• 2 مئی, 2024

اصحاب بھیرہ کا تعارف (قسط اول)

بھیرہ ضلع سرگودھامیں دریائے جہلم کے کنارے پرواقع ایک قدیم بستی ہے۔مؤرخین کے نزدیک یہ علاقہ پہلےدرختوں سے گھراہواتھالیکن یونانی فاتح سکندراعظم کے پنجاب پرحملہ کے وقت فوجی پڑاؤ کی صورت میں آباد ہوا جو پیرہ کہلایااورآخرکار بھیرہ کے نام سے موسوم ہوا۔ایک جانب اگربھیرہ کاعلاقہ قدیم سے حملہ آورلشکروں کی گزرگاہ رہاہے تودوسری جانب یہ زمانہ قدیم سے پنجاب کاتجارتی مرکز بھی رہاہے۔ خلفائے راشدین کے دورخلافت میں مسلمانوں نے اس جگہ کو اپنے تجارتی مرکز کے ساتھ ساتھ تبلیغی مرکزبھی بنالیاتھا۔ بھیرہ کی تاریخی شاہی مسجد شیر شاہ سوری کےعہدمیں تعمیرہوئی جس کومغلیہ خاندان نے مزیدرونق بخشی، لیکن سکھوں کے دورمیں یہ تاریخی شہربالکل برباد ہوکر رہ گیا۔ اسی دورمیں حضرت حکیم مولوی نورالدینؓ جیسا مبارک وجود اس بستی میں پیداہواجن کی وجہ سے یہ بستی ہمیشہ کے لئے تابندہ ہوکررہ گئی۔حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کے علاوہ دیگررفقائے مسیح موعودؑ مثلاً حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ ، حضرت مولوی دلپذیرصاحبؓ ، حضرت جمعہ خان صاحبؓ اورحضرت قریشی نجم الدین صاحبؓ جیسے جید اوربابرکت وجود بھی اسی بستی سے تعلق رکھتے تھے۔ بھیرہ میں حضرت حکیم مولوی نور الدینؓ کے زیر استعمال رہ چکی کئی یادگار چیزیں آج بھی جماعت کے قبضہ میں ہیں۔بھیرہ کاعمومی تعارف بیان کرنے کے بعد اب میں اپنے مضمون کے اصل عنوان کی جانب آتاہوں کہ درج بالا رفقائے مسیح موعودؑ کے علاوہ بھی اس بستی میں حضرت اقدسؑ کے رفیق تھے جنہوں نے آپ کے ہاتھ پرشرف بیعت حاصل کیااوران رفقاء کا مختصراً تعارف ہی آج کے اس مضمون کااصل مدعاہے۔

1۔حضرت میاں غلام محی الدین بھیرویؓ 

آپؓ قریباً 1850ء میں بھیرہ ضلع شاہ پور (جواب سرگودھاہے) میں پیداہوئے، آپ کے والدمحترم کانام میاں الٰہ دین صاحب تھا جو ایک عابد زاہد اورنیک صفت بزرگ تھے۔ محکمہ مال کے دفتری ریکارڈ کے مطابق آپ کا تعلق گوندل قوم سے تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم بھیرہ کے ایک پرانے مدرسے دارالعلوم عزیزیہ بگویہ سے حاصل کی، اسی مدرسہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اور حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیرویؓ رفقائے حضرت اقدسؑ نے بھی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔آپ کے اساتذہ میں مولوی احمددین صاحب بگوی اور مولوی سلطان احمد صاحب برادراکبرحضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ شامل تھے۔ 1860ء میں بھیرہ میں دینی مدرسہ کے علاوہ پہلی مرتبہ جب ڈسٹرکٹ سکول کاقیام عمل میں آیا تواس صورت میں بھیرہ کے بچوں کے لئے انگریزی، سائنس، جغرافیہ، حساب، ڈرائنگ، عربی،فارسی اور ہندی مضامین کی تعلیم کا حصول ممکن ہوا، جس پر بھیرہ گاؤں کے لوگوں نے حکومت انگلیشیہ کے اس اقدام پرخوشی کااظہارکیا۔ایسے میں آپؓ کے والد محترم میاں الٰہ دین صاحب نے اپنے دونوں بیٹوں حضرت میاں غلام محی الدین صاحب اورآپ کے چھوٹے بھائی حضرت میاں جمعہ الٰہ دین صاحب المعروف میاں جمعہ خانصاحب کودینی مدرسہ کی واجبی تعلیم دلوانے کے بعد سرکاری اسکول میں داخل کروایا۔ آپؓ انگریزی، جغرافیہ، حساب اور ڈرائنگ میں اچھے نمبرز حاصل کرتے اور سکول میں تیراکی، گھڑسورای اورکبڈی کے مقابلوں میں شوق سے حصہ لیتے تھے۔ آپؓ اور آپؓ کے عزیز واقارب چونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی ہمسائیگی میں رہتے تھے، اس طرح سے آپؓ، حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ، حضرت حکیم فضل دین صاحبؓ، حضرت میاں اسلام احمدصاحبؓ اور حضرت امام دین صاحبؓ ہم عصر اور محلہ داربھی تھے۔ طفولیت میں آپ سب اکٹھے کھیلا کرتے تھے اورآپ سب کے گھروں کاماحول خالص دینی تھا اورخداکے فضل وکرم سے یہ گھرصوم وصلوٰۃ اورتلاوت قرآن کریم سے پررونق ہواکرتے تھے۔

