• 23 جولائی, 2025

تعارف سورۃالمؤمن (40ویں سورۃ)

(تعارف سورۃالمؤمن (40ویں سورۃ))
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی86 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003)

وقت نزول اور سیاق و سباق

اس سورۃ سے ان سورتوں کا گروپ شروع ہوتا ہے جن کا آغاز ایک جیسے حروف مقطعات یعنی حٰم سے ہوتا ہے اور جن سب سورتوں کا آغاز قرآنی وحی کے مضمون سے ہوتا ہے۔ اوریہ سب سورتیں ایک ہی دور کی ہیں۔ حضرت ابن عباس اور عکرمہ سے مروی ہے کہ ان تمام سورتوں کا نزول اس مکی دور میں ہوا جب اسلام پر ظلم وتعدی کی انتہا ہو رہی تھی اور مخالفت شدید اور منظم شکل اختیار کر چکی تھی (آیات 56 تا 78)۔ یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دشمن آپکی جان کے دشمن ہو چکے تھے۔ (آیت 29)

گزشتہ سورت کے اختتام پر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس یقین دہانی کے ساتھ تسلی دی گئی تھی کہ بہت جلد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے دشمنوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا۔ ظلمت اور گمراہی کی طاقتوں کا قلع قمع کر دیا جائے گا۔ بت پرستی عرب سے مٹ جائے گی اور سارا ملک (عرب) خدا کی حمد سے گونج اٹھے گا۔ موجودہ سورت کا آغاز اس اعلان سے ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ جو غالب اور بلند شان والا ہے اس نے قرآن کریم کو اس غرض سے نازل کیاہےکہ خدا کی عظمت اور جلال دنیا میں قائم ہو اور شرک کا مکمل طور پر خاتمہ ہو جائے۔

مضامین کا خلاصہ

جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے اس سورت کا آغاز اس یقینی اعلان سے ہوا ہے کہ وہ وقت آ پہنچا ہے کہ جب حق ، باطل کے مقابل پرفتحیاب ہوگا اور نیکی بدی پر اور خدا کی حمد کے گیت ایسی سرزمین پر گائے جائیں گے جہاں بت پرستی عام تھی۔ یہ عظیم الشان تبدیلی قرآن کریم کے ذریعہ سے برپا ہوگی۔ حق کے دشمن اپنا پورا زور لگائیں گے اور اپنے اثر و رسوخ اور مضبوط وسائل کو پوری طرح بروئے کار لائیں گے تاکہ اسلام کے نرم و نازک پودے کو پنپنے سے پہلے ہی دبا دیں۔ لیکن وہ اپنے بد ارادوں اور مکروں میں ناکام ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بتایا گیا ہے کہ کفار کی بڑی طاقت اور غیر معمولی مادی وسائل سے ہرگز خوفزدہ نہ ہوں کیونکہ ان کا مقدر بد انجام ہے۔ پہلے بھی قومیں گزری ہیں جنہوں نے اپنے نبیوں اور ان کے مشن کو ختم کرنا چاہا لیکن خدا کی سزا نے ان کو آ لیا. ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دشمن بھی سزا کی گرفت میں ہوں گے۔

پھر اس سورت (المؤمن) میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے بد انجام کی مثال دے کر بتایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالفین کا انجام بھی ایسا ہی ہوگا جب فرعون نے موسیٰ کی دعوت حق کو جھٹلا دیا تو اسی کی قوم کے ایک آدمی نے ایک مدلل اور زور آور تقریر کی اور اپنی قوم کو نصیحت کی کہ ایک ایسے آدمی (حضرت موسیٰ) کو قتل نہ کریں جس کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور اپنے دعویٰ کی دلیل میں نہایت مضبوط ثبوت بھی دیتا ہے۔ وہ (آدمی) انہیں تنبیہہ کرتا ہے کہ اپنی دولت،طاقت اور دنیاوی وسائل کے گھمنڈ میں نہ رہیں کیونکہ یہ سب چیزیں فانی ہیں لیکن اس (آدمی) کی مخلصانہ نصیحت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے فرعون اس پر تمسخر کرتا ہے۔

پھر اس سورت میں ناقابل تردید الہٰی قانون کا ذکر کیا گیا ہے کہ خدا کی مدد اور نصرت ہمیشہ اس کے رسولوں اور مومنوں کے شامل حال ہوتی ہےاور ناکامی اور مایوسی آخری وقت تک کفار کا پیچھا کرتی ہے۔ لیکن یہ الہٰی قانون ہر نبی کے دور میں جاری رہا اور اس کا بھرپور اظہار آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں ہوگا۔ پھر کفار کو بتایا گیا ہے کہ ان کے پاس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جھٹلانے کی کوئی وجہ نہیں ہے آپ کی بعثت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جس طرح مادی دنیا میں دن رات کے بعد آتا ہے اسی طرح روحانی بیداری عالم روحانیت میں اخلاقی تنزل کے بعد آتی ہے۔جیساکہ دنیا روحانی طور پر مردہ ہو چکی تھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا تاکہ اسے زندہ کریں۔ اس سورت کا اختتام اس مضمون پر ہوا ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے انسان کی مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مناسب سامان مہیا کیا ہے تو کیونکر وہ انسان کی روحانی ضروریات کو نظر انداز کرتا۔ یہ سامان خدا تعالیٰ زمانہ قدیم سے مہیا کرتا چلا آیا ہے۔ اس نے اپنے رسول اور نبی اس دنیا میں بھیجے جنہوں نے انسانوں کو ان کے رب اور خالق کی طرف بلایا۔ مگر ناشکری اور جہالت کے باعث گمراہی میں پڑے ہوئے لوگوں نے ہر دور میں الہٰی پیغام کو جھٹلایا اور خدا کی ناراضگی مول لی۔

(مرسلہ: مترجم: وقار احمد بھٹی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 دسمبر 2020