مکہ میں پیدا ہوئے جہاں کے اکثر لوگ سخت مزاج اور وحشی صفت تھے۔ وہ کسی کی اطاعت قبول نہیں کرتے تھے۔ وہاں کی زمین سنگلاخ تھی اور لوگوں کے دل پتھر تھے۔ شراب خوری اور زناکاری اس سرزمین کا دستور تھا۔ گویا کہ ضلالت کا ٹھاٹھیں مارتا ہواسمندر تھا۔مگر یہ حلقہ ظلمت کدہ پھر نورِ محمدﷺ سے مستفیض ہوااورجہاں جہاں بادسموم کا تصور تھا وہاں رقص بہاراں کے جشن میں راحت آمیز ہوائیں اٹھکیلیاں کرنے لگیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

وَقَدْ کَانَ وَجہُ الْاَرْضِ وَجْھًا مُّسَوَّدًا
فَصَار بِہٖ نُورًا مُّنِیْرًا وَّ اَغْیَدًا

(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد7 صفحہ92)

اور روئے زمین توایک تاریک سطح تھی۔ پس اسﷺکے ذریعے وہ سطح نورتاباں اور سرسبز ہوگئی۔

آنحضرت ﷺ کایہ احسان عظیم تھا کہ ایسی قوم کو جو اپنی اخلاقی گراوٹ میں ایک نام رکھتی تھی اور اقوام عالم میں ان کی کوئی قدر وقیمت نہ تھی آنحضرت ﷺ نے خالص سونے کی ڈلی بنادیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

صَادَفْتَھُمْ قَوْمًا کَرَوْثٍ ذِلَّۃً
فجَعَلْتَھُمْ کَسَبِیْکَۃِ الْعِقْیَانٖ

(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 591)

کہ تونے انہیں گوبر کی طرح ذلیل قوم پایا تو تو نے انہیں خالص سونے کی ڈلی بنادیا۔

اس طرح ایک اور شعر میں فرماتے ہیں:

عَادَتْ بِلَادُ الْعُرْبِ نَحْوَ نَضَارَۃٍ
بَعْدَ الْوَجٰی وَالْمَحْلِ وَالْخُسْرَانٖ

(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ 591)

ملک عرب خشک سالی، قحط اور تباہی کے بعد شاداب ہوگیا۔

چنانچہ آنحضرت ﷺ نے عرب کی تاریخ کارخ ہی موڑدیا۔ وہ تاریخ جس کادامن ظلم وبربریت سے تارتار تھا۔ وہ تاریخ جس میں قیصروکسریٰ کااستبداد لوگوں کامقدر بن چکا تھا۔ اس ظلمت کاخاتمہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور دین اور تقویٰ کی بنیاد پر بلال حبشی رضی اللہ عنہ جیسے غلام کو ابوجہل اور ابولہب جیسے سرداروں پر دائمی فوقیت حاصل ہو گئی۔ آپؐ نے تمام نسلی، جغرافیائی، لسانی فرق مٹائے اور زید وبکر کوایک صف میں کھڑا کر دیا۔ آپؑ کی ذاتِ بابرکات کی بدولت روحانی اور جسمانی دونوں لحاظ سے صنم ہائے خود تراشیدہ ریزہ ریزہ ہوگئے۔

عرب قوم کی جہالت کایہ عالم تھاکہ وہ لڑائی کو فخر سمجھتے تھے جیسے کہ عمر وبن کلثوم تغلبی کاشعر ہے کہ :

اَلَا لَا یَجْھَلَنَّ اَحَدٌ عَلَیْنَا
فَنَجْھَلْ فَوْقَ جَھْلِ الْجَاھِلِیْنَا

کہ خبردار کوئی ہم پر جہالت نہ کرے۔ یعنی ہم سے نہ الجھے وگرنہ ہم جاہلوں کی جہالت سے بڑھ کر جہالت کا مظاہرہ کریں گے۔

