• 23 اپریل, 2024

نبوت کے کمالات آپؐ پر ختم ہوگئے

خاتم النبیین کا لفظ جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم پر بولا گیا ہے بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہو اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں۔

کیونکہ کلام الہٰی کے نزول کا عام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قد رقوت قدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے جس پر کلام الٰہی نازل ہوتا ہے اسی قدر قوت اور شوکت اس کلام کی ہوتی ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہوگا اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلی مقام اورمرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی اور تمام مقامات کمال آپ پر ختم ہو چکے تھے اور آپ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے اس مقام پر قرآن شریف جو آپ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے اور جیسے نبوت کے کمالات آپ پر ختم ہو گئے، اسی طرح پراعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہو گئے، آپ خاتم النبیین ٹھہرے اور آپ کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری۔ جس قدر مراتب اور وجوه اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں ان سب کے اعتبار سے آپ کی کتاب انتہائی نقطہ پرپہنچی ہوئی ہے۔

یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت، کیا باعتبار تر تیب مضامین، کیا با عتبار تعلیم، کیا باعتبار کمالاتِ تعلیم کیا باعتبار ثمرات ِتعلیم۔ غرض جس پہلو سے دیکھو اسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی، بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی یعنی جس پہلو سے چاہو مقابلہ کرو، خواہ بلحاظ فصاحت و بلاغت، خواہ بلحاظ مطالب و مقاصد، خواہ بلحاظ تعلیم خواه بلحاظ پیشگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہے غرض کسی رنگ میں دیکھو یہ معجزہ ہے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ375۔376 ایڈیشن 2016ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 نومبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