• 18 مئی, 2024

عملی اصلاح میں روک کا تیسرا سبب فوری یا قریب کے معاملات کو مدّنظر رکھناہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
عملی اصلاح میں روک کا تیسرا سبب فوری یا قریب کے معاملات کو مدّنظر رکھناہے۔ جبکہ عقیدے کے معاملات دُور کے معاملات ہیں، ایسے معاملات ہیں جن کا تعلق زیادہ تر بعد کی زندگی سے ہے جسے آجِل کہتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ عملی حالت کے معاملات فوری نوعیت کے ہوتے ہیں یا بظاہر انسان سمجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ ایسی باتیں ہیں جن کا عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر میں کوئی غلط کام کر لوں تو اس سے خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا جوعقیدہ ہے وہ تو متأثر نہیں ہوتا۔ مثلاً سنار ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میں سونے میں کھوٹ ملا لوں تو اس سے میرے ایک خدا کو ماننے کے عقیدے پہ کوئی حرف نہیں آتا لیکن میری کمائی زیادہ ہو جائے گی۔ جلد یا زیادہ رقم حاصل کرنے والا مَیں بن جاؤں گا۔

پس اُس نے اپنے قریب کے فائدے کو دیکھ کر ایک ایسا راہِ عمل اختیار کر لیا جو صرف اخلاقی گراوٹ ہی نہیں بلکہ چوری بھی ہے اور دھوکہ بھی ہے۔ اس لئے یہ عمل کیا۔ اُس نے سمجھا کہ اُس کے عقیدے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ بڑے بڑے حاجی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کاروباری دھوکے کرتے ہیں لیکن اپنے حاجی ہونے پر فخر ہے۔ ان دھوکوں کے وقت یہ بھول جاتے ہیں یا اس بات کی اہمیت نہیں سمجھتے کہ مرنے کے بعد کی زندگی بھی ہے اور ان دنیاوی اعمال کا مرنے کے بعد کی زندگی پر بھی اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح نبی کی دی ہوئی تعلیم پر عمل فائدہ مند ہے یا نجات کس کو ملے گی، ایسے سوال عام طور پر انسانوں کو دُور کے سوال نظر آتے ہیں۔ اصل چیزجو دل و دماغ پر حاوی ہوتی ہے، وہ فوری فائدہ یا فوری تسکین ہے۔ اسی وجہ سے جوسنار ہے وہ سونے میں کھوٹ ملاتا ہے، چاندی کو وزن میں کم کر دیتا ہے۔ دوکاندار ہے جو جنس میں ملاوٹ کر دیتا ہے۔ کارخانے دار ہے جو کسی چیز کا نمونہ دکھا کر آرڈر وصول کرتا ہے اور ترسیل جو ہے وہ کم معیار کی چیز کی کرتا ہے۔ خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک میں یہ چیز عام ہے۔ پس عمل کی اصلاح کے راستے میں دنیوی ضروریات حائل ہو جاتی ہیں اور دھوکہ، جھوٹ اور فریب کے فوری فوائد دُور کے نقصان کو دل اور دماغ سے نکال دیتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بعض مثالیں بھی دی ہیں۔ مثلاً غیبت ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ کسی کا افسر اپنے ماتحت کو تکلیفیں دیتا ہے، ظلم و ستم کرتا ہے، لیکن ماتحت اپنے افسر کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا۔ اتفاقاً اس ماتحت کی اُس افسر سے بھی بڑے افسر سے ملاقات ہو جاتی ہے اور وہ بڑا افسر اس افسر کے خلاف کچھ کہتا ہے تو یہ شخص جس کو اپنے افسر سے تکلیفیں پہنچ رہی ہوتی ہیں خوش ہو جاتا ہے کہ جس موقع کی مجھے تلاش تھی وہ آج مجھے مل گیا اور اس چھوٹے افسر کے خلاف جس نے اُسے تنگ کیا ہوتا ہے، ایسی باتیں کرتا ہے اور اُس کے ایسے عیوب بیان کرتا ہے کہ بڑا افسر اُس چھوٹے افسر پر اور زیادہ ناراض ہو اور جھوٹ، سچ جو کچھ ہو سکتا ہے بیان کر دیتا ہے تا کہ اپنا بدلہ لے سکے اور اُس وقت اُسے یہ خیال آتا ہے کہ آج اگر میں غیبت نہ کروں تو میری جان اور مال کا خطرہ دُور نہیں ہوگا اور وہ اس وجہ سے بے دھڑک غیبت کا ارتکاب کر دیتا ہے اور اس دنیا کا فائدہ اُٹھا لیتا ہے۔ پس دنیوی فوائد کے لئے انسان بدیوں کا ارتکاب کر لیتا ہے۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد17 صفحہ351-352 خطبہ جمعہ 29؍مئی 1936ء)

(خطبہ جمعہ 20؍دسمبر 2013ء بحوالہ خطبات مسرور جلد11 صفحہ695-696)

پچھلا پڑھیں

جنیوا میں منعقدہ عالمی کانفرنس میں جماعتِ احمدیہ کی نمائندگی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 نومبر 2022