(تاریخ الادب العربی۔تالیف احمد حسن الزیات۔ مطبوعہ دار المعرفہ بیروت لبنان 1993ء۔صفحہ 51)

گویا عرب میں جہالت، کشت وخون، درندگی اور حیوانیت کا دَور دورہ تھا۔ اس جہالت کا خاتمہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اورافق عالم میں ایسانورانی وجود ظاہر ہوا جس کی تمازت نے ہزاروں سالوں سےبھڑکتی آگ کے شعلوں کوخاکستر کرکے رکھ دیا۔

آنحضرتﷺ کے اس عظیم الشان احسان کا ذکرکرتے ہوئے آپؐ کے عاشقِ صادق سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

اَتَعْرِفُ قَوْمًا کَانَ مَیْتاً کَمِثْلِھِمْ
نَؤُوْمًا کَاَمْوَاتٍ جَھُوْلًا یَلَنْدَدَا
فَاَیْقَظَھُمْ ھٰذَا النَّبِیُّ فَاَصْبَحُوْا
مُنِیْرِیْنَ مَحْسُوْدِیْنَ فِی الْعِلْمِ وَالْھـُدٰی

(کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد7 ص93)

کہ کیا تو ایسے لوگوں کو جانتا ہے جو ان جیسے مردہ تھے۔ وہ لوگ مردوں کی طرح سوئے ہوئے تھے اور بہت جاہل اور جھگڑالو تھے۔سو اس نبیؐ نے ان کو بیدار کردیا تو وہ نور دینے والے اور علم و ہدایت میں قابل رشک ہو گئے۔

مَے نوشی کا یہ حال تھا کہ اس ’فریضہ‘ کے لئے پانچ وقت مقرر تھے۔ اور ہر وقت کے لئے الگ شراب مقرر تھی۔ چنانچہ انہیں جاشریہ، صبوح، قیل، غبوق، فحمہ وغیرہ کا نام دیا گیا۔ لبید بن ربیعہ نے مے نوشی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا :

بَاکَرْتُ حَاجَتَھَا الْدَّجَاجَ بِسُحْرَۃٍ
لِاُعَلَّ مِنْھَا حِیْنَ ھَبَّ نِیَامُھَا

یعنی مَیں نے مرغ سے بھی جو بہت صبح سویرے اٹھتا ہے سبقت کرتے ہوئے سحری کے وقت شراب پی۔ اس لئے نہیں کہ لوگ مجھے دیکھ کرشراب نوشی کا طعنہ نہ دیں بلکہ اس لئے کہ جب رات کے سوئے ہوئے صبح کو میخانے میں آکر شراب نوشی کریں تو میں ان سے فخریہ کہہ سکوں کہ تم تو پہلی بار شراب پی رہے ہو اور میں دوسری بار۔

(شرح المعلقات العشر للقاضی ابو عبد اللہ الحسین الزوزنی۔ مطبوعہ دار مکتبۃ الحیاۃ بیروت، لبنان، 1983ء۔صفحہ 184)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ احسان تھا کہ آپؐ کی تربیت سے انہوں نے شراب کو فی الفور چھوڑ کر عبادات کو اختیار کرلیا۔ چنانچہ سیدنا حضرت اقدس مسیح عود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

تَرَکُوْا الْغَبُوْقَ وَبَدَّلُوْا مِنْ ذَوْقِہٖ
ذَوْقَ الدُّعَآءِ بِلَیْلَۃِ الْاَحْزَانِ

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5 ص592)

کہ انہوں نے شام کی شراب ترک کر دی اور اس کی لذت کے بدلے انہوں نے غم کی راتوں میں دعا کی لذت اختیار کرلی۔

نیز آپؑ نے ایک اور شعر میں فرمایا:

وَجَعَلْتَ دَسْکَرَۃَ الْمُدَامِ مُخَرَّباً
وَاَزَلْتَ حَانَتھَا مِنَ الْبُلْدَانٖ