آپؓ کاذریعہ معاش تعمیراتی کام کرنے والوں کوڈرائنگ وڈئزائن بناکردینے کے علاوہ لکڑی کے تختوں اور دروازوں پرصناعی بھی تھا، نیز آپ اپنی کاریگری کےنمونوں کی مختلف قصبوں میں جاکرمارکیٹنگ بھی کرتے تھے اورآڈرلے کر مطلوبہ اشیاء بھی پہنچانے کااہتمام کیاکرتے تھے۔ 1873ء میں آپؓ کی شادی ایک بڑی دانااورنیک خاتون حضرت عمربانوؓ سے ہوئی جن کاتعلق راولپنڈی سے تھوڑادورروات کلرسیداں روڈ پردریائے سواں کے کنارےآباد گاؤں سے تھا۔اوائل میں آپؓ حنفی مسلک کے سلسلہ چشتیہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن جب 1871ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ ممالک ہندوعرب سے طبی اوردینی علوم کی تعلیم مکمل کرنے کے بعدبھیرہ تشریف لائے اورآکرحنفیوں کےبعض عقائد کوغلط قراردیا جس کے بعدآپؓ اورآپ کے چھوٹے بھائی سمیت بھیرہ کے کئی سعادت مندوں نے دینی امورمیں حضرت خلیفہ اولؓ کاہاتھ پکڑلیا۔ان ایام میں علاقہ کے حنفی علماء نے حضرت خلیفہ اولؓ اورآپ کےمریدوں کی کافی مخالفت شروع کردی اورسب کوحنفی مسجد میں نماز اداکرنے سے منع کردیاجس پرحضرت خلیفہ اولؓ نے اپنے مریدوں کو اہل حدیث کی مسجدمیں نمازاداکرنے کاارشاد فرمایا۔

الغرض جہاں خلیفہ اولؓ اورآپ کے مریدوں نے منجرالی الشرک باتوں یعنی تعویذ گنڈوں کے خلاف دعوت الیٰ اللہ کاجہاد جاری رکھا وہیں خلیفہ اولؓ کی بصیرت افروزباطنی نگاہ نے خداکے برگزیدہ مسیح موعودؑ کو اوائل 1885ء میں ہی پہچان لیا تھا اور 23؍مارچ 1889ء کو اول المبائعین ہونے کا شرف حاصل کیا۔ حضرت خلیفہ اولؓ جب دوبارہ 1891ء میں بھیرہ تشریف لائے توحضرت جمعہ خان صاحبؓ کی زیرنگرانی ایک اعلیٰ شفاخانہ اور وسیع مکان کی تعمیرشروع کرادی اورساتھ ہی اہل علاقہ کاعلاج معالجہ شروع کردیا۔ اس دوران آپ لوگوں کو حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی تلقین کرتے رہے جس کی وجہ سے علاقے کے حنفی اور اہلحدیث علماء آپ کی مخالفت کرنے لگے۔ دیگرلوگوں کوتبلیغ کرنے کے ساتھ حضرت خلیفہ اولؓ حضرت میاں غلام محی الدین صاحب بھیروی اورآپ کے چھوٹے بھائی میاں جمعہ خان صاحبؓ کوبھی دعوت الیٰ اللہ کرتے اور1892ء – 1893ء میں آپ دونوں بھائیوں کو حضرت خلیفہ اولؓ نے حضرت اقدسؑ کی کتب فتح اسلام، توضیح مرام اورازالہ اوہام بذریعہ حکیم فضل دین صاحبؓ مطالعہ کے لئے بھی دیں۔ جن میں حضرت اقدسؑ نے اپنے دعاوی بڑے دلائل سے بیان کئے تھے۔ ان کتابوں میں موجود صرفی ونحوی اور عربی وفارسی اصطلاحات کوسمجھنے کے لئے ان بزرگوں نے حضرت قاضی سیدامیرحسین شاہ صاحبؓ،مولانا محمد دلپذیر صاحب اور منشی خادم حسین صاحبؓ کی خدمات حاصل کیں، اس کے بعدجب 1894ء میں کسوف وخسوف کا نشان ظاہر ہوا تو علاقے کے حنفی اوراہلحدیث علماء جویہ کہتے تھے کہ امام مہدی کے ظہورکا اہم ترین نشان کسوف وخسوف جو احادیث میں بیان ہواہے ظاہرنہیں ہوا اور بعد ازظہور وہی علماء کہنے لگے کہ یہ نشان کسی صحیح حدیث میں درج نہیں۔ نیزاسی سال 1894ء میں آپ دونوں بھائی لندن کسی Exhibition میں شرکت کے لئے گئے اوروہاں سے واپس آکر1895ءیا اوائل 1896ء میں دونوں بھائیوں نے قادیان جاکر حضرت اقدسؑ کے ہاتھ پربیعت کا شرف حاصل کیا۔