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5 ص592)

اور تو نے مے خانوں کو ویران کر دیا اور شہروں سے شراب کی دکانیں ہٹادیں۔

معمولی معمولی باتوں پر لڑنا، ایک دوسرے کو قتل کرنا کوئی بڑی بات نہ تھی۔ ہر بچہ اپنے عزیزوں کے قاتل سے انتقام لینے کے جذبے میں پرورش پاتا تھا۔ اور عفوودرگزر کا دور دور تک نام و نشان نہ ہوتا تھا۔ جبروتشدد کی ژالہ باریاں مصروفِ تباہی تھیں۔ ظلم کی یہ انتہا تھی کہ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ لڑکی کی پیدائش پر افسوس ہوتا تھا۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جس کا نام ابوحمزہ تھا وہ صرف اسی وجہ سے اپنی بیوی سے ناراض ہو گیا کہ اس کی بیٹی پیدا ہوئی ہے اور اس نے پڑوسیوں کے گھر رہنا شروع کردیا۔ لہٰذا اس کی بیوی بچی کو لوری دیتی ہوئی یہ شعر پڑھتی کہ:

مَا لِاَبیْ حمَزْۃ لَا یَاْتِیْنَا
یَظَلُّ فِی الْبَیْتِ الَّذِی یَلِیْنَا
غَضْبَانَ اَلَّا نَلِدُ الْبَنِیْنَا
تَاللّٰہِ مَا ذَالِک فِی اَیْدِیْنَا

کہ ابو حمزہ کو کیا ہوگیا ہے کہ جو ہمارے پاس نہیں آتا اور پڑوسی کے گھر میں رہ رہا ہے۔ وہ صرف اس بنا پر ناراض ہے کہ ہم نے لڑکا نہیں جنا۔خدا کی قسم یہ کام میرے دائرہ اختیارمیں نہیں ہے۔

(البیان والتبیین۔ مولف: ابوعثمان عمرو بن بحرالجاحظ۔ الجزء اول ص127 داراحیاء التراث العربی۔ بیروت۔لبنان)

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی بدولت صنف نازک کا مقام ومرتبہ قائم ہوا۔ اور قتل و غارت اور خوف و ہراس کی آندھیاں تھم گئیں۔ چنانچہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

وَ مَا بَقٰی اَثَرٌ مِّنْ ظُلْمٍ وَّ بِدْعَاتٍ
بِنُورِ مُھْجَۃِ خَیْرِ الْعُجْمِ وَالْعَرَبِ

(سِرّالخلافۃ۔روحانی خزائن جلد8 صفحہ 430)

اور ظلم و بدعات کا کوئی نشان باقی نہ رہا۔ عرب و عجم میں سے بہترین شخص صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے نور کی وجہ سے۔

عورتوں کے نکاح کے متعلق یہ حکم نازل ہوا کہ جن کی حرمت قرآن میں آگئی ان سے نکاح حرام ہوگیا۔ چنانچہ سیدنا احمد علیہ السلام نے فرمایا:

أَمَّا النِّسَآءُ فَحُرِّمَتْ اِنْکَاحُھَا
زَوْجاً لَہُ التَّحْرِیْمُ فِی الْقُرْآنٖ

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5 صفحہ591)

کہ عورتوں سے متعلق تویہ حکم ہوا کہ ان کا نکاح ایسے خاوند سے جس کی حرمت قرآن میں آگئی، حرام کردیا گیا۔

اس ظالم قوم کے ظلم کا یہ حال تھاکہ قضاء وقدر کی بھی پرواہ نہ تھی جیسا کہ ایک شاعر کہتا ہے:

سَاَغْسِلُ عَنّیِ الْعَارَ بِالسَّیْفِ جَالِباً
عَلَیَّ قَضَاء اللّٰہِ مَا کَانَ جَالِباً

میں اپنے اوپر سےشرم و عار کو ضرور تلوار کے ساتھ دھوؤں گا۔ پھر اللہ کی قضاءمجھ پر جو چاہے لاوے مجھے پرواہ نہیں۔

(دیوان الحماسہ۔تالیف ابی تمام حبیب بن اوس الطائی۔ الطبعۃ الاولی1998ء۔ صفحہ 16۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت۔ لبنان)

اس شعر کو پڑھ کر انسان یہ بات کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ واقعۃ ًیہ ایک مردہ قوم تھی۔ اور اسے زندگی بخش رسول صلی اللہ علیہ السلام نے زندہ کیا ہے۔ سیدنا احمدعلیہ السلام فرماتے ہیں:

اَحْیَیْتَ اَمْوَاتَ الْقُرُوْنِ بِجَلْوَۃٍ
مَاذَا یُمَاثِلُکَ بِھٰذَا الشَّانٖ

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5 صفحہ 592)

کہ تو نے صدیوں کے مُردوں کو ایک ہی جلوہ سے زندہ کر دیا۔ کون ہے جو اس شان میں تیرا مثیل ہوسکے۔

عرب کی اخلاقی حالت یہ تھی کہ شراب و شباب اہل عرب کی رگ وپے میں سرایت کر چکے تھے۔ اس قدر کہ اشعار کا آغاز عورتوں سے محبت کے ذکر اور اُن سے ہونے والے راز و نیاز سے کرنے میں فخر محسوس کرتے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ احسان فرمایا کہ انہیں قرآن کریم جیسی لعل تاباں کتاب کی تعلیم دی اور ان کو تلامیذالقرآن بنا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ان برائیوں سے نکل کر خدا سے ہم کلام ہوئے اور خدا کی محبت میں فانی ہوگئے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

کَمْ مُسْتَھَامٍ لِلرَّشُوْفِ تَعَشُّقًا
فجَذَبْتَھُمْ جَذْبَاً اِلیَ الْفُرْقَانٖ

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5 ص592)

بہتیرے معطردھن عورتوں کےعشق میں سرگرداں تھے۔ سو تو نے انہیں فرقان کی طرف کھینچ لیا۔

ایک اور شعر میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:

کَانَ الْحِجَازُ مَغَازِلَ الْغِزْلَانٖ
فجَعَلْتَھُمْ فَانِیْنَ فِی الرَّحْمَانٖ

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5 ص591)

کہ اہل حجاز آہوچشم عورتوں سے عشق بازی میں لگے ہوئے تھے۔ سو تونے ان کو خدائے رحمٰن کی محبت میں فانی بنا دیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان دلوں کو موہ لینے والے احسانات کے متعلق سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

اِحْسَانُہ یُصْبِی الْقُلُوْبَ
وَحُسْنُہٗ یُرْوِیْ الصَّدَا

(کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد7 صفحہ 70)

اس کا احسان دلوں کو موہ لیتاہے اور اس کا حسن پیاس کو بجھا دیتا ہے۔

یہ نمونۃً چند اشعار ہیں ورنہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں متعدد اشعار ہیں جن میں آپؑ کے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ خاتَم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا تذکرہ روشن ستاروں کی طرح جھلک رہاہے کہ جن کو دیکھ کر بے اختیار دل سے یہ صدا بلند ہوتی ہے

یَا رَبِّ صَلِّ عَلیٰ نَبِیِّکَ دَاِئماً
فِی ھٰذِہِ الْدُّنْیَا وَبَعْثٍ ثَانٖ

اے میرے رب! اپنے نبی پر ہمیشہ درود بھیجتا رہ۔ اس دنیا میں بھی اور دوسری دنیا میں بھی۔ آمین

٭…٭…٭

(بشکریہ الفضل انٹرنیشنل16 نومبر 2018ء)

(از اویس احمد نصیر (مربی سلسلہ))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 نومبر 2020