حضرت میاں غلام محی الدین صاحب بھیرویؓ 1903ء کے آخر میں بلندفشارخون اورذیابیطس جیسی پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہوگئے اوریہی امراض ان کی وفات کاسبب بنے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ، آپؓ نے اپنی اولاد میں ایک بیٹی مکرمہ کرم بی بی صاحبہ اور چار بیٹے مکرم میاں امام دین صاحب، مکرم میاں فضل الٰہی صاحب،مکرم میاں محمددین صاحب اورمکرم میاں احمددین صاحب چھوڑے ہیں جن کی نسل الحمدللّٰہ باحیات اور جماعت سے مخلص ہیں۔

2۔حضرت مولوی فضل الٰہی بھیرویؓ 

حضرت مولوی صاحب نے اپنے خودنوشت حالات میں اپنی جائے پیدائش اورواقعہ بیعت کاذکریوں کیاہے کہ آپؓ کی پیدائش موضع احمدآباد تحصیل پنڈدادنخان ضلع جہلم میں ہوئی اوربعدمیں آپ بھیرہ منتقل ہوگئے اورامرتسرجب قاضی سیدامیرحسین مرحوم کے پاس آئے تواحمدیت کاعلم ہوا اس وقت آپ نےماہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھے ہوئے یہ دعاکی کہ مولیٰ کریم مجھے اطلاع فرماکہ میں جس حالت میں اب ہوں یہ ٹھیک ہے یاجواس وقت مسیح موعودؑ کادعویٰ ہےوہ درست ہے تواس وقت مجھے دکھلایاگیاکہ میں نمازاداکررہاہوں اوررخ قبلہ کی طرف نہیں ہےاورسورج کی روشنی بوجہ کسوف کے بہت کم ہےجس سے تفہیم ہوئی کہ تمہاری حالت نمازکانقشہ ہے۔ دوسرے روز نمازعشاء کے بعدپھررو رو کردعاکی تو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایاکہ اصل دعاکاوقت جوف اللیل کے بعدکاہوتاہے۔ جس طرح بچہ کے رونے سے ماں کے پستان میں دودھ آجاتاہے اسی طرح پچھلی رات گریہ وزاری کرنے سے خداتعالیٰ کارحم قریب آجاتاہے اس کے بعد آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی غلامی اختیارکرلی۔ آپؓ نے 1892ء – 1893ء میں حضرت اقدسؑ کے دست مبارک پربیعت کرنے کاشرف حاصل کیا اوراس وقت آپ اورینٹل کالج لاہورمیں زیرتعلیم تھے اورقریباً ہراتوار کوآپؓ حضرت مفتی محمدصادق صاحب کے ساتھ قادیان تشریف لے جایاکرتے تھے اورحضرت اقدسؑ کی صحبت سے فیض یاب ہواکرتےتھے۔ آپ کی بیعت کاجب آپ کے گھروالوں کوعلم ہواتوانہوں نے اپنے دروازے آپ کے لئے بندکرلئےلیکن حضورؑ کی صحبت اورمحبت آپؓ کے پائے استقلال میں خم نہ لاسکی اورآپ تمام رشتہ داروں اور لواحقین کوبھیرہ چھوڑکرسرگودھامنتقل ہوگئے۔ یہاں آکر سرکاری ٹھیکداری کا کام شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ احمدیت کی تبلیغ بھی کرتے رہے۔ آپ کی مخلصانہ کوششوں سے ضلع سرگودھامیں جماعت قائم ہوئی۔نیزقادیان میں قصرخلافت کی تعمیر کروانے کابھی آپ کوشرف حاصل ہوا اوراس کے علاوہ چونکہ آپ حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ کے بڑے اچھے دوست تھے اوران کے ساتھ ہی قادیان جایاکرتے تھے جس کی وجہ سے بعض اوقات حضورؑ آپؓ کو ’’صدیق صادق‘‘ کہہ کربلایاکرتے تھے۔آپؓ نے 82 سال کی عمر میں لاہور میں وفات پائی اورآپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں قطعہ صحابہ میں ہوئی۔

(تحریر و تحقیق:احمدرفیق)

پچھلا پڑھیں

جنیوا میں منعقدہ عالمی کانفرنس میں جماعتِ احمدیہ کی نمائندگی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 نومبر 2022